ڈاکٹر نگہت نسیم ۔سڈنی
پاکستان کے بارے میں جب بھی سوچتی ہوں تو مجھے جلتا ہوا انگارہ تو کبھی سلگتی ہوئی گیلی لکڑی لگتا ہے ۔ ارد گرد دیکھتی ہوں تو ہر طرف مہنگائی، بے روزگاری، ڈرون حملے، مسخ شدہ اور بوری بند لاشیں ،نیٹو اور امریکی فوج کی مداخلت کے نتائج میں اجڑنے والے متاثرین ملتے ہیں ۔ پاکستان یوں تو پورا کا پورا پرائی آگ میں جل رہا ہے لیکن ایک سلگتی ہوئی قوم ایسی بھی ہے جو کسی بھی وقت آگ پکڑ سکتی ہے ، اور وہ ہے بلوچستان میں بسنے والے بلوچ قوم اور وجہ ہے ان پررواں ظلم و ستم جن کی داستانیں پڑھ کر، سن کر لگتا ہی نہیں کہ ایسا بھی ہو سکتا ۔ یہ داستانیں دبے دبے انداز میں شہ سرخیوں کی جگہ لیتی رہتی ہیں اور جلد ہی نظر و زہن سے اوجھل بھی ہوتی رہتی ہیں ۔
اس سے پہلے کہ میں آپ کے سامنے بلوچستان میں ہونے والے ظلم و ستم کے ان ابواب کو کھولوں ۔ کچھ بلوچستان کے بارے میں جان لیجئے تاکہ اس کی جغرافیائی اہمیت سمجھنے میں آسانی ہو ۔
بلوچستان ، رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے ، جو پاکستان کے کل رقبے کا43.6 فیصد حصہ بنتا ہے جبکہ اس کی آبادی 1998ءکی مردم شماری کے مطابق 65لاکھ 65ہزار 885 افراد پر مشتمل تھی ۔ جو اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق90لاکھ سے ایک کروڑ کے درمیان ہے ۔قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان محل وقوع میں اہم ترین صوبہ ہے اس کے شمال میں افغانستان، صوبہ خيبر پختون خواہ، جنوب میں بحیرہ عرب، مشرق میں سندھ و پنجاب اور مغرب میں ایران واقع ہے ۔اس کا 832کلو میٹر سرحد ایران اور 1120کلو میٹر طویل سرحد افغانستان کے ساتھ ملا ہوا ہے ۔ 760کلو میٹر طویل ساحلی پٹی بھی بلوچستان میں ہے۔
ایران میں بلوچوں کا علاقہ جو ایرانی بلوچستان کہلاتا ہے اور جس کا دارالحکومت زاہدان ہے، ستر ہزار مربع میل کے لگ بھگ ہے- بلوچوں کی آبادی ایران کی کل آبادی کا دو فی صد ہے- افغانستان میں زابل کے علاقہ میں بلوچوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے-
پاكستان كے ساحل كا ذيادہ تر بلوچستان كا ساحلی علاقہ ہے! قیام پاکستان کے وقت یہ مشرقی بنگال، سندھ، پنجاب اور صوبہ خيبر پختون خواہ کی طرح برطانوی راج کا باقاعدہ حصہ نہیں تھا بلکہ 1947 تک بلوچستان، قلات، خاران، مکران اور لس بیلہ کی ریاستوں پر مشتمل تھا جن پر برطانوی ایجنٹ نگران تھا۔ قلات کی ریاست جو كہ ان میں سب سے بڑی ریاست تھى اس كے حکمران خان قلات میراحمد یار خان نے قیام پاکستان سے دو روز قبل اپنی ریاست کی مکمل آزادی کا اعلان کیا تھا اور خصوصی تعلقات پر مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔
پاکستان کے ساتھ خان قلات کے اس اقدام کی دوسرے تمام بلوچ سرداروں نے حمایت کی تھی اور بلوچستان کی علحیدہ حیثیت برقرار رکھنے پر زور دیا تھا لیکن پاکستان نے خان قلات کے اس اقدام کو بغاوت سے تعبیر کیا اور پاكستان نے خان قلات اور ان کی ریاست کے خلاف کاروائی کی آخر کار مئی سن اڑتالیس میں خان قلات کو گھٹنے ٹیک دینے پڑے اور وہ پاکستان میں شمولیت پر مجبور ہو گئے۔ ان کے چھوٹے بھائی شہزادہ میر عبدالکریم نے البتہ قلات کی پاکستان میں شمولیت کے خلاف مسلح بغاوت کی اور آخر کار انہیں افغانستان فرار ہونا پڑا سن 1973 تک بلوچستان گورنر جنرل کے براہ راست کنٹرول میں رہا، سن چھپن کے آئین کے تحت بلوچستان کو مغربی پاکستان کے ایک یونٹ میں ضم کر دیا گیا سن ستر میں جب عام انتخابات ہوئے اس میں پہلی بار بلوچستان ایک الگ صوبہ بنا بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی فاتح رہی اور سن بہتر میں پہلی بار بلوچستان میں منتخب حکومت قائم ہوئی۔
