اھدنا الصراط لمستقیم
عباس ملک
امت مسلمہ زوال کی گھڑیوں میں بھی صراط مستقیم سے دور کیوں ہے؟کیا ہمیں صراط مستقیم کی شناخت نہیں یا ہم صراط مستقیم پر چلنا ہی نہیں چاہتے ۔مصیبت تکلیف کی گھڑی میں بھی خوف خدا نہیں ۔کشتی اگر طوفان میں گھر جائے تو مسافر خواہ خدا کو مانتا ہو یا نہ ہو و ہ ضرور ایک دفعہ مالک حقیقی سے سلامتی کا خواستگار ہوتا ہے ۔ذہن اس وقت انتہائی پراگندگی کی طرف مائل ہوتا ہے جب خدا پرستی کی بجائے شخصیت پرستی کے علم مملکت خداداد میں ہر طرف لہراتے نظر آتے ہیں ۔ہمارا دستور حیات اور ہمارے مشعل راہ قرآن و سنت قرار دیئے گئے ہیں ۔قرآن و سنت کی بجائے شخصیتوں کے افکار اور انکے عمل کی روشنی میں امت مسلمہ کی ناﺅ کیا بہتر سفر طے کر سکتی ہے ۔دنیا داری سے آلودہ اور خطاﺅں کے پتلے زندگی کی شاہراہ کے جب سنگ میل قرار پائیں تو کیا زندگی کا سفر مبرا از معاصی ہو گا ۔سوال یہ ہے کہ آیا ایک مسلمان کو اللہ تعالیٰ کے احکام اور سنت رسول کی تقلید و پیروی پر فخر کرنے کی بجائے شخصی افکار کو ترجیح دینا کتنا درست ہے ۔خاص طور پر ایس شخصیات جو خود شریعت کے اتباع کو پہلی ترجیح قرار نہیں رکھتے ۔معاشروں کو جن اصول و ضوابط کی ضرورت ہے وہ شریعت اسلامی سے بڑھ کر کیا کسی مفکر و مدبر نے بیان کیے ہیں ۔کیا کوئی مفکر یا مدبر اسلامی شریعت سے اصولوں کو مدنظر رکھے بغیر کوئی ضابطہ حیات بتانے میں کامیاب ہو ا ہے ۔ اسلامی شریعت کے اصولوں کو اپنی زبان اور اپنے اسلوب میں بیان کرکے بھی وہ اپنی طرف سے اضافت کے باعث حقیقی خوشبو سے محروم رہے ۔سوشلزم اور کیمونزم کواپنے معاشروں کے بے دم اجسام کیلئے تریاق قرار دینے کا ایک ہی مقصد و مطلب ہے کہ اسلامی شریعت ان کیلئے زہر ہے ۔سوشلزم یا کیمونزم کے ساتھ اسلام کا لا حقہ لگانے سے زہر کیا تریاق بن سکتاہے ۔رنگیلا شاہی کی تقلید میں ہنوز دلی دور است کا نعرہ مستانہ مغلیہ سلطنت کے اختتام کا سبب بنتا کیا تاریخ کا وہ سبق نہیں جس سے عبرت و راہنمائی لی جا سکے ۔کئی دہائیوں پر مشتمل سرآبوں کی داستان کا حاصل ٹیکس فری بجٹ اور روٹی کپڑا مکان کے حصول کیلئے دست و گریباں معاشرہ ہے ۔شخصیتوں کے سرآب عقیدت میں گم پجاری پھر بھی یہ ماننے کیلئے تیار نیں کہ جعلی ڈگریوں کے سہارے رہنما کہلانے والے مدبرو مفکر ین کے افکار بھی جعلسازی دھوکا فریب پر ہی مبنی ہو نگے ۔دولت و اختیار و اقتدار کے حاملین کیلئے قانون کو خریدنا اور قانون کو اپنے لیے جھکانا جسد جمہوریت کیلئے ناسور نہیں تو تریاق کیونکر بن سکتا ہے ۔سیاست و مذہب ہر دور طریقہ زندگی میں مفادات خواہشات کیلئے راہ ہموار کرنا مقصود ہونے کے سبب رعایا کو مساوی حقوق کی فراہمی ناممکن ازبعید از عمل ہے ۔جمہوریت کے تسلسل اور جمہوریت کیلئے قربانیوں کے عمل بردار جس رعایا کی طاقت اور پشت پناہی سے یہ منصب حاصل کرنے میں کا میاب ہوتے ہیں انہیں اقتدار کی غلام گردشوں میں وہ نہیں اپنی خواہشات و مفادات کی تکمیل کے لیے وقت درکار ہوتا ہے ۔عوام کو دھوکا دینے کیلئے وزراءکی تنخواہ میں کمی کا نعرہ مستانہ بلند ہو ا لیکن ان کی مراعات میں کسی قسم کی کمی کا شائبہ تک نہیں ۔ان کی تنخواہ میں بھی پچاس فیصد اضافہ کر دو لیکن ان کو حاصل مراعات ٹی اے ڈی اے ،فون ،کنوینس الاوئنسز،اور سرکاری رہائش گاہوں اور ڈرائیورو خانساماﺅں سے محروم کر دو۔پھر بات بننے گی ۔قوم کے خادم ہونے کے دعویدار وں کی تنخواہ میں ضرور اضافہ ہونا چاہیے لیکن قوم کے خون پسینے کی کمائی سے انہیں جو مراعات کے نام سے لوٹ سیل سے مستفید کیا جاتا ہے وہ ختم کرو۔کانٹا چبھے تو امریکہ اور لندن علاج کیلئے سرکاری خرچ کو موقوف کرو۔اس قوم کو سبسڈی کے نام پر جو بھیک دی جاتی ہے جمہوریت کے پاسدار اور شخصیتوں کے افکار کی روشنی میں فوٹو سیشن کیلئے چند فقراءکو چیک تقسیم کرنے کی تقاریب پر جو اخراجات کیے جاتے ہیں وہ بند کرو۔پاسداران جمہوریت اپنی مراعات سے دستبرداری کا اعلان کریں اور ہر کس پر ٹیکس نافذ کردو لیکن خود کو بھی ٹیکس نادہندگان کی فہرست کا جز بنانے کی بجائے عملی طور پر ٹیکس ادا کرنے کی رسم شروع کرو۔انقلاب لانے کی نوید سنائی جاتی ہے لیکن انقلابی اقدامات کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے پاﺅں لڑکھڑا جاتے ہیں۔یہی انقلاب ہے اوریہی انقلابی اقدامات ہیں ۔خود پرستی کو مار دو ،خواہشات کو دفن کردو۔مفادات کو پس پشت ڈال دو۔ انقلاب ہی انقلاب ہے ۔انہی اقدامات سے معاشرے میں جمہوریت کی ترویج ہو گی ۔ایسے اقدامات سے ہی مساوات کے اصولوں کا بول بالا ہو گا۔یہی وہ اقدامات ہیں جن سے معاشرے میں محبت یکجہتی اور ہم آہنگی کی روح پھونکی جا سکتی ہے ۔یہی وہ راہ ہے جس سے آقاﺅں کی ہر صدا پر سر تسلیم خم کرنے کی بجائے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا جا سکتاہے ۔یہ اقدامات شخصیت پر ستی کے دائرے کے لوازمات نہیں ۔ان کیلئے خوف خدا اور حب رسول ﷺ ضروری ہے ۔انسانیت کے درس اور اس پر عمل قرآن و سنہ سے زیادہ دنیا کی تاریخ و افکار میں کہیں نہیں ہو سکتا ۔رنگیلا شاہ کا نام تاریخ میں یونہی تو محفوظ نہیں کیا گیا یہ باعث عبرت ہے نہ کہ باعث تقلید ہے ۔قدرت جب امتحان لینے پر آتی ہے تو پھر شخصیتوں کے دامن پناہ گاہ نہیں بنتے ۔تاریخ امت مسلمہ اس بات کی گواہ ہے کہ شریعت سے روگردانی اور شخصیتوں کے حصار میں مقید ہونے کے سبب ہی زوال کی منازل طے ہوئی ہیں ۔شخصیت پرستی اور شخصی افکار کی بجائے ازلی اور ابدی احکامات الہٰی کی پابندی اور تقلید کی جائے ۔یہ صراط مستقیم ہے ۔