پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
25 نومبر 2010 کو ڈائیلاگ یوریشیا پلیٹ فورم ، استنبول ، ترکی کی دعوت پر فیملی کانفرنس میں شرکت کے لیے انتلیا ، ترکی حاضر ہوا۔ ترکی کا یہ میرا دوسر سفر تھا ، اس سے پہلے مئی 2010 میں ہی ایک اور کانفرنس کے لیے استنبول ، انقرہ اور قونیا کا سفر کیا تھا۔ یہ موقع اس سے بھی خاص تھا کیونکہ یہ کانفرنس بہت بڑے پیمانے پر منعقد ہو رہا تھا۔ اس کانفرنس کی جگہ کا انتخاب بھی بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا۔ انتلیا جو ترکی کی خوبصورت سیر گاہوں میں سے ایک ہے ، وہاں کے سب سے مشہور ہوٹل ریکسوس میں اس یہ کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس میں 50 ملکوں سے تقریبا 600 مندوبین نے شرکت کی۔ ہندستان سے میرے علاوہ ڈاکٹر رضوان الرحمان ، جے این یو اور ڈاکٹر انور عالم جامعہ ملیہ اسلامیہ جو ابھی فاتح یونیورسٹی ، استنبول میں ویزیٹنگ پروفیسر ہیں نے شرکت کی۔ یہ کانفرنس اپنی نوعیت کے اعتبارسے بہت ہی اہم تھا کیونکہ اس کا موضوع انتہائی حساس اور سنجیدہ تھا۔ عام طور پر لوگ اس حوالیسے بات تو کرتے ہیں لیکن کبھی اس کے مختلف الجہات پہلو پر بات نہیں کرتے۔ اس سیمنار میں شرکت سے قبل میں نے بھی ان پہلووں پر غور نہیں کیا تھا۔ لیکن اس میں شرکت کے بعد مجھے اس موضوع سے متعلق جن نکات کا علم ہوا وہ یقینا بہت ہی بیش قیمت ہیں۔ سچائی یہ ہیکہ شرکت سے قبل میں نے بھی نہیں سوچا تھاکہ اس موضوع کے اتنے پہلو ہو سکتے ہیں۔ میری طرح کئی مندوبین نے اس بات کا اقرار کیا کہ انھیںبھی اس موضوع کی وسعت کا اندازہ نہیں تھا۔
آج کی دنیا کو کئی اعتبار سے جانا جاتاہے۔ اکیسویں صدی کے اس دور کو کبھی ترقی کی منتہاوں کا دور کہا جاتا ہے تو کبھی اس کو انقلاب اور انکشافات کا دور کہا جاتا ہے۔ لیکن اس ترقی کی چکاچوند اور شاید زعم نے انسانوں کو بنیادی انسانی اقدار سے دور کر دیا ہے۔ اسی لیے کوئی بھی شخص کسی بھی فلیٹ فارم سے انسانی اقدار کی پاسداری کے لیے باتیں نہیں کرتا۔انسانی حقوق کی باتیں کرتے ہوئے کئی تنظیمیں مل جاتی ہیں۔ لیکن انسانی حقوق کے لییکام کرنے والی بیشتر تنظیمیں یا تو جدید معاشرے کے تقاضے کے تحت ایسے انسانی حقوق کی باتیں کرتے ہیں جو معاشرے کے موجودہ مسائل پر کسی حد تک بحث تو کرتی ہے لیکن معاشرے میں انتشار ، بے قراری او ر امن و سکون کو غارت کرنے والے ان بنیادی مسائل کی جانب نہ تو توجہ دی جاتی ہے اور نہ ہی اس کی جانب عام طور پر لوگوں کی نگاہیں جاتی ہیں۔ مثلاً آج کا معاشرہ عورتوں اور مردوں کو بہ حیثیت دوست ساتھ رہنے کے حق کے لیے باتیں تو کرتا ہے۔لیکن اس نئے رشتے کی وجہ سے پیدا ہونے والے نئے مسائل کی جانب کم ہی نظریں اٹھتی ہیں۔ اسی طرح اور بھی کئی مسائل ہیں جو آج کے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر رہے ہیں ، لیکن ان کی جانب کم ہی لوگ، ادارے اور تنظیمیں توجہ دے رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہیکہ آج کے معاشرے کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہیکہ خانگی زندگی ، خاندان اور کنبے کا تصور ختم ہوتاجارہا ہے۔ جس کے نتیجے میں عالمی معاشرے می?ں خاص کر معاشی اور اقتصادی اعتبار سیترقی یافتہ سماج میں امن و سکون کی فضا یکسر ختم ہوگئی ہے۔کیونکہ خاندان اور خانگی زندگی ہی اس دنیا کا وہ تاثر تھا جس نے افراد کو ایک ایسے جذباتی رشتے میں باندھ رکھا تھا جو کسی مفاد کے بغیر بے لوث ایثار اور محبت فراہم کرتا تھا۔لیکن آج کی تیز رفتار دنیا اور ترقی نے انسانوں کو ہر طرح کی سہولیات اور آسائش تو فراہم کر دی ہے لیکن قلبی سکون چھین لیا ہے۔
آج کی دنیا کے اس انتہائی اہم اور سنجیدہ موضوع پر ترکی کی ایک بین الاقوامی تنظیم ڈائیلاگ یوریشیا فلیٹ فارم نے25 تا 29 اکتوبر کو انتلیا میں سہ روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کانفرنس میں تقریبا 50 ملکوں سے 600 سو سے زائد مندوبین نے شرکت کی۔ ا س کانفرنس میں شرکت کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کانفرنس اپنے دور کی آواز اور وقت کے اہم تقاضے کی جانب غور فکر کرنے والی کانفرنس تھی۔ اس کانفرنس کے انعقاد اور موضوع کے انتخاب کرنے والے یقینا دور اندیش اور دور بین افراد ہی ہوسکتے ہیں ، جنھوں نے اس کی ابتدا کی ہے اور اسے بحث کا موضوع بنا یا۔ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب یہ موضوع بڑے پیمانے پر مباحثے کا عنوان بنے گا۔کیونکہ وہ افراد بھی کہیں نہ کہیں سے داخلی کرب کے شکار ہیں جو ترقی کے نشے سے مسرور تھے۔ لیکن دنیا میں سب کچھ مادیت ہی نہیں۔ معاشرے کی تشکیل کے لیے جن انسانی اقدار کی ضرورت ہے ، اس کی کمی اس واضح طور پر تو نہیں لیکن کسی بے نام کمی کا احساس اس لیے ہو رہا ہیکہ لوگ قلبی سکون اور دلی خوشی سے عاری ہوتے جارہے ہیں۔آج کے معاشرے نے اس بات کو فراموش کر دیا ہے کہ معاشرتی زندگی میں مضبوط خانگی زندگی ، خاندان ،کنبہ اور خویش واقارب در اصل خوشی و مسرت کا منبع ہیں۔ انسان کوجب تک اپنی خوشی اور غم کے اظہار کے لیے کوئی غمگسار نہیں ملتا اس وقت تک اس کے دل میں ایک اضطراب کی کیفیت ہوتی ہے۔ یہ انسان کی جبلی فطرت ہے کہ وہ اپنی وہ کسی کو ہمراز بنائے ، ہمراز وہ جو بے لوث جذبات رکھتا ہو ، اور یہ خانگی زندگی (family life) میں ہی مل سکتا ہے۔لیکن اس عہد کا المیہ یہ ہے کہ اب خانگی زندگی کا تصور ختم ہوتا جا رہا ہے۔
ڈائیلاگ یوریشیا پلیٹ فارم کی اس پہل کو ایک انقلابی پہل کہہ سکتے ہیں کہ ایسے اچھوتے موضوع پر اتنے بڑے پیمانے پر بحث و مباحثہ کا موقع فراہم کیا۔کانفرنس کا بنیادی موضوع Reflections on Family as a Virtue with Respect to Religion, Tradition and Modernityتھا۔ دو دنوں تک چلنے والے اسکانفرنس میں متوازی طور پر (parallel ) تین شیسن چلتے رہے۔ جن میں انتہائی محنت سے لکھے گئے مقالے پڑھے گئے۔ مجموعی طور پر ان مقالوں میں مذہبی ، معاشرتی ،علاقائی ،نظریاتی اور جدید طرز کی فیملی لائف کا احاطہ کیا گیا تھا۔کانفرنس کی اختتامی تقریب میں مجموعی طور پر ان کا جائزہ لیا گیااور کئی تجاویز بھی منظور کی گئیں۔ اس تناظر میں یہ بات نکل کر سامنے آئی کہ فیملی لائف پر کئی بے جا جبر ہیں۔ موجودہ دور میں انسان کے ذہنی اضطراب کی وجہ فیملی لائف کے ختم ہوتے اقدار ہیں۔ بہت سے قدیم تصورات اورروایات نے بھی فیملی لائف کو پھلنے پ?ولنے سے محروم رکھا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ فیملی کو ایک صحیح تناظر میں دیکھا جائے۔
کانفرنس کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ منتظمین نے بڑی فیاضی ، فراخدلی سے اس کاانتظام و انصرام کیا تھا۔انتلیا کے سب سے مشہور ہوٹل ریکسوس میں میں مندوبین کو ٹھہرایا گیا ، یہیں تین دنوں کا سیمنار ہوا۔ یوں تو ترکوں کی ضیافت مشہور ہے۔ لیکن ہم نے یہاں جودیکھا وہ لفظوں میں نہیں بیان کیا جا سکتا۔ مہمانوں کے قیام کا بہتر سے بہتر انتظام اور طعام کا ایسا انتظام کہ ہمیں کسی طور پر اسے کانفرنس کا کھانا نہیں کہہ سکتے۔ انواع واقسام کے مشروبات ، میوے او ر پھل، مختلف علاقوں کے کھانے ، طرح طرح کی میٹھائیاں ۔ بلا مبالغہ ا س فائیو اسٹار ہوٹل کے خوبصورت لانج میں کتنے انواع واقسام کے کھانے تھیکہ میں نے کئی بار گننے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔یہ ہوٹل بھی اس قدر حسین قدرتی مناظر کے درمیان واقع تھا کہ بس دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ ایک جانب سمندر اور دوسری جانب ہرے بھرے باغات تھے اور خوبصورت پہاڑی سلسلے۔ ظاہر ہے منتظمین نے دور سے آئے مہمانوں کے اسقبال اور ضیافت کے لیے سب سے عمدہ جگہ کا انتخاب کیا۔ یہ ان کے طر ز ضیافت کی ادا ہے۔
تیسرے دن یعنی 29 نومبر کو ڈائیلاگ یوریشیا پلیٹ فارم کی 9ویں جنرل مٹینگ تھی۔ یہ دو سال کے وقفے کے بعد ہوتا ہے۔ اس میں نئے صدر کا انتخاب بھی ہونا تھا۔ اس مٹینگ میں ممبر ممالک نے شرکت کی۔ ہندستان سے ہم نے observer کی حیثیت سے شرکت کی۔ اب تک ہندستان کی شرکت نہیں ہوئی تھی ، جناب الیا س تاس اور عثمان صاحب کے ہم مشکور ہیں کہ انھوں نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا۔اس تنظیم کی خاص بات یہ ہے کہ یوروپ اور ایشیا کے درمیان جو تہذیبی اور معاشرتی مشترک قدریں ہیں ،ا ن پر بات ہوتی ہے۔ اس کو اگر وسیع پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ یوروپ اور ایشیا کے درمیان ایک پل کی مانند ہے جو مختلف ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتا ہے تاکہ ہم سب مل کر اس دنیا کی تعمیر وترقی کے حوالے سے سوچ سکیں۔اپنے مشاہدے کی بنیادی میں اخیر میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ ہماری خوش نصیبی تھی کہ ہم اس میں شریک ہوئے اور نئے تجربات کے ساتھ ہندستان آئے۔ اور یہ بھی امید کرتے ہیں کہ آئندہ ہندستان بھی ایک ممبر ملک ہوگا۔
٭٭٭