پاکستان میں صوفی محمد کی پہل اور ان کی ثالثی کے نتیجے میں پورے سوات گھاٹی میں شرعی نظام کے نفاذ کو عملی طور پر لاگو کرنے پر حکومت رضا مند ہوگئی ہے اور اس کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات کے لیے غور وفکر کا سلسلہ جاری ہے۔اس معاہدے کے بعد حیرت انگیز طور پر طالبان اور پاکستان فوج ایک دوسرے کی خلاف لڑنے کے بجائے مصالحت کا ہاتھ بڑھارہے ہیں ۔تحریک طالبان ،باجوڑ کے امیر مولوی فقیر محمد نے ایف ایم ریڈیو پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہمارا ملک ہے اور ملک کا دفاع ہم سب پر فرض ہے۔ ہم اپنے خطے اور پاکستان کے مفاد میں جنگ بندی کا اعلان کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے لوگوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ سیکورٹی فورسز کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیں۔اسی درمیان ملا محمد عمر نے نوتشکیل شدہ طالبان اتحاد کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہیں پاک فوج پر حملے کرنے پر سرزنش کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق شمالی و جنوبی وزیرستان میں متحرک عسکریت پسندوں کو ملا عمر نے ہدایت کی ہے کہ وہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز پر حملے فوری طور پر روک دیں۔ اس خط میں ملاعمر نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف لڑنے کو جہاد نہیں کہا جاسکتا۔ انہوں نے طالبان سے کہا کہ اگر انہیں واقعی جہاد کرنا ہے تو وہ افغانستان کے اندر نیٹو اور امریکہ سے لڑیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ہمارا مقصد افغانستان کو قابض فوجوں سے آزاد کرانا ہے اور پاکستان کے اندر تباہی اور اموات ہمارا مقصد کبھی نہیں رہا۔ ملا عمر کا یہ بیان اس وقت آیا ہے جب تحریک نفاذ شریعتِ محمدی کے سربراہ محمد صوفی کی ثالثی کے بعد پوری وادی میں امن کا ماحول بن رہاہے۔ حالانکہ اس امن کے ماحول کی مدت کتنی ہوگی اس پر ہر جانب سے شبہہ کیا جا رہا ہے۔کیونکہ جس انداز سے شرعی نظام کے نفاذ کے نام پر امن قائم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں وہ اپنے آپ میں بھی کئی طرح کے تضادات کا شکار ہے۔
سوال یہ ہے کہ سوات گھاٹی میں جو امن قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔وہ کتنا اسلامی ہے اور کس طرح اسلا م کے نام پر امن کی بات کی جارہی ہے ؟ یہ بھی قابل غور ہے کیونکہ نفاذشریعت والوں کے نعرے ہیں ” جس کی دھرتی ۔اس کا نظام ‘ رب کی دھرتی ۔رب کا نظام ”مگر ظلم یہ ہے کہ رب کی دھرتی پر اسلام کے نام پر سرحدی علاقوں میں قتل وغارت کا سلسلہ طویل مدت تک جاری رکھا گیا ۔یہاں تک کہ مسلک کے اختلافات کے سبب کئی جنازے پر بھی بم باری کی گئی اور بے شمار لوگوں کو ہلاک کیا گیا ، لوگوں کو اغوا کر کے انہیں قتل کیا گیا، ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی ،یہاں تک کہ صوفی محمد کے امن مارچ کے دن ہی جیو ٹی وی کے صحافی کو جس طرح قتل کیا گیا کیا وہ اسلامی طرز عمل تھا ؟ خد ا کی سرزمین پر خدائی قانون کو لاگو کرنے کے لیے اسلام میں کہیں بھی قتل وغارتگری کو روا نہیں سمجھا گیا ہے حتیٰ کہ اسلام کی جانب راغب کرنے کے لیے کہیں بھی زور زبردستی کا حکم اسلام میں نہیں ہے ۔ اسلام امن کا مذہب ہے اور اپنے کردار سے لوگوں کو دین کی جانب مائل کرنے کی بات کی گئی ہے نہ کہ طالبان کے طرز پر بندوق اور کلاشنکوف کے خوف سے دین پر عمل کرانے کی ذمہ داری کسی پر عائد کی گئی ہے۔اس اعتبار سے اگر پاکستا ن میں سر گرم طالبان کی سرگرمیوں کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ انھوں نے اسلامی نظام کے قیام کے لیے ہر طرح کے غیر اسلامی کام کیے ہیں ۔آج جنگ بندی کے بعد ملا عمر جنگ نہ کرنے کی بات کہہ رہے ہیں اور یہ بھی کہ پاکستانی فوج کے ساتھ لڑائی کسی بھی طرح جہاد نہیں ۔ یہ بات پہلے کیوں نہیں کہی گئی ۔کیونکہ طالبان کے عسکری حملے سے نہ صرف پاکستانی فوج پسپا تھی بلکہ عوام میں خوف و ہراس تھا۔ اب اگر یہ نظام عدل قائم کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں تو کیا وہ مسلکی فرق کو بھی مٹا پائیں گے ؟ یا کوئی ایسا طریق کار بھی اپنائیں گے کہ تمام مسالک و مشارب میں اتحاد کی کوئی صورت نظر آجائے ۔کیونکہ اسلام کی تعبیر مختلف جماعتوں اورفرقوں کے نزدیک مختلف ہے اور وہ ایک دوسر ے کو کافر اور غیر صالح قرار دیتے ہیں ۔ان حالات میں اکثریت کے عقائد و نظریات میں اگر اعتدال اور مفاہمت کے راستے نہیں اپنائے گئے تو یقینا پاکستان میں اس نظام کے بعد بھی ایک اور انتشار اور اضطراب کے راستے ہموار ہوں گے۔ایسے میں صرف یہی ممکن ہے کہ اسلامی اقدار کی روشنی میں ایسا قانون بنایا جائے جو مختلف فرقوں کے مسلمہ اصولوں پر مبنی ہو اور کسی ایک مکتبہ فکر کی عکاسی نہ کرتا ہو ۔ لیکن اب تک پاکستان کی شدت پسند مذہبی جماعتوں کاجو رویہ رہا ہے وہ یہ کہ اپنی باتوں کو طاقت کے بل پر منواتے رہے ہیں ۔اگر یہاں بھی یہی کوشش کی گئی تو یہ نظام تواسلام کے اصل اصولوں سے کوسوں دور ہوگا ۔
اب رہی یہ بات کہ سوات میں موجودہ معاہدے کے بعد کیا شرعی نظام عدل اسلامی طرز پر قائم ہوگا یا ان کے منشا کے مطابق ہوگا۔ کیونکہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں طالبان اور مسلکی فرقوں کے درمیان اختلافِ عقائد اور مذہبی تعصب اور نفرتوں پر مبنی دشمنیاں مستقل شکل اختیار کر رہی ہیں ہر کوئی اپنی مسلکی بالا دستی پر زور دے رہا ہے ۔ شیعہ سُنی اختلافات نے مذہبی انتہا پسندی کی ایسی شکل اختیار کرلی ہے کہ سرحد کے بعض علاقوں میں خود کش حملو ں کے ذریعہ
مستقل قتل وغارت کا سلسلہ جاری ہے یہ سب کچھ مسلکی اختلاف اور اسلام کے نام پر ہو رہا ہے۔سوات میں جاری ”آزمائشی فائر بندی” کے دوران ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک جنازے کو نشانہ بنایا گیا ہے جس میں درجنوں افراد کے مارئے گئے۔اس حملے کا نشانہ بننے والے دوسرے مسلک کے لوگ پہلے ہی بہت زیادہ خوفزدہ ہیں اور اپنے خلاف جاری مہلک جنگ کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہیں ۔ ان دو فرقوں کے علما کے مسلکی اختلا فا ت نے ڈیرہ اسماعیل خان کے امن کو بُری طرح تباہ کر رکھا ہے ۔ یہاں کی بد امنی نے ہر شہری کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے مگر مذہبی انتہا پسند طاقتوں کو امن سے کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ انہیں تو ایک دوسرے پر اپنی بالادستی قائم کرنا اور اپنی برانڈ کے اسلام کا نفاذ مقصود ہے ۔ خدا کرے طالبان کا یہ رویہ بر قرار نہ رہے اور پورے خطے میں امن کا ماحول بنے حالانکہ اس کے آثار بہت کم ہیں کیونکہ نہ تو حکومت اس معاملے میں خلوص نیتی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور نہ ہی شرعی نظام نافذ کرنے والوں میں کشادہ دلی اور خلوص نظر آرہا ہے ۔اب تک کے تمام ڈیولپمنٹ میں ساری کوششوں کے پس پردہ سیاسی اغراض و مقاصد ہی نظر آرہے ہیں ۔ بالکل اسی طرح جس انداز سے پاکستان کی تما م سیاسی پارٹیاں اسلام کا نعرہ بلند کرتی ہیں لیکن اندر سے کھوکھلی ہیں ۔
ِآپ نے بالکل صحیح سوال اٹھایا ہے کہ سوات گھاٹی میں جو امن قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔وہ کتنا اسلامی ہے اور کس طرح اسلا م کے نام پر امن کی بات کی جارہی ہے ؟ نفاذشریعت والوں کے نعرے ہیں ” جس کی دھرتی ۔اس کا نظام ‘ رب کی دھرتی ۔رب کا نظام ”مگر ظلم یہ ہے کہ رب کی دھرتی پر اسلام کے نام پر سرحدی علاقوں میں قتل وغارت کا سلسلہ طویل مدت تک جاری رکھا گیا ۔یہاں تک کہ مسلک کے اختلافات کے سبب کئی جنازے پر بھی بم باری کی گئی اور بے شمار لوگوں کو ہلاک کیا گیا ، لوگوں کو اغوا کر کے انہیں قتل کیا گیا، ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی خد ا کی سرزمین پر خدائی قانون کو لاگو کرنے کے لیے اسلام میں کہیں بھی قتل وغارتگری کو روا نہیں سمجھا گیا ہے حتیٰ کہ اسلام کی جانب راغب کرنے کے لیے کہیں بھی زور زبردستی کا حکم اسلام میں نہیں ہے
یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ اسلام کی تعبیر مختلف جماعتوں اورفرقوں کے نزدیک مختلف ہے اور وہ ایک دوسر ے کو کافر اور غیر صالح قرار دیتے ہیں۔
گویا کہ طالبان کے داباو میں اگر شرعی نظام قائم ہوتا ہے تو اسکے شرعی مقاصد پہ شک ضرور ہوتا ہے،
طالبانیوں کو طاقت میلنے سے یا انہیں کیسی بھی قسم کا بڑھاوا ملنےسے سب سے زیادہ خطرہ ہم لڑکیوں کو اور عورتوں کو ہے۔ انکا رویہ کبھی بھی ہمیں ترقی نہیں پانے دے گا۔ جبکہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ گھر میں تعلیم اور ترقی کے لئےہر فرد کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے اور یہ لوگ ہمیں پڑھا لکھا نہیں دیکھنا چاہتے۔