Home / Socio-political / بہنوں اور بیٹیوں کے نام

بہنوں اور بیٹیوں کے نام

عباس ملک،پاکستان

دور جدید میں ملٹی میڈیا کے پھیلا ئے ہوئے علم سے ہر کوئی استفادہ کررہا ہے کسی کو دانش کی بات بتانا کہنا یا لکھنا دوسرے کا استحقاق مجروح کرنا ہے ۔وجہ یہ کہ ہر کوئی خود کوحلقہ دانشوراں کا اہم ستون قرار دیکر کوئی بھی اچھی سے اچھی بات بھی مسترد کر سکتا ہے ۔ سمجھنے کیلئے تہہ تک جانا تو دور کی بات ہے سرسری اگاہی بھی شاید پوری طرح نہیں لی جاتی۔ناآشنا اسلامی قوانین پر بحث کرتے اور سوشل ازم کو اسلام کا ترکہ بناتے ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔اگر چہ بچیوں کی تعلیم سے متعلق اسلامی قوانین یا اسلامی اقدار تو یہی ہے کہ اسلام میں ہر مسلمان پر علم حاصل کرنا فرض قرار دیا گیا ہے ۔اس میں مرد و زن کی تخصیص نہ رکھی گئی ۔مسلمان پر فرض قرار دیا گیا تو اس کا مطلب یہی ہے کہ مسلمان خواہ وہ مرد ہو یا عورت اس کیلئے علم حاصل کرنا فرض ہے ۔ اس کو موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو علم حاصل کرنا اس وقت کی انتہائی اہم ضرورت بن چکا ہے ۔ معاشرے کیلئے بھی علم کی اہمیت اور افادیت کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ حصول علم کیلئے ہمارے ہاں جو بھی کوششیں کی جائیں وہ کم ہیں علم مسلمان کی میراث ہے اور اپنی میراث سے کوئی بھی محروم رہنا پسند نہیں کرتا۔

دور حاضر پردہ کو عورت کی ترقی کیلئے رکاوٹ قرار دیکر خواتین کی ترقی کے علمبردار اسکے خلاف متحرک رہتے ہیں ۔ عورت کی ترقی کی راہ میں شاید پردہ اتنی رکاوٹ نہیں جتنا عورت کی عزت اور وقار زیادہ اہم اور ضروری ہے ۔عورت کی تعظیم اور وقار سے ہی اسکی اصل اہمیت ہے ۔ خواتین کو حصول علم سے روکنا اسلامی شریعت کی پیروی اور تقلید نہیں البتہ عورت کو معاش کے حصول کیلئے ایسے پیشے میں دھکیل دینا جو عورت کے وقار اور عزت و ناموس کیلئے خطرہ بن جائے غلط ہے ۔اسکی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ کیا ملک میں مردوں کا قحط پڑ گیا ہے کہ خواتین کو آرمی جوائن کرنی پڑ جائے ۔خواتین کے وقار کو ملحوظ خاطران کیلئے ڈاکٹر کا پیشہ ،استاتذہ ہونا جیسے پیشے ہیں ۔ عورت کو ہوٹل کے رپسپشن پر بٹھا کر یا ٹی وی کمرشل میں نچا کرکچھ معاشی مفاد ہے لیکن کیا اس کا وقار اسکی ناموس اسکے ساتھ رہ جاتی ہے ۔

وقت نے ایسے حالات پیدا کر دئیے ہیں کہ خواتین کو معاشرتی ترقی میں اپنے مردوں کا ساتھ دینے کی ضرورت پیش آرہی ہے ۔جس گھر میں بیٹیاں ہی ہوں تو زندگی گذارنے کیلئے اور اپنی آنے والی زندگی کے اسباب جمع کرنے کیلئے گھر سے باہر نکلنے کے سوا کوئی چارا نہیں رہا ۔ ایسے میں ان کو کا م کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے لیکن کیا ضروری ہے کہ ان کو ذلیل و رسوا کر کے ہی ان کی ضرورت پوری کی جائے ۔ ایک خاتون سے میں سوال کیا کہ وہ ڈیوٹی کے دوران کیسا محسوس کرتی ہیں یا ان کو کوئی مشکل تو درپیش نہیں ۔ اس خاتون کی آنکھوں میں آئی ہوئی اداسی اور اس کے جواب سے گنگ ہوگیا ۔ خاتون کا جواب تھا کہ اگر زبان سے بولنا مشکل ہو تو چہرے اور آنکھیں پڑھ لینا چاہیں ۔ اندازہ کریں ہمارے معاشرے میں خواتین کا کام کرنا کتنا مشکل امرہے ۔ لیکن ہمارے دل کتنے سخت ہیں کہ ہم نے خواتین امر واقعہ حقیقی پریشانی اپنے بچوں یا اپنے بوڑھے والدین کیلئے روزگار کے حصول کیلئے نکلنا کتنا دشوار بنا دیا ہے ۔ خواتین کا اپنے شوق سے کام کیلئے نکلنا اور معاشرتی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا وقت کی ضرورت بن چکاہے ۔ ملک کی آبادی کا نصف خواتین پر مشتمل ہے یعنی ملک کی اٹھارہ کروڑ آبادی کا نصف 9کروڑ خواتین کو عضو معطل کی طرح ایک طرف کر دینے سے معاشرتی ترقی کی راہ میں ایک پہاڑ کھڑا کر دینا ہے ۔ حکومت کوئی بھی خواہ وہ پیپلز پارٹی کی ہو یا مسلم لیگ ن کی ہو یا مارشل لا ہو کسی نے بھی خواتین کے معاشرتی کردار کو مختص کرنے کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا ۔قومی صوبائی اسمبلیوں اورسینٹ میں خواتین کی نشستیں مختص کر دینے سے کیاتما م خواتین کا معاشرتی حق ادا کر دیا گیا ؟سیاستدان اپنے کردار و استحقاق پر تو ہمیشہ سے قانون سازی کرنے میں جلد باز واقع ہوئے ہیں لیکن خواتین کو انکے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے کیلئے خواتین کی مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین کا ہی مرہون منت بنا دیا گیا۔ کیا یہ صرف خواتین ہی کا کام ہے کہ وہ خواتین کے حق کیلئے آواز بلند کریں مرد سیاستدان اپنے لیے باعث شرم محسوس کرتے ہیں کہ وہ خواتین کے حقوق کیلئے آواز بلند کریں تو کہیں دوسرے انکی طرف مسکرا کر دیکھیں اورانہیں زن مرید کے خطاب سے نہ نواز دیں ۔ اگر سیاستدانوں پر کرپشن ، اقربا پروری ، اختیارات کے ناجائز استعمال ، استحصال اور قبضہ مافیا کی سرپرستی اور غنڈہ گردی کے فروغ کے الزامات لگنے سے کوئی فرق نہیں پڑا تو چھوٹی سی بات کیلئے وہ کیوں شرمندہ ہوں۔

معاشرے کو جس اخلاقی اقدار کے قحط کا سامنا ہے اس کا بنیادی سبب ہی عورت کی بے توقیری ہے ۔عورت کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہے ۔ ماں ،بہن ،بیٹی سب کی سانجھی ہوتی ہے تو پھر اس پر عمل کون کرتا ہے ۔ہماری بنیاد بہت کمزور ہے ہم عورت کو انتہائی تذلیل سے دیکھتے ہیں۔ اس وجہ سے معاشرے کا ایک بڑا حصہ تذلیل کا شکار ہے ۔ خواتین کو آوارگی کا سرٹیفکیٹ دینے کی ضرورت نہیں لیکن ان کو عضو معطل بنانے سے بھی ہمارا اپنا نقصان ہے ۔

مصنفین و ادیب حضرات نے خاتون کو زیادہ تر شمع محفل اور مجازی پیار کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے ۔اسکے سد باب کی ضرورت ہے ۔ لڑیچر میں خواتین کو جس طرح پیش کیا جائے گاپڑھنے والے پر اس طرح کا اثر ہوگا ۔عورت پیار کرنے کی چیز ہے تو کیا عورت عزت کرنے کی چیز نہیں ۔ پیار بھر ی نظروں سے دیکھنے والا کیا اس کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا ۔اس کا سبب یہی ہے کہ عورت کو صرف پیار کرنے کی چیز بنا کر پیش کیا گیا ہے ۔اس کو عزت مآب کے روپ میں پیش کرنے سے اس کا مثبت اثر ضرور پڑے گا ۔ خواتین کو عزت کے جس قحط کا سامنا ہے اس کی مناسب قانونی اور معاشرتی پاسبانی کی جانی ضروری ہے ۔ اس کیلئے شادی بیاہ کی ہندوانہ رسموں پر پابندی جس میں جہیز اور منگنی کے ساتھ مہندی کی رسوم پر پابندی لگانا پہلا قدم ہے ۔شادی کی تقریب کو نکاح اور ولیمہ کی قانونی شکل دی جائے ۔ جہیز پر پابندی لگائی جائے تاکہ اس کی وجہ سے معاشرتی طور پر جو گھٹن پیدا ہو چکی ہے وہ دور ہو۔خواتین کو پرائمری سکولوں میں ٹیچر کے لیے مجاز ترجیح دیکر انہیں معاشرے میں باوقار مقام کیلئے پیش بندی کی جائے ۔اس کے علاوہ بھی اگر وہ کسی دفتر میں کام کر رہی ہیں یا وہ زندگی کی جدوجہد میں مصروف ہیں تو ان کیلئے باعث تکلیف عناصر کی سرکوبی کیلئے مناسب قانونی استحقاق مہیا کیا جائے۔ بالخصوص نوجوان بچیوں کے کالجز اور سکولوں کے باہر کھڑے اوباشوں کی سرکوبی کیلئے مناسب قانونی سائبان مہیا کرنا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے ۔خواتین کو کالج سکول اورڈیوٹی آورز میں آمدورفت کیلئے علیحدہ ٹرانسپورٹ مہیا کی جائے تاکہ وہ آسانی کے ساتھ اپنے مطلوبہ مقام تک رسائی حاصل کر سکیں ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *