عباس ملک
حکومت نے نیٹو کی سپلائی لائن بحال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اس کیلئے اسے مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن سے بھی اجازت مل گئی ہے ۔ پاکستان کے فوجی جوانوں کی شہادت بھی حکمرانوں میں ہمت و جرآت کے ساتھ حمیت کا جذبہ بیدار کرنے میں ناکام رہی ۔ حکمرانوں بھیک کے رستے میں آئی ہوئی غیرت کی اس دیوار کو گرانے کیلئے بے تاب ہیں ۔قومی حمیت اور غیرت سے بڑھ کر امریکن ڈالر اور یورپین یورو کی آمد میں رکاوٹ کو کیسے برداشت کیسے کیا جا سکتا ہے ۔اب حکومت کے ڈھنڈورچی اس اقدام کو ملک اور قوم کیلئے ناگزیر ثابت کرنے کیلئے دن رات ایک کریں گے اور آسمان و زمین کے قلابے ملائیں گے ۔عوام کو تو یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ میاں صاحب اور مولانا فضل الرحمن کیسے اس بھاری پتھر کو اٹھانے کیلئے حکومت کے دست و بازو بن گئے ۔ مولا نا صاحب کی سیاست تو اب کوئی ایسا فلسفہ نہیں جو سمجھ نہ آئے ۔ وہ تو طالبان کے بھی ساتھ ہیں ، مخالف بھی ہیں اور حکومت کے ساتھ بھی ہیں۔ کتاب کا واسطہ دے کر ووٹ لیکر پانچ سال تک انہوں نے یہی نیٹو سپلائی جاری کرائی تھی تو اب ان سے مخالفت کی امید کیونکر کی جا سکتی ہے ۔مشرف کا ساتھ انہوں نے دیا اور زرداری کا ساتھ بھی انہوں نے آخری دم تک نبھایا ہے ۔مولا نا صاحب کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاھی میں ہے ۔ جب دیکھتے ہیں کہ گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکل رہا تو انگلی ٹیڑھی کر کے طالبان کو اگے کر دیتے ہیں۔ جب جی میں آتا ہے تو طالبان کو کنڑول کرنے کیلئے حکومت کے ہاتھوں میں ہاتھ دے دیتے ہیں۔ یہ تو اصولوں کی بات ہے اور اصول یہ ہے کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے ۔ سیاسی جنگ میں خود کو انہوں نے زرداری صاحب سے بھی بڑا بلیک میلر ثابت کیا ہے ۔ان سے ہی سیکھے ہوئے سبق حضرت مولا نا الطاف حسین نے بھی سبق حاصل کیا اور وہ بھی مشرف اور زرداری کو بلیک میل کر کے اپنے مفادات کیلئے حکومت کے ساتھ ہیں ۔ انہیں جمہوریت سے اور جمہور سے کیا غرض ہے جب ان کو پراٹھے اور وہ بھی دو دو مل رہے ہیں۔ یہ کل بھی اسلام اور پاکستان کے ٹھیکدار تھے اور آئیندہ بھی ہونگے ۔ کیونکہ اسلام اور پاکستان کی ترجمانی انہیں وراثت میں ملی ہے۔ میاں صاحب آپ کے صبر کی انتہا ہے لیکن یہ سمجھ آتا ہے کہ مجبوری میں صبر کیسے کیا جاتا ہے ۔ابھی کچھ وقت اور باقی ہے یہ گذر جائے تو پھر آپ کے دل میں ملک اور قوم کا اصل درد پیدا ہو جائے گا ۔اس وقت تو جمہوریت کے تسلسل کیلئے عوام پر جو بیت رہی وہ ہمارے محترم لیڈر سے کیونکر برداشت ہورہی ہے ۔ اس کو برداشت کرنے کا واحد سبب ہی یہی ہے کہ اپنی باری کو خراب کرنے کی بجائے وقت کا انتظار کیا جائے ۔ خواہ اس وقت تک عوام کی ہڈیوں کا گودا بھی سوکھ جائے یا آئی ایم ایف اور امریکہ کے حواریوں کے بینکوں میں گروی ہو جائے ۔ہماری غیرت اور ہماری روح بھی ڈالر اور یورو کی مقروض ہو جائے ۔ ہم اپنی باری آنے پر دودھ شہد کی نہریں بہا دیں گے ۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پئیں گے اور عوام عمر بن عبدالعزیز کے دور کو بھول جائیں گے۔ عوام کی رسوائیوں پر آنکھیں بند کرنے والوں سے عوام کو کیا امید ہو سکتی ہے ۔عوام کو مایوسیوں کے سوا کچھ ملا نہیں اور نہ ہی کوئی خیر کی خبر کی توقع ہے ۔جس کے مفاد کو ذرا سی ٹھیس پہنچتی نظر آتی ہے وہ آگ لگا کر ہر طرف دھواں ہی دھواں کر دیتا ہے ۔مسیحائی کے نام پر عوام کی روح کو بھی مجروح کیا جا چکا ہے ۔معاشرے میں لسانی ،گروہی مفادات کیلئے اسلا م اور پاکستان کے نام پر پاکستانی عوام کو جس طرح بلیک میل کیا جا رہا ہے شاید تاریخ اسلا م کا یہ باب قبل اس کی مثل پیش کرنے سے قاصر ہو گا ۔ عوام کبھی ایک کی طرف دیکھتے ہیں تو کبھی دوسرے کی طرف لیکن انہیں سوائے بلیک میلر اور سیاست کو کاروبار بنا کر وراثت میں اگے منتقل کرنے والے گدی نشینوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔ ایک باری ختم ہونے سے بیشتر وہ دوسری طرف خود کو ملک اور قوم کے حقیقی درد مند راہنما کے روپ میں پیش کرنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہوتے ہیں ۔ اس کیلئے یہ مارشل لا کی راہ بھی ہموار کرتے ہیں اور اس کیلئے ہی وہ مارشل لا کی مخالفت بھی کرتے ہیں ۔ اس طرح یہ خود کو جمہوریت کے چمپیئن بھی ثابت کرتے ہیں لیکن اس میں جمہور کی باری نہ کبھی آئی اور نہ ابھی تک آنے کی امید ہے ۔ملک میں اس وقت بھی نہ تو کوئی قانون ہے حتاکہ وزیرقانون بھی مستقل نہیں ۔ملک کو جمہوری نمائیندے نہیں بلکہ صدارتی محل کے منتخب کردہ اور نامزد چلا رہے ہیں ۔ جمہوریت کے نام پر سویلین دیکٹیٹر شپ کا راج ہے ۔جو صدارتی محل سے خواہش آتی ہے اس کی تعمیل میں نہ تو کوئی قانون حائل ہے اور نہ ہی کوئی آئین اس کیلئے مانع ہے ۔ صدر صاحب کو استثنا حاصل ہے آئین اور ہر قانون سے وہ بالاتر ہیں ۔ ان کو کوئی روک ٹوک نہیں اور کوئی ان سے یہ نہیں پوچھ سکتا کہ وہ عوام کو اس قدر رسوا کر کے کس چیز کا انتقام ان سے لے رہے ہیں ۔ مثل مشہور ہے کہ اگر چھوٹی تھیلی میں بڑا سکہ ڈالنے کی کوشش کی جائے تو وہ پھٹ جاتی ہے ۔ جن کی گھر میں کوئی شنوائی نہیں تھی ان کے ہاتھ میں اگر ملک وقوم کی ڈور آجائے تو پھر ان سے نظام سقہ کی مثل چمڑے کے سکے جاری کرنے کی امید ہی کی جا سکتی ہے ۔عوام کو قائد عوام کے داماد نے جس طریقے سے رسوا کیا ہے وہ انہی کا امتیاز ہے ۔ ملک میں ہر طرف دودھ شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں لیکن ڈیزل ،پیڑول ، اور اشیاء خورد ونوش عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں ۔ لوگ انصاف کیلئے ترس رہے ہیں اور دوسری طرف صدارتی محل کے منظور نظر عدلیہ کے فیصلوں کو ٹھوکروں پر رکھ کر بھی آزاد ہیں ۔ جمہوریت کے پاسبان اور سرخیل قوم کے منتخب وزیر اعظم پہلے تو خود اختیارات کے ناج
ائز استعمال کی سزا کاٹ کر اسے بھی جمہوریت کے نام پر قربانی ثابت کرچکے ہیں ۔ اب ان کا خانوادہ اس سزا کو کیش کرانے کیلئے حج سے زندگی بچانے کی دواؤں تک میں جمہوری کمیشن کا حقدار ٹھہرا ہے ۔کون جانے یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے لیکن آثار بتاتے ہیں کہ قوم کی تقدیر میں ابھی سکھ کا سانس عصر حاضر اور مستقبل قریب میں نظر نہیں آ رہا ۔ قوم کو خود اپنی تقدیر بدلنے کیلئے خود کو بدلنا ہوگا ۔ جب وہ خود کو اچھا مسلمان اور محب الوطن پاکستانی نہیں بنائیں گے اس وقت تک وہ اپنے اکابرین سے اس کی توقع رکھنا اور سراب سے تاج محل بنا نا ایک مترادف جانیں ۔ اس وقت معاشرے کو تبدیلی کی ضرورت ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ یہ تبدیلی لانے کیلئے خون کی ندیاں ہی بہائی جائیں ۔ اس کیلئے اپنے کردار میں تبدیلی لانے کیلئے انقلابی اقدامات کی طرف قدم بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ احساس پیدا کرنے کی ضرور ت ہے کہ اگر مجھے ضرورت ہے تو میرے دوسرے مسلمان بھائی کو بھی ضرورت ہوگی ۔ کچھ ایثار کچھ قربانی اور کچھ کشادہ دلی سے دوسروں کو بھی کچھ حق دینے کی ضرورت ہے ۔ اگر آپ حق دینے کی کوشش کریں گے تو پھر دوسرے بھی آپ کو حق دینے میں ہرگز تامل نہیں کریں گے ۔ انصاف کرنا صرف عدالتوں کا کا م نہیں اگر خود کو ہی کسی کی حق تلفی کیلئے راضی ہی نہ ہونے دیا جائے تو معاشرے میں حق تلفی کے بہت سے مسائل عدالت اور دشمنی کی راہ ہموار نہیں ہونے دیں گے ۔حق کی راہ پر چلنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ۔ اگر یہ ناممکن ہوتا تو حضور پاک ﷺ کبھی بھی اس کی تعلیم نہ فرماتے کیونکہ سرکار کوئی بھی ایسا عمل کرنے کا حکم نہیں فرماتے تھے جو ناممکن کیا مشکل ترین کے صیغہ میں آتا تھا ۔کوشش کریں کہ اپنے آپ میں تبدیلی لائیں تاکہ معاشرے میں تبدیلی کے انقلاب کا آغاز ہو سکے ۔