Home / Socio-political / بے انصافی کی مٹی

بے انصافی کی مٹی

بے انصافی کی مٹی

سمیع اللہ ملک ، لندن

پرنس ہیری برطانیہ کے ولی عہد شہزادہ چارلس اور آنجہانی لیڈی ڈیانا کے دوسرے صاحبزادے ہیں، برطانیہ کی متوقع بادشاہت میںہیری تیسرے نمبر پرآتے ہیں،پرنس ہیری۵۱ستمبر۴۸۹۱ءمیں پیدا ہوئے اور ان کی والدہ انہیں عام انسان دیکھنا چاہتی تھی چنانچہ لیڈی ڈیانا نے شاہی روایات توڑتے ہوئے ہیری کو عوامی پارکوں، کھیل کود کے میدانوں، میکڈونلڈ اور سینما گھروںمیں لے جانا شروع کیا، پرنس ہیری بارہ برس تک اپنی ماں کے ساتھ لندن کی عام زندگی دیکھتے رہے لیکن پھر۷۹۹۱ءمیں لیڈی ڈیانا کا انتقال ہوگیا اور ہیری دوبارہ شاہی خاندان کی روایات میں دفن ہوگئے،وہ ۸۹۹۱ءمیں سکول کی تعلیم کے لئے ایٹن (ETON)آئے تو انہوں نے آزادی کا ذائقہ چکھنے کے لئے سپورٹس کا سہارا لیا، وہ فٹ بال، سکینگ اور گھڑ سواری میں دلچسپی لینے لگے، پرنس ۵۰۰۲ءمیں ملٹری اکیڈمی سینڈ ہرسٹ میں داخل ہوئے، انہوں نے ۴۴ہفتے کی عسکری ٹریننگ لی اور برطانوی فو ج میں شامل ہوگئے،انہوں نے ونڈ سر میں بلیوز اور رائل رجمنٹ جوائن کرلی، وہ اب برطانوی فوج میں سیکنڈ لیفٹیننٹ ہیں اور اپنی رجمنٹ کے ساتھ تمام خطرناک اور مشکل آپریشنز پر جاتے ہیں۔

پرنس ہیری اکتوبر۷۰۰۲ءکے آخر میں شدید قانونی مشکلات کے شکار ہوگئے ،وہ برطانوی اخبارات کی ”کورسٹوریز“اور ٹیلی ویژن کی خبروں میں بھی بری طرح ”ان “ہوگئے پرنس ہیری کی مشکلات کا پس منظر بہت دلچسپ تھا،مشرقی برطانیہ کے علاقے نور فوک(Norfolk)میں ملکہ برطانیہ کی بہت بڑی جاگیر ہے،اُس کا نام سینڈرنگ ہیم ہے اور اس میں ایک شاہی محل اور ایک طویل جنگل ہے،اکتوبر کے آخری ہفتے پرنس ہیری نے اپنے ایک دوست کے ساتھ اس جاگیر پر قیام کیا،اس جاگیر میں بعض نایاب پرندے بھی موجود ہیں،برطانیہ نے ان پرندوں کے شکار پر پابندی لگا رکھی ہے،ان پرندوں میں ایک خاص قسم کی مرغی) Herrier (بھی شامل ہے،اُس پرندے کا نر گرے جبکہ مادہ براﺅن رنگت کی ہوتی ہے اور یہ خوراک کی تلاش میں پرواز بھی کرسکتی ہے۔

اکتوبر کے آخرمیں پرنس ہیری اور اس کا دوست شکار کے لئے جنگل میں نکلے،اس وقت ہوا میں دو ہئیریر اڑ رہی تھیں،جنگل میں اچانک دو فائر ہوئے اور یہ دونوں پرندے زخمی ہو کر گر گئے،سینڈرنگ ہیم کے قرب و جوار میں اس وقت دو عام شہری اور جنگلی حیات کا ایک وارڈن موجود تھے،ان لوگوں نے فوراً پولیس کو اطلاع کردی،پولیس فوری طور پر سینڈرنگ ہیم پہنچی اور اس نے پرندوں کی لاشیں قبضے میں لے لیں،جس کے بعد شہزادے سے ابتدائی تفتیش شروع ہوگئی،شہزادے نے اس واقعے سے لاتعلقی ظاہر کی لیکن پولیس نے اسے تفتیش کا حصہ بنا لیا،یہ واقعہ دوسرے دن اخبارات کی شہ سرخی بن گیا،شاہی خاندان کا ترجمان یہ اعلان کر نے پر مجبور ہوگیا،اگر شہزادہ قصور وار ثابت ہوا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی ”برطانوی قانون میں اس پرندے کو نقصان پہنچانے کی سزا چھ ماہ قید اور پانچ ہزار پاﺅنڈ جرمانہ ہے،برطانوی قانونی ماہرین نے قومی پریس کو بتایا کہ اگر شہزادے کے خلاف جرم ثابت ہوگیا تو اسے نہ صرف یہ سزا بھگتنا پڑے گی بلکہ اسے فوج سے بھی فارغ کردیا جائے گا۔پھر دنیا کے تمام باخبر میڈیا نے اس کاروائی کو مانیٹر بھی کیااوربرطانیہ کی عدالتی کاروائی کو تحسین کے کلمات سے بھی نوازا۔

آپ پرنس ہیری کے خلاف چھپنے والی تمام رپورٹس کو آج بھی پڑھ لیں،ان رپورٹ میں چارچیزیں نمایاں ہیں، اول برطانیہ میں کوئی رکن اسمبلی، کوئی لارڈ، کوئی جرنیل اور شاہی خاندان کا کوئی فرد قانون سے بالاتر نہیں،دوم برطانیہ میں عام شہری سے لے کر جنگلی حیات کا وارڈن تک برطانوی خاندان کے خلاف شکایت کرسکتا ہے اور پولیس تفتیش کے لئے شاہی محل میں بھی داخل ہوسکتی ہے،سوم برطانیہ کے شاہی خاندان کے چھوٹے سے چھوٹے جرائم بھی میڈیا میں آجاتے ہیں اور خاندان کا کوئی فرد میڈیا پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیںکرتا اور چہارم اگر شاہی خاندان کے کسی فرد کے خلاف جرم ثابت ہو جائے تو برطانوی عدالتیں فیصلہ سناتے دیر نہیں لگاتیں اور اس فیصلے پر فوراً عمل درآمد ہوتا ہے،میں جب برطانوی معاشرے کی ان خوبیوں کا مطالعہ کر رہا تھا تو میں ساتھ ساتھ اپنے پاکستانی معاشرے کا جائزہ بھی لے رہا تھا۔

برطانیہ ہمارا آقا تھا،وہ ہم پر ڈیڑھ سو سال حکومت کرتا رہا تھا۔لیکن بعد ازاں ہمیں محسوس ہوا ہم مسلمان ہیں اور مسلمان نظریات، خیالات اور روایات میں برطانیہ کے کافروں سے بہت آگے ہیں چنانچہ ہمیں کافروں سے آزادی حاصل کرنی ہے، ہم نے ۷۴۹۱ءمیں کافروں سے آزادی حاصل کرلی لیکن ۷۰۰۲ءمیں ہمارے کافر آقاﺅں کی اخلاقیات اور قانون پروری کا یہ عالم دنیا نے ملاحظہ کیا کہ وہاں دو پرندوں کے قتل پر نہ صرف پولیس شاہی شکار گاہ میں داخل ہوجاتی ہے بلکہ شہزادے کی دو دو بار تفتیش ہوتی ہے اورشہزادہ میڈیا سے منہ چھپاتا پھرتا ہے جبکہ ہم جیسے اہل ایمان کے ملک میں سپریم کورٹ صدرزرداری کے دوعہدوں کی قانونی حیثیت پر سماعت شروع کرتی ہے تو بابر اعوان جو پی ایچ ڈی کی مشکوک ڈگری کے ساتھ وزارتِ قانون کا قلمدان سنبھالے ایک مخصوص چارٹر طیارے کے ذریعے ملک بھر کی بارکونسلز میں کروڑوں روپے بانٹ رہے ہیں‘کے حکم پر نیب کا سربراہ سپریم کورٹ کو اپنے خط میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس چوہدری افتخار کی تقرری کو غیرقانونی قراردیکر ملک کو ایک نئے بحران میں مبتلا کرنے کی کوشش شروع کردیتا ہے۔

 میں سوچ رہا تھا، ایک طرف ”کافروں “کے شہزادے دو پرندے مارنے کے جرم میں قانون کے شکنجے میں آجاتے ہیں جبکہ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین قوم کے حکمران خود کو قانون اور آئین سے بالاتر ثابت کردیتے ہیں، مجھے کل ایک دوست بتا رہے تھے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عدلیہ آزاد ہوئی ہے، اب جج پیچھے نہیں ہٹیں گے ، میں نے پوچھا ”اگرملک میں مائنس تھری کا فارمولہ آگیا تو؟“ !“انہوں نے فرمایا”اگر کوئی ایسا فارمولہ آیا تو جج اس فارمولے کی سخت مزاحمت کریں گے اور وہ معمول کے مطابق کام کرتے رہیں گے“میں نے پوچھا ”اگر حکومت نے ان کے دروازوں پر پولیس یا فوج بٹھا دی تو !“انہوں نے فوراً جواب دیا ”اگر حکومت نے ایسا کیا تو ملک میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی،عوام ظالموں کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے“وہ رکے اور دوبارہ بولے ”آپ ہماری بدقسمتی دیکھئے، ہم صرف ایک شخص کو بچانے کےلئے پاکستان کے تمام ادارے تباہ کر رہے ہیں،ہم قانون اور آئین کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں، ہم اللہ کے سامنے کیامنہ لے کر جائیں گے !“میں نے انہیں پرنس ہیری کا واقعہ سنایا اور عرض کیا ”قیامت کے دن یہ لوگ ہمارا منہ چڑائیں گے “۔

ہمارے حکمرانوں کو کون بتائے دنیا کے تمام مذاہب کی کوئی نہ کوئی ایک بڑی خصوصیت ہے مثلاً ہندومت عاجزی کا مذہب ہے(بلاشبہ موجودہ ہندو قیادت بھی اس پر عمل نہیں کررہی)،بودھ بے لوث ہوتے ہیں اور عیسائیت قربانی اور یہودیت بالا دستی کا درس دیتی ہے جبکہ اسلام عدل کا نام ہے،اگر ہم اسلام سے عدل اور مسلمانوں سے انصاف نکال دیں تو پیچھے سو کلو گرام گوشت کا ڈھیر رہ جاتا ہے لیکن آپ ہماری بد قسمتی دیکھئے آج یہودی، عیسائی، بودھ کے پیروکار جانوروںتک سے انصاف کر رہے ہیں،ان کے معاشروں میں ملکہ سے لے کرفریادی تک کو یکساں حقوق حاصل ہیں،وہا ں دو پرندوں کی لاشیں بھی زنجیر عدل ہلا دیتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی محبوب قوم کے حکمران ہرروز انصاف، قانون اور عدل سے جوتے صاف کرتے ہیں، وہ پوری دنیا کو مخاطب کر کے اعلان کرتے ہیں، ہمارے خلاف فیصلہ آنے کا امکان ہوا تو ہم ملک میںہرقدم پر اس کی مزاحمت کریں گے۔

ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے آج اگر برطانیہ کی عدالتیں شاہی خاندان کو محلات خالی کرنے کا حکم دیتی ہیں تو کیا ملکہ کے پاس کوئی دوسرا راستہ ہوگا؟اب آپ اللہ کے نام پر بننے والے پاکستان کو دیکھئے ہماری سپریم کورٹ کے احکامات کی کس قدر تحقیر ہورہی ہے۔اس کے فیصلوں پر عمل درآمد کی بجائے دوسرے تاخیری حربوں سے کام لیکر کبھی وزارتِ قانون کا سیکرٹری استعفیٰ دیکر گھر چلا جاتا ہے یا پھر عین مقدمے کے دوران حکومتی وکلاءکو تبدیل کرکے مزید وقت حاصل کرنے مظالبہ کرلیا جاتا ہے۔ایک لمبے عرصے تک نیب کو کسی سربراہ کے بغیر محض اس لئے چلایا جاتا ہے کہ عدالتی کاروائی کا مذاق اڑایا جائے اوراب نیب کی طرف سے چیف جسٹس اوران کے تمام ساتھیوں کی تعیناتی کو مشکوک اورغلط قرار دیکر ایک نئی لاحاصل اورغیرقانونی جنگ کے آغاز کا اعلان کردیا گیا ہے۔

فاسق کمانڈو جنرل مشرف کے دورِ حکومت میں بھی ایسے ہی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے تھے جب نواز شریف کی واپسی کا حکم دیا تھا لیکن مشرف کی حکومت نے انہیں جہاز میں بٹھا کر سعودی عرب بھجوادیا تھا لیکن شاہ عبداللہ نے اس بے انصافی کو قبول نہ کرتے ہوئے ان کو دوبارہ پاکستان اپنی ضمانت پر بھجوادیا تھا۔اس وقت بھی ملک کا وزیرِ اعظم شوکت عزیز اوروزیرِقانون انصاف اور قانون کے ساتھ یہ کھلواڑ کررہے تھے حالانکہ اس سے ایک رات قبل پرائم منسٹر ہاﺅ س میں مولانا طارق جمیل سے عدل و انصاف کے موضوع پرایک لیکچر سن رہے تھے اوریقینا مولانا جمیل گفتگو اللہ کے نام سے شروع کرکے اللہ ہی کے نام پرختم کی ہوگی،مجھے بتائیے جس ملک کا ایک سنئیر ترین جج جسٹس خلیل رمدے سرکاری وکیل کو بھری عدالت میں یہ کہنے پر مجبور ہو جائے ”زبان کو لگام دو“وہاں عدالتی کاروبار کس طرح چلتا ہوگا۔

حضرت علیؓ نے چودہ سو سال پہلے فرمایا تھا دنیا میںکفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے لیکن بے انصافی کی نہیں اور ہم وہ بدنصیب لوگ ہیں جن کی حکومتوں کے سارے پائے بے انصافی کی مٹی سے بنتے ہیں اور صرف وہ لوگ حکومت کرسکتے ہیں جن کے ڈنڈے لمبے ہوتے ہیں یا جو اپنے اپنے ضمیر کے گورکن ہوتے ہیں۔لےکن کب تک؟؟؟؟

 

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

One comment

  1. عمبر شمیم

    سمیع الله ملک کامضمون قائل کر دینے والا ہے۔ ایک ایک بات دلائل کے ساتھ پیش کرنے کا ہنر بحسن خوبی آتا ہے لیکن پاکستان کی پیش نظر یہ سب ضائع ہے۔ کون سنتا ہے اس طرح کی باتیں؟
    وہاں تو جتنا جھوٹ جتنا مرچ مصالحہ لگی باتیں کہو اثر انداز ہوتی ہیں۔ آج سب اپنے ضمیر کے گورکن ہی ہونا پسند کرتے ہیں ایک سچا مسلمان ااوار انسان ہونے کے مقابلے۔
    سمیع لله صاحب لکھتے رہیں، کبھی تو ان کا ضمیر جاگے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *