مسلم لیگ ن سے عوام کو توقع تھی کہ ان سے انسانوں والا سلوک کرے گی۔ یہاں تو صورت حال سوچ کے برعکس عوام اگے اگے ہیں اور شیر پیچھے ہے۔ بجٹ میں توقع کی جارہی تھی کہ غریب عوام کے مسائل کا احاطہ کرنے اور انہیں اس گرداب سے نکالنے کی سبیل کی جائے گی۔ ڈار صاحب نے عوام کو پھر کڑوی گولی کھانے کے سبیل مشورہ سے نواز کر میاں نواز شریف کی مقبولیت کو کڑواہٹ دی ہے۔ کون سا معاشی فارمولا ہے جس کے تحت ڈیزل اور پیڑول کے ساتھ جنرل سیلز ٹیکس بڑھا دینے کے بعد قیمتوں میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اس سے اشیاء ضروریہ کی غریب عوام کوفراہمی میں کوئی تعطل نہیں پڑتا ۔ عام سا اکنامکس کا فارمولا ہے کہ جب طلب بڑھتی ہے تو رسد بڑھ جاتی ہے۔اس رسد کی کمی کی آڑ میں اس کی قیمت میں اضافہ کرنے والے ذخیرہ اندوز ہوتے ہیں ۔ اجارہ دار کمپنیاں اسی فارمولے کو استعمال کرکے اپنی پروڈکٹس کی مصنوعی قلت پیدا کر کے ان کی قیمتوں میں اضافہ کر تی ہیں۔ تمام اشیاء کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹرانسپورٹ سے منتقل کیا جاتا ہے جس سے اس کی منتقلی کے اخراجات میں لا محالہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ ٹیکس میں اضافہ سے بھی یہی صورتحال ہے ۔ غریب عوام پہلے ہی مہنگائی سے تنگ ہیں تو ان پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ عوامی فلاح کے عنصر سے مطابقت نہیں رکھتا۔ عوامی بنیادی اشیاء ضروریہ کے سوا کئی اور ذرائع ایسے ہو سکتے ہیں جن سے عوام کو متاثر کیے بغیر خزانے کیلئے رقوم اکھٹی کی جا سکتی ہیں۔ اس میں سب سے اہم ترین چیز اکابرین پر غیر پیداواری اخراجات کی کٹوتی ہے۔ اکابرین کی سیکورٹی اور ان کو حاصل غیر ضروری اور غیر مساوی پروٹوکول کے اخراجات سے بچت کر کے خزانے کے ضیاع کو روک کر خزانہ بھرا جا سکتاہے۔ وزیر اعظم ہائوس پر اربوں روپے کے اخراجات اور اسی طرح صدارتی محل پر ہونے والے اربوں روپے کے اخراجات اس ضمن میں اہم ترین ہیں۔ اسی طرح وزرا ء اور مشیران کو حاصل مراعات اور ان پر اخراجات کو کیوں مقدس قرار دے کر انہیں نہیں چھیڑا جاتا ۔ ڈیزل اور پیڑول کے ساتھ ایک دم بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ سے عوام پر براہ راست بوجھ پڑتا ہے۔ اس بنیادی نقطہ کو کیوں نظرانداز کیا جاتا ہے۔ شیر اور گدھے والا لطیفہ نہ بن جائے ۔ گدھے کی باری آگئی تو پھر شیر کی آنکھیں باہر آ جائیں گی۔ اتنا ہی تنک کیا جائے جتنا کہ برداشت ہوسکے۔ مسلم لیگ ن اپنے منشور میں کہتی ہے کہ وہ ٹیکس کی شرع میں اضافہ نہیں کرے گی لیکن جب بجٹ کی باری آتی ہے تو ٹیکسوں کی شرع میں بھی اضافہ کر دیا جاتا ہے اور نئے ٹیکس بھی لگا دیئے جاتے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن پر ٹیکس تعلیم کے نعرے میں عدم مساوات کی نشاندہی کے ساتھ غریب کو اگے بڑھنے سے روکنے کی تمنا کا عکاس ہے۔ جو متوسط طبقہ کے شرفاء اپنے بچوں کو پیٹ کاٹ کر تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں پر یہ اضافی بوجھ ڈار صاحب کو یا میاں صاحب کو محسوس نہیں ہو سکتا۔ اس درد اور اس بوجھ کو محسوس کرنے کیلئے اسی طبقہ میں ہونا بنیادی شرط ہے۔ غریب کے درد کو ارب پتی کروڑ پتی کیسے محسوس کر سکتا ہے جبکہ اسے آٹے دال کے بھائو کی فکر ہی نہیں۔ چھوٹے موٹے اخراجات کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ ٹیکسوں میں اضافے کے بعد غریب کا بجٹ کیسے ہوجاتا ہے یہ نکتہ کوئی سمجھا سکتاہے۔ جو ٹیکس غریب سے روٹی کا نوالہ چھین لینے والے اقدامات کے بعد غریب سے ہمدردی اور غریب پروری کے دعویٰ کو منافقت کے سواکیا نام دیا جانا چاہیے۔ مائیکرو اکانومی کا اس کھلے ڈلے معاشرے سے کیا میل ہے۔ سوائے اس کے غریب کیلئے معاشی حالات اس قدر تنگ کر دئیے جائیں کہ وہ خوردبین سے معاش کو تلاش کرتا پھرے ۔