بد عنوانی کے خلاف مہم
انا کی ضد حکومت کی مجبوری اور اپوزیشن کا دوہرا رویہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندستان سے بد عنوانی ختم ہوجائے تو یہ ملک بہت جلد ترقی کے منازل طے کر سکتا ہے اور دنیا میں یہ ملک کئی اور اعتبار سے اپنا نام و نمود ثبت کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے ۔ آج ہندستان کی ہمہ جہت ترقی میں جو سب سے زیادہ رکاوٹیں حائل ہیں وہ در اصل ہندستان کئے نظام میں موجود بد عنوانیاں ہی بنیادی رکاوٹیں ہیں ۔ شاید 20 سے 30 فیصد کام بغیر کسی سفارش ، رشوت یا اثر کے ہوتا ہو۔ ایسی صورت میں اس کا بھی امکان ہے کہ کرپشن کا یہ نظام آہستہ آہستہ اپنا پیر پھیلاتا جائے اور بد عنوانی ہی ملک میں سکہ رائج الوقت بن جائے ۔ اس کا امکان زیدہ تھا لیکن شکر ہے کہ کچھ برسوں پہلے Right to information act ( معلومات حاصل کرنے کے حق کا قانون) کے لاگو ہوجانے سے بہت سے معاملات میں اس ایکٹ نے نکیل کا کام کیا ہے۔ آج ملک کے بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے دفتروں کا حال یہ ہے کہ وہ آر ٹی آئی سے ڈرتے ہیںٕ اور تمام رجسٹر سے لے کر کاغذات کو محفوظ اور درست رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس نظام سے بہت نمایا ں طور پر کرپشن اور جعل سازی جیسے معاملوں پر نگہداشت ہوئی ہے۔
لیکن دوسری جانب اسی نظام کا غلط استعمال بھی ہو رہا ہے اور خوب ہو رہا ہے، اکثر دفتروں کی شکایت یہ ہےکہ وہ روز مرہ کے کاموں کے بجائے غیر ضروری نوعیت کے آر ٹی آئی کے جوابات کی تیاری میں لگے رہتے ہیں ۔ چونکہ آر ٹی آئی کے قوانین اتنے سخت ہیں کہ ہر حال میں وقت مقررہ پر جواب دینا ہوتا ہے ، اس لیے اب لوگوں نے اس کو کسی کو ستانے کا ہتھیار بھی بنا لیا ہے۔ اور کسی کو بلاوجہ پریشان کرنے کے لیے آر ٹی آئی کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آر ٹی آئی نے نئی مصیبتیں کھڑی کر دی ہیں ، یہ ضرور ہے کہ کسی بھی چیز کا اگر غلط استعمال ہو تو اس کے لیے لوگوں کی ذہنیت ذمہ دار ہوتی ہے نہ کہ وہ قانون اور نظام ذمہ دار ہوتا ہے ۔
اسی طرح اب یہ سوالات بھی اٹھنے لگے ہیں کہ کہیں لوک پال بل کے بعد بھی صورت حال کچھ اس سے مختلف نہ ہوجائے ۔کیونکہ ہندستان میں یوں تو ایک مضبوط جمہوری ملک ہونے کے ناطے ہر طرح کا قانون اور اصول ہے ۔ یہاں تک کہ کرپشن کے حوالے سے بھی کئی طرح کے ضوابط موجود ہیں اسی لیے تو بہت وزیر اور سابق وزیر اور سیاست دانوں کا مواخذہ کیا جا رہا ہے ۔ ایسا نہیںٕ ہے کہ اس طر ح کا ملک میں قانون نہیں ہے قانون ہے مگر اس کو اور مضبوط کرنے کا ارداہ ہے ۔ لیکن جس انداز سے ابھی لوک پال بل کے لیے لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے وہ بھی غلط ہے۔حیرت یہ ہے کہ انا ہزارے کے ساتھ جڑے ہوئے لوگ دیکھنے میں ذی ہوش لگتے ہیں لیکن جس طرح حکومت کے ساتھ معاملات کر رہے ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ یہ حکومت کا استحصال کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ہندستان میں پارلیامنٹ کےمضبوط ہونے کے سبب ہی اس ملک کو عالمی سطح پر ایک خاص مقام ملا ہوا ہے۔ ہندستان کے کئی دشمن ممالک چاہتے ہیں کہ ہندستان کی جمہوریت کمزور رہے ۔ اور ابھی انا ہزارے اور ان کے ساتھی جو کچھ کر رہے ہیںٕ وہ درا صل اسی سمت میں ایک قدم ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ پارلیمینٹ کی بالادستی قائم نہ رہے اور پارلیمنٹ کےبجائے ان کی ہٹ دھرمی چلے۔ ہندستان میں ایک ارب پچیس کروڑ لوگ رہتے ہیں اور انا ہزارے کے انشن میں مشکل سے ایک لاکھ لوگ شامل ہیں ۔ اور یہ تعداد پورے ملک میں ہو رہے احتجاج کو دیکھ لگایا جا رہا ہے ۔اس لیے انا اور ان کے ساتھیوں کو اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ پورے ملک کے لوگوں کا سپورٹ حاصل کررہے ہیں۔ اگر حکومت نے اس احتجاج کو دیکھ کر اس کےجھک گئی تو یہی آنے والے دنوں میں بڑی مشکلوں کا سامنہ کرے گی۔
اگر کل لاکھ دو لاکھ طلبہ و طالبات ہندستان میں ریزرویشن کی مخالفت میں بیٹھ جائیں تو کیا ان کی انشن کی وجہ سے ریرزویشن کے قانون کو بدل دیا جائے گا۔یا اسی طرح کسی بھی مسئلے کو لے کر اگر کوئی ٹیم یا جماعت کوئی احتجاج یا دھرنا پردرشن کرتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے حکومت خود جکو بچانے کے لیے عوامی دباو کے سامنے بے بس ہوجائے۔
اس احتجاج میں ایک بات اور قابل غور ہے کہ تمام مخالف پارٹیاں ایسے نازک وقت میں ملک کی سالمیت ، بھلائی اور ملک کے مفاد کے بجائے اپنی پارٹی کے مفاد کو دیکھ رہے ہیں ۔ حیرت ہے کہ اپوزیشن میں بیٹھی بی جے پی ایسی گھناونی حرکت کرے گے اس کی امید ایک اپوزیشن پارٹی سے نہیں تھی ۔ ایک طرف وہ انا ہزارے کےساتھ گول مول باتیں کرتی رہی اور جب انا نے پوچھا تو حکومت کے ڈرافٹ کو کمزور بتا کر اسے خارض کر دیا ۔ اور عوام کے سامنے انا کے ڈرافٹ کو ماننے پر زور دیا ہے ۔ لیکن جب وہ بحث کی منزل میں ہوں گے تو وہ بھی ویسا ہی ڈرافٹ قبول کریں گے یا اس کو پاس کرنے کے حق میں ووٹ دیں گے جیسا ابھی حکومت کے پاس ہے ۔ لیکن صرف سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے یہ پارٹی اپنے دوہرے رویے کو پیش کر رہی ہے۔ایسے نازک موڑ پر اگر اپوزیشن پارٹی ملک کے مفاد کو سامنے نہیں رکھےت تو سب سے زیادہ مذموم وہی پارٹی ہے۔ اسی طرح ملک کی دوسری پارٹیاں بھی دوہرا رویہ اختیار کر کے اس احتجاج کو اور پیچیدہ بنا رہے ہیں ۔اگر اس وقت انا اور ان کی ٹیم جو خود ساختہ ٹیم ہے اس کوکسی نے منتخب نہیں کیا ہے اور نہ اس ٹیم کو کوئی آئینی جواز حاصل ہے ، کی اگر پوری بات مان لی گئی تو پھر اس ملک سے پارلیمنٹ کی بالادستی ختم ہوجائے گی ۔ کل کو کوئی بھی اپنی قومیت یا علاقے کے ساتھ آمرن انشن پر بیٹھے گا اور حکومت جھک جائے گی۔
انا اور اس کی ٹیم جو کررہے ہیں اس کو عوامی سپورٹ صرف اس لیے حاصل ہے کہ عوام اس ملک میں ہونے والے گھوٹالوں اور بد عنوانیوں سے پریشان ہے ۔ اس لیے عوام دراصل کسی چہرے کے پیچھے بلکہ ایک کاز کے لیے انا کے ساتھ کھڑی ہے ۔لیکن یہ ہمیشہ نہیں ہوگا ۔ابھی عوامی غم وغصے کی وجہ سے اتفاقیہ انا کو سپورٹ مل گیا ہے تو انھیں چاہیے کہ اس کا مثبت فائدہ اٹھا کر حکومت سے کچھ بہتر کام کرا لیں ۔لیکن جس انداز سے ان کی ٹیم کے لوگ کام کر رہے ہیں اس سےتو یہی اندازہ ہورہا ہے کہ وہ بدعنوانی کے خلاف کم اور موجودہ حکومت کے خلاف زیادہ سر گرم ہیں ۔کچھ لوگوں نے تو یہ بھجی الزام لگایا ہے کہ ملک کی اپوزیشن پارٹی بی جے پی اور آر ایس ایس ان کی فنڈنگ کر رہی ہے اور یہ لوگ کانگریس کو کمزور کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ انا ہزارے تو معصوم لگتے ہیں لیکن ان کو مہرہ بنا کر کیجری وال اور بھوشن جیسے لوگ اپنے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں ۔ ملک کے عوام کو اس بات کو بھی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ شاید اسی لیے والے انا ہزارے کی ٹیم میں پھوٹ پڑگئی ہے،ان کے کچھ ساتھیوں کا کہنا ہے کہ بھوک ہڑتال ختم ہوجانی چاہیے،دوسری طرف وزیرقانون نے احتساب بل پر جلد کسی سمجھوتے کا اشارہ دیا ہے،کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والے چوہتر سالہ سماجی رہنمااناہزارے کی بھوک ہڑتال آج چودھویں روز میں داخل ہوگئی ہے،لیکن اس کے ساتھ ہی ان کی ٹیم میں اختلافات بھی شدت سے ابھر کر سامنے آئے ہیں،ان کے قریبی ساتھی جسٹس سنتوش ہیگڑے کا کہنا ہے کہ وہ اب کرپشن کے خلاف تحریک کا حصہ نہیں ہیں،انا کی ٹیم کے ایک اور ساتھی سوامی اکنی ویش کو حیرت ہے کہ تحریک کیا رخ اختیار کرگئی ہے،سوامی نے بھی اپنی لاتعلقی ظاہر کردی ہے،دوسری طرف لوک سبھا میں آج لوک پال بل کے ان تین نکات پر بحث کی جائے گی جن پر انا کی ٹیم نے زور دیا تھا، وزیرقانون سلمان خورشید انا کی ٹیم سے مذاکرات کررہے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ جلد اس مسئلے کا کوئی حل سامنے آجائے گا۔ لیکن وہ جس بات کو بار بار کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ ایسی بات ہے جو راتوں رات مانی نہیں جاسکتی بلکہ اس کے لیے ایک وقت در کار ہے لیکن حکومت کی اس بات کو نہ یہ سمجھ رہے ہیں اور نہ اپوزیشن سمجھ رہی ہے ۔ آج انا کی ضد اور اس کی ٹیم کی انا پسندی کے آگے اگر حکومت جھکتی ہے تو اس کے دوررس منفی اثرات مرتب ہوں گے۔اس لیے وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے ہی کوئی فیصلہ لیا جائے تاکہ ملک سے کرپشن بھی ختم ہو اور ملک ترقی بھی کر سکے۔