باراک حسین اوبامہ خو ش آمدید
ہندستان میں باراک حسین اوبامہ کا پر تپاک خیر مقدم کیا گیا ۔ ان کی إٓمد سے ہند امریکہ تعلقات میں مزید خوشگواری اور پائداری آئے گی ۔ عام طور پر لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ان کی آمد غیر متوقع اس لیے نہیں ہے کہ ہندستان عالمی نقشے پر جس تیزی کے ساتھ ابھر رہا ہے ، کہ ہر ملک کی نگاہ ہندستان کی جانب ہے ۔امریکہ بھی ہندستان کی جانب کئی امیدیں لیے دیکھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ مستقل تین صدور امریکہ نے ہندستان کا دورہ کیا۔ بل کلنٹن ، جارج بش اور اب باراک اوبامہ۔ قابل غو ر پہلو یہ ہےکہ یہ تینوں صدور ایک کے بعد ایک امریکہ کی سیاست میں آئے اور ان تینوں نےدورہ کیا ۔ اس سے بھی ہندستان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ماضی کی دورے اور اس دورے میں بنیادی فرق یہ ہےکہ اوبامہ کا یہ کسی ملک میں سب سے طویل دورہ ہے۔ظاہر ہے ایک طاقتور ملک کےایک طاقتور رہنما کا قیام یوں ہی بے مقصد نہیں ہوسکتا ۔
ان کے مقاصد کیا ہوسکتے ہیں یہ تو ان کی آج کی پہلی تقریر سے واضح ہوگیا کہ وہ ہند وامریکہ کے مابین مضبوط اقتصادی اور تجارتی روابط کے خواہاں ہیں ۔ اس حوالے سے ہندستان نے انھیں مایوس نہیں کیا اور پہلے ہی دن جس طرح کے معاہدے ہوئے اس سے اوبامہ ضرور خو ش ہوں گے ۔اور اب دیکھنا یہ ہےکہ دہلی آکر وہ کیا کہتے ہیں اور ہندستان سے سیاسی اعتبار سے کس طرح کی امیدیں رکھتے ہیں ۔ یہ سب کل ہی معلوم ہوجائے گا۔
لیکن ایک خاص بات جس کی جانب ہمارے جیسے کئی لوگوں کے ذہن ان سلجھے سوالات میں الجھے ہوئے ہیں اور وہ یہ ہےکہ اوبامہ کے آنے سے قبل ہی ہندستان کی زمین کو سیکورٹی کے نام پر امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کے حوالے کر دیا گیا ۔ ممبئی کے قیام کے دوران یومیہ مزدوری کرنے والوں کی روزی روٹی کی بھی فکر کسی نے نہیں کی اور جس ہوٹل میں وہ ٹھہرے ہیں ، اس ہوٹل پر جو دہشت گردانہ حملہ ہوا ، اس کے ماسٹر مائنڈ نہ سہی لیکن علم رکھنے والے ہیڈلی سے پوچھ گچھ کرنے میں بھی ہندستان کی ایجنسیوں کو کافی وقت لگ گیا۔ہندستان میں ان کی گاڑیإں ، کتے ، ساز وسامان کے ساتھ اسلحے اور کھوجی جہاز بھی بے روک ٹوک اڑرہے ہیں ۔ لیکن یہی وہ امریکہ ہے جہاں ہندستانیوں کو ویزا کے لیے کئی طرح کی ذلتوں کا سامنہ کرنا پڑتا ہے ۔ سیکورٹی کےنام پر ان کے نام کو اسکرینگ پر رکھ دیا جا تا ہے اور اگر بد قسمتی سے کسی شخص کانام کسی دہشت گرد سے مل رہا ہو تو اسے ویز اتو مل ہی نہیں سکتا کیونکہ کمپیوٹر کے مطابق وہ بھی دہشت گرد ہو سکتا ہے لیکن وہ یہاں دماغ سے کام لینے کے بجائے مشین کی بات مانتے ہیں اور ہندستانی عوام کو خاص طور پر مسلمانوں کی کافی پریشانیوں کا سامنہ ہے ۔
اسی طرح ہندستان سے امریکہ جانے والے عام لوگوں کی بات تو چھوڑیں بڑے سیاسی لیڈران اور فلم اسٹار وغیرہ کو بھی تفتیش کے نام پر برہنہ کیا او ر ذلیل کیا۔ کیا اس دورے میں اوبامہ سے اس طرح ذلت کی وجہ بھی پوچھی جائے گی ۔ یا ان سے معاہدہ کرکے مزید رسوائی کا سامان مول لیا جائے گا۔میرا خیال ہے کہ ان پر یہ باور کرایا جانا چاہیے کہ آئندہ اس طرح کی حرکت ان کی تفتیشی ایجنسیوں کے ذریعے نہ ہو۔ باقی معاملات توبرابری پر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جتنی ضرورت امریکہ کو ہے اتنی ہی ضرورت ہندستان کو بھی ہے ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم ہندستانی مہمانوں کی قدرو منزلت کرنا جانتے ہیں ۔ کاش امریکی ایجنسیاں اور عوام مہمان نوازی کا سبق سیکھ کر جائیں ۔