بے مثال قربانی؟
سمیع اللہ ملک
فیصل آباد کی ڈی ٹائپ کالونی کا محمدبشیر ‘اس کی بیوی اوراس کے تین بچے مجھے سونے نہیں دے رہے‘میں جب بھی آنکھ بند کرتا ہوںمجھے محمد بشیرکے ہاتھ چھری نظر آتی ہے۔وہ مجھے اپنی بیوی کے سینے پر بیٹھا نظر آتا ہے ‘اس کی چھری کبھی زینب بی بی کا گلا کاٹتی دکھائی دیتی ہے ‘کبھی ڈیڑھ سال کے شہزادکے گلے میں اترتی ہوئی نظر آتی ہے اورکبھی چھ سال کی کوثرکی شہہ رگ غائب ہوجاتی ہے اورآخر میں جب پورے کمرے میںخون پھیل جاتا ہے اورمحمد بشیر بھی زہر کھا کرنعشوں کے ساتھ لیٹ جاتا ہے تو اس کا ساڑھے چارسال کا بیٹا سہیل اس کے سرہانے بیٹھ جاتا ہے ‘صبح لوگوں کو یہ بچہ روتا ہوا بد قسمت نعشوں کے ساتھ بیٹھا ملتا ہے ‘اس وقت میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔میں پانی پیتا ہوں اورباقی ساری رات پریشانی میں اپنے گھرکے افرادکے کمروں میں جھانک کران کوآرام سے سوتا دیکھ کرمطمئن تو ہوجاتا ہوں لیکن دل کی پریشانی مجھے دوبارہ بستر پرجانے کی اجازت نہیں دیتی۔
فیصل آباد کی ڈی ٹائپ کالونی مجھ سے بہت دور ہے ‘میں محمد بشیر اورزینب بی بی کو بھی نہیں جانتا‘میں اس کے بچوں کوثر‘سہیل اورشہزاد سے بھی واقف نہیں ہوں‘میراان مرے مٹے ‘قتل ہوئے لوگوں سے کوئی خونی اورکوئی جسمانی رشتہ یا تعلق بھی نہیںلیکن اس کے باوجودنجانے کیوں میںعیدکے دن سے خود کوان کا مجرم سمجھ رہا ہوں۔مجھے یوں محسوس ہوتا ہے میں ان چار نعشوں کا تن تنہامجرم ہوں‘یہ سارے قتل میری گرد ن پرعائد ہوتے ہیں‘میں اس کہانی ‘اس داستان کاایک کردار ہوں۔
محمدبشیر کی کہانی اس ملک کے پچاس فیصدلوگوں کی داستاں ہے بس ان آٹھ کروڑ لوگوں اوربشیر میں صرف ارادے اورجرات اورموت کو قبول کرنے کے حوصلے کا فرق ہے۔محمدبشیر ان سے زیادہ جرات منداورحوصلہ مند تھا۔محمدبشیر پانڈی تھا‘بوجھ اٹھا کرروزی کماتا تھا۔چھ ماہ پہلے نوکری سے چھٹی مل گئی تھی‘اس نے اپنی ماں کے ساتھ روئی کی دھنائی کاکام شروع کردیالیکن یہ مزدوری اسے اوراس کے بچوں کو روٹی نہ دے سکی۔عید کے دن ان کے گھرفاقہ تھاجب پورے محلے میں قربانی کاگوشت پک رہا تھا‘ جب محلے کے سارے بچوں نے نئے کپڑے پہن رکھے تھے ‘ہاتھوں پر مہندی لگا رکھی تھی تو اس وقت محمدبشیر کے بچوں کے تن پر پرانے بدبودار چیتھڑے لٹک رہے تھے۔محمدبشیر کے گھر کا چولہا ٹھنڈا تھا‘فاقوں نے محمدبشیر کی بیوی کوزبان دے دی۔اس نے چیخنا چلانا شروع کردیا۔
میاں بیوی میں خوب لڑائی ہوئی‘محمدبشیر اپنی ماں کے گھر گیا۔ماں کواپنی پریشانی سے مطلع کیا تو اس غریب خاتون نے کسی کے گھر سے آئے ہوئے چاول اپنے منہ سے اٹھا کر اس کے حوالے کردیئے اورخود بھوکی سو گئی۔ محمدبشیر نے ان چاولوں میں زہر ملایااورچاول بھوکے بچوں کے سامنے رکھ دیئے ۔زینب بی بی اورکوثر نے یہ چاول کھا لئے ‘شہزادابھی کھانے کی عمر کو نہیں پہنچا تھا‘سہیل کو قدرت نے بچانا تھا‘وہ مونگ پھلی کھاتا رہا جو اس کے پڑوس میں رہنے والے بچے نے اس پرترس کھاتے ہوئے تھوڑی دیر پہلے اسے دی تھی۔محمدبشیر نے اندر سے تالہ لگایا‘بیہوش بیوی کے سینے پربیٹھااورچھری سے اس کا گلا کاٹ دیا‘وہ پھر شہزاد کے پاس پہنچااوراسے ڈیڑھ سال کے بچے کا گلا کاٹنے میں صرف چند سیکنڈ لگے‘کوثر چھ سال کی بچی تھی اورمحمد اسلم کی بہت ہی لاڈلی اورپیاری تھی ‘وہ باپ کی چھری کے نیچے دیر تک تڑپتی رہی۔سہیل ان مناظر کو دیکھ کردہشت زدہ ہوگیا اورجلدی سے گھر کے کونے میں پڑے ٹرنک کے پیچھے چھپ گیا۔محمدبشیر نے چھری پھینکی اورزہر پھانک کرنعشوں کے درمیان لیٹ گیا۔ صبح لوگ دروازہ توڑ کراندر داخل ہوئے تو سہیل محمدبشیر اورخاندان کے دوسرے افرادکے سرہانے بیٹھاجیب میں مونگ پھلی چھپائے رورہا تھا۔
مجھے محسوس ہوتا ہے میں اورمیرے سمیت اس ملک کے وہ تمام لوگ جنہوں نے یہ عید منائی ‘جنہوں نے عید کے دن اپنے بچوں کونئے کپڑے پہنائے ‘جنہوں نے اپنے بچوں کو عیدی دی‘جنہوں نے قربانی کے جانور ذبح کئے ‘جنہوں نے صرف اپنے ملنے والوں کے ہاں بڑے اہتمام کے ساتھ گوشت تقسیم کیا‘جنہوں نے گوشت پکایااورجنہوں نے یہ گوشت کھایا‘وہ سب محمدبشیر اوراس کے بچوں کے قاتل ہیں۔قتل کا یہ سلسلہ فیصل آباد کی ڈی ٹائپ کالونی سے شروع ہو کر اسلام آباداوراسلام آباد سے پورے ملک تک پھیلتا ہے۔ہم سب قدرت کی ایف آئی آرمیں نامزد ہیں‘ہم سب لوگ اللہ کی تفتیش کے دائرے میں آتے ہیں‘ہم سب لوگ حضرت ابراہیم ؑ کے ملزم اوران کے رب کے اشتہاری ہیں۔
خداکی پناہ‘محمدبشیر اس ملک میں بھوکا مرگیاجس ملک کے ایک شہر لاہور میں عید کے دن پندرہ لاکھ جانور ذبح کئے گئے تھے‘محمد اسلم کے بچے عید کے دن اس ملک میں ذبح ہوگئے جس کے ایک شہر کراچی میں پچیس لاکھ جانوروں کی قربانی دی گئی۔سناہے کہ کراچی کی ایک مویشی منڈی میں قربانی کے جانوروں کامیلہ حسن منایاگیا‘میڈیاپران قیمتی جانوروں کی کیٹ واک کے مناظر بھی دکھائے گئے جہاں آٹھ لاکھ سے لیکردس لاکھ تک کے بیل قربانی کےلئے لائے گئے۔اسی کراچی میں جہاں چنددن پہلے ایک خودکش حملے نے سارے شہرکوہلاکررکھ دیا تھالیکن خداکے خوف سے کوئی دل لرزتانہیں۔محمد بشیر کا بیٹااس ملک میں نعشوں میں بیٹھ کرہاتھوں میں مونگ پھلی اٹھائے روتا رہا‘جس کے ایک شہر پشاور کے ایک بکرافروش نے پانچ پانچ لاکھ کے پندرہ بکرے بیچے تھے جس میں تین تین لاکھ میںگائے اوراونٹ بکے تھے‘ جس میں لوگوں نے آسٹریلیا اورنیوزی لینڈ کے امپورٹڈ بکرے خریدے تھے‘جس میں لوگوں نے اس بار نیل گائے اوریاک قربان کئے تھے۔اسی میڈیاپرلاہورکے ایک شوقین بڑے فخرسے اپنے پالتوبکرے کوقیمتی مربہ جات کے ساتھ بادام کھلارہاتھا۔اس بکرے کی خدمت کےلئے دوخصوصی ملازم رکھے ہوئے تھے جنہوں نے اس کوبچپن سے لیکراب تک قیمتی خوراک کھلاکرجوان کیاتھا۔
خدا کی پناہ! اگر آپ صرف کراچی اورلاہور کے جانور جمع کریں ‘انہیں اوسطً آٹھ ہزار روپے سے فی جانورضرب دیں تو ۲۳/ارب پاکستانی روپے بنتے ہیںاوریہ پاکستان کے دفاعی بجٹ کے تیسرے حصے کے برابر ہے لیکن اتنی بڑی قربانی کے باوجودعید کے دن محمدبشیر اوراس کے بچے بھوکے رہے۔ایک باپ اپنے بچوں کی گردن پرچھری پھیرنے پر مجبور ہوگیا۔کاش اس ملک کے اہل خیر نے ایسی تنظیمیں بنائی ہوتیں جوقربانی کے نصف بکروں کے برابررقم جمع کرتیں ‘جو لوگوں کو سمجھاتیں کہ آپ پانچ لاکھ کی بجائے پانچ ہزار کا بکرا خریدیں اورباقی چارلاکھ۵۹ہزارروپے ہمیں دے دیں ‘جو لوگوں کو بتاتیں آپ ایک بکرے کی قربانی دیںاورایک بکرے کی قیمت فنڈمیں جمع کروادیں ‘جن کے کارکن عید سے چند دن پہلے محمدبشیر جیسے لوگوں کے گھروں میں جاتے اورچپ چاپ ان کے ہاتھوں میں تھوڑی سی رقم دیتے اورانہیں عید کے حوالے سے عیدکاتحفہ کہہ کرآٹاگھی دال اورچاول پہنچاتے‘ان کے بچوں کو نئے کپڑے ‘چوڑیاں اورمہندی دے آتے تو شائد محمد بشیر اوراس کے بچے بچ جاتے لیکن شائد اللہ کے نام پر بکروں کی گردنوں پر چھریاں پھیرنے والے اہل ایمان کو محمدبشیر جیسے بندے نظر نہیں آتے‘شائدیہ لوگ لوگوں کی آنکھوں کی بھوک اوربچوں کی جلتی بجھتی حسرتیں نہیں دیکھ سکتے۔
نجانے کیوںمیرے دل سے اک ہوک سی اٹھتی ہے اوراندرسے اک آوازسنائی دیتی ہے کہ اس سال جب اللہ تعالیٰ نے حساب مانگا ہوگا تو فرشتوں نے عرض کیا ہوگا کہ اے ابرہیم ؑواسمعیل ؑ اورسب جہانوں کے پروردگار!اس برس مملکت خداداپاکستان میں قربانی تو صرف ڈیڑھ برس شہزاداورچھ سال کی کوثر کی ہوئی ہے جہاں ایوان صدر کے یومیہ اخراجات ۸۲لاکھ روپے اوروزیراعظم ہاوس کے یومیہ اخراجات ۲۲لاکھ روپے ہیں!