بلوچستان میں 30 اضلاع ہیں جن میں مشہور ترین بولان ،پنجگور ،پشین ،جھل مگسی،چاغی ، خضدار ، ڈیرہ بگتی ،زیارت ، سبی ،قلات ، کچھی ،کوئٹہ ،لسبیلہ ،گوادر ، مستونگ ،موسی خیل شامل ہیں ۔ بلوچستان بلوچوں اور پشتونوں کا مشترکہ صوبہ ہے۔ صوبے میں پنجابی‘ سندھی ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے اردوداں‘ ہزارہ اور دوسری نسلوں کے لوگ بھی آباد ہیں ۔ 1998ءکی مردم شماری کے مطابق بلوچوں کی آبادی کل آبادی کا 55 فیصد پشتونوں کی 40 فیصد اور باقی دوسرے لوگوں کی آبادی5 فیصد تھی۔تاریخ گواہ ہے کہ بلوچوں اورپشتونوں میں صدیوں سے دوستانہ روابط چلے آرہے ہیں وہ اچھے ہمسائے اور وقت پر ایک دوسرے کے لیے جان دینے والے دوست رہے ہیں۔
بلوچستان میں پانچ فوجی آپریشن ہوچکےہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاک فوج کے ہزار سے زائد جوان شہید ہوچکے ہیں۔ کتنے ہزار گھر مسمار ہوچکے ہیں۔ کتنے قبائل ہجرت کرچکے ہیں۔ کتنےگاؤں بلڈوزر چلا کر بلڈوز کردیے گئے ہیں۔
جس طرح پاکستان کاسب سے بڑا صوبہ مشرقی پاکستان ہم سے جدا کردیا گیا۔اسی طرح سے اب پاکستان کاسب سے بڑا صوبہ بلوچستان میں آگ لگائی جارہی ہے۔ یہ کیسا آپریشن ہے کہ بلوچستان میں امن کی بجائے بربادی ہورہی ہے۔ لاشوں میں اضافہ اور جنازوں کی قطاریں طویل ہورہی ہیں۔یہ بھیانک غیر انسانی تشدد کون کرتا ہے کہ لاشوں کے بے حرمتی کرکے سڑکوں پر پھینکا جارہا ہے۔یہ کس کاظلم ہے کہ بلوچستان
کے درودیوار پرایک محرومی اور بے چارگی اور بے بسی کی تصویر ہے کہ ہرروز نیا جنازہ ، نیا سوگ اور نیاماتم ہورہا ہے ۔ مسخ شدہ لاشوں کی تعداد درجنوں میں نہیں، سینکڑوں میں ہے۔پچھلے سات مہینوں میں ایک سو دس کے قریب مسخ شدہ لاشیں ملیں ہیں۔ گمشدہ لوگوں میں مرد اور بزرگ ہی نہیں بلوچستان کی خواتین بھی ہیں۔ گزشہ دس سالوں کے دوران آٹھ ہزار سے زیادہ بلوچ لاپتہ ہوئے ہیں ۔
بلوچستان میں کہیں امن نہیں ہے ۔ کہتے ہیں مشرف نے بلوچستان میں حالات خراب کئے ۔ پی پی پی کی حکومت نے مزید خراب کر دئے ہیں ۔ فوجی دور میں فوجی آپریشن ہوتا رہا۔اب جمہوری دور میں بھی فوجی آپریشن ہی ہورہا ہے۔ “ آغاز حقوق بلوچستان پیکج “ کا نام لے کر بلوچستان میں گولہ باری کی جارہی ہے۔ لسانی اور عقائد کی بنیاد پر تاجر، اساتذہ، ڈاکٹر اور دیگر پیشوں سے منسلک ماہرین کا سر عام قتل اور اغوا کیا جا رہا ہے ۔انہی وارداتوں کی ایک کڑی چار روز قبل دو فروری کو بلوچستان صوبائی اسمبلی کے رکن مير بختيار ڈومکي کي اہليہ اور انکي بيٹي کے قتل بھی شامل ہے
صوبہ بلوچستان کے ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے شیعہ افراد کو ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے اوراعدادوشمار کے مطابق گزشتہ 11سالوں میں اب تک 600 افراد کو شیہد کیا جا چکا ہے۔گزشتہ پندرہ دنوں میں یہ چوتھا ایسا واقعہ ہے جس میں حملہ آوروں نے نئی حکمت عملی کے تحت اجتماعی ہلاکتیں کی ہیں اور ان چار واقعات میں48 افراد کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے بلوچستان میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات 1999 سے شروع ہوئے، اس سے پہلے صوبہ بلوچستان میں اس طرح کے واقعات کبھی پیش نہیں آئے تھے۔ ان واقعات میں مزید شدت 2003میں اس وقت آئی جب یکے بعد دیگرے اجتماعی ہلاکتوں کے واقعات ہوئے۔ اپریل 2003 میں ہزارہ قبیلےکے7 افراد کو اس وقت قتل کر دیا گیا تھا جب وہ ایک پک اپ میں پود گلی چوک جارہے تھے۔ اس کے بعد آٹھ جون 2003 کو سریاب روڈ پرہزارہ قبیلےسے ہی تعلق رکھنے والے 14جوان پولیس کیڈٹس کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا گیا۔ اُسی سال چار جولائی کو پرنس روڈ پر امام بارگاہ اثناء عشریہ پر نامعلوم افراد نے اس وقت خودکش حملہ کر دیا جب لوگ جمعہ کی نماز ادا کر رہے تھے۔ اس واقعے میں55 افراد شہید ہوئے تھے جن میں بوڑھے اور بچے بھی شامل تھے۔
اتنے بڑے سانحوں کے بعد یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ مارچ 2004 میں عاشورہ کے جلوس پر لیاقت بازار میں نامعلوم افراد نے خودکش حملہ کردیا تھا۔اس حملے کی منصوبہ بندی دیگر حملوں سے اس لیے مختلف تھی کیونکہ اس کے لئے جلوس کے راستے میں ایک عمارت کرائے پر حاصل کی گئی تھی اور پہلے شدید فائرنگ کی گئی، پھر دستی بم پھینکنے کے بعد حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ اس حملے میں 60 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں کالعدم تنظیم لشکرِ جھنگوی کا مضبوط گڑھ بلوچستان کا شہرمستونگ ہے . اور اس کا ماسٹر مائینڈ عثمان سیف اللہ کو کراچی سے گرفتارکرلیا گیاجو اس جیل سے2008 میں عاشورہ کے جلوس پرحملے سے تین روز پہلے فرارہو گیا تھا۔ حالیہ واقعات سے بلوچستان میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ اس صوبے میں ایک طرف بلوچ قوم پرستی کے حوالے سے تشدد کے واقعات جاری ہیں تو دوسری جانب مذہبی انتہا پسندی کے واقعات بھی پیش آرہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے کارروائی نہ کرنے اور قاتلوں کو گرفتارنہ کرنے کے باعث بلوچستان کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے ۔۔۔جن میں سر فہرست ۔۔
1 عدم تحفظ کی کیفیت ، لسانی اور عقائد کی بنیاد پر تاجر، اساتذہ، ڈاکٹر اور دیگر پیشوں سے منسلک ماہرین کا قتل اور اغوا
2 ٹارگٹ کلنگ سے ڈر اور خوف ، آئے دن مسلکی بنیاد پر شعیہ افراد کا بے خوف قتل عام
3 صوبے سے کاروبار کی منتقلی
4 بےروزگاری
5 نطام تعلیم کا نہ ہونا
6 اساتذہ کی دوسرے شہروں میں نقل مکانی
7 ستر فیصد کھجوروں کی برآمدات کا نقصان
8 کوئٹہ سے قلات اورکوئٹہ سے چمن تک کی بین الاقوامی شاہراہ گزشتہ 6 سال سے نہ بن سکنا
9 آغازحقوق بلوچستان کے خصوصی پیکج کو تین سال گزرنے کے باوجود عمل درآمد نہ ہونا
10 وفاق کی حکومت قوم پرستوں سے مذاکرات میں مسلسل ناکامی
11. سرکاری ایجنسیوں کا سیاسی پارٹیوں اور مزاحمتی تنظیموں کے سربراہوں کا اغواہ
12. بلوچ عسکریت پسند گروہوں کا پنپنا اور ان کی تعداد میں اضافہ ہونا ۔ان کا قومی پرچم کی توہین کرنا اور قومی ترانے بلوچ تعلیمی اداروں میں نہ پڑھنے دینا
اگر بلوچستان کی حکومت کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ وہ ہے ہی نہیں ، ساری اتھارٹی بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کے حوالے کردی گئی ہے اور جو سویلین حکومت ہے وہ بالکل پیچھے ہوکر بیٹھی ہے۔ بجائے اس کے کہ کوئی سیاسی ڈائیلاگ شروع کیا جائے ہر طرف فورس کا استعمال ہورہا ہے ۔اس ضمن میں متعدد سیاسی راہنماؤں کی رائے ہے کہ اگر حکومت نے بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی حل ڈھونڈنے کی بجائے طاقت کے استعمال کی پالیسی ترک نہ کی تو صوبے میں جاری علیحدگی کی تحریک قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ حکومت ااس بد امنی کو بلوچستان میں بڑھتی ہوئی باغی تحریکوں کی پر تششد کاروایئوں سے تعبیر کر رہی ہے ۔
پاکستان کے اس جنوب مغربی صوبے میں سرگرم عمل باغی تحریک کے تین اہم کرداروں میں بلوچ رپبلکن آرمی (بی آراے) ، بلوچ لیبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچ لیبریشن فرنٹ(بی ایل ایف) ہیں۔حکام کے بقول بی آر اے کی قیادت مقتول بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کے پوتے براہمدغ بگٹی کے پاس ہے جواطلاعات کے مطابق حال ہی میں افغانستان سے سوئٹزرلینڈ منتقل ہو گئے ہیں۔ اس تنظیم کے جنگجو زیادہ تر ڈیر ہ بگٹی، کوہلو، جعفر آباد اور نصیر آباد کے اضلاع میں سرکاری اہداف پر حملوں اور دیگر تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔بی ایل اے کی کارروائیوں کی نگرانی لندن میں خود ساختہ جلاوطن بلوچ لیڈر حربیار مری کرتے ہیں جبکہ بی ایل ایف حکام کے بقول بلوچستان طلبہ تنظیم (بی ایس او) کا عسکری دھڑا ہے۔ حالیہ دنوں میں صوبے میں متحرک مسلح باغی تنظیموں کی طرف سے ایک “ آزاد بلوچستان “ کے مطالبات میں تیز ی آئی ہے۔حکومت پاکستان کا الزام ہے کہ ان تنظیموں کو دوسرے ملکوں سے مالی مدد اور حمایت حاصل ہے جن میں بھارت کا نام سر فہرست ہے۔ لیکن بھارتی حکومت ان الزامات کو رد کرتی ہے۔
اگر آپ کو یاد ہو تو ہیومن رائٹس کمیشن کی سربراہ زہرہ یوسف نے 2005ء اور 2009ء میں کمیشن کی رپورٹ میں کہا تھا کہ صوبے میں سرگرم عمل ریاستی کارندے یا پھر باغی اور مذہبی شدت پسند سبھی عام شہریوں کے حقوق کی پامالی میں ملوث ہیں اورحکام کی ان ”حقائق سے چشم پوشی بلوچستان کو تیزی سے افرا تفری کی طرف دھکیل رہی ہے‘‘۔ایک اور تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق صوبے میں تمام تر اختیارات بظاہر سکیورٹی فورسز کے پاس ہیں جن میں نیم فوجی ادارہ’ ایف سی‘ سرفہرست ہے جس کے اہلکاراپنے آپ کو سیاسی حکومت یا پھر عدلیہ کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے اور نا ہی سول انتظامیہ کے ساتھ تعاون کو اپنی ذمہ داری مانتے ہیں۔” شہریوں کی اکثریت حفاظتی چوکیوں پر تعینات ایف سی کے اہلکاروں کے رویے سے نالاں ہے۔“ انہوں نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ “ باغی عناصر اور مذہبی شدت پسند ، رپورٹ کے مطابق لسانی اور عقائد کی بنیاد پر لوگوں کو ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات میں بے روک ٹوک ملوث ہیں۔”ان میں تاجر، اساتذہ، ڈاکٹر اور دیگر پیشوں سے منسلک ماہرین کا قتل شامل ہے ۔ان واقعات میں باغی تنظیمیں بلا خوف وخطر بلوچستان میں آبادکاروں خصوصاََ پنجابیوں کو ہدف بنا رہی ہیں۔بلوچ قوم پرست عناصر میں بعض خاموشی سے ان ہلاکتوں کو درگزر کرتے ہیں جبکہ دیگرکھل کر ان کی مذمت نہیں کرتے۔“
اس رپورٹ کے متن پر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اس تاثر کو رد کیا کہ بلوچستان میں حکومت کی عملداری ختم ہو چکی ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا ”حکومت کا کام ہوتا ہے پالیسیاں دینا، اس کا کام ہے ایک روڈ میپ دینا جو اس پر عمل درآمد ہے وہ آپ کے سکیورٹی کے ادارے کرتے ہیں، آپ کی فوج کرتی ہے ، آپ کی ایجنسیاں کرتی ہیں، آپ کی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کرتے ہیں تو حکومت کا دیا روڈ میپ اگر وہاں پر فوج یا کانسٹبلری یا انٹیلی جنس ادارے کرتے ہیں تو وہ حکومت کی ہدایت پر کرتے ہیں۔ وزیراعظم یا صدر پاکستان تو کوئی بندوق پکڑ کے کسی جگہ پرقانون کے نفاذ کے لیے نہیں جاتے۔“ اور یہ بات بھی آن ریکارڈ ہے کہ کمیشن نے اپنی رپورٹ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو پیش کرنے کے لیےخط کے ذریعے ان سے ملاقات کی درخواست کی اور یاد دہانی بھی کرائی لیکن حکومت کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔
بلوچستان میں شعیہ مسلک کے پڑھے لکھے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد سب سے بڑا مسلہ “ اغواہ “ ہے ۔
لاپتہ افراد’ کو بازیاب کروانے کے لیے پاکستان کی عدالت اعظمی میں مقدمہ دائر کیا گیا تھا ، جن کو 2001ء کی دہشت پر جنگ شروع ہونے کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں اور قصبوں سے پولیس، خفیہ اداروں، اور ISI نے اغوا کر کے غیر قانونی طور پر اغواہ کیا تھا۔ ( روزنامہ ڈان، 18 مارچ 2010ء، “Lt. Col threatens SC lawyer in missing persons’ case ) ۔
ان میں سے بعض کو امریکہ کے حوالے کر دیا گیا جن کی اکثریت افغانستان میں امریکی فوجی عقوبت خانوں میں قید ہے۔ پاکستان میں قید ہونے والوں سے بھی امریکی اہلکار تشدد اور پوچھ گچھ میں ملوث ہیں۔ امریکیوں کا بظاہر مقصد طالبان کے رہنماوں کا پتہ چلانا ہے۔( انڈپنڈنت، 18 مارچ 2010ء، “Robert Fisk: Into the terrifying world of Pakistan’s ‘disappeared]
اغوا کندگان کی کچھ تعداد کا تعلق بلوچستان کی قومیتی جماعتوں سے تعلق رکھتی ہے جن کے بارے میں خفیہ اداروں کو بیرونی ممالک کی شئے پر وفاق کو نقصان پہنچانے کا شبہ ہے۔[بی بی سی، 18 مارچ 2010ء، “’لاپتہ بلوچوں کے مقدمات درج کیے جائیں‘”] ایک واقعہ میں عدالت نے کچھ افراد کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیا، مگر جیل سے رہائی پر انہیں اغوا کر لیا گیا۔[بی بی سی، 25 نومبر 2010ء، “خفیہ ایجنسیوں کوطلب نہیں کیا جا سکتا”] ۔ 9 دسمبر 2010ء کو فوجی اداروں کے وکیل نے عدالت اعظمی میں اعتراف کیا کہ اڈیالہ جیل سے اغوا کیے گئے 11 قیدی ان اداروں کی تحویل میں ہیں اور ان پر فوجی قانون کے تحت مقدمہ چلایا جانا ہے۔
بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں لاپتہ ہونے کے واقعات کی اہمیت اور سنگینی کو جانتے ہوئے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق اوباما انتظامیہ نے کہا کہ وہ پاکستان میں حقوق انسانی کی تنظیموں کے ان دعووں پر تشویش میں مبتلا ہے کہ جن میں پاکستانی خفیہ ایجینسیوں کو بلوچستان میں گزشتہ دس برسوں کے دوران علیحدگی پسندوں اور بلوچ قوم پرستوں کی ہونے والی گمشدگیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ اخبار کے مطابق ان گمشدہ افراد میں گوریلا جنگجوؤں کے علاوہ عام شہری بھی شامل ہیں۔نیویارک ٹائمزکی رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہےکہ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے حکام، انسانی حقوق کی تنظیموں پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ حکومتی حراست میں لئے گئے افراد کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہیں۔
اس سے قبل ماہ ستمبر کے آخر میں انٹرنیٹ پر جاری کی گئی اس ویڈیو کے بارے میں بھی امریکہ پاکستان سے جواب طلب کر چکا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ پاکستانی فوجی لباس میں ملبوس افراد، آنکھوں پر پٹیاں اور ہاتھ پاؤں بندھے افراد کو فائرنگ کر کے ہلاک کر رہے ہیں۔ بعد میں پاکستانی حکومت نےاس ویڈیو کی تحقیقات کا حکم بھی جاری کیا تھا۔جو اور تحقیقات کی طرح کسی سرد خانے کی نظر ہو چکی ہے ۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق افراد کو لاپتہ کرنے کی روایت کا آغاز80کی دہائی میں لاطینی امریکہ کے فوجی آمرانہ دور سے ہوا۔ مگر ان 25سالوں میں بے شمار چیزیں بدل گئیں۔حکومتی اداروں کا افراد کوبنا کوئی الزام بتائے اور بغیر باقاعدہ طور پر گرفتا ر کئے , تحویل میں لینے کا سلسلہ آہستہ آہستہ دنیا بھر میں پھیلتا چلا گیا۔ 1980سے تاحال تقریباً80ممالک کے ہزاروں افراد حکومتی سیکیوریٹی فورسز نے اٹھائے اور وہ آج تک لاپتہ ہیں۔صرف 2007میں مختلف ممالک میں حکومتی اداروں پر ہزاروں لاپتہ افراد کے حوالے سے الزامات سامنے آئے۔حکومتیں اس جرم کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دے کر جائز قراد دے دیتی ہیں۔ امریکی صدر بش نے اعتراف کیا تھاکہ سی آئی اے ایک پروگرام پر کام کر رہی ہے جس کے تحت دنیا کے مختلف ممالک کی حکومتوں کے ساتھ مل کرخفیہ جگہوں پر لوگوں سے تفتیش کر جارہی ہے۔ یقینا جن لوگوں سے ان خفیہ جگہوں پر تفتیش ہو رہی ہے وہی لاپتہ افراد ہیں، جن کے بارے میں کوئی نہیں جانتاکہ وہ کہاں ہیں، انہیں عقوبت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے یا قتل کر دیا گیا ہے۔ صدر بش نے 2007 میں اس پروگرام کی توثیق بھی کی تھی۔ یاد رہے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر لوگوں کو لاپتہ کرنے کی روایات نائن الیون کے بعد ہی رکھی گئی ۔ اس کے بعد یہ سلسلہ اور بڑھا اور وہ افراد بھی اس کی زد میں آئے جو علاقائی اور نسلی بنیادوں پر اپنے حقوق کی جدوجہد کر رہے تھے۔
سن دو ہزار چھ میں ایسے سینکڑوں پاکستانی لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے ڈیفیس آف ہیومن رائٹس کے نام سے ایک تنظیم قائم کی ۔ اس تنظیم سے تعلق رکھنے والی آمنہ مسعود کے مطابق اس وقت ان کے پاس مبینہ طور پر لاپتہ 3500 افراد کی فہرست موجود ہے تاہم بقول ان کے ان میں سے ابھی تک صرف 820 کی تصدیق ہو سکی ہے جبکہ باقی لوگوں کی تصدیق کا کام تا حال جاری ہے۔خیال رہے کہ بلوچ قوم پرستوں کا بھی دعویٰ ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے مبینہ طور پر آٹھ ہزار بلوچوں کو اغواءکر رکھا ہے لیکن مرکزی حکومت ہمیشہ اس دعوے سے انکار کرتی آئی ہے۔
اسلام آباد میں سپریم کورٹ نے گمشدہ افراد کی بازیابی کےلیےبینچ بنا تو لیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ انصاف کب ملے گا ؟ عوام بیچاری پولیس سے مایوس، حکومت سے مایوس، اور اب عدلیہ سے بھی مایوس ہوتی جا رہی ہے ۔