عابد انور
بغاوت، تحریک، احتجاج اورتختہ پلٹ ظلم وستم کی کوکھ سے پیدا ہوتے ہیں۔ کسی بھی ملک یاریاست کی تاریخ پر نظرڈالیں تو یہ باتیں اس میں ضرورپائی جاتی ہیں۔ہندوستانی عوام جو صدیوں سے رجواڑوں اور زمینداروں کے ہاتھوں کچل رہے تھے انہیں نجات دلانے کے لئے پہل کرنے والا پہلا شخص محمد بن قاسم ہے۔محمدبن قاسم اور ان کے علاوہ جتنے بھی سورمانے ہندوستان پر حملہ کیا انہیں کسی عوامی احتجاج یا مخالفت کا سامنا کبھی نہیں کرنا پڑا۔ اس لئے نہیں کہ ان میں صدائے احتجاج بلند کرنے کی قوت یامخالفت کرنے طاقت نہیں تھی بلکہ عوام اس لئے اس سے گریز کر رہے تھے کیوں کہ وہ زمینداروں اور رجواڑوں کے مظالم سے تنگ آگئے تھے۔ نہ ان کی زمین ان سے محفوظ تھی اور نہ ہی ان کی بہو بیٹیاں۔اس لئے ہندوستان پر جتنے لوگوں نے چڑھائی کی وہ آرام سے ہندوستان کو فتح کرتے چلے گئے۔ مسلمان بھی اس ملک پر حملہ کرکے اس ملک کا حصہ بنے لیکن وہ نچلی سطح کے مظالم کا سدباب کرنے میں ناکام رہے اور ایک طرح سے ہندوستان میں زمیندارانہ نظام قائم رہا۔ ہندوستان آزاد ہونے کے بعد جب زمین رکھنے کے لئے سلسلے ایک حد قائم کردی گئی اور زمینداروں سے زمین چھین کر غریبوں اور بے زمینوں زمین تقسیم کی گئی لیکن یہاں بھی تعصب اوربھید بھاؤکا جم کر کھیل ہوا۔ زمین کی تحدید کا فارمولہ مسلمانوں پر سختی سے نافذ ہوا اور جب کہ دوسروں کے ساتھ بہت ہی نرمی برتی گئی اور انہیں چھوٹ دی گئی غیر مسلم زمینداروں کے پاس آج بھی ہزار ہزار ایکڑ زمینیں ہیں جب کہ قانون کے مطابق کوئی شخص ۳۵ ایکڑ سے زائد زمین کوئی نہیں رکھ سکتا۔ صحیح معنوں میں بہار میں زمینداری کا خاتمہ نہیں ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ بہار میں بہت سے زمینداروں کے پاس کئی ہزار ایکڑ زمینیں ہیں ۔ ظلم و جبر اور اپنے استحصال جاری رکھنے کے لئے انہوں نے پرائیویٹ فوج بھی بنارکھی ہے ۔ نکسلی تحریک بھی زمینداروں کے ظلم و ستم کے بطن پیداہوئی ہے اگر حکومت نکسلی تحریک کو ختم کرنا چاہتی ہے کہ تو پہلے اسے ایسے زمینداروں کے پھن کو کچلنا ہوگا۔ مزدوروں کے ساتھ ظلم وزیادتی، انہیں بندھوا مزدور بنالینا، نسل درنسل ان زمینداروں کے کھیت میں کام کرنے کو مجبور ہونا یہ ایسی ان کہی داستان ہے جس پر ہندوستانی میڈیا نے اتنی توجہ نہیں دی جتنی کی یہ مستحق تھی۔ زمینداروں کے پرائیویٹ فوجوں میں سے ایک فوج کا نام رنویر سینا ہے۔ جس کے مظالم کی داستان کو اخباروں میں بڑھی بڑھی سرخیاں ملیں لیکن اسے سزادینے میں بہار کی حکومت مکمل طورپر ناکام رہی۔نوے کی دہائی سے قبل اور بعد میں مستقل وہ قتل عام انجام دیتے رہے لیکن بہار کی پولیس اور خفیہ ایجنسیاں اسے دبوچنے میں ناکام رہیں۔ سزا یا دبوچا اس وقت جاتا ہے جب دبوچنے والے کی منشا ہو اور یہ منشا نتیش کمار حکومت میں کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔یہی وجہ ہے گزشتہ سال رنویر سینا کے سربراہ کو رہا کردیا گیا اور اب بتھانی ٹولہ قتل عام کے ملزمین کو بری کردیا گیا ہے۔
رنویر سیناہندوستان کی دہشت گرد اور عسکریت پسند تنظیم ہے۔رنویر سینا کا قیام 1994 میں وسطی بہار کے بھوجپور ضلع کے گاوٴں بیلاور میں ہوا تھا۔ اس ضلع کے کسان مارکسی کمیونسٹ پارٹی مالے (لبریشن) نامی نکسلی تنظیم کے مظالم سے پریشان تھے اور کسی متبادل کی تلاش میں تھے۔کسانوں نے سماجی کارکنوں کی پہل پر مشترکہ اجلاسوں کے ذریعے تنظیم کا خاکہ تیار کیا۔ بیلاور کے اسکول پراگ میں ایک بڑی کسان ریلی کرکے رنویر کسان مہاسنگھ کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ تب کھوپرا کے سابق مکھیا برمیشور سنگھ، برتیار کے کانگریسی لیڈرجناردن رائے، ایکواری کے بھولا سنگھ، تیرتھ کول کے پروفیسر دیویندر سنگھ، بھٹولی کے یوگیشور سنگھ، بیلار کے وکیل چودھری، دھنچھوہا کے کانگریسی لیڈر ڈاکٹر کملاکانت شرما وغیرہ نے اس کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیاتھا۔ ان لوگوں نے گاوٴں گاوٴں جا کر کسانوں کو مالے کے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے لئے راغب کیا تھا۔ یہیں سے شروع ہوا لالو حکومت کوجنگل راج کہنے کی تیاری۔رنویر سینا کو ایک طرح سے قتل عام کا لائسنس مل گیاتھا۔ کیوں کہ اس میں اونچی ذ ات اوربھومیہار ذات کے افراد شامل تھے جس کی پکڑ انتظامیہ میں بہت تھی اس لئے ایک منظم منصوبہ بندی تحت نکسلیوں سے بدلہ لینے کے لئے غریب، دلت اور کمزور مسلمانوں کو انتہائی بے دردی سے نشانہ بنایا گیا۔
بہار رنویر سینا کے خونی کھیل اور اس کی ٹیس سے سسک رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس نے 29 اپریل 1995 کو بھوجپور ضلع کے کھوپرا میں پہلی بار قہر برپا کیا تھا۔ اس دن برمیشور کی موجودگی میں رنویرسینا نے 5 دلتوں کا قتل کردیا تھا۔ اس کے تقریبا 3 ماہ بعد رنویرسینا نے بھوجپور ضلع کے ہی سرتھواں گاوٴں میں 25 جولائی 1995 کو 6 افراد کی گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔پھر اسی سال 5 اگست 1995 کو بھوجپور کے نورپور گاوٴں میں حملہ کر 6 افراد کو ہلاک کر دیا۔ اس واقعہ میں رنویرسینا کے درندوں نے گاوٴں سے 4 خواتین کو اغوا کر لیا تھا اور تمام خواتین کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کرنے کے بعد ان کا قتل کر دیا گیا تھا۔ماری گئی ان خواتین میں ایک 13 سال کی بچی بھی شامل تھی۔ پولس ریکارڈ میں آج بھی یہ درج ہے کہ اس بچی کی آبروریزی کسی اور نے نہیں، بلکہ برمیشورمکھیا نے ہی کی تھی۔7 فروری 1996 کو رنویرسینا نے ایک بار پھر بھوجپور ضلع کے چاندی گاوٴں میں حملہ کر 4 افراد کو ہلاک کر دیا۔ پھر 9 مارچ 1996 کو بھوجپور کے ہی پتلپرا میں 3، اور 22 اپریل 1996 کو نونئرنامی گاوٴں میں رنویرسینا نے 5 ‘ 5 مئی 1996 کو ناڑھی نامی گاوٴں میں 3‘ 19 مئی یعنی ٹھیک 14 ویں دن پھر ناڑھی گاوٴں 3 اور لوگوں کے قتل کر دیا تھا۔ 25 مئی 1996 کو رنویر سینانے ادوتنگر کے مورتھ نامی گاوٴں میں 3 افراد کو ہلاک کردیا۔یعنی 29 اپریل 1995 سے لے کر 25 مئی 1996 تک کے درمیان رنویر سینا نے کل 38 لوگوں کے قتل کیا۔اس کے بعد 11 جولائی 1996 کے دن مکمل بہار کانپ اٹھا تھا جب برمیشور مکھیا کی قیادت میں رنویرسینانے بھوجپور ضلع کے بتھانی ٹولہ نامی دلتوں اور پسماندہ مسلمانوں کی بستی پر حملہ کرکے 21 لوگوں کی گردن ریت کر قتل کر دیاتھا۔ اس کے بعد رنویرسینا نے 25 نومبر 1996 کو سیار کے پریارا میں 4، 12 دسمبر 1996 کو پیغام بلاک میں 5، 24 دسمبر 1996 کو سیار کے ایکواری گاوٴں میں 6، اور تاریخ 10 جنوری 1997 کو باگر نامی گاوٴں میں 3 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس طرح بہار میں موت کا رقص کرنے والے رنویرسینا نے صرف بھوجپور ضلع میں کل 77 افراد کو انتہائی بے رحمی سے قتل کیا تھا۔سال 1997 میں رنویرسینانے بھوجپور ضلع کے باہر قدم رکھا اور 31 جنوری 1997 کو جہان آبادکے ماچھل گاوٴں میں 4 دلتوں کا قتل کر دیا۔ اس واقعہ کو انجام دینے کے بعد رنویر سینا کا حوصلہ اس قدر بڑھا کہ اس نے پٹنہ ضلع حیبسپور نامی گاوٴں میں 26 مارچ 1997کو 10 لوگوں کے قتل کر دیا۔ اس کے بعد تاریخ 28 مارچ 1997 کو جہان آباد کے ارول (موجودہ میں ارول ضلع بن چکا ہے) میں 3، بھوجپور کے ایکواری گاوٴں میں 10 اپریل 1997 کو 9 اور بھوجپور ضلع کے نگری گاوٴں میں تاریخ 11 مئی 1997 کو 10 افراد کے قتل رنویرسینا نے قتل کردیا۔ اس کے علاوہ رنویر سینا نے 31 دسمبر 1997 میں ارول کے لکشمن پور باتھے میں 59 افراد کو تہ تیغ کردیا۔اس کے ارول کے ہی شنکر بگہا میں 25 جنوری 1999 کو 23 افراد کا, 10فروری 99 کو جہاں آباد کے نارائن پور میں 12 افراد کا‘گیا کے بیلا گنج سیندانی میں 12 ، 16 جون 2000 کو رنویر سینا نے اورنگ آباد کے گوہ بلاک کے میاں پور گاوٴں میں 33 لوگوں کا اجتماعی قتل کر دیا۔رنویر سینا کی پوری تاریخ قتل و غارت گری سے بھری ہوئی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ برمیشور 9 جولائی 2011 کو رہا کردیا گیا تھا۔ وہ گزشتہ نو سال سے عدالتی حراست میں بند تھا۔ برمیشور سنگھ کو پٹنہ میں 2002 میں گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد سے وہ جیل میں بند تھا۔22 معاملہ میں سے 17 میں رہائی ہو چکی ہے باقی میں ضمانت مل چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنے سنگین کیسوں میں بری کیسے ہوگیا۔ عدالت ثبوت کی بنیاد پرفیصلہ کرتی ہے اور نتیش کمار حکومت نے عدالت کے سامنے کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیاکہ جس کی بنیادپر ان لوگوں کو سخت سزا ملتی۔
بتھانی ٹولہ قتل عام معاملے میں23 ملزموں کی رہائی حکومت بہار کی لاپروائی اور مجرموں کو بچانے کا عندیہ ظاہر کرتا ہے۔ سارے ملزموں کو پٹنہ ہائی کورٹ کا بری کردینا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ حکومت بہار کا منشا مجرموں کو سزا دلانے کی قطعی نہیں تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو حکومت مضبوطی کے ساتھ سزا دلوانے کی کوشش کرتی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ بتھانی ٹولہ قتل عام میں آرا کی ضلع عدالت نے 23ملزموں میں سے تین کو پھانسی اور 20 کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ ظاہر سی بات ہے کہ بہار حکومت عدالت کے سامنے دستاویزات کے مطابق ثبوت پیش نہیں کئے اور عدالت نے بھی پولیس کی لاپروائی پر سخت تنقید کی ہے۔ 11 جولائی 1996 کو رنویرسینانے اس گاوٴں میں دن کے ڈھائی بجے حملہ کیاتھا۔ اس وقت گاوٴں میں صرف عورتیں اور بوڑھے مرد تھے۔ رنویر سینا کے لوگوں نے ایک ایک کر 21 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔قتل عام اٍور درندگی کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں نے 9 ماہ کی ایک معصوم بچی کو ہوا میں اچھال کر اس پر نشانہ لگایا تھا شاعرہ خاتون نامی ایک عورت کی سرعام اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ایک خاتون کا چھاتی کاٹ لیا گیا۔رنویر سینا کی بربریت پر ہندی کے مشہور ادیب اور جے ڈی یو سے بہار اسمبلی کے رکن پریم کمار منی نے ایک خط وزیر اعلی کو لکھا تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ بہت دکھ کے ساتھ اور تقریبا تین ماہ کی مخمصے کے بعد یہ خط لکھ رہا ہوں۔ جب آدمی اقتدار میں ہوتا ہے، تب اس کا چال کردار سب بدل جاتا ہے۔آپ کے رویے سے مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوئی۔دراصل بہار میں رنویر سیناکی زمینی فوج کی سماجی طاقتیں راج کر رہی ہیں۔آپ بتائیں گے؟ آپ بہار کی ترقی میں خرچ کی گئی رقم کی تفصیلات دیجئے۔میں دو منٹ میں بتا دوں گا کہ اس کی کتنی رقم رنویر سینا کے پیٹ میں گئی ہے۔رنویر کا سربراہ برمیشور سنگھ کھلے عام کہا کرتا تھا انہوں نے دلتوں اور پسماندہ طبقات کے بچوں کو مار کر اس نے اور اس کے ساتھیوں نے کوئی غلطی نہیں کی، آخر بڑے ہوکر پر وہ نکسلی ہی بنتے۔دلت اورپسماندہ خواتین جن مسلم خواتین بھی شامل ہیں ۔ اس درندے ایک وحشیانہ فرمان بھی دیکھئے ۔ خواتین کی آبروریزی کر کے انہیں جان سے مار دینے والے اس وحشی درندے کا کہنا تھا کہ یہ خواتین نکسلیوں کو جنم دیتی ہیں، اس لئے ان کا مارا جانا ضروری ہے۔ ایسے درندے کی عدالت سے رہائی کا تصور کسی اور ملک میں نہیں کیا جاسکتا۔یہ صرف ہندوستان اور خاص طور پر بی جے پی حکمرانی والی ریاست میں ہی ممکن ہے۔ جہاں سے سارے قوانین اور ضابطے پیلیا کے شکار ہوجاتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں گوامیں بی جے پی کے اقتدار سنبھالتے ہی مسلمانوں کے خلاف فساد برپاکرنے والے تمام بی جے پی کارکنوں اور سیاست دانوں کو عدالت نے بری کردیا۔ بی جے پی کی حکومت کا مطلب کا اقلیتوں اورپسماند طبقوں کا خون ہے کیوں کہ بی جے پی کے ضابطے میں غیر اعلانیہ طور پر ان لوگوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہیں۔
درحقیقت رنویر سینا کے افراد کو بری کرنے کی تیاری نتیش کمار نے اسی دن شروع کردی تھی کہ جب رنویر سینا کے سیاسی تعلقات اور اس کے حقائق کیلئے قائم امیر داس کمیشن کو انہوں نے جنوری 2006 میں تحلیل کردیا تھا جب وہ رپورٹ پیش کرنے والا تھا ۔ اس کمیشن کی تشکیل اس وقت کے آر جے ڈی حکومت نے رنویر سینا کے سیاہ کارناموں کو اجاگر کرنے کے لئے قائم کیا تھا۔ کمیشن کے سربراہ جسٹس امیرداس نے اعتراف کہ ان کی جانب سے ساری کارروائی مکمل ہو چکی تھی، صرف رپورٹ پیش کرناہی باقی رہ گیا تھا لیکن اس سے پہلے کہ رنویر سینا کے خونی کھیل کا سیاہ سچ لوگوں کے سامنے آ پاتا، نتیش کمار نے اس کمیشن کو ہی تحلیل کر دیا۔سوال یہ ہے کہ آخر نتیش کمار نے کمیشن کو تحلیل کیوں کیا تھا۔ کمیشن کو تحلیل کرکے انہوں نے رنویر سینا کی حمایت ،بچانے اور اسے تحفظ فراہم کرنے کا کام نہیں کیا؟۔بتھانی ٹولہ قتل عام اور رنویر سینا کے سربراہ کی رہائی اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ بہار میں کمزور طبقوں کے لئے حصول انصاف کتنا مشکل کام ہے۔ یہ قانون کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ بہار میں تین سو دلتوں اور پسماندہ طبقات کے افراد کے قتل عام کے لئے ذمہ دار رنویر سینا اور اس کے سربراہ برمیشورمکھیا کی رہائی حکومت بہار کی منشا کو صاف ظاہر کرتی ہے وہ انصاف کے تئیں کتنا مخلص ہے۔حیرانی کی بات ہے کہ300 لوگوں کے قتل کرنے والوں کے خلاف بہار حکومت کوئی ثبوت نہیں ڈھونڈ سکی۔قانون کے کئی ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ حکومت نے اپنی طرف سے برمیشور مکھیا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔حکومت کا عزم اس بات ظاہر ہوتا ہے کہ 2006 سے وہ بہار کے مختلف جیلوں میں سرکاری مہمان کے طور پر رہ رہا تھا۔ دلتوں اور پسماندہ طبقات کا خون پینے والے اس خونی بھیڑیے کو بہار حکومت کی طرف سے وہ ہر سہولت حاصل تھی، جو ایک سیاسی قیدی کو ملتا ہے۔
نتیش کمار حکومت کبھی بھی مظلوں کو انصاف دلانے میں حساس نہیں رہی ۔ انہوں نے ہمیشہ ظالموں کی پشت پناہی اور اسے سہولت فراہم کی ہے۔ گودھرا ًٹرین حادثہ کے وقت جب وہ ریلوے کے وزیر تھے اس کاسچ کبھی سامنے نہیں آنے دیا۔ جب سے انہوں نے بہار میں اقتدار سنبھالا ہے مسلمانوں اور کمزور طبقوں کے خلاف مظالم میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔ اس وقت بہار میں مسلمانوں کی نہ تو عزت محفوظ ہے، نہ ان کی عبادت گاہیں محفوظ ہیں اور ان کے مفادات ۔ فاربس گج پولیس فائرنگ کے معاملے میں لاش پر کودنے والا ہوم گارڈ کے جوان سنیل یادو کو چار مہینے کے اندر ضمانت مل گئی جب کہ ان پر 302 کے تحت مقدمہ درج تھا،کیا کسی مسلمان کے ساتھ ایسا ہوسکتا ہے؟۔ بتھانی ٹولہ قتل کیس میں بری کئے جانے ملزموں کے خلاف گرچہ حکومت بہار نے سپریم کورٹ میں جانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ آخر سب کے سب بری کیسے ہوگئے؟۔ حکومت بہار پٹنہ ہائی کورٹ میں اس کی پیروی موثر طریقے سے کیوں نہیں کی؟۔ بی جے پی کھلکررنویر سینا کی حمائت میں آگئی ہے ۔اس کے دہشت گرد قہر برپا کرتے رہے لیکن وہ پولیس کی پہنچ سے وہ ہمیشہ دور کیوں رہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ حکومت کا رویہ رنویر سینا کے تئیں ہمیشہ ہمدردانہ رہا۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ جب پولیس رنویر سینا کے خلاف کارروائی کرنے جاتی انہیں کچھ پولیس افسران اور سیاست داں ہی پہلے انہیں خبردار کردیتے اور وہ آسانی سے اپنا ٹھکانہ بدل لیتے تھے۔ بہار آج قتل، اغوا، ڈکیٹی، لوٹ مار، آبروریز اور دیگر جرائم کے واقعات سے دوچار ہے لیکن فرق یہ ہے کہ یہ بات میڈیا میں جگہ نہیں بناپاتی۔ برہمن اور اونچی ذات کا میڈیا اس طرح کے واقعات کو سرد خانے میں ڈال دیتا ہے۔ میڈیا کو خرید کر شہرت تو حاصل کی جاسکتی ہے لیکن اچھی حکمرانی نہیں کی جاسکتی ۔کیا بہار حکومت بھی گجرات کے راستے پرچل پڑی ہے؟۔
ڈی۔ 64 فلیٹ نمبر 10,ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی ۔ 25
abidanwaruni@gmail.com