Home / Socio-political / برما سانحہ: جس نے حقوق انسانی کی پامالی کی بدترین تاریخ مرتب کی

برما سانحہ: جس نے حقوق انسانی کی پامالی کی بدترین تاریخ مرتب کی

برما سانحہ: جس نے حقوق انسانی کی پامالی کی بدترین تاریخ مرتب کی

غلام مصطفی رضوی، مالیگاؤں

                اسلام نے امن و اخوت کا وہ اعلیٰ معیار دنیا کو دیا کہ جس کے نتیجے میں انسانیت کی داد رسی ہوئی۔ قرآن مقدس اور نبی مکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعلیمات کا مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔اور جس نے ایک جان کو جِلا لیا اس نے گویا پوری انسانیت کو جِلا لیا۔ اسی جہت سے ہم دیکھتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعلیمات نے نصف صدی کے اندر ہی دنیا کے بیش تر براعظموں کو اسلام کی کرنوں سے معمور کر دیا۔ یہی مقبولیت اسلام دشمن عناصر کو نہیں بھائی اور ان لوگوں نے اسلام کے خلاف وہ وہ سازشیں کیں جن سے دنیا نے کئی ایک خونین واقعے جھیلے۔ کبھی خونِ مسلم کی ندیاں بہائی گئیں۔ بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی۔ سسلی کا سہاگ لوٹا گیا، غرناطہ کو خاک و خوں میں تڑپایا گیا۔ کبھی سائبریا اور کبھی افریقہ میں خونِ مسلم سے ہولی کھیلی گئی۔ امریکہ اور برطانیہ نیز ان کے اتحادیوں نے مل کر عراق وافغاں کو تاراج کیا۔ گجرات میں فرقہ پرستوں نے وہ ننگا ناچ ناچا جس کی مثال نہیں ملتی۔

                اسی سلسلے کو بدھشٹ دہشت گردوں نے آگے بڑھاتے ہوئے برمی قبائلی مسلمانوں کا قتلِ عام کر کے گزشتہ ایک صدیوں میں رونما ہونے والے تمام انسانیت کش اقدامات کو شرما دیا۔ برما کا دل دوز سانحہ کچھ نیا نہ تھا، خونِ مسلم بہانے کا یہ سلسلہ وہاں ایک صدی سے زائد مدت سے دراز ہے لیکن اب یہ انسانیت کی قبا تار تار کرنے کا دورِ عروج ہے۔ جن لوگوں نے انٹرنیٹ پر برمی بدھشٹوں کے مظالم کی کلپ دیکھی ہے وہ یہ جانتے ہیں کہ تاریخ انسانی کا یہ بدترین حادثہ ہے جس کا اختتام نہ جانے کب ہو گا؟ عالمی برادری اس سانحہ پر مجرمانہ کردار ادا کر رہی ہے۔ کیا ہزاروں انسانی جانوں کی اس لیے قدر نہیں کہ وہ ’مسلمان‘ہیں؟ کیا مسلمان ’انسان‘ نہیں ہوتے؟ کیا انسانی حقوق کا دم بھرنے والوں کے نزدیک بدھشٹ دہشت گردوں کے مظالم درست ہیں؟ کہاں گئے انسانیت کی دوہائی دینے والے؟ وہ جو محض شک کی بنیاد پر اور جھوٹے الزام کے تحت عراق و افغانستان کو بمباری کر کے تباہ کر رہے تھے وہ اب عالمی اتحاد قائم کر کے برما کے دہشت گردوں پر اٹیک کیوں نہیں کر رہے، وہ اس موضوع پر اپنی فوج و سپاہ وہاں نہیں بھیجتے جو وہاں جا کر قیامِ امن کے لیے کدوکاوش کرے۔

                تصویر کا دوسرا رُخ بڑا مکروہ ہے۔ یورپی اتحاد نے افغان و عراق میں تو لاکھوں مسلمانوں کو خانماں برباد کر دیا لیکن ان کے مقابل مسلمانوں کے تحفظ کے لیے عرب اتحاد سامنے نہیں آیا۔ عربوں میں غیرتِ دیں نہیں، انھیں اسلام کا پاس نہیں، انھیں انسانیت کا لحاظ نہیں، انھیں اپنا عیش عزیز ہے، مسلمانوں کے مرکز مدینہ منورہ و مکہ معظمہ کے بادشاہ کبھی مسلم حقوق کی پامالی کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے، وہ کبھی مسلمانوں کے زخموں پر مرہم نہیں رکھتے، ساری دنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے لیکن انھیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ برما کے مسلمانوں کے لیے اب تک سعودی عرب نے کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ حالاں کہ یہ آواز اٹھانے کا نہیں عمل کا وقت ہے۔ جس طرح یورپی ’اتحادیوں‘ نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجائی سعودی کو چاہیے تھا کہ عرب’اتحادیوں‘کی فوج بناتا اور برما کے دہشت گردوں سے بہ زور قوت نمٹ کر زمیں کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کر کے انسانیت کو زندہ کرتا، لیکن! عرب تو خود اسرائیل و امریکہ اور یورپی قوتوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ ان کی اپنی فوج نہیں، وہ حرمین کے تحفظ کے لیے ایٹمی اسلحے نہیں بناتے، اسرائیل ’گریٹ اسرائیل‘کا منصوبہ بناتا ہے، اپنے نقشے میں حرمین کو بھی شامل دکھاتا ہے اس کے باوجود سعودی کے عیاش بادشاہ حرمین کی حفاظت کے لیے امریکہ کو نکال باہر نہیں کرتے،امریکہ وہی ہے جس کے فوجی مرکز کے نصاب میں حرمین کی مخالفت میں مضامین درس دیئے جاتے ہیں،عرب بادشاہ اپنی دفاعی قوت کو مستحکم کرنے کے لیے مسلم سائنس دانوں کو متحرک نہیں کرتے،اگر ان کی اپنی قوت ہوتی تو برما میں دہشت گرد اس قدر جری نہیں ہوتے، انھیں خدشہ ہوتا کہ سعودی کہیں مسلمانوں کے حقوق کے لیے اٹھ کھڑا نہ ہوجائے۔اس سے مختلف صورت حال پاکستان و بنگلہ دیش کی نہیں! انھیں چاہیے تھا کہ عالمی برادری کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر برما میں مسلم نسل کشی بند کرواتے! یہ امریکہ سے کہتے کہ طالبان دہشت گردوں کے خاتمہ میں ہم نے تمھاراساتھ دیا، برما کے دہشت گردوں کے خاتمہ میں تم ہمارا ساتھ دو۔اپنی فوج بھیجو تا کہ انسانی اقدار( Human Values)کو بچایا جا سکے۔

                ہمارے ملک ہندستان نے ہر دور میں انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ فلسطین پر قبضہ کر کے اسی کے ایک حصے کو اسرائیل نام دیا گیا تھا تب ہندستان نے فلسطینیوں کی حمایت کر کے یہودی دہشت گردی کی مخالفت کی تھی۔ لیکن اب تک ہندستان نے برما ایشو پر کوئی سخت ایکشن نہیں لیا، ساری دنیا ہندستان سے یہ توقع رکھتی ہے کہ یہاں حقیقی جمہوری اقدار کا لحاظ رکھا جاتا ہے لیکن بدھشٹ دہشت گردوں کے خلاف آواز نہ اٹھا کر ہندستان نے بھی اپنی امیج مشتبہ کر لی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں ملک کے وزیر اعظم سے کہ وہ اب آواز اٹھائیں گے اور برما کے مظلومین کی حمایت میں عالمی رائے عامہ ہم وار کر کے انسانی حقوق کے دعویداروں کو مجرمانہ غفلت سے بیدار کریں گے۔

                مسلمانوں نے دنیا کے کسی بھی خطے میں ہونے والی دہشت گردی کی کھل کر مذمت کی۔ طالبانیوں کے تشدد کے خلاف مسلمانوں نے بھی آواز اٹھائی بلکہ مسلم رہبرانِ قوم(مفتیان کرام) نے باضابطہ فتوے جاری کر کے تشدد کو روک لگایا۔ اسی طرح بن لادن کے خودساختہ جہاد (جس کا اصل اسلام سے کوئی تعلق نہیں) کی مذمت میں بھی ساری دنیا کے مسلمان سینہ سپر رہے۔ اسی طرح جب 11/9کا سانحہ سامنے آیا تو کھل کر مسلمانوں نے اس کی مذمت کی۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ برما کے خونین واقعہ پر ہمارے ہم وطن کچھ بھی نہیں کر رہے،بالی ووڈ نے امریکی گرودوارے پر ہونے والے ایک حملے کی مذمت میں بیان جاری کیا لیکن ہزاروں جلی ہوئی برمی مسلمانوں کی لاشیں دیکھ کر بھی دو بول ہم دردی کے نہیں بولے، دوسرے مذاہب کے ماننے والے بالکل خاموش ہیں! کیا ان کی خاموشی صرف اس لیے ہے کہ مرنے والے ’مسلمان‘ ہیں؟ انسانی حقوق کی جس قدر شدت کے ساتھ پامالی برما میں کی جا رہی ہے اس کی مثال پوری صدی میں نہیں ملتی۔ ایسا لگتا ہے کہ اب مسلمانوں کو اپنی عالمی طاقت بنا کر انسانی حقوق کی بحالی کے لیے خود سامنے آنا ہوگا لیکن اس کے لیے مسلم ممالک کو اپنے آپسی اختلافات کو بھلانا ہوگا اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر کے ناقابل تسخیر قوت بن کر ابھرنا ہوگا تا کہ پھر دنیا کے کسی حصے میں برما جیسا سانحہ پیش نہ آئے۔ ۔ ۔  اور ایسا کیا ہو سکے گا؟یہ سوال اب بھی جواب کا منتظر ہے!:

اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی

٭٭٭

Gulam Mustafa Razvi, Noori Mission, Malegaon  gmrazvi92@gmail.com    Cell. +91 9325028586

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *