پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
امام بخاری کے ملک میں چند روز
(۲۴ مئی سے گیارہ مئی ۲۰۱۹تک کے احوال )
ازبکستان کو موجودہ دور میں کئی اعتبار سے شہرت اور اہمیت حاصل ہے لیکن اگر عقیدت کی بات کی جائے تو اس ملک کو اولیا ء، صوفیا ،انبیا ء کا ملک کہا جاتا ہے ان کی نسبت ہی اس ملک کے لیے بہت کافی ہے اسی ملک سے حضرت امام بخاری کا بھی تعلق ہے اور میرے نزدیک یہ تمام نسبتیں ملک ازبکستان کے لیے بہت اہم ہیں ۔ازبکستا ن کو دیکھنے کی تمنا میرے دل میں انہیں نسبتوں کے سبب تھی ۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اللہ تبارک وتعالی ٰ نے مجھے یہ سعادت تعلیمی سفر کے طور پر عطا کی ۔
ازبکستان کا ایک شہر جسے دنیا میں کافی شہرت حاصل ہے۔یہ شہر اسلامی ملکوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس شہر کا نام”بخارا ‘‘ ہے ۔ یہ ازبکستان کا پانچواں بڑا شہر ہے ۔ دنیاکے قدیم ترین شہروں میں اس کا نام لیا جاتا ہے ۔ بخارا قدیم تہذیب کا نمائندہ شہر ہے ۔ بخارا کے ساتھ سمرقند کا بھی نام لیا جاتا ہے لیکن سمرقند کے مقابلے میں بخارا زیادہ مشہور ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شہر پر کئی اقوام کی حکومتیں رہی ہیں اور اسلامی مملکت کے طورپر بھی بخارا دنیا میں سر فہرست ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بخارا شاہرا ہ ریشم (Silk Route) پر واقع ہے یہاں صدیوں سے تجارت کے لیے بہت سے ملکوں سے لوگ آتے تھے اس لیے تاجروں کی آمد ورفت سے ایک مشترکہ تہذیب کی بنیاد پڑتی ہے ۔ آج بھی بخارا شہر میں قدیم سرائے اور بازار موجود ہیں جو صدیوں کی تہذیبی گہما گہمی کی یاد دلاتی ہیں ، ان تمام سرایوں کو آج بھی اسی طرح محفوظ رکھا گیا البتہ ان میں جدید دور کی دکانیں ہیں جن میں زیادہ تر قومی صنعت و حرفت کی نمائش گاہ ہیں ۔ مرکزی ایشیا میں اس شہر کو جائے وقوع کے لحاظ سے کافی اہمیت حاصل ہے ۔ یہاں اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے کافی کام ہوئے ہیں ۔ آج بھی یہاں کی مساجد اور مقبرے قدیم زمانے کی یاد دلاتے ہیں اور دنیا بھر سے سیاح اس شہر کو دیکھنے آتے ہیں ۔بعض سیاحوں نے سمر قند اور بخارا کو ’ مزارات ‘ کا شہر کہا ہے ،ان کا یہ خیال بھی اس لیے درست ہے کہ اس سرزمین میں عالمی شہرت یافتہ بزرگان دین اور صحابہ ٴ کرام کے مزرات موجود ہیں اسی لیے اس سرزمین کو روحانی سرزمین بھی کہاجاتا ہے ۔
تاریخ اسلام میں بخارا پہلی مرتبہ 850ء میں دولت سامانیہ کا دار الحکومت قرار پایا۔ سامانیوں کے دور عروج میں یہ شہر اسلامی دنیا میں علم و ادب کے مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔ایک زمانے میں بخارا ایرانی تہذیب کا اہم ترین مرکز تھا۔کہا جاتا ہے کہ یہ شہر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے تین سو سال پُرانا ہے ۔یہ شہر کو 5 اور 7 صدی عیسوی میں فن تعمیر کے حوالے سےتمام مملکتوں میں ممتاز تھا۔اس شہر کو حضرت امام بخاری کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے اور عزت اور احترام سے اس شہر کا نام لیا جاتا ہے کیونکہ قرآ ن کریم کے بعد پوری دنیا میں جو کتاب سب سے اہم مانی جاتی ہے و ہ امام بخاری کی ’’ صحیح البخاری ‘‘ ہے ۔ امام بخاری نے بڑی محنت و مشقت سے رسول اللہ کی حدیثوں کو جمع کیا ۔ ان کی اس کتاب کو پوری دنیا میں سب سے زیادہ مستند مانا جاتا ہے ۔اسی لیےا زبکستان کے شہر بخارا کو پوری دنیا میں ایک خاص مقام حاصل ہے ۔اس ملک کو حضرت امام ترمذی علیہ الرحمہة والرضوان کی وجہ سے بھی شہرت اور عظمت حاصل ہے ۔ امام بخاری کے بعد امام ترمذی جن کا تعلق شہر ترمذ سے ہے جو بلخ سے کچھ فاصلے پر دریائے آمو کے کنارے واقع ہے۔ امام ترمذی کی شخصیت عالم اسلام میں عقیدت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ آپ نے امام بخاری امام ابو داؤد سے درس حدیث لینے کے بعد اسی طریق کو اپنایا ۔حدیث کو جمع کرنے کئے لیے آپ نے بھی خراسان ، عراق اور حجاز کا سفر کیا ’’جامع ترمذی ‘‘ کو بھی عالم اسلام میں استناد کا درجہ حاصل ہے ۔ اسی لیے اس کی لاتعداد تشریحات لکھی گئیں ۔ پورے عالم اسلام میں اور بالخصوص برصغیر کے تمام مدارس میں صحیح البخاری اور جامع ترمذی پڑھائی جاتی ہیں ۔ ان دونوں کتب کی وجہ سے بھی اس ملک کو جو عز و شرف حاصل ہے وہ یقیناً احادیث کی نسبت کی وجہ سے ہے ۔ آج ازبکستان میں ترمذ ایک مشہور شہر ہے بڑی تعداد میں لوگ اس شہر کی زیارت کی غرض سے آتے ہیں کیونکہ اس شہر کی نسبت امام ترمذی سے ہے ۔ویسے تدوین حدیث کی خدمت کے طور پر اس ملک کی خدمات کی نظیر نہیں ہے ۔لیکن ان کے علاوہ بھی اس ملک سے ایسی بڑی ہستیوں کا نام جڑا ہوا ہے کہ ان کے اسمائے گرامی ہی اس ملک کی عظمت کے لیے کافی ہیں ۔ جیسے حضرت امام ابو حنیفہ رضہ اللہ تعالیٰ عنہ کی جائے پیدائش یہی سرزمین ہے۔صاحب ہدایہ کا تعلق بھی اسی سر زمین سے ہے ۔ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی جیسے عظیم شخص کا بھی تعلق اسی ملک سے ہے۔ البیرونی جیسا سائنسداں ، ماہر فلکیات ، ماہر طب ، ماہر علم نجوم اور کئی علوم پر دسترس رکھنی والی اس شخصیت کا تعلق ازبکستان کے شہر خوارزم صوبے سے ہے ۔ ان کے علاوہ کئی علماء و مشائخ کی یہ سر زمین ہے۔بالخصوص بخارا کو یہ اعزاز حاصل ہے ۔اس شہر کو سات خواجگان کا شہر بھی کہا جاتا ہے ( اس کی تفصیلات آئندہ باب میں ملاحظہ فرمائیں)اسی طرح مرزا لغ بیگ جس نے علوم و فنون کو مرکز ی ایشیا میں عام کیا ۔ ان تمام ماضی کی شخصیات اور علم کے تسلسل کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ نے اس ملک پر خاص رحمت کی ہے ۔
سر میں بہت شش و پنج میں پڑا کہ ١١ مٸی سے ٢٤ مٸی تک کے احوال آپ کے سفر نامے میں قید ہیں کہ ٢٤ مٸی سے ١١ جون تک کے احوال۔تکلیف معاف مجھ نا چیز کی ہمت ہوٸی آپ جیسے عظیم ہستی کی
طرف اپنا دماغ لڑایا۔ذی عزت معاف ہم بہت متاثر ہوٸے اسے کہآپ امام بخاریؒ کے شہر پنچھے۔۔۔اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں بھی نصیب فرماٸے۔آمین