پہلے خوردبین تلاش کرے اور اس کے بعد معاش تلاش کرے اس طرح اس کی زندگی تلاش میں ہی بسر ہو جائے۔ عوام کیلئے آسانی پیدا کرنے کی بجائے اس کے رستے میں مزید کانٹے بچھانے کے بعد یہ کہنا کہ ہم نے تو آپ پر رحم کرتے ہوئے تھوڑے کانٹے بچھائے ہیں انسانیت کی معراج ہی ہے۔ چنگیزخان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو زندگی میں کبھی رحم بھی آیا ۔ اس نے کہا ہاں ایک دفعہ ایک عورت کا بچہ ڈوب رہا تھا تو اس کی آہ وبکا سے میرا دل پسیجا اور میں نے گھوڑے کو ایڑ لگائی دریا میں بہتے بچے کو اپنے نیزے کی انی سے اٹھا یا اور اس کی ماں کی آغوش میں ڈال دیا۔ اس نیم مردہ قوم میں معاشی کمزوری نے کئی ایسے خم پیدا کر دئیے ہیں جس سے انسانیت کو بھی شرمندگی ہوتی ہے۔ غیرت وحمیت کا جو عنصر ہمیں اجداد سے ورثہ میں ملا ہے اسے معاشی کمزوری کے سبب ہم نے اٹھانا گوارا ہی نہیں کیا۔ ہم سے تواب کپڑوں کابوجھ نہیں اٹھایا جاتا کوشش ہوتی ہے کہ کہ جتنے کم کپڑے ہوں بہتر ہے۔ کچھ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو کچھ سے حیا کا بوجھ اٹھایا نہیں جاتا ۔ بیشک معاشی مجبوریاں آڑے آتی ہیں لیکن بوجھ صرف عوام کیلئے ہی کیوں ؟ کڑوی گولی عوام کا ہردفعہ مقدر ہی کیوں۔ غیرت کی گولی کب اکابرین کا نصیب ہوگی۔ حمیت شرافت دیانت اور وفا کی خوراک انہیں کب اور کون دے گا۔ غریب کا مقدر غربت ہے اور وہ اس کا مقدر کرنے والوں کا احتساب کون کرے گا۔جاگیروں پر جاگیریں بنانے والے اور فیکٹریوں پر کارخانے بنانے والوں سے اگر ٹیکس لیا جائے تو کیا مانع ہے۔ جی ایس ٹی عوام سے وصول کیا جا رہا ہے اس کی شرع کیا ہے اور لیکژری کاروں کی درآمد پر چھوٹ کس لیے۔ عوام کو دینے کیلئے حکومت کے پاس کچھ نہیں لیکن امیروں کو دینے کیلئے مراعات اور چھوٹ ہے۔ ہائی برڈ کاروں کی درآمد کی اجازت دی جا سکتی ہے تو تعلیم پر ٹیکس لگاتے ہوئے ذرا بھی دل میں کوئی ملال نہیں آتا۔ آٹا چینی دال کے بھائو بڑھاتے ہوئے دل گرفتگی محسوس نہیں ہوت
ی۔ اس لیے کہ آپ تو ویسے ہی ڈبل روٹی کا مشورہ دینے والوں کی تقلید کو اہمیت دیتے ہیں۔ عوام سے متعلقہ اشیاضروریہ کے نرخوں میں اضافے سے معکوس ہر طرح کے عوامل سے گریز ہی حقیقی عوامی گورنمنٹ کا وطیرہ و طرز فکر ہونا چاہیے ۔ بجٹ تجاویز پر دوبارہ غور کیا جائے اور ان میں ایسے اقدامات واپس لیے جائیں جو عوام کے مسائل کی دلدل کو مزید گہرا بنا نے کا سبب بنیں گے ۔ حکومت کو ریونیو اکھٹا کرنے کیلئے دولت کا ارتکاز جس طرف زیادہ ہے پر بھروسہ اورتکیہ کرنا چاہیے ۔ نا کہ جس کے پاس ایک روپیہ ہے وہ بھی لے کر جس کے پاس ننانوے ہیں دے کر اس کے سو پورے کرنے چاہیں۔ پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے کے اصول کے تحت پیسے والوں کو ہی مراعات اور دولت اکٹھا کرنے کا حق دینا غیر مساوی تقسیم اور ناانصافی پر مبنی حکمرانی کا طرز عمل ہوگا۔ جس کے پاس بہتات ہے اس سے لے کر انہیں دیا جائے جن کے پاس کچھ نہیں۔ یہ فلاحی اور بہبودی سوچ کی ترجمانی اور عدل وانصاف کی حکمرانی کا طرز فکر اور عکاس عمل ہے۔ صر ف داڑھی رکھ لینے سے اور تسبیح کے دانے گھمانے سے سارے حقوق ادا نہیں ہوجاتے ۔ حکمرانی معمولی بات نہیں عادل حکمران کا مقام بہت بلند ہے۔ عوام پر مزید بوجھ ڈال کر عدل کے منافی عمل سے اللہ کی ناراضگی مول لی جا ئی گی۔ قدرت پھر ناراضگی کا صلہ سیلاب زلزلوں قحط جیسی آفات سے دیتی ہے۔ اس میں بھی مرے گا تو غریب ہی لیکن پھر دکھلاوے کیلئے بھگانا بہت پڑے گا۔ عوام کو مسلم لیگ کی حکومت سے بہت توقعات وابستہ ہیں ۔ ان کی توقعات پر پورا اترنے کیلئے تھوڑی قربانی حکومت کو بھی دینا چاہیے۔ کڑوی گولیاں عوام کیلئے ہی نہیں ہونی چاہیں ان کی کچھ مقدار ذخیرہ اندوزوں اور ارتکاز دولت کے اصل مراکز کوبھی دی جانی چاہیے۔