اقوام عالم کے عروج و زوال کی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ قوموں کو سرفرازی‘کامیابی و کامر ا نی‘عظمت و سر بلند ی اور عزت و افتخار کے بام عروج تک پہنچانے میں ا تحاد و اتفاق‘جذبہ خیر سگالی اور ا خوت و بھائی چارگی نے نہائت اہم کر دار ادا کیا ہے۔عزت و ا فتخار کی فلک بو س چو ٹیوں سے ذلت و رسو ائی‘نکبت و پستی اور ا نحطاط و تنزل کی رسوا کن وادیوں میں قو میں اس وقت جا گر تی ہیں جب با ہمی ا خوت و اتحاد کی ر سی کمزور پڑ جا تی ہے اور معا شرے میں نا اتفا قی‘خود غرضی‘نا ا نصا فی اور عدم تعاون جیسی مہلک بیما ریاں جنم لینے لگتی ہیں‘ جو قومی و سماجی بنیاد کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر دیتی ہیں اور پو را معا شرہ عدم تو ازن سے دوچار ہو کر ا نحطاط و تنزل کی گہر ا ئیوں میںگر پڑتا ہے۔نتیجتاً پو ری قوم بد امنی و انارکی‘ا نتشار و لا مر کزیت کا شکار ہو کر ذلت و رسوائی اور بے یقینی کی ز ندگی بسر کر نے پر مجبور ہو جا تی ہے۔
رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میںآج کل شورش کا سب سے بڑاسبب وہاںکے افرادکے لاپتہ ہوجانے ،اغوا کر لئے جانے اوردہشت گردوںکے ہاتھوںبے رحمی کے ساتھ قتل کردیئے جانے کے اردگردگھوم رہی ہے ۔ان اسباب کی بناء پرسارے ملک میںایک عجیب پریشانی کاعالم ہے جس کاملک کی اعلیٰ عدلیہ نے بھی انتہائی سخت نوٹس لیتے ہوئے انتظامیہ کے ان افرادکوجواب طلبی کیلئے طلب کیاجس کا اس سے پہلے کسی نے سوچاتک نہیںتھا۔یہی وجہ ہے کہ اب بلوچستان میںکئی لاپتہ افرادکی واپسی کاعمل بھی شروع ہوگیاہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی کربناک پہلو جس کوابھی تک نظراندازکیاجارہاہے نہ صرف وہاںکے وہ غریب محنت کش جوبرسوںپہلے محنت مزدوری کیلئے وہاںجاکرآبادہوگئے اوراس صوبے کی خوشحالی میںاپناتن من دھن نچھاورکردیا،ان کوچن چن کرقتل کیاجارہاہے اورصوبے میںایسے خوف وہراس اوردہشت کی فضاقائم کردی گئی ہے جس کی بناء پران کونقل مکانی پرمجبورکردیاگیابلکہ ملک کے انتہائی نامورماہرتعلیم اورسرکاری شعبوںمیںاپنی خدمات بجالانے والوںکوبھی بیدردی سے قتل کرکے ملک کوشدیدنقصان پہنچایاجارہاہے۔
یہ سب کچھ تووہ ہے جودکھائی دے رہاہے لیکن درحقیقت جوعام لوگوںکی نظروںسے پوشیدہ ہے وہ امریکااوراس کے یورپی حلیفوںکاایجنڈہ ہے جنہوںنے اس صوبے میںاپنے اپنے مفادات کے حصول کیلئے ایک’’خفیہ جنگ‘‘شروع کررکھی ہے۔علاقائی اوربین الاقوامی بحرانوںکے تناظرمیںدیکھیںتوبلوچستان بظاہرغیراہم نظرآتاہے لیکن امریکی مفادات کے تحفظ کے حوالے سے غیرمعمولی اہمیت اختیارکرگیاہے۔دراصل بلوچستان وہ خطہ ہے جہاںاس وقت مختلف حکمت عملیوںکاملاپ اورٹکراؤ جاری ہے۔اگربلوچستان کے تکوینی محل وقوع پرنظرڈالیںتوجغرافیائی اورسیاسی اعتبارسے دنیاکے اہم ترین مقامات میںاس کاخصوصی کردارنظرآتاہے۔یہ خطہ مشرقی ایران،پاکستان کی مغربی اورجنوبی افغانستان کی سرحدوںسے جڑاہواہے جواس وقت امریکااوریورپ کیلئے طاقت کے اظہارکامیدان بن گیاہے کیونکہ اب وسط ایشیاسے توانائی کی ترسیل کاراستہ اوربحرہندتک رسائی بھی اسی خطے سے آسان اورکم خرچ ہے،اس لئے ترقی یافتہ اورترقی پذیرممالک کیلئے بلوچستان کونظراندازکرناممکن نہیںرہا۔اسی لئے بلوچستان تمام عالمی طاقتوںکیلئے انتہائی اہم ہوگیاہے۔
اب معاملہ محض سیاست اورجغرافیہ تک محدودنہیںرہا ،بلوچستان کے سینے میںتیل اورقدرتی گیس کے وسیع ذخائرکے علاوہ معدنیات کے بیش بہاقیمتی خزانے پنہاںہیں،یہی سبب ہے کہ پاکستان ،ایران اورافغانستان کیلئے یہ خطہ نزاع کاباعث بنتاجارہاہے۔ہرملک زیادہ سے زیادہ ان قدرتی وسائل کے حصول کیلئے بلوچستان کواپنی مٹھی میںلینے کی بھرپورکوششوںمیںمصروف ہے ۔بلوچستان چونکہ مشرق اورمغرب کے درمیان اہم تجارتی سنگم پرواقع ہے،اسی لئے اس کی اہمیت دوچندہوگئی ہے۔وقت کے تیزترین وسائل نے آمدورفت کے ذرائع کوبھی عروج پرپہنچادیاہے مگراس کے باوجودبلوچستان کی اہمیت کم نہیںہوئی۔چین کی ترقی میںزمینی تجارت نے اہم کرداراداکیاہے اورمستحکم بلوچستان کے بغیرچین اورعلاقے کے دیگرممالک کیلئے مؤثرزمینی تجارت اب ممکن نہیں،اسی لئے امریکااوریورپ اسی نکتے پرتوجہ مرکوزکئے ہوئے ہیں۔
چین میںمعیشت کومستحکم رکھنے کیلئے توانائی بنیادی ضرورت ہے اوراگربلوچستان میںاستحکام ہوتوچین کی مصنوعات براستہ بلوچستان سستے بھاؤبحرہند اورافریقہ تک پہنچ جائیںگی۔ چین اسی راستے سے تیل وقدرتی گیس کے حصول کابھی شدیدخواہشمند ہے اسی لئے چین اپنے مفادات کومحفوظ اورمستحکم کرنے کیلئے گوادرمیںگہرے پانی کی بندرگاہ تعمیرکرنے میں غیر معمولی دلچسپی لے رہاہے۔چین صرف سرمایہ نہیںبلکہ اہم تکنیکی معاونت بھی فراہم کرنے میںپیش پیش ہے جس کی وجہ سے امریکااوریورپ اسے غیرمستحکم کرنے پرتلے ہوئے ہیں تاکہ بلوچستان کوٖغیرمستحکم کرکے چینی معیشت کودھکالگایاجاسکے جوان ممالک کی معاشی ترقی کاپہیاالٹاگھمانے جارہی ہے اوراسی کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی نظر اندازنہیںکی جاسکتی کہ ایران اورپاکستان کے خلاف امریکااوراس کے مغربی اتحادیوںکی خفیہ جنگ کامرکزی راستہ بلوچستان ہے۔بلوچستان کے معاملات کومٹھی میںلیکرمغربی قوتیںپاکستان اورایران پرمستقل دباؤبڑھاسکتی ہیں۔
بلوچستان کارقبہ خاصاوسیع ہے اوربیشترحصہ پتھریلااوربے آب وگیاںہے۔شرپسنداوردہشتگردعناصرمغربی ممالک کے خفیہ اداروںکی مددسے شورش برپاکئے ہوئے ہیں۔پاکستان کے خفیہ ادارے اچھی طرح جانتے ہیںکہ بلوچستان میں مغربی خفیہ ادارے معاملات کوالجھاکرقتل وغارت،لوگوںکااغوااوربعدمیںخودہی ان کے لاپتہ ہونے کاپروپیگنڈہ اوربعدازاںان کی لاشیںشہروںکے بیچ پھینک کرمقامی شہریوںکے دلوںمیںخوف وہراس پیداکرکے ملکی اداروںکوبدنام کرنے کی سازشوںمیںمصروف ہیں۔پاکستان کی مشینری اچھی طرح جانتی ہے کہ ملکی سلامتی اورسا لمیت کادارومداراس پر ہے کہ بلوچستان میںشورش اورعلیحدگی پسندوںکوکس حدتک کامیابی کے ساتھ دبایاجاسکتاہے تاکہ بیرونی طاقتوںکے مقامی ایجنٹ اپنے مذموم مقاصدمیںکامیاب نہ ہوسکیں۔
قطرسے شائع ہونے والااخبار’’دی پینسیولا‘‘(The Peninsula) نے اپنے حالیہ ایک مضمون میںلکھاہے کہ’’ امریکی خفیہ ادارہ سی آئی اے بلوچستان میںاپنے قدم جمانے کی بھرپورکوشش کررہاہے۔مقامی باشندوںکوایجنٹ بننے کے عوض۵۰۰ڈالرتک ادائیگی کی جارہی ہے۔افغانستان میںنیٹوافواج کے سابق کمانڈراورسی آئی کے موجودہ سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس نے بلوچستان کوغیرمستحکم کرنے کیلئے افغان مہاجرین کوعمدگی سے استعمال کیاہے۔اس انکشاف کوکبھی نظراندازنہیںکیاجاسکتاکہ سی آئی کی جانب سے بلوچستان بھرمیں ایجنٹس کی بھرتی اس بات کااشارہ ہے کہ سی آئی اے کی حکمت عملی کے کئی رخ ہیں۔ایک طرف توایجنٹس کے ذریعے سے خفیہ معلومات حاصل کرکے انہیںاپنے مقاصد کیلئے استعمال کیاجاسکتاہے اوردوسری طرف خطے میںکام کرنے والے دہشتگردگروپوںکوبلاواسطہ یابالواسطہ طورپراستعمال کرکے زیادہ سے زیادہ خرابی پیداکرنامقصودہے‘‘۔
امریکی جریدے ’’فارن پالیسی‘‘نے اپنے ایک مضمون میںلکھاہے کہ’’ سی آئی اے اورموسادجنداللہ کوکنٹرول کرنے کی تگ ودومیںمصروف ہے کیونکہ بلوچستان جنداللہ کاگڑھ ہے، جنداللہ کواستعماری قوتیںاپنے مقاصدکیلئے استعمال کرتی ہیں۔ایران کے سائنسدانوںاوردیگرماہرین کے قتل اورایرانی معیشت ومعاشرت کوغیرمستحکم کرنے میںجنداللہ ملوث ہے۔
بلوچستان میںسیاسی دہشتگردی کابازار صرف دہشتگردی اورجاسوسی کے ذریعے سے گرم نہیںکیاجارہابلکہ سیاسی میدان میں بھی اس خطے کومشکلات سے دوچارکیاجارہاہے۔امریکی کانگرس بھی بلوچستان کے معاملات میںمداخلت کرکے معاملات کوبگاڑنے کی کوشش کررہی ہے۔کانگرس کے رکن ڈاناروربیکر(Dana Rohrbacher) نے ایک قرارداد کے ذریعے بلوچستان کے عوام کیلئے حق خودارادی کامطالبہ کرکے پاکستان کے اندرونی معاملات میںکھلی مداخلت کاارتکاب کیاہے تاکہ پاکستان کوشدیدعدم استحکام سے دوچارکیاجائے۔دراصل روربیکراوراس کے ہم خیال افرادسی آئی اے کے اشارے پرامریکی استعمارکیلئے معاون کاکرداراداکررہے ہیں،یعنی اگرکسی ملک کوآسانی سے کنٹرول کرنا ہے تواسے تقسیم کردو۔روربیکرنے کئی مواقع پرکھلی کھلی دہمکیوںاوراشتعال انگیزبیانات کے ذریعے پاکستان کوایک دہشتگردریاست کاتاثردیتے ہوئے امریکی حکومت کویہ مشورہ دیاہے کہ پاکستان کے خلاف جوکچھ بھی کیاجائے وہ جائزہے۔
بلوچستان کے حوالے سے استعماری قوتوںکے عزائم بالکل واضح ہیں۔سوسال پہلے برطانوی سامراج کی طرح امریکاکوایک ایساپاکستان قبول کرناچاہئے جوقوم پرستانہ جذبہ رکھتاہو، ہرمعاملے میںامریکی بالادستی قبول کرنے کیلئے تیارنہ ہواوراپنی ہرجائزبات منوانے کاخواہش مندہو۔پاکستان کوعالمی برادری میںبااصول اورمخلص دوست رکھنے کاپوراحق ہے۔ دراصل امریکیوںنے ماضی سے کوئی سبق نہیںسیکھااوروہ بزورطاقت بلوچستان کواپنے پیادوںکی طرح استعمال کرناچاہتاہے۔ دراصل پاکستان کے غیورعوام نے چین کی بے پناہ ترقی کودیکھ کریہ فیصلہ کرلیاہے کہ وہ محاذآرائی کی بجائے معاشی ترقی کی راہ پرچلناچاہتے ہیںاوراب کسی معاملے میںامریکااوریورپ کے آگے سرنگوںنہیںہونگے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ بلوچستان میںمکمل حقیقی امن کیلئے اسلام آبادمیںایک ایسی خوددارمضبوط حکومت ہوجوامریکی اقدامات کے خلاف احتجاج سے بڑھ کربھی کچھ کرنے کی ہمت رکھتی ہو اورامریکاکوبھی یادرکھناچاہئے کہ اب حالات بالکل بدل چکے ہیںاورطاقت کے بل بوتے پروہ اب تک کمزورترین ممالک کے غیورعوام کے آگے کئی بارناک رگڑچکاہے۔اکیسویں صدی میںطاقت کے نشے میںچورامریکیوںکی بالادستی قائم رکھنے کی ہرکوشش اب بھی بری طرح ناکام ہوگی اوراس کی بھاری انسانی اورمعاشی قیمت بھی اداکرناپڑے گی اوراس کیلئے اپنے اتحادی برطانیہ کی تاریخ سے بھی سبق سیکھاجاسکتاہے۔