Home / Articles / اک آفتاب بھری دوپہرمیں ڈوب گیا

اک آفتاب بھری دوپہرمیں ڈوب گیا

سمیع اللہ ملک لندن

وہ صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں              اب جن کودیکھنے کوآنکھیں ترستیاں ہیں

مجھے وہ لمحہ کبھی نہیں بھول سکتا․․․․․․!زندگی کے آخری سانس تک بھی نہیں‘ایک ایک لمحے کی کیفیت میرے دل پراورایک ایک پل کی کیفیت میری آنکھوں میں محفوظ ہے۔

میں سیڑھیوں کے اوپرجنگلے کے پاس کھڑاہوں جہاں نیچے دالان اورپوراصحن نظرآرہاہے۔ دوپہر کا آغاز ہوچکاہے۔موسم میں کافی خنکی ہے ‘آسمان پربادل چھائے ہوئے ہیں کویااہل زمیں پرسایہ ربی ہے۔وقت کااندازہ نہیں لگاسکتاحالانکہ گھڑی کلائی پربندھی ہوئی ہے۔وقت کی رفتارکوروکناچاہتاہوں لیکن بے سود․․․․․․!یہ نہیں بتاسکتاکہ مجھے یہاں کھڑے کتنی دیرہوگئی ہے‘لگتاہے کئی دن اورکئی راتیں میرے قریب سے دبے پاوٴں چپکے سے گرزگئی ہیں اورمیں یہاں نجانے کیوں کھڑاہوں‘وقت سے بے خبر‘دیوارسے لگ کرایک ہی رخ ایک ہی اندازمیں۔ میں جب سے یہاں کھڑاہوں مجھے کہیں بھی کوئی روشنی نظرنہیں آرہی‘ہرسوگھپ اندھیرا‘خوف سے دل بیٹھاجارہاہے‘ٹانگیں کانپ رہی ہیں اورہاتھ ٹھنڈے پڑتے جارہے ہیں کہ دفعتاًمیراچچازادبھائی ککو(بشارت)آنسووٴں سے ترچہرہ لئے میرے کندھے پرہاتھ کرمجھے نیچے آنے کوکہتاہے کہ”آوٴ لوگوں کاہجوم باہرکھڑاہے ‘سبھی مجھے تلاش کررہے ہیں‘بہن بھائیوں‘عزیزواقرباء کودلاسہ دینے اورہمت سے کام لینے کاوقت ہے‘اب اس حادثے کی حقیقت کوتسلیم کئے بغیرکوئی چارہٴ کاربھی تونہیں۔

ہاں․․․․․جی ہاں‘بڑاہی جانکاہ حادثہ رونماہوچکاتھا‘صحن میں عورتوں کوبہت بڑاہجوم ‘آہ وزاری میں مبتلا‘آسمان تک شورکی آوازیں‘مجھے دیکھ کریک بیک کئی دلدوزچیخیں گونج اٹھی ہیں۔سسکیوں اورنالوں کی آوازہرسوپھیلی ہوئی ہے ۔میں بے اختیارایک عالم بے بسی میں اپنی آنکھیں بندکرلیتاہوں ‘یوں محسوس ہوتاہے کہ میں تنہاایک غرق شدہ جہازکے تختہ پربیٹھاہوں ‘یہ تختہ سمندرکی بپھری ہوئی موجوں میں بری طرح گھرچکاہے‘مجھے یہ کہاں پہنچائے گا‘میں اس سفرکے بعدکسی مقام پرپہنچ جاوٴں گا‘مجھے کوئی علم نہیں․․․․․․بالکل کوئی علم نہیں!میں کس طرح صحن میں کچھ دیر کیلئے ٹھہرا‘کون سی غیرمرئی قوت نے مجھے سہارا دے رکھاتھا‘کون کون مجھ سے تعزیت کررہاہے‘کچھ خبرنہیں‘بس مجھے یہ دکھائی دے رہاتھاکہ سامنے میری ماں سفیدبراق چادرمیں اپنافانی وجودلپیٹ کر ہمیشہ ہمیشہ کی میٹھی نیند سورہی ہے۔

سب بہن بھائی ‘عزیزواقارب پلنگ کے چاروں طرف بیٹھے ہوئے ہیں‘ایک کثیرتعدادنے ان سب کوگھیررکھاہے ۔مجھے آگے جانے کیلئے سب نے راستہ دیدیا۔دل میں جوایک طوفان برپاتھاخیال تھاکہ ابھی سینہ شق ہوجائے گا‘دل ریزہ ریزہ ہوکربکھرجائے گالیکن اسی لمحے ماں کے مسکراتے چہرے نے گویاایک ایسا اشارہ کیاجس کوصرف میں ہی دیکھ اورسمجھ پایاتھا ‘ایک سرگوشی کے عالم میں گردن جھکانے کاحکم دیا‘جونہی میں نے اپناکان ان کے منہ کی طرف بڑھایاتوماں جی نے دائمی جدائی کاپیغام سناڈالا۔طوفان آنسووٴں کی صورت میں آنکھوں سے بہہ اٹھے‘گردوپیش میں رونے کی آوازیں اب مسلسل بلندہوناشروع ہوگئیں‘میں دم بدم پہلوبدلتارہا‘یہاں سے بھاگ جاناچاہتاہوں‘اردگردایک نظردوڑائی ‘ہرکوئی مجھ سے بڑھ کربے چین اورغم زدہ دکھائی دے رہا ہے‘ہرکوئی اپنی موجودگی کااحساس دلارہاہے‘ہرایک اپنارشتہ تھامے میری ماں سے جواب طلب کررہا ہے لیکن ماں جی جواس سفید چاندنی کے نیچے بے خبرآرام فرمارہی ہیں‘ان سب سے لاتعلق اپنی ایک نئی اگلی دنیامیں مگن گویاایک عمرکے بعدماں جی کوایک ایساسکون میسرآیاہے۔

کئی بارارداہ کیاکہ ماں سے پوچھوں”ماں جی!آپ توکبھی ہمارے اس قدرپریشان ہونے پراس طرح خاموش نہ رہتی تھی‘آج خلافِ معمول یہ سکوت کیسا؟ آپ تواپنی اولادیاکسی بھی عزیزرشتہ دارمیں سے کسی کوذرابھربھی ملول دیکھتیں توتڑپ اٹھتی تھیں مگرآج سب آپ کے اردگردآہ وزاری کررہے ہیں ‘غیروں کے بھی آنسو نہیں تھم رہے لیکن آپ ان سے یہ بھی پوچھناگوارہ نہیں کررہیں کہ آخر معاملہ کیاہے ‘کیادکھ پہنچاہے تمہیں‘کس لئے تم سب رورہے ہو؟؟؟ میں نے تو ساری عمرکسی کوکوئی دکھ نہیں دیا‘ہمیشہ سب کی خدمت کی ‘سب کے آنسو اپنے دامن میں جذب کئے ہیں‘پھرآج یہ معاملہ کیسا اورکیوں․․․․․؟آج اس گھرکے درودیواربھی غم زدہ اندوہگیں اوراداس ہیں جیسے وہ اس عظیم ہستی کورخصت کرتے ہوئے چپ چاپ ہولے ہولے آنسو بہارہے ہیں۔آخر اس ہستی کے ساتھ زندگی کے طویل شب وروزگزارے ہیں‘بڑاکٹھن راستہ مل کر طے کیاہے۔

غالباً تیرہ برس کی عمرمیں پیاکے گھرآبادہوگئیں تھیں۔نہائت صحت مند ‘مضبوط ‘طاقتوراعضاء اورخوبروقد کی بدولت پورے خاندان میں متعارف تھیں۔ جب ان کو ڈولی میں بٹھایاگیاتونہیں جانتی تھیں کہ اب انہیں کس منزل سے زندگی کاسفرشروع کرناہے۔آنے والے شب وروزاپنے اندھیروں اوراجالوں میں ان کیلئے کیاکچھ لیکرآئیں گے ۔نئے گھر میں آکراپنے آپ کوکچھ ایسے اجنبی مگر محبت کرنے والے لوگوں کے درمیان پایاجوایک مدت سے ان کے منتظر تھے ۔ سب کے سب دنیاوی علوم سے بے بہرہ‘پرانی روائتوں کے اسیر‘ادھرادھردیکھے بغیرزندگی کی راہ پرچلنے والے سیدھے سادے معصوم۔پھوپھی کی شکل میں ایک غم زدہ اورزمانے کی ستائی ہوئی ساس اوردودیور‘ایک جیٹھ بھی تھالیکن مقامی حالات سے دل برداشتہ ہوکروطن سے دورکسی نامعلوم مقام پرڈیرہ لگائے بیٹھاتھا۔چھوٹادیورتواولادکی طرح تحفہ میں ملا۔اس کی ساری پرورش اورسب کی خدمت شروع دن سے نصیب میں لکھی گئی۔شوہرخوبرو‘خوبصورت‘وجیہ‘ طاقت وشرافت میں بے مثال‘بس یہی کل کائنات کاسرمایہ۔گھرکے معاشی حالات کی کفالت وہ زرعی زمین تھی جس کی نگرانی بیوہ ساس اورمنجھلے دیورکے ذمہ تھی۔شوہرنامدارتواس ذمہ داری سے بری الذمہ تھے کیونکہ وہ اپنے علاقے کی سیاست اورمقامی مسائل کے حل کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے تھے۔ساس پرانے زمانے کی عبادت گزار‘زاہدہ وعابدہ عورت ‘لکیرکی فقیر‘بہوسے یہ توقع کہ صبح سے لیکر شام تک بلکہ نیم شب تک ساراکام انجام دے‘گھرداری بلکہ زمینداری میں بھی پوراہاتھ بٹائے۔

میری ماں جب اس گھر میں آئی توانہیں پتہ چلا کہ ان کی پھوپھی یعنی ساس ماں جوانی میں رضائے الٰہی سے بیوہ ہوگئیں تھیں۔ابھی یہ صدمہ بھولانہیں تھا کہ جوان اولاد جوان بیٹابھی اپنے باپ کے پہلومیں آرام کرنے چلاگیا۔اکلوتی بیٹی تھی جواپنی ماں کاغم بانٹتی تھی‘وہ بھی چنددنوں کابیٹا اپنی نشانی ماں کی گودمیں چھوڑکراپنے مولاکے ہاں حاضرہوگئی۔اب اس معصوم بچے کی شکل میں بیٹے کی پرورش برسوں کی۔جب یہ نشانی گھبروجوان ہوئی تواس نے بھی اللہ کے ہاں حاضرہونے میں عجلت کی ۔ٹھیک پندرہ دنوں کے بعداکلوتاجوان پوتاجس کی شادی کوچندماہ باقی تھا‘وہ بھی خاندانی قبرستان کی زینت بن گیا۔اب تواس بوڑھی زاہدہ وعابدہ عورت کے اعضاء شل ہوگئے ۔ان صدموں نے عمرسے پہلے چہرے کی لالی ‘شادابی اورمسرت چھین لی۔اب ان تمام صدموں کے واضح نشانات تھے جنہوں نے بڑھ کر میری ماں کاستقبال کیا۔

میری ماں سب سے پہلے بسترسے اٹھتیں ‘وضوکرکے اپنی ساس کی بغل میں ہی دوسرا مصلیٰ بچھا کر نمازفجر سے اپنے دن کاآغاز کرتیں‘ذکراذکارسے فارغ ہوکر گھرکے کام کاج میں اس طرح مشغول ہوجاتیں کہ رات کی گہری سیاہی آڑے آکر ان کوبیٹھنے کاموقع فراہم کرتی۔شادی کے ڈیڑھ سال بعد اللہ نے گودہری کردی ‘ بڑاخوبصورت بچہ اپنے پہلو میں دیکھ کرماں کی آنکھوں میں تشکر کے آنسوابھی سوکھے بھی نہ تھے کہ ٹھیک چالیس دنوں کے بعد اللہ نے اس خوشی کوواپس بلالیا۔صبروشکرکامجسمہ توپہلے ہی تھیں‘اب اس گھر کی سنت سمجھ کر اس کوبھی قبول کرلیا۔اللہ تعالیٰ نے اوپرتلے دوبیٹیاں دیدی‘ماں اب گھر کے کام کاج کے علاوہ ان کی پرورش بھی بڑے سلیقے سے کرنے لگیں کہ اچانک افواہیں پھیلناشروع ہو گئیں‘برسوں کاامن فسادات میں تبدیل ہوگیا‘بالآخر وطن کابٹوارہ ہوگیا۔اب اس ملک میں جہاں بچپن سے لیکر جوانی کاوقت گزراتھا‘اب دوسراپل ٹھہرناگویاموت کودعوت دینے کے مترادف تھا۔ماں نے اپنے سگھڑاپے سے جوگھرکی آرائش وزیبائش کی تھی اس سے بھی یکسر محروم ہوناپڑا‘صرف تن کے کپڑوں کے علاہ کسی چیزکوہاتھ لگانے کی مہلت بھی میسر نہ آسکی۔ بالآخرکشمیرجنت نظیر کے کوہساروں‘ندی نالوں اوراپنے آباوٴ اجدادکی تمام نشانیوں کوالوداع کہناپڑا۔

نئی مملکت خدادادپاکستان میں مہاجرکالیبل لگائے (لائلپور)فیصل آبادبراجمان ہوناپڑا۔شدیدغربت آڑے آئی‘تنگ وتاریک کرایہ کاگھر‘شہرکااجنبی ماحول ‘غیر مانوس درو دیوار ‘ مقامی زبان سے مکمل ناآشنائی‘ایک دفعہ پھر کڑی امتحان وآزمائش کادورشروع ہوگیا۔یہی وہ ماہ وسال تھے جب اس مکان میں ایک کمرہ جسے ”پرلااندر“کہتے تھے ‘میں نے زندگی کاپہلا سانس لیاتھا۔اس گھرمیں میری ماں کے علاوہ دوسرے تین مہاجرخاندان بھی آبادتھے ‘یعنی ایک کمرہ پورے خاندان کے حصے میں آیاہواتھا۔اب میرے پہلے سانس کاوقت ۱۵/اکتوبر۱۹۵۰ء نمازفجرسے کچھ دیرپہلے کامجھے بتایاگیاکہ والد محترم مسجدمیں نمازکیلئے تشریف لیجاچکے تھے ‘ مسجدمیں ہی ان کومیری آمدکی اطلاع پہنچائی گئی جہاں مسجدکے چند آشنا نمازیوں سے مبارکبادوصول کرکے فوری گھر تشریف لائے۔ میں کبھی کبھارتخیل میں پرواز کرتا ہوا یہ سوچتاہوں کہ یہ گھڑی ایسی ہوگی جب فضامیں سورج چمک رہاہوگایاغروب ہو رہا ہوگایاپھر یہ وقت رات کاکوئی پہر ہو گا جب وقت کے بیکراں افق سے خوشی کی کوئی کرن پھوٹی ہوگی جس نے میرے ماں باپ کے چہروں پرمسکراہٹ بکھیری اورمیں اپنے ماں باپ کی زندہ آرزوکی شکل میں ان کی گودمیں ڈال دیاگیا۔

میرے ماں باپ نے مجھے بتایاکہ ایک بہت ہی بڑے آدمی نے میرے کان میں اذان دی اورمیرے ہونٹوں سے شہد لگایاتھا ‘یہ شائداس لئے کہ باقی عمر بار بار زندگی کے زہرآلود قطرے میرے حلق سے نیچے اترنے والے تھے۔جب میں بچہ تھاتومیں کئی مرتبہ اپنی ماں کوآٹاگوندھتے یاکسی کمرے میں جھاڑو دیتے ہوئے اس عالم میں دیکھاکہ یکلخت وہ اپنے ہاتھ روک کراوپرٹکٹکی باندھے اللہ سے خاموشی کی زبان میں گفتگوکررہی ہے اورپھر اپنے دوپٹے کے پلو سے آنکھوں کوپونچھ کراپنے کام میں دوبارہ مشغول ہوجاتی تھی لیکن بھیگی آنکھوں کے کونے مجھے وہ سب کچھ بتادیتے تھے جوماں ہمیشہ مجھ سے محض اس لئے چھپا تی تھی کہ میں کہیں پریشان نہ ہوجاوٴں۔

ایسے میں یقیناانہیں وہ خواب یادآتے ہونگے جوانہوں نے اپنے پیاکے گھرآنے سے پہلے اپنی آنکھوں میں بسائے تھے۔اپنے خوابوں میں خوش شکل‘خوش لباس شوہر کو دیکھا ہو گا ‘ اچھی آمدنی اورگھرمیں خوشحالی کے بارے میں سوچاہوگا‘ایک خوبصورت کشادہ مکان کانقشہ بھی خیالوں میں بسایاہوگا اوربعدمیں اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے صبرکاوافر پھل بھی عنائت فرمایا‘دنیاکی تمام نعمتوں سے انہیں سرفرازبھی فرمایالیکن اپنی ماں اوربھائیوں کی جدائی کوبری طرح محسوس کرتے ہوئے بہت پریشان رہتی تھیں جوکشمیرکے دوسرے حصے میں مقیم تھے جہاں دوملکوں میں کشیدگی اور تقسیم کی بناء پران سے ملنے کی کوئی سبیل نہیں تھی اور ان حالات میں ان کی خاموش آنکھوں سے جاری آنسووٴں کااندراج اللہ کے حضوردرج ہوتا رہتاتھا۔

اس وحشت انگیز فضامیں میری ماں کے ہونٹوں پراس دن بڑا بھرپورتبسم رقص کناں تھاجب وہ مجھے پہلے دن اسکول روانہ کررہی تھی۔میری ماں کواس دن کابہت انتظارتھا‘یہی وجہ ہے کہ مجھے چارسال کی عمرسے بھی کچھ پہلے اسکول میں داخل کروادیاگیاتھا۔مجھے اس لمحے کی شفقت اوران کے ہاتھوں کالمس آج بھی یادہے ۔مجھے بہت ہی خوبصورت اجلے لباس میں تیارکرکے میرے گلے میں ایک چھوٹاسا بستہ ڈال کرایک ننھی سی تختی میرے ہاتھ میں تھمادی گئی تھی۔رخصت کرنے سے پہلے اپنے دوپٹے کے ایک کونے کی گرہ کھول کر دوپیسے نکالے‘ میراماتھاچومااورپیسے ہاتھ میں تھمادیئے اوربڑی محبت سے فرمایا:

”سمیع کوئی گندبلانہ کھانا“میں نے اثبات میں سرہلایا‘وہ پھر میرے ساتھ گھرکی سیڑھیوں تک آئیں اورایک دفعہ پھر وہی تاکیدکرتے ہوئے گھریلوملازم کو بھی نصیحت کی کہ راستے میں سائیکل ‘تانگے گھوڑے سے بچ کرچلنا۔گلی کاآدھاراستہ طے کرکے جونہی موڑمڑنے لگاتودیکھاتومیری ماں دروازے پرہی کھڑی تھیں اوران کے ساتھ خادم ڈرائیور کی بیوی کے علاوہ دوسری عورتیں بھی کھڑی تھیں ۔میری ماں نے یقینا انہیں بتایاہوگاکہ اس کابیٹاپہلے دن اسکول جارہاہے۔

مجھے اسکول سے آتے جاتے میری ماں بڑی عجیب نگاہوں سے دیکھاکرتی تھیں‘ان نظروں کی کیفیت میں اس وقت کم عمری کی وجہ سے کبھی نہ سمجھ سکا لیکن کئی سالوں کے بعداس مسکراہٹ وفخروانبساط نگاہوں کامعمہ حل ہواکہ ان کے بچے نے جہالت کے اندھیروں سے نکل کر علم کی روشن دنیامیں قدم رکھاتھا اورپورے خاندان میں سب سے زیادہ فخرسمیٹنے کی فکربھی میری ماں کولاحق تھی۔علم سے بے بہرہ ہونے کے باوجودعلم کیلئے ان کے دل میں بڑااحترام تھا۔ میری تختی اوربستے کااس قدرخیال جیسے کوئی بہت بڑاخزانہ ان کے ہاتھ لگ گیاہے ۔یہی وجہ ہے کہ صبح فجرکی اذان سے قبل ہی اپنابستر چھوڑدیتی تھی۔وضو کرکے گیلے ہونٹوں کے لمس کے ساتھ ہم سب بہن بھائیوں کواٹھایاجاتا‘نمازکاباقاعدہ اہتمام ہوتا‘ہمارے ساتھ قرآن کریم رحل میں لیکر بیٹھ جاتیں ۔ دعا مانگ کرقرآن مجیدجزدان میں لپیٹ کرایک لمبی دعامانگناشروع کردیتیں اس وقت تک آنکھیں بندرہتیں جب تک دعا مکمل نہ ہوجاتی‘گویارب کے ہاں عملاً اشک بارہوکرہم سب کی سلامتی وترقی کی دعائیں مانگ کراپنے پلوسے آنکھیں صاف کرکے یکے بعد دیگرے سب بچوں کے منہ پر ضرور بالضرو پھونک مارتیں‘یقیناوہ سمجھتی تھیں کہ اس طرح وہ اپنی اولاد کوطویل زندگی اوراللہ کی حفاظت میں سونپ رہی ہیں۔

ماں جی کواپنے ہربچے کابہت خیال رہتاتھا‘اس کے کھانے پینے ‘اس کے کپڑے لتے کی صفائی ستھرائی کااورحتیٰ کہ جوتوں کی پالش کابھی خاص خیال رکھاجاتا تھا۔کوئی بچہ معمولی سا بھی بیمارہوجاتاتوان کی جان پربن آتی ‘جب تک وہ مکمل صحت یاب نہ ہوجاتااس کے بسترکے ساتھ لگ کربیٹھ جاتیں ۔سردیوں میں ہر روزرات کوسونے سے قبل ہربچے کے منہ پر خود اپنے ہاتھوں سے ویسلین لگانا‘آنکھوں میں سرمہ ڈالناایک معمول تھا اوریہ سرمہ بھی گھرمیں بڑی محنت اورمشقت کے ساتھ تیارکیاجاتا بلکہ اس کی شہرت تو پورے محلے بھرمیں تھی اور اس کی باقاعدہ تقسیم کاعمل بھی جاری رہتا۔انہوں نے ساری زندگی اپنے لئے کچھ طلب نہ کیا۔گھرکے سب افرادکوکھاناکھلاکرجوکچھ بھی بچ جاتااس سے پیٹ بھرلیتیں۔ناشتے میں گھروالوں کوتازہ پراٹھے اورپڑھنے والے بچوں کوباداموں والے دودھ کے ساتھ گھی کی”چوری“ملتی اورخودرات کی روٹی کوپانی میں گیلاکرکے توے پرڈال کراپنے لئے پراٹھا تیار کرلیتیں ‘اوراپنے لئے یہ اہتمام وہ اس طرح کرتی تھیں جیسے یہ بھی کوئی روزمرہ ہی کاکوئی معمول ہے۔دراصل ہماری تربیت کیلئے یہ مشق جاری رہتی کہ رزق حلال کااحترام ہرحال میں بہت ضروری ہے۔

محلے بھر کی کئی خواتین کاتانتابندھارہتا‘سب کے دکھ سکھ کی ساتھی تھیں۔جب کوئی خاتون اپنے گھرکے کسی دکھڑے کاذکرکرتے ہوئے روناشروع کرتی تواس کوحوصلہ دیتے وقت خود بھی بہت اشک بارہوتیں ۔پڑوسن سمجھتی کہ میری ماں بھی اس کے غم میں برابرکی شریک ہے ‘اسے کیاخبر کہ میری ماں کابھی کوئی اپناغم ہے‘اپنادکھ بھی ہے جس کااظہاروہ صرف انہی آنسووٴں کی صورت میں اداکرتی ہیں۔میری ماںآ ٹھ بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی اوریہاں پاکستان میں اس کے صرف دوبھائی موجودتھے جووطن کے بٹوارے میں میری ماں کے ساتھ ہی پاکستان میں آگئے تھے۔وہ جب بھی گھرمیں آتے ‘میری ماں ان کی خوب خاطر تواضع کرتی جیسے اپنی زندگی سے بالکل مطمئن ہے‘ہرطرح سے خوش ہے۔جب میرے اندر سوچنے سمجھنے کاکچھ شعوربڑھاتومیں کبھی کبھی یہ خیال کرنے لگا کہ میری ماں یاتوبالکل بے حس ہوچکی ہے کہ کسی بھی بات کاکوئی اثرقبول نہیں کرتی یاپھران کادل ایک ایساسمندربن گیا ہے جس میں جوکچھ بھی ڈالا جائے وہ فوری طورپرچپ چاپ نیچے گہرائیوں میں پہنچ جاتاہے اورسطح ویسی کی ویسی رہتی ہے۔

بوڑھی ساس صدموں سے نڈھال اپناذہنی توازن کھوچکی تھیں‘ان کی بچوں سے زیادہ دیکھ بھال ہوتی تھی۔یہ تواللہ کاشکر ہے کہ میری ماں اس ماحول کی گھٹن سے اپناذہنی توازن برقراررکھے ہوئے اس سارے کنبے کی دیکھ بھال میں دن رات مصروف رہتی تھی۔کبھی کبھارتومیں اپنی ماں کی بے بسی یابے حسی پرکڑھ کر اکیلے میں بہت رویا کرتاتھا ‘دعا کیا کرتاتھا کہ یااللہ اگلی نمودارہونے والی صبح کومجھے اس قابل کردے کہ میں اپنی ماں کے ان دکھوں کامداوابن سکوں لیکن ہائے افسوس!ایسابہت دیرسے اوربہت کم وقت کیلئے ہوا۔

میری ماں گھرمیں ہرشخص کی خدمت اس اندازمیں کرتیں جیسے وہ کوئی بہت خوشگوارفریضہ سرانجام دے رہی ہیں گویاان کاحق لوٹارہی ہیں۔ہرایک کوبڑی اہمیت دے رہی ہیں اوریہ اسی اہمیت ومحبت کاتقاضہ ہے کہ وہ کبھی اپنی بوڑھی ساس کی دیکھ بھال کواپناایمان سمجھتی ہیں اورکبھی گھرکے دوسرے افرادکے حقوق کی خاطر دن رات تج رہی ہیں۔ انہی کی دیکھ بھال اورسخت محنت نے بوڑھی ساس جوکہ ان کی پھوپھی بھی تھی چندسالوں کے بعد صحت یاب ہوگئیں اوراپنی نارمل زندگی میں ان کی مثالی محبت کایہ عالم تھاکہ کبھی اپنے دوسرے بیٹے کے ہاں جانے کی نوبت آتی توشام سے پہلے واپس لوٹ آتیں کہ کسی اوربیٹے کے گھرمیں ان کا دل نہیں ٹھہرتاتھا۔میری ماں نے کبھی بھی کسی سسرالی خاندان کی خدمت سے جی نہیں چرایا ۔کئی بار ایسا بھی ہواکہ اچانک مہمان آگئے لیکن ایسا کبھی نہ ہواکہ ان کی خاطرمدارت میں کوئی کسررہ گئی ہوچاہے اس کیلئے بعدمیں ان کوخودپیازکوٹ کرروٹی کے ساتھ کھانے کو ملی ہو‘ان کاایمان تھاکہ مہمان اللہ کی طرف سے رحمت اوررزق کی فراوانی کاسندیسہ لیکر آتاہے۔”لیکن آپ کیوں پھر سوکھی روٹی کے ساتھ پیازکوٹ کرکھارہی ہیں“میرے اس سوال پر بڑی محبت سے اسلاف کی مثالیں دیکرمعاملہ کوٹال دیتیں۔

