عابد انور
برما میں مسلمانوں کا قتل عام بلکہ حالات نہ بدلنے کے لئے شور وغوغا کرتے ہیں اوریہ توقع کرتے ہیں کہ ان کے لئے دوسری قوم حالات بدل دے۔ اس دور میں جب کہ حالات انتہائی دگرگوں ہیں، انسانیت دم توڑ رہی ہے، تمام مفادات بازار سے وابستہ ہیں۔ انسانی حقوق تنظیمیں وہیں سرگرم ہوتی ہیں جہاں ان کے ملک کو مالی منفعت ہو یا سفارتی مفاد کی تکمیل ہویاسیاسی اغراض حاصل ہوتے ہوں ۔ پوری دنیا میں جہاں بھی خونی تشدد، خانہ جنگی، انسانی حقوق کی پامالی اور وحشیانہ سلوک کا معاملہ درپیش ہوتا ہے تمام بڑی طاقتیں اس میں اسی وقت مداخلت کرتی ہیں جہاں سے ان کے اغراض وابستہ ہیں یا اس طرح کے سلوک کا شکار ہونے والا عیسائی طبقہ سے تعلق رکھتا ہے۔ ایسٹ تیمور،جنوبی سوڈان یا دیگر علاقے جہاں اس طرح کے واقعات پیش آئے ہیں ان طاقتوں اوراقوام متحدہ نے مداخلت کرکے اسے فوراً روکنے کی کوشش کی۔ یہاں تک ملک کو تقسیم کروادیا لیکن جہاں جہاں بھی اس سے متاثرہونے والے مسلمان تھے ان طاقتوں کو سانپ سونگھ گیا۔ کارروائی کی بھی تو وسیع پیمانے پرقتل عام کے بعد۔ عزت اور جان کی توقیر اسی قوم کی ہوتی ہے جس کے پاس قوت اوردولت ہو اور مسلمان اس وقت قوت و طاقت سے محروم، تعلیم اور سائنس و تکنالوجی کے میدان پسماندہ ہیں ۔ دولت کے معاملے میں خلیجی ممالک خود کفیل ہیں لیکن وہ ظالموں کی پرورش کرتے رہے ہیں۔ فلسطین کامعاملہ ہو یا میانمار کایا چین کے ایغورمسلمانوں کا اتناطویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی حالات دن بہ دن خراب ہوتے جارہے ہیں۔ حل کرنے کے لئے جن کی چیزوں کی ضرورت ہے اور جو حکمت عملی مسلم حکومتوں کو اپنانی چاہئے تھی وہ اس سے کوسوں دور ہیں۔ مسلم حکمرانوں کو عیاشی سے ہی فرصت کہاں ملتی ہے کہ وہ ان مسئلوں پر غور کریں۔ جو نام نہاد جمہوری مسلم ملک ہیں وہ ملک کے ایجنڈے کے نفاذ کے بجائے دوسروں کے ایجنڈوں کی تکیمل میں زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان اور بنگلہ دیش کا نام لیا جاسکتا ہے۔ یہ اس قدر مجبور ملک ہیں کہ بیرونی طاقت کے دباؤ میں اپنے ملک کے عوام کے آئینی، عائلی اور مذہبی حقوق پامال کر رہے ہیں۔ اسلام میں یہاں تک کہا گیاہے کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں اور جب ایک حصے میں درد ہوتاہے تو دوسرا حصہ بے چین ہوجاتاہے۔ یعنی دوسرے بھائی کو بے چین ہوجانا چاہئے لیکن کیا میانمار، ایغور مسلمان فلسطین کے معاملے میں مسلمانوں کا رویہ کل مسلم اخوة والا ہے۔ ہم اپنے اندر یہ رویہ پیدا نہیں کرتے البتہ دوسروں سے یہ توقع ضرور رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ بھائیوں والا سلوک کرے۔مسلم ممالک کے پاس جتنے وسائل ہیں وہ چاہیں توپوری دنیا کے مسلمانوں کے مسائل کو حل کرسکتے ہیں ۔
میانمار کے مسلمان ان دنوں جس طرح کے مظالم کے شکار ہوئے ہیں وہ ایک دن کامعاملہ نہیں ہے بلکہ اس کاتعلق صدیوں پرانا ہے۔ لیکن مسلم ملکوں کی بے حسی اور میانمار حکومت کی ہٹ دھرمی اورظالمانہ رویہ کی وجہ سے یہ معاملہ کبھی تصفیہ تک نہیں پہنچ سکا۔ میانمار حکومت کی بے شرمی اورڈھٹائی کی انتہایہ ہے کہ برمی مسلمانوں کے قتل عام کے بعد اس کے فوٹو گراف بھی جاری کر رہی ہے۔ جیسے یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہی ہوکہ عالمی برادری اس کا کچھ بگاڑسکتاہو توبگاڑ لے۔ جتنی تصاویریں دیکھنے کو مل رہی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس طرح کے اذیت ناک قتل عام شاید ہی کبھی انجام دیا گیاہو۔ میانمار حکومت کے مظالم کے سامنے اوڈولف ہٹلرکی روح بھی شرما رہی ہوگی ۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ گیس کے ذریعہ ہٹلر نے لاکھوں یہودیوں کو قتل کیا تھا جسے ہولوکاسٹ کہا جاتا ہے۔ مغرب میں اس پرسوال قائم کرنے پر سزا ہے لیکن فلسطینیوں کا قتل عام کرنے والے یہودیوں کے لئے کوئی سزا نہیں ۔ میانمار کا معاملہ اتناوحشتناک ہے کہ اس کے تصور سے دل دہل جاتا ہے۔ میانمار کے فوجیوں اوربوڈھسٹ راہبوں نے مسلمانوں کو اذییت دیکر قتل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑا۔ آگ میں جلانا، ہتھوڑا مار مار قتل کرنا، اعضا کاٹنا، ذبح کرنا، سمندر میں ڈبونا اورنہ جانے کتنے طریقے وہ اپنا رہے ہیں۔ ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ برما میں بوذی قبائل ایک منظم مہم کے تحت مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہوئے ان کی بستیوں اور شہروں کو نیست و نابود کر رہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انتظامیہ نے مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث عناصر کے خلاف نہ صرف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی ہے بلکہ مسلمانوں کے تعاقب میں سرگرم عناصر کو روھینگیا شہر میں محصور مسلم آبادی پر حملوں کی اجازت دے رکھی ہے۔تنظیم کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز اور راخین گروہ سے تعلق رکھنے والے بدھ مت کے پیروکار اب بھی مسلمانوں کو جنسی زیادتی، املاک کی تباہی اور قتل و غارت جیسے حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
برما کا نام بدل کر میانمار رکھا گیا ۔یہ ایک برمی قبیلہ میانمار کے نام پر رکھا گیا ہے۔ یہ مغربی بنگلہ دیش کی سرحد پرواقع ہے۔ اراکان صوبہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اس کے دو خطے ہیں منگاڈاؤ اور بوتھینڈانگ ۔ یہاں کے مسلمانوں کوروہنگیا کہا جاتاہے۔4 جنوری 1948میں برما برطانیہ سے آزاد ہوا۔ اس کے سات صوبے اور سات ڈویزن ہیں۔شان, کایا, کچھین, ارکان, کرین, مون, چھین. ڈویزں یہ ہیں: مانڈلے, مگوے, پیگو, ایراودی, رنگون, تناسرم, اورسگائن۔ تاریخی اعتبارسے سرزمین برما پہلے کئی ممالک پر مشتمل تھا۔خاص برمی جو میانمار قبیلہ کے نام سے مشہور ہے جو مانڈلے اور اس کے اطراف میں رہتے ہیں وہ نویں صدی عیسوی میں تبت چین سے یہاں پہنچے۔گیارہویں صدی میں ان کو انوراٹھا نے متحد کیا۔جنہوں نے پگان کو دارالحکومت بنایا اور بودھ مذہب کو اختیار کیا جو آج ان کا قومی مذہب ہے۔ 1287 میں جب قبلہ خان نے برما پر حملہ کردیا تو یہ ملک کئی حصوں میں منقسم ہوگیا جن پر شان قبیلہ کے افراد حکومت کرتے تھے یہاں تک کہ سولہویں صدی عیسوی میں ٹنگو خاندان کی حکومت قائم ہوئی۔ اٹھارہویں صدی میں الونگ پھیہ نے موں قبیلہ کی شورش کو کچل دیا جس کے بعد الونگ پھیہ نے ہندوستان پر لشکر کشی کرکے اپنی سلطنت کو وسعت دی۔ 1784میں میں برمی راجہ بودھوپیہ نے ارکان پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا۔ اس سے پہلے ارکان/اراکان ایک آزاد خودمختارملک تھا 1826میں ارکان اور تناسرم برٹش انڈیا کے ماتحت آگیا۔ برما اس سے دست بردار ہوگیا۔اس کے بعد دوسری اینگلو برمن وار 1852میں وسطی برما اور تیسری اینگلو برمن وار 1885 میں بالائی برما اور1890میں شان اسٹیٹ پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا۔ یہاں کئی صدیوں سے وہ ظلم و جبر، قتل وغارت گری، استحصال، امتیازی قوانین ، جبری بیگاری، خواتین کی بے حرمتی اور انسانی حقوق کی پامالی کا شکار ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ہے۔ ۱۹۸۲ میں برما میں قانون شہریت کے نفاذ کے بعد سے ابھی تک مسلمانوں کو باقاعدہ شہریت نہیں دی گئی ہے۔ ۲۰۱۰ میں وائٹ کارڈاور گرین کارڈ دینے کی کوشش کی گئی تھی جسے مسلمانوں نے مسترد کردیا تھا۔ اس کارڈ کے جاری کرنے کا مقصد مسلمانوں کی قدیمی شہریت کو ختم کرکے اور مہمان شہری بنانا تھا۔ اس کے علاوہ برمی حکومت مسلمانوں کی آبادی کو کم کرنے کیلئے انہیں شادی کی اجازت نہیں ہے اور اجازت دینے پرسخت شرائط عائد ہیں۔ برسہا برس سے شادی کی درخواست کو زیر التوا رکھا جاتا ہے اور اجازت دی بھی جاتی ہے تو بھاری بھرکم رشوت کے عوض ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ غریب والدین اپنے بچوں کی شادی نہیں کراپاتے۔ ظلم و تشدد کی وجہ سے بیشتر نوجوان برما چھوڑ کر دوسرے ملک جاچکے ہیں جس کی وجہ سے مسلم لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہوگیا ہے۔
برما کی آبادی چھ کروڑ کے قریب ہے۔ ۸۰ فیصدبدھ مت کے ماننے والے ہیں جب کہ مسلمان دوسری بڑی اکثریت ہے۔ مسلمانوں کو روہینگیا مسلمان کہا جاتا ہے۔قاہرہ میں زیر تعلیم برمی خاتون عائشہ صلحی کے مطابق برما میں “ایک کروڑ” کے قریب مسلمان رہتے ہیں(برمی حکومت ،مغربی میڈیا برمی مسلمانوں کی صحیح تعداد نہیں بتاتی) لیکن برما کی فوج اور حکومت ان کے ساتھ جذام میں مبتلا انسانوں کی مانند، سلوک روا رکھتے ہیں اور ان کا قتل عام کررہے ہیں۔بدھ تشدد پسند مسلمانوں کو مجبور کرتے ہیں کہ 1۔ خنزیر کا گوشت کھائیں، 2۔ شراب پئیں یا 3۔ مرنے کے لئے تیار ہوجائیں اور برما کے مسلمان موت کو ایسی زندگی پر ترجیح دیتے ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی آج کتنی ہے؟ کتنے قتل ہوئے ہیں اور کتنے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ کیونکہ مسلم کش فسادات اس ملک میں گذشتہ دو برسوں سے جاری ہیں۔ مسلمان اپنے علاقے کے اصلی باشندے ہیں لیکن برما کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ یہ مسلمان برما کے باشندے شمار نہیں کئے جائیں گے۔ برما کے صدرتھین سین کے مطابق مسلمان ہمارے ملک کے شہری نہیں ہیں، اس لیے ان کے تحفظ کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ عام شہروں سے نکل کر مہاجر بستیوں میں چلے جائیں یا ملک چھوڑ دیں۔روہنگیا شہر میں موجود مسلمان ہمارے شہری نہیں ہیں اور نہ ہی ہم ان کے تحفظ کے ذمہ دار نہیں ہیں، اگر انہیں حملوں کا سامنا ہے تو وہ ملک چھوڑ دیں،ہم انہیں اپنا شہری نہیں مانتے ہیں۔ برمی صدر نے یہ باتیں اقوام متحدہ کے مندوب برائے پناہ گزین انٹونیو گیٹریز سے ملاقات کے دوران کہی تھیں۔برمی صدر کا کہنا تھا کہ بوذی قبائل کے حملوں کے شکار مسلمانوں کے مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے قائم کردہ مہاجر کیمپوں میں رہیں،اگر وہ مہاجر بستیوں میں بھی نہیں رہ سکتے تو ہم انہیں شہروں میں نہیں رہنے دیں گے اور انہیں ملک سے نکال دیا جائے گا۔برما کے “بدھ بھکشو” گاڑیوں میں بیٹھ کر پیدل چلنے والے یا بھاگنے والے یا دیہی علاقوں میں بسنے والے بچوں اور بڑوں کو کچلتے ہیں، ان کے گھروں کو مسمار کرتے ہیں اور ان کی کھیتیوں کو آگ لگاتے ہیں۔روہنگیا کے 40ہزار بچوں کا نام درج نہیں کیا جاسکا ہے، ان سخت پابندی میں سے ایک پابندی یہ ہے کہ دو سے زائد بچے نہ ہوں اور بیبیوں کے نام بھی نوٹ نہیں کیے جاتے۔ ان شرطوں کی خلاف ورزی ایسا جرم ہے کہ جس کی سزا دس سال قید با مشقت ہے۔ 1982میں جاری شدہ میانمار حکومت کے قانون کے مطابق روہنگیا کے تمام بچے خواہ ان کا نام نوٹ کیا گیا ہویا نہ کیا گیا ہو برمی نہیں سمجھے جائیں گے۔ انہیں غذا، خوردونوش، صحت کی سہولتیں اور تعلیم کے مواقع فراہم نہ ہوں گے اور انھیں فوج کے مفاد والے مشکل کاموں میں استعمال کیا جائے گا۔
موجودہ فسادات کی آگ بھڑکانے کے لئے ۲۸مئی کو ۲۰۱۲ کو ایک کہا نی یہ گھڑی گئی تھی کہ تین مسلم نو جوانوں نے ایک بدھ خاتون کی آبروریزی کی ہے ۔جب کہ واقعہ یہ تھا کہ ایک بدھ خاتون نے اسلام قبول کرنے کے بعد ایک مسلم نوجوان سے شادی کرلی تھی۔ اس پربڈھسٹ اتنے ناراض ہوئے کہ انہوں نے پہلے اس نو مسلم خاتون اور اس کے شوہر کا اغواکیا اور پھر قتل کردیا۔ یہ افواہ پھیلادی کہ یہ حرکت مسلمانوں نے کی ہے۔ اس فرضی واقعہ کے جواب میں ۳ جون کو ایک بس روک کر تبلیغی جماعت سے وابستہ دس افرادکو بدھسٹوں نے قتل کردیا۔ اس کے جواب میں مسلمانوں اجتجاج کیا پھر کیا تھا کہ فوج، حکومت کے کارندے اور بدھ بھکشو مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ یہ واقعہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے بلکہ برمی حکومت کے مسلمانوں پرڈھائے جانے والے مظالم کی محض ایک کڑی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق برما کے مسلمان گزشتہ کئی نسلوں سے اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔ 1050 میں ”بیاط وائی“ نامی مسلمان سردار کا ذکر ملتا ہے جسے ”مان“خاندان کے بادشاہ نے اس لیے قتل کردیا تھاکہ وہ قوت جمع کررہا تھا۔ برما کے مشہور تاریخی ہیرو بادشاہ ”کیان سیتھا“ نے اپنے وقت کے مسلمان سردار ”رحمان خان“ کو سیاسی و مذہبی اختلافات کی بنیاد پر قتل کرادیا تھااور اس مسلمان کے قتل کے لیے اس بادشاہ نے جلاد کو خصوصاً اپنی ذاتی تلوار دی تھی۔ 1589 میں برمی بادشاہ ”بے انٹاوانگ“ نے ریاست کے بچے کھچے مسلمانوں کو زبردستی بدھ مذہب میں شامل کرنے کی سرتوڑ کوشش کی لیکن پھر بھی کچھ مسلمان استقامت پذیر رہے اور انہوں نے برما میں شمع ایمان روشن رکھی۔ 1760 میں ”النگ پایا“ نامی برمی بادشاہ نے ذبیحے پر پابندی لگاکر مسلمانوں کو حلال گوشت سے محروم کردیا۔ 1819 میں برمی بادشاہ ”بداوپایا“ نے چار علمائے دین کو خنزیرکا گوشت کھانے پر مجبور کیا، انکار پر اس ظالم بادشاہ نے چاروں کو قتل کرادیا۔ برطانوی دور حکومت میں 1921کے سروے کے مطابق برما میں نصف ملین سے زائد مسلمان آباد تھے لیکن انگریز کی ”سیکولر جمہوریت“ ہندوستان کی طرح وہاں بھی غیر مسلموں پر ہی مہربان رہی۔1945میں برما مسلم کانگریس (BMC) بنی، عبدالرزاق اس کے صدر منتخب ہوئے انہوں نے اس پلیٹ فارم سے برما کی اآزادی میں بھی بھرپور کردار اداکیا لیکن آزادی کے بعد 1955میں مسلمانوں کی اس تنظیم کو ختم کردیا گیا۔ 1962 میں ”جنرل نی ون“ کے دور کااآغاز ہوا جو مسلمانوں کے ابتلا و آزمائش کے ایک نئے عہد کا آغاز تھا۔ فوج سے مسلمانوں کو مکمل طور پر نکال باہر کیا گیا، انہیں جانوروں کا قاتل قرار دیکر معاشرے میں ان کے لیے”کالا“ کا لفظ بول کر ان کی معاشرتی تذلیل و تحقیرکی جانے لگی۔ 16مارچ 1997کو بدھوں کا ایک بہت بڑا گروہ مسلمانوں کے خلاف نعرے لگاتا ہوا آگے بڑھا اور مسلمانوں کی مسجد کو آگ لگادی، اس کے بعد مسلمانوں کی مقدس کتب کو جمع کرکے نذرآتش کیا، پھر مسلمانوں کی املاک اور دکانوں میں لوٹ مار کی، کئی لوگوں کو قتل کیا اور بے شمار لوگ زخمی بھی ہوئے۔اس واقعہ کے بعد تین لاکھ سے زائد مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے جو آج بھی نہایت کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزاررہے ہیں اس کے علاوہ ایک لاکھ برمی مسلمان تھائی لینڈمیں پناہ گزیں ہیں۔15مئی 2001کو ایک بار پھر بدھوں نے مسلمانوں کی گیارہ مساجد مسمار کیں، چار سو سے زائد گھروں کو آگ لگادی اور دوسو افراد کو موت کے گھاٹ اتاردیا جن میں سے بیس افراد وہ تھے جو مسجد میں نماز ادا کررہے تھے۔
بنگلہ دیش اور ملائشیا دو مسلم ممالک ہیں جہاں اسلام سرکاری مذہب ہے لیکن یہ دو ملک مسلمان اور پڑوسی ہونے کے باوجود، اب تک مسلمانوں کے قتل عام پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور ان کی طرف سے اب تک مسلمانوں کو بچانے کے لئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایاگیاہے۔ اس کے علاوہ پچاس سے زائدمسلم ممالک ہیں ان کی طرف سے کوئی آواز بلند نہیں ہورہی ہے۔ ہندوستان کے مسلمان بھی خاموش ہیں۔ یہاں کے مسلم سیاسی رہنما اور علماء کرام خاموشی کے عمیق غار میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ پوری دنیامیں جمہوریت کی علمبردار کے طورپراپنی شناخت بنانے والی آنگ سان سوکی بھی اس معاملے بالکل خاموش ہیں۔ نوبل انعامہ یافتہ آنگ سان سوکی کی بے حسی اورخاموشی کی وجہ سے ان سے نوبل انعام واپس لیاجانا چاہئے۔ رپورٹ یہاں تک ہے کہ جمہوریت پسندارکان بھی مسلمانوں کے قتل عام میں مشترکہ طور پرحصہ دار ہیں۔عالمی میڈیا کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ جہاں وہ مسلم ممالک کے چھوٹے موٹے واقعات پر رائی کو پہاڑ بناتے ہیں اور پوری دنیا میں واویلا مچاتے ہیں لیکن اس واقعہ پر اسے سانپ سونگھ گیا ہے۔ عالمی میڈیا مسلم ممالک میں خواتین کو شرعی حدود میں رکھنے کو مظالم قراردیتاہے جب کہ میانمار میں بدھسٹوں نے انسانیت اور مظالم کے تمام حدود کو پار کرلیا ہے اوراس پر عالمی میڈیا کولقوہ مار گیاہے۔برما میں تین جون سے بے گناہ و مظلوم اور نہتے مسلمانوں کا بدترین قتل عام جاری ہے۔ لاکھوں مسلمان جو برما بنگلہ دیش کی سرحد پر ساحلی دلدلی علاقوں میں جانوروں بلکہ کیڑے مکوڑوں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں میانمارکے بدھ بھکشوؤں کے مظالم سے بچنے کیلئے بنگلہ دیش کی طرف رخ کرتے ہیں لیکن بنگلہ دیش کے ساحلی محافظ انہیں بھگادیتے ہیں۔ میانمار مہاجرین میں سے بیشترکی موت غذا کی قلت، فاقہ کشی اورڈوبنے کی وجہ سے موت ہوجاتی ہے۔ میانمار میں مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے کے لئے عالمی برادری اورخصوصاً مسلم ممالک کو آگے آنا ہوگا ورنہ تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ بدھ بھشکوؤں نے برماوہی طریقہ اپنایاہے جو طریقہ ہندوستان میں فرقہ پرست آر ایس ایس اوران کی ذیلی تنظیمیں اپناتی ہیں۔ قتل عام کے لئے ایک لڑکی کو بہانہ بنایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق اب تک ۲۰ ہزار سے زائد برمی مسلمانوں کا قتل عام ہوچکا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں مسلم خاتون آبروریزی کا شکار ہوگئی ہیں۔ اگراس پر عالمی برادری کاضمیرنہیں جاگتاہے تف ہے عالمی برادری کی ضمیر پر اور مسلم ملکوں پر۔ یہ اندیشہ پیدا ہوگیا ہے کہ کیاواقعی بدھ مذہب امن و آشتی کامذہب ہے۔ کیوں کہ حملہ آور بدھ بھکشو ہیں۔ قتل کا وہ طریقہ اختیار کر رہے ہیں جس سے درندے بھی شرما جائیں۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com