اگر

چلئے آج لمبی چوڑی کہانی کو چھوڑ دیتے ہیں جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ پچھلے دنوں جوکچھ میں نے پڑھا اور سنا آپ سے کہہ سن لیتا ہوں۔ جرأت بھی، دل سوزی ،شفقت اور رحم دلی کی طرح انسانی معراج کا ایک زینہ ہے۔ آج تک کوئی جرأت اور بہادری کے بغیر ترقی کی منازل طے نہیں کرسکا۔ جرأت اس تین منزلہ مکان کا نام ہے جس کے اندر انسان بستا ہے۔ انسانی وجود کے مکان کے تین حصے ہیں: پہلا جسمانی دوسرا ذہنی اور تیسرا روحانی۔ ان تینوں حصوں یا منزلوں کا ہونا ضروری ہے کہ اس کے بغیر انسان کی زندگی کا آگے بڑھنا اور اس کا نشوونما پانا ناممکن ہے۔ جرأت آپ سے تقاضا کرتی ہے کہ آپ اپنے اور دوسروں کے حقوق کے لیے کھڑے ہوجائیں اور انہیں منوانے کے لیے سینہ سپر ہوں۔ جرأت آپ کو مجبور کرتی ہے کہ آپ اپنے آپ کو، اپنے معاشرے کو، اپنے ملک کو تعمیرکرنے کے لیے سختی اور شقاوت کی بجائے محبت وشفقت سے کام لیں ،تشکیک کی بجائے ایمان کے اندر زندہ رہیں۔ مایوسی کے مقابلے میں امیدکے سہارے مشکلات کے نیچے دبنے کے بجائے ان پر حاوی ہوکر خوداعتمادی کی جرأت پیدا کریں۔

 غلطیاں تسلیم کرنے کی جرأت اور خود کو کامل نہ پاکر رونے بسورنے سے احتراز۔یہ ہیں صحیح جرأت کے مظاہر․․․․․․․․باوجود اس کے کہ آپ اپنے اندر ایک جزیرہ ہیں لیکن یہ جزیرہ انسانوں کی دنیا میں آباد اور ان کے درمیان واقع ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ اگر ہم فکرمند نہیں ہوں گے تو بھوکے مرجائیں گے اور فکرکرتے رہیں گے تو پاگل خانے میں جاکر فوت ہوجائیں گے۔ زندگی ان دنوں اس قدر مشکل ہوگئی ہے کہ ہمیں ڈھنگ سے فکرکرنا بھی نہیں آتا۔ ہم غیرملکی حملہ آوروں کی فکرکرتے رہیں گے اور اپنے پڑوسی کی کار کے نیچے آکر دب کے مرجائیں گے۔ ہم ہوائی جہاز کے کریش سے خوفزدہ رہیں گے اور سیڑھی سے گرکر فوت ہوجائیں گے۔ہم دوسروں سے ورزش نہ کرنے کی شکایت کرتے رہیں گے اور گھرکے سامنے لگے ہوئے لیٹر بکس میں خط ڈالنے کے لیے گیراج سے کار نکال لیں گے۔

ہم فکرمندی کے فن سے بھی ناآشنا ہوگئے ہیں اور ہم صحیح فکرکرنا بھی بھو

ل گئے ہیں۔ فکرکرنا ایک اچھی بات ہے اور اس سے بہت سے کام سنور جاتے ہیں۔ بچے پل جاتے ہیں، گھر چلتے ہیں، دفترکا نظام قائم ہوتا ہے، بزرگوں کی نگہداشت ہوتی ہے۔ فکرمندی ایک صحت مندانہ اقدام ہے۔ یہ کام کرنے پر اکساتی ہے،لیکن سب سے ضروری فکر اپنی روح کی ہونی چاہئے اور سب سے اہم فیصلہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنا ابد کہاں گزار رہے ہیں اور کیسا گزار رہے ہیں۔ یہ سوچنا چاہئے کہ اگر ہم کو ساری دنیا کی دولت مل جائے اور روح میں گھاٹا پڑجائے تو پھر یہ کیسا سودا ہے؟ انسان ضرورت سے زیادہ فکرکیوں کرتا ہے؟ یہ اس وقت شروع ہوتی ہے جب انسان خودکو خدا سمجھنے لگ جائے۔ وہ سمجھے کہ اب ہر شے کا بوجھ میرے کندھوں پر ہے۔ انسان خدا کا بوجھ بھی اپنے کندھے پر اٹھانا چاہتا ہے اور وہ کبھی بھی نہیں اٹھاسکتا۔ اس فکرمندی کے وجود میں آنے کی وجہ ایک چھوٹا سا لفظ ”اگر“ ہوتی ہے۔ اگر یہ ہوگیا اگر وہ ہوگیا۔ اگر میں مرگیا، اگر وہ آگیا، اگر اس نے یہ کہہ دیا، اگر لوگوں نے باتیں بنانا شروع کردیں۔

 بڑے صاحب پوسٹ ماسٹر تھے جو ان اندیشوں اور فکرمندیوں کی ڈائری لکھتے رہتے تھے جن سے وہ خوف زدہ رہتے تھے۔ سال بھر بعد جب ڈائری دیکھتے تو ان ہزار ہا فکروں اور اندیشوں میں سے ایک آدھ ہی صورت پذیر ہوا کرتے تھے۔ تائی پیدو نے کہا: ”میں جوانی میں بیوہ ہوگئی۔ چار بچوں کا بوجھ کام نہ کاج․․․․․․․․․․میں نے دو روپے کے کاغذ پر اللہ سے شراکت نامہ کرلیا کہ کام میں کرتی جاوٴں گی فکر میری جگہ تو کرتا رہیو۔ وہ رضامند ہوگیا۔ جب سے ہمارا شراکت کا کاروبار بڑی کامیابی سے چل رہا ہے“۔ رات کو سونے سے پہلے میں ضرور یہ دعا کرتا ہوں: یااللہ دن میں نے پورا زور لگاکر تیری مرضی کے مطابق گزار دیا، اب میں سونے لگا ہوں، رات کی شفٹ تو سنبھال، بڑی مہربانی۔ جب ہم ایسا کچھ کرتے ہیں کہ ہمارا اندر بتاتا ہے کہ یہ گناہ ہے تو ہم اپنی عزت ِنفس سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔ پھر اپنے ساتھ رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ پھر ہم ندامت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ زندگی مشکل ہوجاتی ہے۔ ضمیر ہر وقت ملامت کرتا رہتا ہے۔ اب ہم یا تو اس کو بھول جائیں یا اسے دماغ سے نکال دیں۔ لیکن یہ دونوں کام ہی مشکل ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس ایک فعل ندامت پشیمانی اور توبہ ہے۔ جب ہم اپنے اللہ کے سامنے توبہ کرتے ہیں تو نہ صرف توبہ قبول ہوجاتی ہے اگر اخلاص بھی ہو تو ہم بھی قبول ہوجاتے ہیں پھر زندگی آسان ہوجاتی ہے۔

