بمبینوکاعذاب
پوری دنیا اس وقت جمہوریت کے سحر میں مبتلا ہے اور جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جس میں کوئی بھی ا نہونی ہونی بن سکتی ہے۔ کوئی اندازہ کر سکتا تھا کہ پاکستا ن کی ساری سیاست آصف زرداری کے گرد گردش کرنے لگے لگی اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہو جائیں گے !اس وقت وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدرہیں ۔ اس منصب کا تقاضاتویہ ہے کہ اپنی شخصیت میں بھی تبدیلی لاتے ©‘اپنے قول وفعل کے تضا د کو دورکرنے کی کوشش کرتے اور اس منصب کے ساتھ وابستہ ملکی وقار کا بھی لحاظ رکھتے لیکن ایسا معلوم ہو تا ہے کہ وہ پاکستان کو بھی کراچی کے بمبینوسینماکی طرح چلاناچاہتے ہیں جہاں اپنے کچھ خاص آدمیوں کے ذریعے فلم دکھانے کے نام پرتماشائیوں کوپہلے بلیک ٹکٹ فروخت کرکے اپنا کمیشن کھراکرلیاجاتاتھااوراسی سینماکے ایک حصے میں کیسینو(Casino)جیسی خرافات کے ذریعے شہرکے بگڑے رئیس زادوں کوتفریح فراہم کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بنایاجاتاتھا۔
پھر زرداری صاحب اب تک کہہ کر مکر جانے کی سائیکی سے نجات حاصل نہیں کر سکے ۔ حالانکہ ہو نا یہ چاہیے تھا کہ وہ ایوان صدر میں قدم ر کھتے ہی اپنی کیچلی اتار پھینکتے اور ایک نئی شخصیت کے روپ میں اس منصب پر براجمان ہو تے ۔ اب دیکھئے کہ صدارت کا حلف اٹھاتے ہی انہوں نے اعلان کیا کہ وہ سب سے پہلے عوامی جمہوریہ چین کے دورے پر جائیں گے ‘ اس سلسلے میں انہوں نے چین کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کے لگاو کا بھی ذکر کیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ بھٹو کے راستے پر چلیں گے جو چین کو پاکستان کا سچا اور کھرا دوست سمجھتے تھے ۔ لیکن ابھی ایوان صدر کی راہداریوں میں اس اعلان کی گونج باقی تھی کہ وہ پہلے دبئی‘ پھر برطانیہ چلے گئے ‘ اس کے بعد امریکا تشریف لے گئے جہاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ڈائس پرپہنچ کر چیونگم کونکال کر اپنامنہ صاف کرکے اپنی اہلیہ بے نظیربھٹوکی تصویرکوسجاکراپنے خطاب کے دوران ملکی مسائل کوبیان کرنے کی بجائے اپنی اہلیہ کی تصویرسے باتیں کرتے رہے اوربعدمیں اپنی وفاداری کایقین دلانے کےلئے قصرسفید کے فرعون جارج بش کوشکریہ اداکرنے وائٹ ہاوس تشریف لے گئے جہاں پاکستان کے بارے میں نئی امریکی پالیسی کی حمایت کے لیے ان کے منتظر تھے ۔ باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ صدر زرداری نے دورئہ چین کا اعلا ن اپنے امریکا نواز ساتھیوں سے مشورہ کیے بغیر کردیا تھا‘جب انہیں معلوم ہوا تو ان کے پاوں تلے سے زمین نکل گئی ۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ پاکستان امریکا کے مقابلے میں چین کو ترجیح دیتا ! امریکا تو اس خطے میں سیاست ہی اس لیے کر رہا ہے کہ چین کو خطے سے بے دخل کر دیا جائے ۔
ہمارے دوست کہتے ہیں کہ یہ بات نہیں ہے کہ زرداری صاحب نے بغیر سوچے سمجھے چین کا نام لے دیا تھا اصل میں وہ اس بات کے قائل ہیں کہ ان کا کوئی قول قرآن وحدیث تو نہیں کہ اس سے پھرانہ جا سکے ۔ آخر ججوںکی بحالی کے معاملے میں وہ اپنے اس کمال کا بڑی مہارت سے مظاہر ہ کر تے رہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کو اس بری طرح نظر اندازکیا ہے کہ وہ کان پکڑنے پر مجبور ہو گئی ہے اوربقول شیخ رشید‘ نمک مرچ لگائے بغیرزرداری نے نوازشریف صاحب کوکھالیا ہے اورانہیں پتہ بھی نہیں لگنے دیا۔
لیکن چین کا معاملہ مسلم لیگ (ن) سے مختلف ہے ۔ وہ کوئی سیاسی جماعت نہیں ،اس خطے کا سب سے بڑا اور سب سے اہم ملک ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ وہ پاکستان کا انتہائی قریبی اورمعتمدساتھی ہے۔ بے شک اس وقت ہم امریکا کی غلامی کے شکنجے میں کسے ہوئے ہیں اور امریکا کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ لیکن پاکستان کو اس صورت حال کا کب سامنا نہیں رہا؟ اس کے باوجود پاکستان نے چین کو اپنی ترجیحات میں سرفہر ست رکھا اور کبھی یہ تاثر ہی نہیں ہونے دیا کہ چین کو نظر انداز کرکے امریکا سے پینگیں بڑھائی جارہی ہیں ۔ زرداری صاحب کا کمال یہ ہے۔ کہ انہوں نے صدر بنتے ہی سب سے پہلا کام یہی کیا ہے کہ چین کے مقابلے میں امریکا کو فوقیت دینے کا براہ راست مظاہر ہ کرڈالا ہے‘ اب اس مظاہرے کے جو نتائج بھی نکلیں ان کی بلا سے۔سیاسی مبصرین اس بات سے آگاہ ہیں کہ باوجودزاری صاحب اس کے بعد کئی مرتبہ بن بلائے چین بھی گئے لیکن چین کی سردمہری کااب ہم سب کواندازہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس خطے میں چین کی اپنی مجبوریاں ہیں جس کی بناءپرپاکستان کے ساتھ اس کاعسکری تعاون جاری وساری ہے۔
زرداری صاحب نے جمعیت علماءاسلام کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے حضرت مولانا فضل الرحمان سے فوجی آپر یشن بند کرنے کے علاوہ مذہبی امور اور دفاع کی وزارتیں دینے کی یقین دہانی بھی کروائی تھی لیکن جہاں تک زرداری صاحب کا تعلق ہے تو انہوں نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ یہ وعدہ کو ئی قرآن وحدیث تو نہیں جسے لازماً پوراکیاجائے ۔ حضرت مولانا سے زیادہ قرآن وحدیث کی اہمیت کو اور کون جان سکتا ہے‘اس لیے مولانا صاحب قرآن وحدیث کے مقابلے میں زرداری کے وعدے کو فروتر قرار دے کر نظر اندازکرگئے اور اپنے بھائی مولاناعطاالرحمان کےلئے وزارت سیاحت کوغنیمت جان کردوسرے فوائد سمیٹنے میں مصروف ہوگئے۔
ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
زرداری صاحب نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد کشمیر یوں کو بھی جلد خوشخبری دینے کا وعدہ کیا ۔ ان کا یہ بیان بھی سیاسی نوعیت کا تھا ۔ لیکن سب سے پہلے تو بھارت نے اس بیان کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس پر ردعمل ظاہر کرنا ضروری سمجھااور صدر زرداری کو یہ باور کرایا کہ وہ تو مسئلہ کشمیر پر بات کرنے کے لیے ہی تیار نہیں ہے پھر خوشخبری کیسی‘ رہے کشمیر ی ‘ تو وہ زرداری صاحب کے بیا ن پر بہت زیادہ سنجیدہ ہو گئے ۔ سیدعلی گیلانی نے فوراً پوچھا کہ زرداری صاحب بتائیں وہ کیا خوشخبری دینا چاہتے ہیں؟ انہوں نے واضح کیا کہ حق خودارادیت سے ہٹ کر کوئی خوشخبری قابل ِ قبول نہیں ہوگی۔زرداری صاحب گیلانی صاحب کاجواب کیا دیتے ‘ منافقت کی چادراوڑھ کر لمبی تان کرسو گئے مگر کشمیریوں کوفوری پتہ چل گیا کہاں کی خوشخبری یہ توصرف دل لگی تھی۔
کسی کی جان گئی،ان کی دل لگی ٹھہری
ہمارے دوست سچ کہتے ہیں کہ زرداری صاحب صدر بن گئے ہیں لیکن ابھی تک کہنہ مکر نیوں سے پیچھا چھڑا کر صحیح معنوں میں صدر نہیں بن سکے‘ سب سے اعلیٰ ریاستی منصب کو ایک مذاق بناکررکھ دیا گیا ہے۔کرپشن کے مقدمات گلے کی پھانس بن کرتعاقب کررہے ہیں‘اپنازیادہ وقت انہی مقدمات سے خلاصی کےلئے صرف کردیتے ہیں‘نورتنوں کاایک ٹولہ بابراعوان کی معیت میںہروقت جوڑتوڑکی سازشوں میں مصروف ہے۔قوم مہنگائی اورکرپشن کی جس دلدل اورعذاب میں مبتلا ہے ‘اس کی کسی کوکوئی پرواہ نہیں۔
روم کے زوال پرایک معروف تاریخ دان نے کہاتھا”سلطنت روم میں اس وقت تک زوال نہ آیاجب تک اس حکومت میں دوفیصدتک افرادایماندارتھے۔تہذیب وتمدن کی تقریباً تین ہزارسالہ تاریخ میں قوموں کی عروج وزوال کی داستانیں کرپشن اوراس کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کے نقوش ہیں جوکھنڈرات کی شکل میں جابجابکھرے ہیں۔ ابن خلدون نے کہاتھا” بدعنوانی ‘اخلاقی پستی اوراحتسابی اداروں کی ناکامی سے تہذیبیں اندرہی اندرسے ختم ہوجاتی ہیں۔کرپشن کاآسیب پورے معاشرے کوآہستہ آہستہ لپیٹ میں لیکر احساسِ جرم ختم کردیتاہے “۔
مہ وغم رہے بزم ِ شہرِیاراںمیں نگاہ خلق ترستی رہی کرن کےلئے
توکیایہی غم جمہور کے تقاضے ہیں نظراٹھاکہ دیکھے کوئی مرے کہ جئے
پاکستان کی خارجہ پالیسی جوبری طرح ناکام ہوچکی ہے اس کی طرف کسی کاکوئی دھیان ہی نہیں۔پاکستانی شہریوں کی امن وسلامتی کی فکرکرنے کی بجائے جہازی سائزکی کابینہ کی حفاظت کومکمل سیکیورٹی فراہم کرنے میں ملکی دولت کوبری طرح خرچ کیاجارہا ہے۔ہرسال ملک میں پانچ سوارب روپے کی کرپشن کی دہائی دی جارہی ہے‘ابھی حال ہی نے سپریم کورٹ نے رینٹل پاورز والوں سے چوبیس گھنٹوں کے نوٹس پرسوادوارب روپے قومی خزانے میں واپس منگوائے ہیں لیکن کیااس کرپشن میں ملوث کسی حکومتی فردسے کوئی بازپرس ہوئی ہے؟ اس عیدپرغربت کے ہاتھوں چاردرجن افرادنے خودکشیاں کرلی ہیں جبکہ ایوان صدر کے یومیہ۸۲لاکھ روپے اوروزیراعظم ہاوس کے یومیہ ۲۲لاکھ روپے کے خراجات میں کوئی کمی نہیں آئی!ان افرادکے قتل کی ایف آئی آرآخرکس کے نام پرکٹوائی جائے؟ اب دیکھنایہ ہے کہ بمبینوکاعذاب کب ختم ہوگا؟
رہے نام میرے رب کاجو دلوں کے حال سے واقف ہے!