Home / Socio-political / بلوچستان کے دکھوں کا مداوا کون کرے

بلوچستان کے دکھوں کا مداوا کون کرے

بلوچستان کے دکھوں کا مداوا کون کرے

بلوچستان کے لاپتہ لوگوں کا معاملہ اپنی جگہ پر رہا اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی جگہ تبدیل ہو گئی۔ پاکستان کی وہ قوتیں جو ان معاملات میں ملوث ہیں یہ بخوبی جانتی ہیں کہ ان کے شعبے میں ایک ہٹ جائے گا تو اسی کام کو کرنے والا دوسرا آ جائے گا جبکہ دیگر شعبوں میں فرد کے ساتھ ساتھ مسئلہ یا تو دفن ہو جاتا ہے یا اس میں وہ شدت باقی نہیں رہتی۔  پاکستانی افواج ہر مسئلے کا حل بندوق کو سمجھتی ہے یہ بات سمجھ میں آ تی ہے کیونکہ فوج کو گلاب کا پھول پیش کرنے کی تربیت نہیں دی جاتی ہے، لیکن حیرت کی انتہا نہیں رہتی ہے جب عوامی نمائندے ان کی غلطیوں کی پردہ پوشی میں کوشاں دکھائی دیتے ہیں اور بالآخر اسی فوج کے ہاتھو ں  ہزیمت اٹھا کر ملک بدر ہوتے ہیں۔ مزید حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ پھر وہی کام کرتے نظر آتے ہیں۔  پاکستانی افواج جو خود کو نام نہاد اسلام کا علمبردار سمجھتی ہے اسے کون سمجھائے کے بہادری اور ظلم میں فرق ہے۔ لیکن اس قوم اور اس کی فوج دونوں کی عجیب عادت یہ بھی ہے کہ نہ تو اسے اپنی غلطی کا ادراک ہوتا ہے اور نہ ہی اس پر پچھتاوا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ اپنے روایتی دشمن کے دامن میں اپنے دھبے چھپانے کی کامیاب کوشش روز اول ہی سے کرتی رہی ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کے لیے بھارت کو ابھی بھی مورت الزام ٹھہراتے ہوئے بھارت کے خلاف درپردہ کارروائیوں کے عزائم کا بر سر عام اظہار اس ذہنیت کی کہانی بخوبی کہتا ہے۔  دوسری طرف بلوچستان میں جا بجا ملنے والی مسخ شدہ لاشیں سقوط ڈھاکہ کی وجوہات بیان کرتی نظر آتی ہیں۔ ٹی وی پروگراموں پر عوامی نمائندے چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ بلوچ محب وطن ہیں ۔ کوئی ان سے پوچھے کے خفیہ اداروں کے محب وطن افراد شاید فرط محبت میں اپنے بلوچی بھائیوں کے گلے کاٹ دیتے ہیں اور محبت جب سینوں میں ہلچل پیدا کرتی ہے تو ان کے چہرے مسخ کر دییے جاتے ہیں۔ خدا ایسی محبت سے خاندان ابلیس کو بھی بچائے۔

                نئے چیف جسٹس کی طرف سے نہ جانے اس مسئلے کو کتنی اہمیت ملے  اور اہمیت ملے بھی تو اتنے کم عرصے میں نہ جانے وہ کیا کر پائیں  لیکن ایک بات طے ہے اور وہ یہ کہ لوگوں کی گمشدگیاں ختم نہیں ہوں گی خواہ  عدلیہ اس معاملے پر جس قدر   چاہے ازخود نوٹس لے لے کیونکہ نہ تو پاکستان کی سیاسی قیادت کو بلوچستان کی فکر ہے اور نہ ہی فوجی قیادت کو اور عدلیہ توہین عدالت کا نوٹس دینے کے علاوہ اور کیا کر سکتی ہے کیونکہ لاٹھی اور بھینس والی کہاوت میں لاٹھی فوج کے پاس ہے جس کی شہ پر ایجنسیاں لوگوں کو حبس بے جا میں رکھنے اور  ان کی لاشوں کو شارع عام پر پھینکنے کا کام کرتی ہیں۔ ایسے میں کیا عجب ہے کہ کسی دن سقوط بلوچستان کی خبر سننے کو ملے  اور پاکستان کی غیور فوجی قیادب اس الزام کو بھارت کے سر تھوپنے کا جواز ڈھونڈھے۔  ابھی  بھی وقت ہے ۔ پاکستان کی پنجابی لابی کو سوچنا پڑے گا کہ جب لوگوں کی جان ، مال اور عزت غیر محفوظ ہو جائے تو لوگ ڈرنا چھوڑ دیتے ہیں اور وہ  درد کی شدت سے درد کو محسوس کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔  بے بس بلوچوں سے اگر وہ خوف اور درد کا احساس ختم ہو گیا تو پھر وہ خبر بھی سننے کو ملے گی جسے سقوط بلوچستان کے نام سے جانا جائے گا۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *