میڈیا کا ایک حصہ ہونے کے ناطے میڈیا کی طرف داری کرنا میرا بھی کام ہے۔ میڈیا کو جس انداز میں ان دنوں رسوائی کا سامنا ہے اس کی وجہ کوئی اور نہیں خود میڈیا سے متعلق عناصر ہی ہیں۔ ہوس پرستی ، مفاد پرستی ، خود غرضی ،موقع پرستی ،انا ، نمود ونمائش اور ستائش پرستی جب مقصود ہو تو ملک قوم ملت جیسے عناصر پس پشت چلے جاتے ہیں۔عوام کو میڈیا جس طرح دکھاتا ،سناتا اور پڑھاتا ہے وہ ان کیلئے اصل معلومات اور حتمی بات کے مترادف ہوتا ہے۔میڈیا بجائے عوام کے مسائل کو اجاگر کرنے کے سیاسی خانوادوں کی ساکھ بچانے اور انہیں پرموٹ کرنے میں لگا ہے۔ روزی روٹی کے چکر میں مشن ہمیشہ بھول جایا کرتے ہیں ۔وہ صحافی شاید ناپید ہوچکے ہیں جومشن کو اولیت اور روزی کو ثانوی درجہ دیتے تھے۔سیاسی کارکن اور عام صحافی میں کوئی خاص فرق نہیں ۔ آج تک کوئی صحافت کا بڑا نام قربانی دینے کیلئے اگے نہیں آیا مرتا عام رپورٹر ہی ہے۔ جس کے گھر دانے اس کے کملے بھی سیانے کو ماٹو بناکر عام آدمی کو جانور سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اس میں عقل وفراست نہیں یہ کچھ نہیں جانتا کچھ نہیں سمجھتا۔غریب ہونا اب اتنا بڑا جرم ہے کہ انسانیت سے بھی اسے دور باہر کر دیا گیا ہے۔ شاید میرا جرم یہی ہے کہ میں نے اپنے گریباں کو دکھانے کی تمنا کی ہے ۔اس سے تنظیمی دوستوں کا ناراض ہونا سمجھ میں آتا ہے ۔ میں گورڈن کا لج کا طالب علم رہا ہوں۔ مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کا کینٹ کا جوائنٹ سیکر یڑی رہا ۔ اعزازی طور پر ڈویژن میں بھی خدمات سر انجام دیں۔قاضی طارق ، ریاض انجم ، مرزا منصور بیگ ، شکیل اعوان ، سردار نسیم اور سخاوت علی بھٹی کو اگر یا د ہو تو گورڈن کالج میں ایم ایس ایف کا پہلا یونٹ کھولنے والا شخص حاجی لالہ ہی تھا۔ جمیعت اور پی ایس ایف ،اے ٹی آئی کے دور میں ایم ایس ایف کا نعرہ مستانہ لگانے والا پہلا شخص تھا۔ ضیا ء الحق کے مارشل لا میں طلبا کے حقوق کیلئے مری روڈ بلاک کرنے والا ، صدر سے مریڑھ چوک تک جلوس نکالنے والا میں پہلا شخص تھا۔ باوجودیکہ بھی آج میرے تما م ہم عصر سیاست کے برزجمہر ہیں کوئی ایک بھی کہہ دے کہ اس شخص نے ہمیں کوئی ایک کام یا ٹکے کا فائدہ اٹھایا ہو۔ ملک ابرار میرا بھائی نما دوست ہے وہ کس بات سے ناراض ہوتا ہے ۔ میں سماج کی بات کرتا ہو ں ، میں پاکستان کی بات کرتا ہوں ،میں ملک ملت اور انسان کی بات کرتا ہوں ۔ میں حق کی بات کرتا ہوں اور حق کیلئے ہر رشتہ بھلا دیتا ہوں۔ زمرد خان میرا کلاس فیلو ہے اور انتہائی احترام سے ملتا ہے لیکن اس کی دعوت کو بھی اس لیے رد کر دیا کہ میں ترنگے تلے نہیں رہ سکتا ۔ میرا خدا اور رسو ل ، ایک ہیں۔میرا وطن پاکستان اور میں پاکستانی ہوں۔ میں دور نگی کا قائل نہیں ہوں۔مجھے بکنا یا جھکنا نہیں آتا ۔ میرا جرم یہی ہے کہ میں مظلوم کا ساتھ دینے کی تمنا رکھتا ہوں۔ سیاسی کیرئیر سے اس ہی لیے علیحدگی اختیار کی کہ جوسیاست اس وقت ملک وقوم کے ساتھ کھیلی جا رہی ہے وہ میرے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی تھی ۔میں ایسی سیاست کا ہرگز قائل نہیں جس میں عوام کو پس پشت گرا کر خود کو ان پرسوار کیا جائے ۔ خدمت کی سیاست کو سیاست کی اصل جانتا ہوں ۔ صحافت میں بھی یہی اصو ل ہے ۔ عوام پرسوار ہونے کی بجائے عوام کو اپنے پرسوار کرو۔ ان پر اپنی ڈھونسنے کی بجائے ان کی بات سنو اور اسے مناسب الفاظ میں ذمہ داران تک پہنچائو۔ یہی میری زندگی ہے اور یہی میرا مشن ہے ۔اس وجہ سے ہی ارباب اختیار سے میری تلخی ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہیں اور جس مشن کیلئے نکلتے ہیں اسے پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ اس ملک اور قوم کی یہ بدقسمتی ہے کہ اسے موقع پرست اور مفادپرست راہنما ئوں کا سامنا ہے ۔ فی زمانہ نفس پرستی اور موقعہ شناسی کو قابلیت گردانا جانتا ہے۔ اصولوں کی خاطر قربانی دینا یا ایثار کرنا حماقت ہے۔سیاست میں بھی موقع شناسی اور مفادپرستی کو بنیادی اصول بنا لیا گیا ہے۔ سیاست دان مفاد کی خاطر سیاسی جماعتوں میں شامل ہوتے ہیں اور ان مفادات کی نگہبانی یا ان کو خطرے میں دیکھ ان کو بدل بھی لیتے ہیں۔ جو سیاست دان مصلحت کوشی کے در پر ماہ وسال دربدر گھومے وہ عوام پر کیا توجہ دے گا۔ اس کیلئے عوام کے مسائل کی کیا وقعت ہے۔ضیاء الحق کے تلوے چاٹ کر سیاست میں قدم رکھنے والے بی بی کے اگے خم ہوتے ہیں تو کیا انہیں ناسمجھ بچہ جان کر نظرانداز کر دیا جائے۔اگر وہ اتنے ناسمجھ تھے تو وزات خارجہ ان کے سپرد کر کے اس قوم کے ساتھ ظلم کرنے والے اس قوم کے محسن کہلانے کے لائق ہیں۔ باپ کے قتل کو سیاسی سرمایہ کاری کیلئے استعمال کرنے والوں کو ان کے ساتھ ماحضر تناول فرمانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ یار غار خون کے دشمن اور خون کے دشمن یار غار کیسے بن گئے ۔ مہاجرین کے حقوق کے ترجمان لندن میں کیوں پناہ گزیں ہیں۔ دوسروں کے حقوق کی جنگ لڑنے والے اپنے حق کی جنگ تو لڑ نہیں سکتا تو پھر وہ لیڈر کیسے کہلاتا ہے۔ جو اپنا گھر نہیں بسا سکتا ، اپنے عیال کو نہیں سنبھال سکتا وہ پوری قوم کو کیا سہارا دے گا۔مذہب کو سیاست کا زینہ بنانے والے کیا قرار دیا جائے ۔ خود کو مذہب کا ترجمان کہنے والے والے سیکولرازم کا ساتھ نبھاتے ملک وقوم کے مفاد میں اپنے فتوے بیچ کر مفادات وخواہشات کی تکمیل ہی کر رہے ہیں۔ طالبان ہوں یا طالبان کے استاتذہ اپنے مفادات کیلئے اپنی خواہشات پر سب کچھ قربان کر نا انہیں آتا ہے ۔ ماضی میں بھی لیڈر تھے اور ان کے جان ومال واعیال بھی اپنے معاشروں کیلئے اتنے ہی قیمتی تھے ۔وہ چلے گئے اور اپنے ساتھ کیا لے گئے ۔ جس نے ملک وقوم کیلئے قربانی دی وہ عزت ساتھ
لے گیا اور جس نے ملک وقوم سے قربانی لی وہ حقارت ، رسوائیوں اور ذلت کے ساتھ تاریخ میں آج بھی زندہ ہے ۔طاقت جبر اور استحصال کے سہارے زندہ رہنے والے شاندار مقبروں میں بھی مردہ ہی ہوتے ہیں ۔ کچی قبروں والے مر کے بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ پتہ نہیں یہ لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ ان کے گرد پروانہ وار پرواز کرنے والے پروانوں کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ روشن شمع کو محور ومرکز بناتے ہیں ۔اپنے مفادات اور خواہشات کی شمع کے گرد پروانہ وار فدا ہونے والوں کا ماضی کیا نظر نہیں آتا کہ وہ اس سے پہلے کس شمع محفل کے گرد رقصاں تھے ۔ پھر بھی ان کو ہی فوقیت دی جاتی ہے انہیں کو پروانہ قرار دیا جاتا ہے ۔ وہ دیوانے جو خواہشات و مفادات کے ان پروانوں کے ہاتھوں کرچی کرچی ہوتے ہیں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ان کے جذبوں ان کی قربانیوں کا کوئی ذکر نہیں کسی کو فکر نہیں۔ قربانی صرف مفاد پرست پروانے اور خواہشات کے دیوانے دیتے ہیں۔ جھوٹ در جھوٹ کی اس تہہ میں اصل مقصد اس طرح چھپا ہے جیسے پیاز پرت در پرت ہوتا ہے۔اس مقصد تک پہنچنے کیلئے کتنے آنسوئوں کی قربانی دینا ہوتی ہے وہ پیاز کاٹنے والے ہی جانتا ہے ۔ کھانے والے کو اس کا پتہ نہیں کہ اس کو بنانے والے کی انگلی کٹی یا اس کے آنسو بہے ۔ ہمارے لیڈر صاحبان کارکنوں کے خون اور آنسو پر اپنا موروثی حق جان کر انہیں بہاتے ہیں ۔ پھر بھی کارکن کی عزت نہیں۔ ایسے میں سیاست میں اقدار واخلاقیات کا عمل دخل ہونے کی امید ہی دل کا گھائو اور ناسور ہے۔ سیاست کا محور ومرکز کارکن اور معاشرہ ہونا چاہیے لیکن یہاں سیاست کا محور ومرکز قیادت واس کے مفادات ہیں ۔ ٹرک کی بتی تو کہیں نہ کہیں ہاتھ آ جاتی ہے لیکن قائدین کی گاڑی کی بتی کبھی ہاتھ نہیں آئی ۔ کارکن اس کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ایک دوسرے کو روند کر بھی اس تک نہیں پہنچ پاتے ۔ کارکن اپنے لیڈر کو اپنی پکار اور اپنی ضرورت بغیر کسی واسطے کے پیش کرنے کے قابل ہو سکے گا۔ اس مقام کے حصول کیلئے اسے کتنا اور بھاگنا ہے ۔