کسی مہذب ملک کی صورت حال کااندازہ اس ملک میں رہنے والی اقلیت کی حالت سے لگایا جاتا ہے۔ اگر اس مقولے کی روشنی میں آج پاکستان کی صورت حال کو دیکھا جائے تو پاکستان کن حالات سے گزر رہا ہے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ابھی حال ہی میں پنجاب میں عیسائی برادری کی کچھ خواتین کو سربازار عریاں کرنے کا واقعہ سامنے آیا تھا جسے اخبارات کے حوالے سے ساری دنیا نے محسوس کیا تھا۔ ابھی اس پر غم و غصے کا اظہار ہی کیا جا رہا تھا کہ پیشاور میں کلیسا پر حملے نے پاکستان میں اقلیتوں کی سلامتی کی رہی سہی امید بھی ختم کر دی۔ یہ واقعات چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اسلام کی دہائی دینے والے اس ملک میں دین محمدی کی کوئی وقعت نہیں رہ گئی ہے کیونکہ ہمارے پیارے رسول نے توکسی بے قصور کے خون کو پوری انسانیت کے خون سے تعبیر کیا تھا۔
پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ایک ملک جہاں دن رات انسانیت کش واقعات پیش آ رہے ہوں اور حکومت وقت مصلحتوں کا شکار ہو اسلامی روایات کا پاسدار ہو سکتا ہے۔ کیا دور خلافت میں خلیفہ کسی عام انسان کے ساتھ نا انصافی سے ڈر کر یہ نہیں کہتے تھے کہ روز قیامت یہ شخص میرا دامن پکڑ کر مجھ سے کہے گا کہ اللہ نے تجھے ہمارے لیے حاکم بنا کر بھیجا تھا لیکن تونے اپنا فرض نہیں نبھایا۔ خوف خدا رکھنے والے ان خلفا کے مقابلے میں آج کے حکمرانوں کو دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے قول و فعل میں کس درجہ تضاد پایا جاتا ہے۔
یہ بلکتے ہوئے بچے، کراہتی ہوئی مائیں اور آہ و بکا کرتی ہوئی بیوائیں آخر کس جرم کی سزا بھگت رہی ہیں۔ کیا خدا نے انہیں پیدا کر کے انہیں روزی نہیں دی، کیا ان کے لیے سورج کی روشنی بند کردی یا ان پر ہوا کو حرام قرار دے دیا؟ جب اللہ نے ان کو اپنی نعمتوں سے نوازا تو ہم کون ہوتے ہیں انہیں تہہ وبالا کرنے والے۔ کیا اللہ نے ہمارے پیارے نبی سے طائف سے واپسی پہ نہیں پوچھا تھا کہ اے میرے حبیب اگر آپ کی مرضی ہو تو ان کو دونوں پہاڑوں کے درمیان کچل دیا جائے لیکن رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ امید ظاہر کی کہ ان میں سے کوئی تو ایمان لائے گا اور تیرا بندہ بنے گا۔ لیکن ایسے نبی کی امت نے اسی نبی کے دین کی آڑ میں حیوانیت کا جو ننگا ناچ برپا کیا ہے اسے کس اسلام کا حصہ مانا جائے۔ ایسے اسلامی ملک میں پیدا ہونے سے ہزار گنا بہتر کسی غیر اسلامی ملک میں پیدا ہونا ہے جہاں انسانوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور دوسروں کے مذہب اور عقیدے کی قدر کی جاتی ہے۔