تخلیقی ادب کے انتخاب میںتخلیق کاروں کی شمولیت: قومی اردو کونسل کے تخلیقی ادب پینل کاقیام
علی گڑھ سے آئے پروفیسر طارق چھتاری نے کہا کہ اب اعلیٰ ادب کی پیمائش کوئی آسان کام نہیں ہے۔جناب حسین الحق نے کہا کہ ہندوستانی معاشرے میں تخلیق اور تخلیق کار کی اہمیت واضح کرنا لازمی ہے۔ اس خاص موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مشرف عالم ذوقی نے کہا کہ جو بھی کلاسیکی ادب ہے وہ نہ صرف یکجا کیا جائے بلکہ اس کی فراہمی کو بھی ممکن بنایا جائے۔اردو کے اہم ڈرامے ، ناول ، افسانے ، فکشن اور نان فکشن ،تخلیقی ادب کو دوبارہ شائع کرایا جا سکتا ہے۔ روزہ نامہ انقلاب، ممبئی کے ایڈیٹر شاہد لطیف نے کہا کہ اخبار سے جڑے رہنے کا تجربہ یہ بتاتاہے کہ روز بہ روز اردوکے قارئین کی تعداد میںکمی آرہی ہے۔ نوجوان نسل کو اگر ٹٹولا جائے تو وہ ادب سے بالکل بیگانہ نہیں ہے لیکن وہ اب کتابوں کو ہاتھ میں لے کر پڑھنا نہیں چاہتے اس لیے تخلیقی ادب کی فراہمی نئی تکنیک کے ذریعے ہونی لازمی ہے۔بنگلور سے تشریف لائیں محترمہ شائستہ یوسف نے کہا کہ ہم اس سچائی کا اعتراف کرتے ہیں کہ قارئین کی کمی ہے لیکن تخلیق کار ہی ایک عہد کو بناتا ہے۔ گلزار دہلوی نے کونسل کے ڈائرکٹر اور وائس چیر مین کو مبارک باد پیش کی اور کہا کہ میں کونسل کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انھوں نے تخلیقی ادب اور تخلیق کاروں کے سلسلے میں اہم مجلس کا انعقاد کیا جس میں ہم کو مدعو کیا ان نکات پر غور کرنے کے لیے، انھوںنے مزید کہا کہ کونسل اپنی اس کوشش میں دوسری زبانوں کے ماہرین اور تخلیق کاروں کو بھی شامل کرے تاکہ یہ مہم ملکی سطح پر کارگر ثابت ہو۔جناب سلام بن رزاق نے اس پینل کی تشکیل کو اہم تصور کرتے ہوئے کہا کہ اس سے تخلیق کے عمل کو مزیدجلاملے گی۔اس مجلس میں کونسل کے اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسرجناب اجمل سعید اور محترمہ آبگینہ عارف نے بھی شرکت کی۔
(رابطہ عامہ سیل)