عابد انور
اللہ کا شکر ہے کہ بابری مسجد کی انیسویں برسی بغیر کسی خون خرابہ کے گزر گئی۔ ہر سال جہاں مسلمانوں کویہ احساس بے بضاعتی دلاتی ہے وہیں یہ خوف بھی رہتا ہے کہ فرقہ پرست عناصر نہ جانے اس دن کیا گل کھلائیں گے، اس دن اس وجہ سے بھی توجہ کا مرکز بنا کیوں کہ بابری مسجد کی یوم شہادت اور عاشورہ دونوں کے ایک ساتھ ہونے کی وجہ سے خدشہ بلا وجہ نہیں تھا۔ فرقہ پرست اس موقع کے تاک میں رہتے ہیں کب انہیں مسلمانوں کو نقصان پہچا نے کا موقع ملے۔ بعض جگہ محرم کے جلوس پر پتھراؤ بھی ہوا لیکن مجموعی طور پر یہ دن آرام سے گزر گیا۔بابری مسجد کی شہادت کی برسی کے موقع پر مسلمانوں کی تمام بڑی تنظیموں نے اپنے مصنوعی غم و غصہ کا اظہار کیا، سرکاری علماء نے مگر مچھ کے آنسو بہائے اور سرکاری اماموں نے بابری مسجد کی بازیابی تک چین سے نہ بیٹھنے کی قسمیں کھائیں۔ اس کے بعد ایک سال تک وہ اس سلسلے میں خواب خرگوش میں مبتلا رہیں گے کیوں کہ اس کی برسی ایک سال بعد ہی آئے گی جب تک دوسرے بہت سے کام (دلالی) ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنی موجودگی کو برقرار اوراپنی دولت میں اضافہ کرسکیں۔ بابری مسجدجہاں مسلمانوں کے لئے ناسور ہے وہیں ہمارے مسلم لیڈران اور تنظیموں کے لئے اپنی موجودگی ثابت کرنے کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے حل نہ کیا جائے شرط یہ ہے کہ حل کرانے والاچاہئے ، اس کے عزم و ارادہ کو دیکھا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں وہ عزم کافقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نصف صدی سے زائد یہ معاملہ عدالتوں میں زیر التوا ہے۔ مسلمان ابھی تک متحدہ طور اور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر کسی معاملے میں حکومت پر دباؤبنانے میں ناکا رہے ہیں۔جب کہ دیگر قومیں جو ایک دو فیصد ہیں وہ اپنے بڑے اور چھوٹے مطالبے دباؤ ڈال کر منوالیتی ہیں۔ مسلمانوں یہ حیثیت بھی نہیں کہ وہ کسی وزیر تو دور کی بات کسی افسر کا تبادلہ یا معطل کرواسکیں۔
بابری مسجدکا قضیہ مسلمانوں کی مجبور ی، بے کسی، بے بسی،بے وقعتی، بے بضاعتی،کسمپرسی اور جمہوریت کے چار ستونوں کے ذریعہ کی جانے والی ناانصافی کی ایک عبرتناک، حیرتناک اور افسوسناک طویل داستان ہے۔اس داستان میں جہاں سیاست داں،انتظامیہ، عدلیہ،میڈیا کا کردار نہایت گھناؤنا رہا ہے وہیں مسلم لیڈروں کے تمام طبقوں کا کردار بھی کم گھٹیا اور افسوسناک نہیں رہا ۔ بابری مسجد کی یہ انیسویں برسی ہے مگر آج تک اس کے مجرمین کو سزائیں نہیں ملی، یہ ہندوستان کے نظام کی مسلمانوں کے تئیں فعالیت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے ۔دنیا کی تاریخ میں ایسا کوئی مقدمہ نہیں ہوگا جو چھ دہائی تک چلا ہو پھر بھی انصاف کرنے کے بجائے پنچایت کے دائرے میں سمٹ گیا ہو۔معاملہ دو بھائیوں میں زمین کے بٹوارے کا نہیں تھا بلکہ اس کا تھا کہ یہ کس کی ملکیت ہے۔ یہ پہلاایسا فیصلہ تھا جس کا قانون کے ماہرین نے بلاامتیازمذاق اڑایا۔ اب تک یہ نظارہ گاؤں کے پنچایت میں دیکھنے کو ملتا تھا جہاں فیصلہ منہ دیکھ کر کیا جاتا ہے ثبوت کی بنیاد پر نہیں ،عدالت عالیہ میں بھی یہی ہوا۔ ہندوستان تمام دنیا میں سب سے بڑا اور کثیر جمہوری ملک ہونے کا دعوی کرتا ہے لیکن اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے تئیں جب انصاف کرنے کی باری آتی ہے تو وہ خالص ہندوتو ملک بن جاتا ہے۔
بابری مسجد کی شہادت صرف بابری مسجدکی شہادت نہیں تھی بلکہ مسلمانوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے اورانہیں زمین دوز کرنے کی طویل سازش کی ایک کڑی تھی جسے دن کے اجالے میں اور عالمی میڈیا کے سامنے انجام دیا گیا لیکن پھر بھی حکومت اور قانون و انتظام کے رکھوالے کو کوئی ثبوت نہیں مل رہا ہے اور نہ ہی بابری مسجد کا قاتل نظر آرہا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے ذریعہ حکومت نے مسلمانوں کو تقسیم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ مسلمان جو بابری مسجد کے معاملے میں متحد ہوگئے تھے اسی معاملے پرانہیں منتشربھی کردیا گیا ۔ اس کے بعد مسلمانوں کی سینکڑوں تنظمیں معرض وجود میں آئیں کچھ حقیقی، تو کچھ جیبی، کچھ شخصی، تو کچھ بیان بازی کے لئے، تو کچھ حکومت اور سیاست دانوں تک رسائی کے لئے، توکچھ دوکانداری کے لئے، توکچھ فروخت ہونے کے لئے توکچھ اخبارات کے صفحات میں موجودگی درج کرانے کے لئے۔ غرض کہ اس بہانے بہت ساری تنظیمیں اور بہت سے بے روزگار لوگوں نے اس میدان میں قدم رکھا اور آج ان سب کے پاس بینک بیلنس ، گاڑیاں اور زندگی کی آسائش کے تمام آسائش و اسباب موجود ہیں لیکن بابری مسجد کا قضیہ جوں کا توں ہے۔مسجد کے نام پر مرنے والوں، فسادات کی زد میں آنے والوں، آبروریزی کا شکار ہونے والی خواتین، مال و اسباب لٹانے والے مسلمان آج بھی انصاف سے محروم ہیں اور انصاف کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ مسلمانوں کو انصاف دلانے اور حقوق کی بازیابی کے نام پر قائم ہونے والی ان تنظیموں کے مقاصد اور لائحہ عمل کا مطالعہ کریں تومعلوم ہوگا کہ مسلمانوں کا کوئی ایسا کام نہیں ہے جو یہ تنظیمیں (صرف کاغذوں پر) نہیں کرتی ہیں اور اس کے نام پر بیرون ممالک سے کروڑوں روپے بطور چندہ اکٹھا کرتی ہیں۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد حکومت نے مسلمانوں کے زخم پر مرہم رکھنے کے بجائے اسے عملی طور پر منتشر اور ٹکڑے ٹکڑے میں تقسیم کرنے کے لئے ایسا لائحہ عمل تیار کیا جس کی فصل ہندوستان کی سیاسی پارٹیاں ابھی بھی کاٹ رہی ہیں۔ آپ کو حیرانی ہوگی کہ اس وقت کی مرکزی حکومت نے مسلمانوں کے ایک مسلک کے لئے مسجداور مدرسے تک بنوائے تاکہ انہیں ان کی موجودگی کا احساس کرایا جائے اور اس کے ذریعہ بابری مسجد کے نام پر متحد مسلمانوں میں دراڑ پیدا کیا جائے۔حکومت اس مقصد میں سو فیصد کامیاب بھی ہوئی۔ تمام مسلک کے اعلی طبقے کو خواہ وہ دین دار ہو یا دنیا دار چند سکوں کے عوض خریدا گیا اور بوقت ضرورت ان کا استعمال بھی کیا گیا۔ کوئی بھی مسلمان آج قرآن کی باتیں نہیں کرتا بلکہ وہ مسلک کی باتیں کرتا ہے۔ ہندوستان کا کوئی بھی مسلمان اسلام کے سایہ میں آنا نہیں چاہتا خواہ وہ تو دیوبندی ہو یا اہل حدیث ہویا بریلوی یا شیعہ۔ ہر مسلمان اپنے مسلک کے خانے میں اس طرح فٹ ہیں کہ انہیں جز لاینفک قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کا مقصد دیوبندی، بریلوی، شیعہ اور اہل حدیث کے عام لوگوں کی ترقی یا فلاح و بہبود ہرگز مقصد نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کو سامنے رکھ کرانہیں اپنی دوکان چمکانا مقصود ہوتا ہے۔ مسلم تنظیموں اور مسلم لیڈروں کے رویے کو دیکھیں تو اس بات کی تصدیق ہوجائے گی ۔ایک خاص پارٹی نے جس نے دہلی میں مدرسہ بنوایا تھا وہ اس کی فصل یوپی کے آئندہ اسمبلی انتخابات میں کاٹنے کی تیاری کرلی ہے۔ اس سلسلے میں اس طبقہ کھل کراس پارٹی کی حمایت کا اعلان بھی کردیا ہے۔
یوپی سمیت پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ۔ ساری پارٹیوں نے اپنی تیاری اور اپنا نشانہ مقرر کرلیا ہے کہ جس فرقہ کو اپنی طرف راغب کرنا ہے ، کس سے دوری رکھنی ہے، ان پارٹیوں نے مسلم تنظیموں کا انتخاب بھی کرلیا ہے اور انتخابات میں کام آنے والے کچھ اماموں اور علماء کا بھی انتخاب کرلیا ہے۔اس وقت انتخاب کا موسم ہے اس لئے بعض علماء کرام اورامام بابری مسجد، ریزرویشن اور مسلمانوں کے دوسرے مسائل پرجم کر گرجیں گے تاکہ ہندوؤں کو بیدار کرنے کے عوض ان تک کی ان کی محنتانہ (پیٹی) پہنچ جائے اور مسلمانوں کو اس کا خمیازہ اگلے پانچ سال تک بھگتنا پڑے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے لیڈر اور رہنماء ان میں مسٹر اور مولوی دونوں حضرات شامل ہیں ، مسلمانوں کا کوئی مسئلہ حل نہیں کراپاتے کیوں کہ بیشتر ان میں سے پارٹی اور حکومتوں سے اپنا ذاتی کام خواہ وہ رقم کی شکل میں ہو یا دیگر کام کی شکل میں پہلے ہی حاصل کرچکے ہوتے ہیں اس لئے ان پارٹیوں اور حکمت پر اپنا زور نہیں ڈال پاتے۔ مسلمانوں کی نمائندگی ایوان میں کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے۔ مسلمانوں کی آبادی غیر سرکاری اعداد و شمارے کے مطابق ۲۵ کروڑ سے کم نہیں ہے اس دعوے کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ جتنے بھی ملنے جلنے والے ہیں ان سے پوچھا گیا کہ مردم شماری والے آپ کے پاس آئے تھے ان میں زیادہ تر کا جواب نفی میں تھا۔ مردم شماری کرنے والے ایک منصوبے کے تحت کام کرتے ہیں انہیں اس بابت ہدایت ہوتی کہ کس کی زبان اور کس کی تعداد کتنی دکھانی ہے۔مسلمان اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود ہندوستان میں عضو معطل کی طرح کیوں ہیں۔؟ان کی بات میں وزن کیوں نہیں ہے اور حکومت ان کی بات پر توجہ کیوں نہیں دیتی؟۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے علاوہ کئی دیگر اقلیتی طبقہ رہتا ہے جن میں سکھ، عیسائی، بودھسٹ،جین وغیرہ شامل ہیں لیکن مسلمان کے سواکسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کی جاتی اور ان کی نمائندگی بھی اس کی تعداد کے لحاظ سے کہیں زیادہ ہے توپھر مسلمانوں کے ساتھ یہ نا انصافی کیوں کی جاتی ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ انصاف زندہ قوم کے ساتھ کیا جاتا ہے مردہ قوم کے ساتھ نہیں۔ مسلمان ہندوستان اس وقت مردہ قوم ہیں ان کے پاس کوئی لیڈر نہیں ہے، جتنے مسلم لیڈرہیں وہ اپنی پارٹی کے تئیں زیادہ وفادار ہیں پارٹی کا دستورالعمل ان مسلم لیڈران کے لئے قرآن و حدیث سے بڑھ کر ہے ،وہ قرآن وسنت کی خلاف ورزی توکرسکتے ہیں لیکن پارٹی کے دستور اور گائڈ لائن کی نہیں۔مسلمانوں کے علاوہ کسی دیگر اقلیتی طبقہ میں آپ کو ضمیر فروش، دلال اور قوم کا سودہ کرنے والا لیڈر نہیں ملے گا اگر ان میں سے کوئی ایسا پیدا ہوجاتا ہے وہ طبقہ فوراً اسے سزا دیتا ہے تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کی جرات نہ کرسکے۔ لیکن مسلمانوں میں اس کی بہتات ہے کسی لیڈر کے بارے میں آپ یہ تصور نہیں کرسکتے کہ وہ پاک دامن ہوگا۔ مسلم لیڈروں ،بعض علماء،دانشوروں اور مفکرین پر ذاتی مفاد اس طرح حاوی ہے وہ کوئی بھی سودے بازی سے گریز نہیں کرتے۔ ایک کانگریسی مسلم لیڈر نے بابری مسجد کا فیصلہ آنے کے بعد اپنے مضمون میں کہا تھا کہ مسلمانوں کو خیرسگالانہ جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بقیہ حصہ بھی ہندو بھائیوں کو سونپ دینا چاہئے۔ اگر اس طرح کا بیان کسی دیگر اقلیتی طبقہ کے لیڈر نے دیا ہوتا تو ان کا ناطقہ بند ہوچکا ہوتا۔ تنخواہیہ قرار دے کر ان کا سماجی بائیکاٹ کردیا جاتالیکن وہ ایک قومی پارٹی قومی ترجمان ہے اس پارٹی کو مسلمانوں کی کتنی فکر اور کتنا احترام ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے۔ مسلمان ہیں جس کا خدا ایک ہے، کتاب ایک ہے، رسول ایک ہے اور متحد ہونے کے ایک نہیں ہزاروں وجہیں موجود ہیں پھر تسبیح کے دانوں کی طرح ایک دھاگے میں پیروئے ہونے کے بجائے بکھرے ہوئے کیوں ہیں۔ اس پر تدبر و تفکر کی ضرورت ہے۔ آخر کیا وجہ ہے ہم اپنے دشمنوں کی سازش کو نہیں سمجھ پارہے ہیں یا جان بوجھ کر انجان بنے ہوئے ہیں۔ کیا ہندوستان میں سیکولرزم کی بقا کی ذمہ داری صرف مسلمانوں پر ہے؟۔ ہندوستان کی سیاسی پارٹیاں اس بہانے مسلمانوں کو اپنا زرخرید غلام بنائے رکھیں گی؟۔
شہیدبابری مسجد ان تمام مسلم لیڈروں کو سبق سکھانے کا درس دیتی ہے جن کے ہاتھ اس کے خون سے رنگے ہوئے ہیں جنہوں نے سودے بازی میں اسے پست ڈال دیا۔ جب تک مسلمان ایسے سڑے گلے لیڈروں ، علماء، دانشوروں اور نام نہاد مفکرین کو اپنے کاندھوں پر ڈھوتے رہیں گے اس وقت تک ان کی فلاح و بہبود کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی ۔ مسلمان بت پرستی سے تو گریز کرتے ہیں لیکن شخصیت پرستی میں سر سے پاؤں تک ڈوبے ہوئے ہیں۔مسلمانوں کو ایسے لیڈروں کو سبق سکھانے کے طریقے دوسری قوموں سے سیکھنے ہوں گے تاکہ کوئی بھی لیڈریا علماء سودے بازی کرکے مسلمانوں کوقابل بیع و شرا کے زمرے میں رکھنے کی ہمت نہ کرسکے۔ مسلمانوں کی اوقات کیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مالیگاؤں بم دھماکے کے الزام سے جہاں سات مسلم نوجوانوں کو ضمانت پر رہا کیا گیا وہیں دہلی بم دھماکے کے الزام میں اس سے زائد مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرلیاگیا۔ اس بار فرقہ پرست خفیہ ایجنسیوں نے اس علاقے کو نشانہ بنایا ہے جہاں کے مسلم نوجوان کچھ کرنے کا عزم لے کردوسری ریاستوں میں سکونت پذیر ہیں۔
تاریخ کبھی مردہ اور ضمیر فروش قوم کو اپنے دامن میں نہیں سمیٹتی۔ تاریخ ہمیشہ اپنے بانہوں میں ان قوموں کو جگہ دیتی ہے جو باہمت،باحوصلہ، شجاعت و بہادری اور دلیری میں اپنا نام پیدا کرتی ہے اور اپنا حق حاصل کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتی۔مسلمانوں کو ہندوستان میں اپنا حق حاصل کرنا ہے تو انہیں زندہ قوم بننا ہو گا اور دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے بل بوتے پراپنے حقوق بھیک مانگ کر نہیں چھین کر لینا سیکھناہوگا ہر وہ حکومت کو بیلیٹ کے ذریعہ متحد ہوکر سبق سکھانا ہوگا جنہوں نے انہیں نظر انداز کیا ہے اور صرف ایک ووٹ بینک سمجھا ہے اور یہ موقع مسلمانوں کو آئندہ ہونے والے پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں ملنے والا ہے۔ وہ کسی لالچ اور کسی بہکاوے میں نہ آئیں اور متحد ہوکر اپنی رائے دہندگی کا استعمال کریں۔ یہاں آپ سے ہر چیزی چھینی جاسکتی ہے لیکن ووٹ دینے کی طاقت آپ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ مسلمان اپنے اوپر ووٹ ڈالنے کو فرض قرار دے دیں تو دیکھئے کس قدر سرعت کے ساتھ آپ کے مسائل حل ہوتے ہیں۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com