1
تائیوان کوامریکی ہتھیاروں کی فراہمی پر چین کا ردِ عمل
***ٴٌٌٴٌٌٴٌٌٌٌ تحریر! محمد اکرم خان فریدی***
akramkhanfaridi@gmail.com
امریکہ اور چین کے درمیان پہلے ہی حقوقِ انسانی کے تحفظ،تجارتی معاملات اور انٹرنیٹ کی سنسر شپ کے ایشوز پر کافی تناؤ چل رہا تھا کہ اوبامہ انتظامیہ نے اعلان کر دیا کہ امریکہ تائیوان کو 6.4بلین ڈالرز کے ہتھیار فروخت کرے گا۔ اکتوبر 2008ء میں بھی امریکہ کے صدر بش کی حکومت کی جانب سے تائیوان کو6.5بلین ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کی ڈیل ہوئی تھی۔6.4بلین ڈالرز کی حالیہ ڈیل کے مطابق امریکہ کی جانب سے تائیوان کو جوہتھیار فروخت کئے جائیں گے اُن میں 2.81بلین ڈالرز کے 114پیٹریاٹ میزائل،3.1بلین ڈالرز کے 60بلیک ہاک ہیلی کاپٹرز،340ملین ڈالرز کے مواصلاتی آلات(ریڈار ٹیکنالوجی،انفارمیشن ٹیکنالوجی،اندھیرے میں دیکھنے والے آلات)،105ملین ڈالرز کے 2 اوسپرے مائن ہنٹنگ شپس اور37ملین ڈالرز کے 12 ہارپون میزائل شامل ہیں جبکہ اس معاہدے میں F-16شامل نہیں ہوئے جن کی تائیوان کی فوج کو بڑی دیر سے خواہش تھی۔ امریکہ کی جانب سے تائیوان کو ہتھیاروں کی فراہمی پر چینی حکام نے اوبامہ انتظامیہ کو ذبردست تنقید کا نشانہ بنایا اور تائیوان کے لئے ہتھیاروں کی فراہمی کے عمل کو چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیاہے ۔چائنہ کے نائب وزیر خارجہ” مسٹر ہی یافی (HI Yafi)“نے بیجنگ میں امریکی سفیر ”جان ہینٹسمین “ کو تائیوان کو اسلحے کی فراہمی بارے چینی حکومت کے غم و غصے سے آگاہ کیا ہے ۔ہتھیاروں کی فراہمی کے اعلان کے بعد چین نے پینٹا گون کے ساتھ سکیورٹی کے تبادلہ کے فیصلہ کو بھی منسوخ کرنے کابھی عندیہ دیاہے۔جبکہ دوسری جانب واشنگٹن کا موقف ہے کہ چین کے پاس 1000کے قریب ایسے بلاسٹک میزائل ہیں جو اُس نے تائیوان کے قریبی سرحدی علاقوں میں تائیوان کو ٹارگٹ بنا کر نصب کر رکھے ہیں واشنگٹن کا یہ بھی کہنا ہے کہ خطہ میں پائیدار امن اور توازن قائم کرنے کے لئے تائیوان کو ہتھیاروں کی فراہمی بہت ضروری ہے اور ہم ”تائیوان ریلیشن ایکٹ Taiwan Relation Act 1979“کے تحت تائیوان کو ہتھیار دینے کے پابند ہیں۔ امریکی ادارے ”ڈیفنس سکیورٹی اینڈ اینڈ کوآپریشن ایجنسی(DSCA )کا ہتھیاروں کی فروخت بارے کہنا ہے کہ
“The proposed sale will help improve the security of the recipient and assist in maintaining political stability, military balance and economic progress in the region,”.
2
جبکہ دو سپر پاوروں میں پھنسے ہوئے تائیوان کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے ہتھیاروں کی فراہمی پر ہمارے حوصلے بلند ہونگے۔36189مربع کلومیٹر چینی خطہ جو اِن دنوں تائیوان کے نام سے جانا جاتا ہے 1945ء سے قبل جاپان کے قبضے میں تھا جسے بعد میں جاپان کے قبضے سے واپس لے لیا گیا اور 1.3ملین چینی باشندوں ،سولجرز،بڑے زمینداروں اور اُس وقت کے اشرافیہ نے مل کر اِسے الگ مملکت بنا لیا جسے چین نے آج تک الگ مملکت کے طور پر قبول نہیں کیا ۔چین آج بھی تائیوان کو اپنا علاقہ قرار دیتا ہے اور اسے اپنے ملک کا حصہ قرار دیتا ہے۔ہانگ کانگ میں الگ حکومت کے باوجود چین نے اِس پر دوبارہ اپنا کنٹرول کر لیا ہے لیکن تائیوان پر ابھی تک کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام ہے ۔واحد سپر پاور کے چینی خواب کو ملیا میٹ کرنے اور خطے میں اُسے بے سکون کرنے کی غرض سے 1979ء میں امریکی کانگریس نے تائیوان ریلیشن ایکٹ TRAپاس کیا جس کے تحت طے پایا کہ امریکہ تائیوان کی مختلف شعبوں میں مدد کرے گااور چین کی دھمکیوں کا جواب دینے کے لئے اُسے جدید ہتھیار فراہم کرے گا ۔آج جب2008ء کے بعد دوبارہ تائیوان کو ہتھیار فراہم کئے جا رہے ہیں تو پیپلز لبریشن آرمی کے آفیسران میجر جنرل ”لویوآنLuo Yuan“میجر جنرل ”ذوچِنگوZhu Chenghu“اور سینئر کرنل” کی چن کائیو Ke chunqiao“نے کہا ہے کہ ہم تائیوان کو اسلحہ فراہم کرنے پر امریکہ کوایسی سزا دینگے جس سے امریکہ کی معیشت مزید زوال میں چلی جائے گی،امریکہ کا کروڑوں ڈالر کا چکن جوکہ چین کی مارکیٹ میں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے ا ُس پر پابندی لگنے سے بھی امریکہ کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑ سکتا ہے ۔لیکن اِن تمام تر دھمکیوں اور ممکنہ پریشانیوں کی پرواہ کئے بغیر واشنگٹن خطے میں ہتھیار پھیلانے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے ۔ دراصل تائیوان ریلیشن ایکٹTRA 1979ء چین اور امریکہ کے دو طرفہ تعلقات کی بہتری میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔چین اور امریکہ مختلف ایشوز پر ایک دوسرے کی کھُل کر مخالفت کرنے لگے ہیں ،اسکی سب سے بڑی مثال کوپن ہیگن میں ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں ہونے والا اجلاس ہے جس میں امریکہ اور چین ایک دوسرے کے ذبردست مخالف نظر آئے جبکہ حال ہی میں ایران کے نیوکلےئر پروگرام کے خلاف چین نے امریکہ کی مخالفت کی ہے اور اس خدشے کا اظہار بھی کیا جا سکتا ہے کہ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کے خلاف بھی چین امریکہ کی حمائیت نہیں کرے گا۔
امریکہ اور چین کا بڑھتا ہوا اختلاف ایشیائی ممالک کو خطرناک اشارے دے رہا ہے ۔چین ہی نہیں بلکہ پوری دُنیا جانتی ہے کہ امریکہ آنے والے 50سال کے بارے میں بھی اپنی منصوبہ بندیاں شروع کر دیتا ہے ۔شائد 1979ء میں جب امریکہ نے تائیوان
ریلیشن ایکٹ پاس کیا تو پینٹا گون نے چین اور اس سے ملحقہ ملکوں کو غیر مستحکم کرنے کے بارے میں منصوبہ بندی شروع کر دی تھی ۔آج جب امریکہ تائیوان کو ہتھیار فراہم کرکے چین کو پریشان کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو اِس خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتاکہ کل چین بھی امریکہ مخالف طاقتوں کو ہتھیار فراہم کر سکتا ہے جسکی وجہ سے امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ بے حد متاثر ہو سکتی ہے ۔آج جب تائیوان کے صدر خوشی خوشی اِس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے اسلحہ کی فراہمی سے تائیوان کا حوصلہ بلند ہو ا ہے لیکن شائد
3
وہ یہ نہیں جانتے کہ دنیا کی بعض طاقتیں چین کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں اور اس مقصد کو پانے کے لئے وہ تائیوان کو ایک خطرناک جنگ میں دھکیل سکتی ہیں اسکے نتائج کتنے خطرناک ہونگے اسکا اندازہ وہ بخوبی لگا سکتے ہیں ۔یہ تو عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ کسی کو ہتھیار لڑنے کے لئے دیا جاتا ہے نہ کہ صلح کروانے کے لئے ۔دوسری جانب چین کو آج سے تیس سال قبل جب امریکی کانگرس نے تائیوان ریلیشن ایکٹ کی منظوری دے دی تھی تب ہی آج کے حالات سے نمٹنے کے لئے منصوبہ بندی کر لینی چاہئے تھی اور کوئی درمیانی راستہ نکال کر تائیوان اور اسکی عوام کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کر لینے چاہئے تھے لیکن آج تیس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد وہ امریکہ کے خلاف احتجاج کر رہا ہے ۔اِن تیس سالوں میں چین نے امریکہ کے ساتھ بڑے پیمانے پر تجارت کرنے کے علاوہ کئی دوسرے معاہدے بھی کئے، نتیجتاً اُسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔اب جبکہ امریکہ کے پاس ایک انتہائی ٹھوس موقف ہے کہ وہ تائیوان ریلیشن ایکٹTRAکی پاسداری کر رہا ہے تو چین کو امریکہ کی بجائے تائیوان کے حکام پر زور دینا چاہئے کہ وہ چین کے مطالبہ پر غور کریں اور خطے میں قیامِ امن کی خاطر چین کے اشتراک سے ہانگ کانگ کی طرز پر ایک نیا سیٹ اَپ قائم کرلیں تاکہ چین اورتائیوان کا دیرینہ اختلاف خاتمے کو پہنچے اور کسی تیسری طاقت کے پاس خطے میں مداخلت کرنے کا کوئی جواز نہ ہو ۔تائیوان کے صدر کو بھی یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ چین دنیا کی واحد سپر پاور بننے کی دوڑ میں شامل ہے اور اگر وہ اِس دوڑ میں کامیاب ہوتا ہے تو اسکا سب سے زیادہ فائدہ ایشیائی ملکوں کو ہوگااِس لئے چین اور تائیوان کے حکام کو چاہئے کہ وہ فی الفورمذاکراتی عمل شروع کریں تاکہ خطہ ہر قسم کے ممکنہ خطرات سے پاک ہو سکے۔
محمد اکرم خان فریدی(کالم نگار)
36۔ مجاہد نگر،شیخوپورہ سٹی،پاکستان
فون نمبر 0302 4500098
Email: akramkhanfaridi@gmail.com