 دوستی کیا ہے؟ اگر میں تمہارا دوست ہوں اور تم میرے دوست ہو تو یہ ہمارے لیے بڑا اعزاز ہے کہ ہم نے دنیا کے بڑے بڑے مشہور لائق فائق اعلی درجے کے لوگوں کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو پسند کیا۔ کیا پاکیزہ رشتہ باندھا واہ واہ․․․․․․․․․․ دوستی کا رشتہ عمر بھر چلتا ہے۔ جوان ہوئے تو شادی ہوگئی۔ بہن بھائی گھر محلہ شہر چھوٹ گیا۔ بوڑھے ہوئے تو اولاد چھوڑگئی، لیکن دوستی میں یہ تبدیلی نہیں آتی، دوستی کا رشتہ بے لوث ہوتا ہے۔ یا یوں کہئے کہ یہ روحانی ہوتا ہے۔ دیگر رشتوں میں تو کچھ جسمانی ضرورتوں کو پورا کرنا پڑتا ہے مگر دوستی میں صرف روح کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا تقاضا ہوتا ہے۔ روحیں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آغوش ہوجاتی ہیں اور جسمانی تقاضا ایک بھی نہیں ہوتا۔ والدین بچپن میں ملتے اور پھر ساتھ رہتے ہیں پھر وہ ہمیں یا ہم انہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ بیوی یا شوہر جوانی کی عمر میں ملتے ہیں،بچے شادی کے بعد کی عمر میں نصیب ہوتے ہیں۔ اسی طرح بہن بھائی بھی ہوتے ہیں۔ لیکن دوستی کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔ آپ آٹھ کے ہوں یا اسی کے ،نو کے ہوں یا نوے کے ،سولہ کے ہوں یا ساٹھ کے․․․․․․․․․․آپ میں اگر اخلاص ہے اور آپ اگر دوستی کا مطلب جان گئے ہیں تو پھر آپ کسی بھی عمرمیں دوستی کرسکتے ہیں، دوست بن سکتے ہیں۔

لیکن یہ کیسی دوستی ہے کہ آپ اپنے پڑوسی کے گھرکاپانی بند کر دیں ، اس کے گھریلومعاملات میں دخل اندازی کرکے بھائیوں کوایک دوسرے کے قتل پرنہ صرف آمادہ کریں بلکہ ہر طرح کی مددبھی کریں اورجب گھروالے ان تمام مکاریوں سے آگاہ ہوجائیں توپھردوستی کاجال پھینک کرخودکوبڑابھائی کہہ کرمیدان مارلیں!ذراغورکیجئے کیاآجکل ایسی ہی دوستی کاموسم تونہیں چل رہا؟آپ سمجھ دارہیں تفصیل میں جانے کی کیاضرورت ہے!

عدلیہ کاتفصیلی فیصلہ آگیالیکن ہمارے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی سترافرادکاقافلہ لیکربرطانیہ پہنچ گئے جہاں وزارتِ خارجہ کاایک معمولی نمائندہ استقبال کیلئے موجودتھاجبکہ حکومت برطانیہ نے صرف چھ افرادکی مہمان نوازی کی ذمہ داری قبول کی ہے۔کیاہماری دوستی اسی لائق ہے؟ جمہوریت کی ماں برطانیہ میں ایک جمہوری وزیراعظم کادعویٰ کرنے والامگرملکی عدالت ِ عالیہ سے سزایافتہ وزیراعظم بھاری بھرکم وفد کی مہمان نوازی کیلئے برطانیہ میں پورے ایک ہفتے ملکی خزانے پردوستی کاحق اداکریں گے۔

 ایمان کیا ہے؟ ایک اختیار ہی تو ہے۔ choice ہے۔ کوئی مباحثہ یا مکالمہ نہیں۔ یہ ایک فیصلہ ہے مباحثہ نہیں ہے۔ یہ ایک کمٹمنٹ ہے کوئی زبردستی نہیں ہے۔ یہ ہمارے دل کے خزانوں کو بھرتا ہے اور ہماری ذات کو مالامال کرتا رہتا ہے۔ بالکل ایک پرخلوص دوست کی طرح۔ یار زندہ صحبت باقی۔ ملتے رہیں گے جب تک سانس کی ڈور بندھی ہوئی ہے۔ کچھ بھی تو نہیں رہے گا بس نام رہے گا اللہ کا۔

 بدن کے شور میں گم تھی سماعت نہ سمجھی روح کی فریاد ہم نے

 تلاشِ شادمانی میں شب و روز رکھا خود کو بہت ناشاد ہم نے

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *