عباس ملک
جنرل حمید گل صاحب نے درست کہا فوج اقتدار میں آتی نہیں بلائی جاتی ہے ۔پاکستان کی وحدت کے اس اکلوتے ادارے کو متنازعہ بنانے اور اس کی عوامی مقبولیت کو شکستہ بنانے کی اس ترکیب کے پیچھے ہاتھ اتنا مخفی نہیں کہ نظر نہ آئے اور نہ ہی اس کی پہچان کرنے کے لیے خدوخال ناپید ہیں۔ گھر کی آواز گھر سے باہر جائے گی تو لازمی امر ہے کہ ہمسائے مطلع ہونگے کہ گھر میں تنازعہ ہے ۔گھر والے ننگے بھوکے جوتی سے محروم ہوں تو دیکھنے والا اندازہ لگا سکتا ہے کہ گھر میں محرومیوں کا ڈیرا ہے۔اس کی ذمہ دار کسی پر ڈالنا یا اس کو ہمدرد خیال کرتے ہوئے اس کی بات کو وحی نزولہ سمجھ لینا حماقت ہے ۔اس وجہ کو باعث عنادبنانا اللہ کی تقسیم سے بغاوت کے مترادف ہے۔ اللہ کی عطا پر دوسرے پر برہمی غلط ہے ۔اس وجہ سے گھر کو آگ لگا دینا اپنے بچوں کو اپنے آپ کو اذیت میں مبتلا کر دینا بھی اسلامی شعائر سے بغاوت کے مترادف ہے ۔ کمانے و الاعیال کو دینے کی بجائے اپنی عیاشیوں پر خرچ کر دے تو اس کا بدلہ اولا دکو دوسروں سے لینا ہر گز زیب نہیں ۔چند بلوچوں کی ناراضگی کو پورے بلوچستان سے منسوب کر نا بلیک میلنگ ہے ۔ بلوچستان میں جمہوری طور پر ان کے منتخب کردہ نمائیندے اور ان کی اسمبلی موجود ہے ۔اس میں ناراض کے خونی رشتے اور دیگر سماجی رشتوں کے حاملین موجود ہیں ۔ ناراض کو گلہ کرنا یا ہونا چاہیے تو ان سے ہونا چاہیے کہ انہوں نے ان کے حقوق سلب یا وہ ان کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے میں ناکام ہیں ۔ اس میں پاکستان یا دیگر پاکستانیوں کا کیا قصور ہے ۔ سوئی گیس بلوچستان میں فراہم نہیں کی گئی تو اس میں پاکستان کا کیا قصور ہے ۔یہ ان بلوچ سرداروں کا قصور ہے جنہوں نے اپنے اقتدار کے باوجود اس طرف توجہ نہیں دی۔ آج بگٹی صاحب کو شہید کہنے والے اس وقت بھی تو اقتدار میں تھے اور اس وقت بلوچ سردارکی بلوچستان میں حکومت تھی۔یہی ان کو باغی قرار دیکر ہٹانے کے ذمہ دار ہیں۔بگٹی صاحب جب تک ڈیرہ بگٹی میں موجود رہے حکومت ان سے مذکرات کرتی رہی جب پہاڑوں کومسکن اور بلوچ سرزمین کو جنگ کا میدان قرار دے دیا تو پھر انہوں نے پاکستان کے آئین اور قانون سے انحراف کیا ۔ اس میں حاکم وقت کی بے وقوفی اور اس وقت کے بلوچ سرداروں کی خود غرضی نے بگٹی صاحب کو راضی کرنے اور انہیں اس اقدام سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کی ۔ سرداروں کے پاس قیام پاکستان سے لیکر اب تک اقتدار کی ڈور رہی لیکن محرومی کے ذمہ دار یہ نہیں بلکہ دیگر پاکستانی ہیں۔ براہمداغ ،حرب یار مسلح جدوجہد کے حامی اور آزادی کا علمبردار ،شاہ زین باوجودیکہ سیاسی دشواریوں کے مذاکرات اور سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتا ہے کون حق پر ہے ؟جو ملک اور معاشرے کو ساتھ لیکر چلنا چاہتا ہے یا جو ان کے حصے بخرے کر کے اپنا خواب سچ کرنا چاہتا ہے ؟بلوچستان کی محرومیوں کاسبب کیا ہے اور اس کی ریکوری کس طرح ہو سکتی ہے یہ سوال ہی موجودہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔اس کا طریقہ کار کیا نکالا جاتا ہے اور یہ کون نکالے گا؟کیا یہ طریقہ آئین اور قانون سے بالا ہو کر اختیارکیا جانا درست ہوگا۔ وزیر داخلہ کا بلوچ راہنماؤں کے خلاف دائر مقدمات ختم کرنے کا اعلان آئین اور قانون سے بغاوت ،بلوچ بھائیوں واملاک ،پاک فوج کے قتل عام میں براہ راست ملوث افراد کی معافی جرم کی ترویج اور مطالبات کے تسلیم کرانے کا مروج طریقہ تو نہیں بن جائے گا۔ کیاایسے اقدامات اخلاقی اور آئینی اور قانونی طور پر جائز ہیں۔اس سے عدلیہ کی توہین کا پہلو نہیں نکلتا کہ ایک شخص قومی مقدمے میں ملوث ا شخاص کو معاف کردے۔یہ جائیداد کی تقسیم کا مسلہ تو ہے نہیں کہ یہ تم لے لو اور یہ میں لے لیتا ہوں بات ختم ۔کیا یہ این آر او کے مترادف نہیں ہے ۔ایک این آر اور ابھی متنازعہ دوسرے کی طرف قدم اٹھا لیے گئے ہیں۔ معاف کریں ان کا غصہ فرو کریں ، ان کو حق دیں لیکن کسی طریقے کے ساتھ ہونا چاہیے ۔ طالبان بھی تو یہی کچھ کر رہے ہیں ان کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ اپنانا ہوگا۔ وہ اس کو کورٹ میں چیلنج کر یں تو حکومت کے پاس کیا جواب اور جواز ہوگا ۔یہ مسلح جدوجہد کو صیح مان لینے صراط مستقیم ہونے اور منزل کے حصول کا صیح طریقہ بن جانے کی دلیل ہے ۔اس طرح تو ہرقانون شکن یہ دلیل دے گا کہ اسے اپنا حق لینے کیلئے یہ طریقہ اختیار کرنا پڑا ۔پھر حکومت سب کو گھر کی دہلیز پر سب کی فرمائش پورے کرنے کیلئے تیار رہنا چاہیے ۔روٹی کپڑا مکان تو بہرحال مہیا کرنا وقت کے حاکم کی ذمہ داری اور پیپلز پارٹی کے منشورکا بنیادی نکتہ ہے ۔معاشرے کو کیا سبق اور کس اقدار کی ترویج کی جا رہی ہے ۔ حکومت اور اکابرین کو دیکھنا چاہیے کہ مسلہ کیوں کس وجہ سے پیدا ہوا ۔ اس کے اسباب رفع کرنے کی طرف کیا طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے ۔مسلہ سیاسی قیادت کی نااہلیت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔ اپنے مفادات کے حصول اور عدم توجہ بلوچ ہی نہیں پورے پاکستان کے عوام کی محرومیوں کی اصل وجہ ہے ۔بلوچستان کے مسائل کا حل گول میز اور آل پارٹیز کانفرنسوں میں نہیں ہے۔اس کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔جو پیسہ کانفرنسوں کے انعقاد پر خرچ کیا جانا ہے اسے بلوچستان کی ترقی پر خرچ کیا جائے ۔وہاں پر صحت تعلیم روزگار کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ ان میں احساس محرومی کا خاتمہ ہو۔سیاسی قیادتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے کارکنوں کو تاکید کریں کہ اپنی عقیدتوں کا رخ پاکستان اور اسلام کی طرف موڑیں ناکہ وہ انہیں اپنا ناخدا جان کر ان کی پوجا میں مگن رہیں۔ سیاسی قائدین کی وعدہ خلافیوں اور دیکھتے ہوئے ان کی کسی بات پر یقین نہیں جا سکتا ۔ یہ پل میں ماشہ اور پل م
یں تولہ ہوتے ہیں۔ ایسے میں بلوچ عوام کس پر اعتماد کریں یہ بھی ایک ایسا سوال ہے جو میڈیا کے کرم فرماؤں کے زرخیز ذہنوں میں ابھی تک نہیں آیا۔وہی بلوچ سرداراور سیاسی قیادت جو اس محرومی کو بڑھانے کا باعث ہے کیا اس احساس کو دور کرنے میں اپنی خواہشات اور مفادات سے دستبردار ہو جائے گی۔ اگر نہیں تو بلوچ عوا م کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کیلئے اور کون سا رستہ اورقوت ہے جسے اس احساس محرومی کو دورکرنے کی ذمہ داری سونپی جائے ۔سیاستدان اہل ہوتے تو یہ مسلہ پیدا ہی کیوں ہوتا۔ سیاستدانوں کا پیدا کردہ مسلہ سیاستدان نہیں حل کر پائیں گے تو پھر کون کرے گا۔جس کا کام اسی کا ساجھے کے مصدق یہ سیاستدانوں کا مسلہ اور سیاسی مسلہ ہے اسے سیاستدان ہی حل کرسکتے ہیں اور یہ سیاسی طور پر ہی حل ہوگا۔