گھرکے تمام افرادکے لباس کاخاص خیال رکھتیں ‘ہرایک کے تین تین چارچارجوڑے ٹرنکوں میں محفوظ ہوتے لیکن خودان کے پاس دوجوڑے ہوتے‘ایک زیراستعمال ہوتاتودوسراکہیں اچانک باہرجانے کیلئے محفوظ رہتا۔طبیعت میں بلاکی سادگی‘سخت سردی میں انہیں سویٹرپہننے کیلئے مجبورکیاجاتاتوتھوڑی دیرکے بعدیہ کہہ کراس سے جان چھڑالی جاتی کہ گھرکے کام کاج میں ہرج ہورہاہے‘ابھی فارغ ہوکرپہن لیتی ہوں لیکن رات گئے تک فراغت کہاں؟نچلی منزل سے دوسری اورتیسری منزل تک پانی لیجانے کی مشقت پر بھی کبھی کسی سے کوئی شکائت نہیں کی۔صفائی ستھرائی کااس قدرخیال گویاواقعی صفائی نصف ایمان والی حدیث پرعملاً یقین۔پاکیزگی کایہ عالم کہ برتنوں کوکئی دفعہ مانجھاجاتا‘ان پرکلمہ شہادت پڑھ کرپھونکاجاتاتوتب جاکران کے دل کوتسلی ہوتی‘اوراس کے بعدکسی جالی دارکپڑے کے ساتھ تمام برتنوں کوڈھانپ دیاجاتا۔استعمال کے وقت دوباہ پانی سے کھنگال کرطہارت کی مہرلگائی جاتی۔

یہی حال لباس اوربدنی طہارت کاہوتاتھا‘کیامجال ہے کہ کبھی گھرمیں اکیلے میں بھی سرسے دوپٹہ اتراہو یاکبھی ننگے سرکھاناپکایاہو۔اس کووہ انتہائی شیطانی اوربے برکت عمل سمجھتی تھیں۔ میں نے انتہائی گرمیوں میں بھی ان کے معمول میں کوئی فرق نہیں دیکھا اورکبھی بھی شکائت کااظہارنہیں کیا۔ان کی یہ توعادت میں شامل تھاکہ کھاناپکاتے وقت کلمہ شہادت اور مسلسل درودشریف کاوردکرتی رہتی اورہمیشہ وضومیں رہتی کہ پتہ نہیں کب قضاکافرشتہ آجائے اوراس کام کی مہلت نہ ملے۔کام کی زیادتی کی وجہ سے ان کے ہاتھوں کی نرمی میں بہت کمی واقع ہوچکی تھی حالانکہ گھرمیں ملازمہ بھی موجودرہتی تھی۔اس ملازمہ کاخیال بھی اس حد تک رکھاکہ اس نے بھی مرتے دم تک اس گھرکی چوکھٹ نہیں چھوڑی بلکہ اس کو گھر میں ”ماسی“کادرجہ دیکرتمام امتیازہی ختم کردیا۔

گھرمیں سال بھرکیلئے گندم اورچاول کااسٹاک کرلیاجاتاتھا۔گندم اورچاول کی ستھرائی کیلئے کبھی کسی سے مددطلب نہیں کی البتہ یہ دیکھاگیاکہ محلے کی کچھ مخصوص خواتین اکٹھی ہوتیں ‘ کسی صاف فرش پرگندم یاچاول کی ستھرائی کاکام جاری ہوجاتااورساتھ ساتھ ان کی خدمت مدارت اورمہمان نوازی کاسلسلہ بھی‘اس طرح وہ خواتین اپنے دکھوں اورغموں کابوجھ بھی ہلکاکرلیتیں اورماں جی جاتے ہوئے ان کے ساتھ ان کاحصہ بھی بطورتحفے کے ساتھ کردیتیں۔ہم سب بہن بھائی ان خواتین کووالدہ محترمہ کی ”کابینہ“ سے موسوم کرتے تواس پر کبھی کبھی مسکراکرلطف اندوزبھی ہوتیں۔صبح سے لیکر شام تک اوربعض اوقات آدھی رات تک کام مں مصروف رہناتوایک معمول بن چکاتھا‘ایسے میں کسی واضح تاثرکی نشاندہی ان کے چہرے سے نہیں ہوسکتی تھی‘ہاں ان لمحوں میں ان کاچہرہ ضرورکھل اٹھتاجب ہم سب بہن بھائی امتحان میں اپنی کامیابی کی خبرسناتے‘اس وقت ان کاچہرہ خوشی سے جگمگا اٹھتا ۔ جب ہم میں سے کوئی قرآن کریم ناظرہ مکمل پڑھنے کی اطلاع دیتاتوفوری کچھ خاص رقم مسجد کے تیل کیلئے روانہ کردی جاتی جبکہ ہم سب بھائی یہ ضرورکہتے کہ اب تومسجدمیں برسوں سے بجلی کا استعمال جاری ہے لیکن ان کے معمول میں کوئی فرق نہیں آتا۔خصوصاً میراپانچ سال کی عمرمیں قرآن کریم ناظرہ پڑھ لیناتوان کیلئے اللہ کابراانعام تھا۔

میں نے انہیں کبھی بیمارہوتے نہیں دیکھا۔زیادہ صحیح یہ ہے کہ انہیں علیل ہوکرچارپائی پرلیٹے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا۔سرمیں دردہوتاتوایک رومال کس کرباندھ لیاجاتا‘گویاسردردکوکوئی سزادی جارہی ہویاپھر کبھی کبھاراپنی ہی انگلیوں کی پوروں سے دباتی رہتیں۔ ایک دن مجھ سے ”دم“ پڑھنے کوکہا‘مجھے کچھ اورنہ سوجھی فوراً آنکھیں بندکرکے چاروں قل ‘آیت الکرسی کے ساتھ درودشریف پڑھ کر پھونک ماری اوردل میں اپنے اللہ سے التجاکی کہ مجھ سے اس قدرمحبت کرنے والی ماں کی یہ حالت دیکھی نہیں جارہی ۔اللہ کی کرنی کہ میری والدہ کاسردردکیاختم ہواکہ میں سارے گھرمیں اسی کام کیلئے مشہورہوگیابلکہ بعض اوقات یہ ذمہ داری مجھے والدہ کی کابینہ کے ساتھ بھی نبھانی پڑتی۔آج سوچتا ہوں کس قدرمیرارب کریم ہے کہ اس نے میری ہمیشہ لاج رکھی حالانکہ یہ سب توماں جی کی محبت اوریقین کاکمال تھاکہ” دواسے زیادہ دعا“پربھروسہ کرتی تھیں۔

گھرکے اخراجات میں سے پس اندازکرکے محلے کے غریبوں اورناداروں کی امداداس طرح کرتیں کہ واقعی دوسرے ہاتھ کواس کاعلم نہ ہوتا۔کئی مرتبہ اپنے بھائیوں کی مالی امداداس طرح فرمائی کہ کسی کوکانوں کان خبرنہ ہوئی گویاحقوق العبادکابھی پوراخیال۔بڑی بیٹی کی شادی کی پھربھی ساری عمراس کی پرورش اپنے ذمہ رکھی۔اس کی بڑی اولادکوگھرکے افراد سے ممتازکرکے ایسی پرورش کی جس کی مثال نہیں ملتی۔آخرایک اورصدمہ بھی منتظرتھا۔گھرسے بوڑھی ساس کا سایہ اٹھ گیا‘گویارحمتوں اوربرکتوں کی ایک فیکٹری بندہوگئی۔ساری عمرجس کی ماں سمجھ کرخدمت کی ‘اسی نے ساتھ چھوڑدیا۔سب لوگ وطن کی یومِ آزادی کے سلسلے میں چراغاں کااہتمام کررہے تھے کہ گھرسے روشنی کاچراغ بجھ گیا۔ابھی ان کی یادیں تازہ تھیں کہ وطن کوجنگ کے دھماکوں نے ہلاکررکھ دیا۔رات کومکمل بلیک آوٴٹ کاعالم ہوتا‘یکایک سائرن کی آوازگونجتی کہ دشمن نے فضائی حملہ کردیاہے‘اینٹی کرافٹ توپیں جب شعلے اگلتیں توشہرکے دروبام اس طرح کانپتے جس طرح تنہائی میں مومن کادل کانپتاہے۔وہ سترہ دن بہت جذباتی گزرے۔

پھرمہاجرین کاسیلاب امڈآیا۔میراننھیال بھی کشمیرسے ہجرت کرکے پاکستان آن پہنچا۔مجھے اس دن کاوہ انتہائی جذباتی منظر آج بھی یادہے جب میری ماں نے پورے اٹھارہ سال کے بعداپنی ماں کواچانک دیکھا۔میری ماں پرغشی کی کیفیت طاری ہوگئی‘پھراچانک ماں سے گلے لگ کرروناشروع کیاتوشادیٴ مرگ کی یہ کیفیت کئی گھنٹے قائم رہی۔شائدیہ خوشی بھی پوری طرح راس نہ آئی کہ ٹھیک تین ماہ بعد شوہرکی دائمی جدائی کاصدمہ جھیلناپڑگیا۔

بیٹھے تھے گھنی چھاوٴں میں اس کی خبرنہ تھی بڑھ جائے گی دھوپ اوریہ سایہ نہ رہے گا

اک رفاقت اورمحبت کاجوتاج محل تیارکیاتھا‘اس طرح آناً فاناًمسمارہوجائے گا‘تیزگرم ہواکے جھونکے سرکی چادر کونشانہ بنائیں گے‘زمانے کی دھوپ اس شدت سے دل کے آشیاں کوجلاکرراکھ کردے گی‘یہ تومیری ماں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔اب ماں جی کاایک دوسراروپ شروع ہوگیا۔چھوٹے چھوٹے بچوں کی کفالت کابوجھ سرپرآن پڑا۔اس میں شک نہیں کہ ترکہ میں ایک انتہائی منافع بخش ہوٹل کاکاروبارموجودتھالیکن اعتبارکے ہاتھوں دھوکہ کھاگئیں۔ بالآخر تھک ہارکرمجھے ایک دن اس کام کوسنبھالنے کی دعوت دی ۔اللہ کا شکرہے کہ کمسنی میں بہت ہی تلخ تجربات کے بعد اس کاروبارکونہ صرف سنبھال لیابلکہ پہلے پانچ سالوں میں ہی اس کوپہلے سے زیادہ ترقی دیکرمزیدمنافع بخش کاروبار بنا دیا او ر میری ماں کی بے بسی ایک دفعہ پھرخوشحالی میں بدل گئی۔یقیناً اللہ کے فضل کے ساتھ ماں کی نیم شب دعاوٴں کابہت بڑاعمل دخل تھا لیکن میری ماں کومیری تھکادینے والی ڈیوٹی پر بڑی تشویش رہتی کہ کم عمری میں کس مشقت اورعذاب میں مبتلاہوناپڑگیالیکن میں اس بات پرخوش تھاکہ برسوں کی آرزو”ماں کی خدمت“کی تکمیل کیلئے اللہ نے توفیق عنائت فرمائی ۔اس کاروبار کے ساتھ تعلیم کاسلسلہ بھی جاری رہا ۔

بالآخرگھر کے فرائض یعنی بہن کی شادی سے بھی فراغت مل گئی اوراب ایک دن ایساآیاکہ مجھے اپنی ماں سے اپنے مستقبل کیلئے ملک چھوڑنے کی اجازت کی درخواست دینی پڑی جس کوسن کر ایک لمحہ تومیری ماں سکتے میں آگئی لیکن بالآخر کئی دنوں کی منت سماجت کے بعد یہ اجازت بھی مل گئی۔پہلے تین سالوں میں تعلیم کی تکمیل کے بعد ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں بطورکنسلٹنٹ انجینئرکی بہترین ملازمت کابھی بندوبست ہوگیا۔اب میری ماں کوگھرمیں بہولانے کابڑاارمان تھا‘اللہ نے وہ بھی پوراکردیااورسال بعد جب اللہ نے پوتے کی نعمت سے نوازاتوایک عرصے کے بعدمیں نے ان کواس قدر مسرورپایا۔سارے شہرمیں پوتے کی خوشی میں مٹھائی بانٹنے کااہتمام فرمایا۔پہلی دفعہ جب پوتے کوگودمیں لیاتویہ فرمایاکہ میں نے آج ہی اپنے پالتوطوطے کوآزادکردیاہے ۔قسمت اب بھی کھڑی مسکرارہی تھی گویاطنزکررہی ہوکہ آج تک تمہیں اورکونسی خوشیاں راس آئیں ہیں ۔اس خوشی کے ٹھیک ایک ماہ بعد سر میں اچانک شدیددرداٹھاکہ ہسپتال جاکرتھوڑی سی ہوش آئی۔ ماں کوساری عمرصدمے سہتے سہتے زندگی بھرکانٹوں پرسفرطے کرتی ہوئی آج جوہسپتال پہنچی توگویااس نے اعلان کر دیا کہ اب تھک گئی ہوں۔

صیاد نے تیرے اسیروں کوآخریہ کہہ کر چھوڑدیا یہ لوگ قفس میں رہ کربھی گلشن کانظارہ کرتے ہیں

ہسپتال میں پتہ چلاکہ دماغ کی شریان پھٹ گئی ہے۔میری ماں جس نے ساری عمراطاعت‘خدمت گزاری میں نبھادی آج اس نے لمبی چپ سادھ لی۔ ایک ہفتہ مسلسل کس طرح ہسپتال میں گزرا‘یہ ایک لمبی داستان ہے۔وہ اعضاء جن کی طاقت وہمت کی گواہی ایک زمانے نے دی ،آج ساتھ چھوڑ گئے۔وہ دل جوہزاروں کیلئے دھڑکتاتھا‘آج اپنی ذات سے بے وفائی کرگیا۔میری ماں جن کاسرمیری گودمیں تھا‘آنکھیں کھولیں‘آخری بارحسرت سے مجھے دیکھا‘ آنکھوں سے آنسووٴں کے چندقطرے نکلے جوبہہ کرتکئے میں جذب ہوناچاہتے تھے لیکن میرے دامن میں اس طرح محفوظ ہوگئے جیسے ماں نے آج پوری زندگی کاخراج اداکردیاہو۔بشارت دوڑکرڈاکٹرکوبلالیالیکن ان کی آمد سے پہلے میری ماں نے کلمہ پڑھا‘چہرہ اورگردن قبلے کی طرف اس طرح مڑگئی کہ مجھے اس بات کاپتہ ہی نہ چل سکاکہ میری ماں کی یہ مسکراہٹ آخری ہے جومیری آنکھوں کابہترین سرمایہ حیات بن کرآج بھی میری یادوں کے گلشن کاایک نمایاں گلدستہ بن کرمیری زندگی کے گلستاں کومہکاتی رہے گی اوریہ مجھے دنیاکے تمام خزائن سے عزیزہے۔انااللہ واناالیہ راجعون

میری ماں آج اس دنیامیں نہیں ‘انہیں ہم سے رخصت ہوئے ۳۵برس ہوگئے ہیں۔جب میں سوچتاہوں کہ ماں جی کی کوئی ایسی قابل ذکر خدمت تونہ کرسکا لیکن میری ماں جس کی گود میں میری زندگی کاسفرشروع ہوا،اس نے میری گودمیں سررکھ کرسفرآخرت کاآغازکیا۔میں توان کوخوشی کے چندسال ہی دے سکاتومیرادل ایک انجانی مسرت سے تفاخرمحسوس کرتاہے ‘جیسے میرے دل کی سوگوارویرانیوں میں ایک نغمہ شیریں گونج اٹھتاہے یاگرمی کی تپتی ہوئی فضامیں کہیں سے بادِ بہارکاایک خوشگوارجھونکامیرے دل میں اترجاتاہے۔میری ماں تو اس دنیامیں نہیں مگریہ کس کاہاتھ ہے جومایوسیوں کے ہجوم میں میرے سرپرآہستہ آہستہ پھرنے لگتاہے۔یہ کس کی انگلیاں ہیں جومیرے گیلے گالوں کوچھونے لگتی ہیں اور میرے سارے آنسوخشک ہوجاتے ہیں۔یہ کس کاچہرہ ہے جومیرے غم کی تاریکیوں میں طلوع ہوکرہرطرف میرے تفاخرکی روشنی بکھیردیتاہے‘یقیناًماں جی ‘ہاں ہاں ماں جی ہیں!

دل کی جن سے تھیں بستیاں آباد اب کہاں ہیں وہ ہستیاںآ باد

بروزاتوار۱۳شوال المعظم ۱۴۳۲ھ۱۱ستمبر ۲۰۱۱ء

لندن

About admin

Check Also

جشن آزادی

    Share on: WhatsApp

One comment

  1. بہت خوبصورت ‘ ماں کے موضوع پر اتنی خوبصورت تحریر کم پڑہنے میں آتی ہے-

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *