تلاشِ حق
محترم رفیق عزیز!
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آپ پراللہ کی سلامتی وبرکت ہوآپ کے قدم استقامت علی الحق کے ستون ہوں،آپ کاسینہ بدر کی چٹان،بازوغازیان صف شکن کی سنان اورحوصلہ خالدسیف اللہ کاپیکان ہو۔کتنی ہی ان گنت دعائیں اورپرخلوص محبتیں آپ کےلئے رکھتاہوں،آپ کے قدموں کی دھمک میرے دل کی دھڑکنوں کوتیزاورراہِ حق کے نشیب وفرازکوہموارکرتی چلی جایاکرتی ہے۔
آج ایک مدت کے بعد آپ سے قلمی طورپرمخاطب ہوں حالانکہ آپ کے کئی ایک مکاتیب طویل ومختصرمیری فائل میں اس طرح آرام فرمارہے ہیں جیسے مومن اپنی قبرمیں۔لیکن اس آخری طویل خط میں آپ نے مجھے مجبورکردیا ہے کہ میں آپ کی تحریر کی داددیئے بغیر نہ رہ سکوں۔اس میں شک نہیں کہ ایک مدت سے آپ مشرق کی پنہائیوں میں کھوگئے ہیں اورمیں مغرب کی ظالم مردم خورتہذیب کاشکارہوں لیکن بقول آپ کے ”اسلام اگرگلشن ہے تواس کےلئے بادِ سموم مغربی تہذیب ہے“۔جہاں اس تہذیب نے انسان کوانسان سے کاٹ کررکھ دیا ہے ‘مادہ پرستی کاشکارکردیا ہے ‘آنکھوں سے شرم وحیاکاپانی اتاردیاہے اورانسانی سطح سے حیوانی سطح پرلاکرچھوڑدیاہے لیکن وہاں ہمدردی‘اخلاق‘مہرومحبت‘بے لوث خدمت‘ایثار وقربانی ‘کمزورپررحم اورمحروم پرشفقت کاتصور عملاً یہاں دیکھنے کوملاہے۔
سوڈان‘صومالیہ میں قحط سے مسلمان پریشان ہوں یابنگلہ دیش‘پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے انسانیت سسک رہی ہو‘یہاں کابوڑھا پنشن یافتہ طبقہ بھی ان کی عملی مدد کےلئے اپنے دل میں تڑپ رکھتاہے۔اب آپ ہی بتایئے کہ یہ عادت حسن فطرت سے کس قدرقریب ہے!
حسن بے پرواہی کواپنی بے حجابی کےلئے ہوں اگر شہروں سے بن پیارے توشہراچھے کہ بن
آخری مرتبہ واشنگٹن میں دوران کانفرنس ملاقات کاموقع ملا‘کتنی ہی باتیں ہوئیں‘مجالس تعارف میں بندھے بندھائے تعارفی پروگرام کے تحت ہم کتنی بارمتعارف ہوئے لیکن پھر بھی کھل کرباتیںکرنے کی حسرت دل میں رہی۔بارہاایسے مواقع آئے کہ ہم کچھ اپنی باتیں کرتے لیکن انفرادی گفتگوکی بجائے سیمناروں‘کانفرنسز‘اجتماعات میں ہم طویل تقریریں توکرتے رہے‘مشرق ومغرب میںپاکستان اورعالم اسلام میں اسلامی انقلاب کی ڈھیر ساری باتیں کرتے رہے ‘اس کے طریقہ کارپرلوگوں کی فکرکی اصلاح کی منصوبہ بندیوں میں حصہ لیتے رہے لیکن آپس کی باتوں کاایک ڈھیر جمع ہوگیا۔آپ توخطوط کے ذریعے پھربھی اپناپیٹ خالی کرتے رہے لیکن مجھے تواس کی بھی فرصت نہ ملی۔آج آپ کاٹیلیفون پرمحبت بھراپیغام اورخصوصی خط بذریعہ ڈاک موصول ہواتو سوچایہ شب آپ کے نام کردوں‘جوڈھیروں سوال جواب طلب ہیں ان کوضابطہ تحریر میں لے آوں توبہتر ہے۔
گاڑی کے پہیوں کی مانند ہم بھی مسلسل حرکت میں رہے‘ایک پہیہ دوسرے سے کیابات کرے‘بس یہی کہ کتنے اسٹیشن گزارآئے‘کتنے میل دوڑ آئے‘کتنی منزل باقی ہے ‘حال دل اوردردِ دل سنانے کی مہلت نہ ملی تھی‘نہ ملی اورنہ ملتی نظرآتی ہے۔اپنے ساتھیوں کوحال دل سنانے کےلئے ٹیپوسلطان کوسب سے عمدہ مہلت سرنگاپٹم کے دروازے پرجان دیکرملی تھی اورشائد ہمیں بھی یہ مہلت زیرِزمین پہنچ کرہی ملے گی جہاں چارآدمیوں کی شاہانہ سواری پردرازہوکر پہنچیں گے۔اس سے پہلے توساراعلاقہ تگ ودومیدان جنگ‘ ساری مدت حیات زمانہ جنگ‘ساراسامان زیست اسلحہ جنگ‘ ساری خبریں حالاتِ جنگ اورساری زندگی جنگی مورچہ ہے۔دشمن دائیں بائیں‘آگے پیچھے ہرطرف سے حملہ آورہے‘ساری زندگی سمٹ کر چومکھی لڑائی کاہتھیاربن گئی ہے۔جس روز یہ ہتھیارکند ہوگا‘گردن سینے پر ڈھلک آئے گی تب کہیں مہلت یک دونفس ملے گی کہ کیسی گزری‘کیونکرگزری کاحالِ دل ملائکہ کوسنائیں گے۔
کتنے ہی احباب کی یادیں ماضی کے وسیع دھندلکے میں مصری عجائب خانے کی ممیوں کی طرح پڑی ہیں ۔بے حس وحرکت‘منجمداوربے روح‘کبھی کبھی محسوس ہوتاہے کہ ان تمام قدیم یادوں پر پھپھوندی سی لگ گئی ہے۔ماضی کے وسیع میدان میں جہاں نشیب وفرازکی بھی کمی نہیں ‘کتنے ہی احباب ہیں جنہوں نے حافظہ کے بے کنارہ میدان میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں ‘ان کوآواز دیں ‘ان کوسنائی نہیں دیتی‘انہیں بلائیں توکوئی جواب نہیں آتا‘معلوم ہوتاہے کہ حافظہ کی دھندلی شاہراہ پرگزرے ہوئے راہگیروں کے نقوش قدم ہیں جوایام کی گردکے نیچے مدھم پڑتے جارہے ہیں‘آپ اورمیں بھی ان مدھم نشانات میں ایک نشان بن کررہ گئے ہیں۔آپ نے جویادکیاتومحسوس ہواکہ ممیاں بھی گفتگوکرتی ہیںاورماضی میں سے بھی چھن چھناکرآوازیں حال میں داخل ہوجایاکرتی ہیں ۔یقین کریں جب سے منہ پرموجودداڑھی میں سفیدی کاغلبہ ہوتاجارہاہے تویوں محسوس ہورہاہے کہ جیسے کوئی مسافرجوبغیر کسی زادِراہ لئے کسی طویل سفر کےلئے چل نکلا ہو‘اوراپنے ہی بچھائے ہوئے کانٹوں کوپلکوں سے صاف کرکے یاتواس لق ودق صحرامیں جان دےدے گایاایسی کھائی میں گرجائے گا جہاں اندھیرے استقبال کریں گے اورروشنی کادل مسوس ہوکررہ جائے گا!
اک دیااوربجھاروشنی روتی رہی
بھلاہوان چنددوستوں کاکہ مجھ جیسے کھوٹے سکوں کی کالک اورسیاہی کواتارے کابندوبست پچھلے دنوں لندن کے ایک دوردرازگاوں میں کررکھاتھا۔دنیاسے کٹ کر مافیہا کے قریب انسانی کردارکی اصلاح جس انداز سے یہ حضرات کرتے ہیں اس سے دل میں ایک آرزو پیداہوتی ہے کہ یوم حشر کی گھڑی جب ”ان الحکم الااللہ“ اور”لمن الملک الیوم“ کانعرہ بلندہوگا تومیں بھی گھگھیائی آوازمیں ”للہ الواحدالقھار“کاجواب انہی لوگوں میں کھڑاہوکردوں‘ یہی وجہ ہے کہ مجھے ان دوستوں کے ایسے تربیتی اجتماعات میں شرکت سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ قیمتی دلنواز اورمحبوب محسوس ہوتی ہے۔
ان دوستوں نے توحیدکی یہ شمع ایک مدت سے جلارکھی ہے اوریہ شمع اپنے رخِ تاباں سے اندھیرے کے اندرنورکے چھینٹے مسلسل برسا رہی ہے۔اس شمع پر اس کے جانثارپروانے کدھرکدھرسے آئے‘کن کن تاریکیوں کوپھلانگ کر آئے‘کیسے دیوانہ وار آئے ‘کیاکیاتاثرات ‘عشق ومحبت اپنے سینوں میں تڑپتے ہوئے لیکر گئے ‘یہ داستان ہجرووصال بڑی دراز‘بڑی پرلطف اوربڑی پرکشش ہے۔وقت کم ہے ‘گردشِ روزگار میںبڑی تیزی ہے‘کسے فرصت ہے کہ کہی ہوئی کہانیاں دہراسکے‘بکھرے موتی چن سکے ‘چٹکے ہوئے پھول وکلیاں چن چن کر دامن بھرسکے‘ایک لحظہ اورکارواں کہیں کاکہیں نکل جاتاہے۔اس رواداری میں حکایات خونچکاں سنانے کی کسے مہلت ہے۔بہرحال آپ کاتقاضہ ہے کہ اس شمع توحیدکی کچھ خوبیوں کاتذکرہ کروں جنہوں نے ہزاروں لوگوں کے دلوں کوموہ لیا ہے ‘ اس راہِ محبت کے ان مقامات کاتذکرہ کروں جنہوں نے کتنے ہی اربابِ دل ونگاہ کومسخر کرکے اپناگرویدہ اوراپنی منزل کامستقل راہی بنالیاہے لیکن محترم! یہ بات کسی ایک شخص کے بتانے کی نہیں ہے۔
جب کسی محبوب کے ہزاروں شیدائی ہوں توظاہر ہے کہ اس محبوب کے عشوہ واداکے بھی ہززروں انداز ہوں گے اوروہ بوقلموں خوبیاں اسی صورت میں سامنے آئیں گی جب عشاق کرام کاہجوم ہو!اوروہ اپنی اپنی جراحت دل کی داستان اپنی عاشقانہ زبان میں بیان کرے۔بس یہ اجتماع بھی ایسے عشاق کاتھا۔ بہرحال وہاںجوجواہرریزے اپنے تنگ دامن میں جمع کرسکا‘اس محبوب ازل کے کشتگان کی داستان وابستگی کے جن جن حصوں نے مجھے زیادہ متاثرکیا‘آپ کی ضیافت طبع کےلئے تحریر کئے دیتاہوں!
آپ جانتے ہیں کہ مقصد زندگی کی جس سنگلاخ وادی میں سے یہ قافلہ جان گزرہاہے وہ کٹھن بھی ہے اوردشواربھی‘حوصلہ شکن بھی ہے اورصبرآزمابھی‘لیکن ایک نصب العین کے حامل جب کچھ ساتھ جمع ہوجائیں توسارے بوجھ اترجاتے ہیں ‘شکائتیں دورہوجاتی ہیں‘دل شگفتہ ہوجاتے ہیں اوراشتراک غم‘مرگ انبوہ کاجشن پیداکردیتاہے۔پھرکوئی حالات کے ہاتھوں دل گرفتہ نہیں ہوتااورمنزل کی کٹھن گھاٹیوں کاکوئی شکوہ سنج نہیں رہتا۔اس وقت محسوس ہونے لگتاہے کہ یہ کوئی رہینِ ستم ہائے روزگارلوگ نہیں ہیں بلکہ منہ زورزمانے کے شہہ سوارہیں اورحالات کی لگام تھامے جس طرف چاہیں زندگی کارخ موڑکرلیجاسکتے
ہیں۔ایسے وقت میں ذکروشکران کے لبوںپرہوتاہے توعزیمت آگے بڑھ کر ان کے قدم چومتی ہے۔
اس محفل میں”اپنی تربیت آپ“کے اصول پر سب دوست جمع تھے۔جب یہ ذکرچل نکلاکہ نصب العین کی محبوبہ عالم کی کس اداسے کون مجروح ہوا‘ظاہر ہے کہ عشاق کی محفل میں جب ذکر محبوب کی اداوں کاچھڑجائے توبات قیامت کارنگ دھارلیتی ہے اورتب پتہ چلتاہے کہ کشتی دل کےلئے محبوب کاہرسانس ایک طوفان اورمرغ آرزوکےلئے اس کاہررونگٹا ایک بے پناہ تیرکی حیثیت رکھتاہے۔رشیدبھائی جواس محفل کے دولہاتھے‘اس محفل عشاق کاآغاز جب غم ناک چشم سے خوفِ خدا‘آخرت کی جوابدہی اوراس زمانے میں دین کی مظلومی سے کیاتوگویاوقت تھم گیاہو‘سانس کاتسلسل جوپچھلی چھ دہائیوں سے کبھی مشکل نظرنہیں آتا تھا ‘اب اگلے سانس لینے کی گویاہمت نہ ہو۔مجھ جیسے گناہگارکوسورة بقرہ کی آیت چالیس سے لیکر چھیالیس تک درس قرآن کاجب حکم ملاتومحسوس ہوا کہ قرآن کی ان آیات میں یہود کونہیں بلکہ مجھے مخاطب کیاجارہاہو۔قرآن جوایک زندہ معجزہ ‘اپنی جبروت وسطوت کے رنگ دکھارہاتھاوہاں میرااپنارنگ پھیکا پڑ رہاتھا‘قلب وضمیرساتھ نہیں دے رہے تھے ‘زبان یوں لڑکھڑارہی تھی جیسے اس نے بولناکبھی سیکھاہی نہیںسب دعائیں یادنہ رہیں بس یہی سرور،کائنات ﷺ کی دعاکہ:”اے رب ذوالجلال! میراسینہ اس کےلئے کھول دے اورسمجھنے وعمل کی توفیق نصیب فرماآمین!
بعدمیں دوستوں کااس پرتبصرہ,سینہ مزید کھلتاگیا‘دماغ سے پردے ایک ایک کرکے ہٹ رہے تھے‘خداکی وحدانیت کایقین‘رسول اکرمﷺ کی سیرت مبارک‘ اصحابہ کرام کاایثار‘قربانی واستقامت دل پر نقش ہورہے تھے اورکالک وسیاہی اس طرح دورہورہی تھی جس طرح کالے بادلوں سے اٹاہواآسمان نورکی پہلی کرن سے خوفزدہ ہوکر اس کےلئے جگہ چھوڑرہا ہو‘اورواقعی قرآن کی یہ آیت کہ:”جب حق آتاہے باطل بھاگتاہے‘روشنی آتی ہے‘اندھیراچھٹ جاتاہے“کی عملاً تفسیراپنے دل کی کیفیت سے محسوس ہوئی۔
غیرمسلموں کے اس معاشرے میں اسلام کی دعوت‘پلاننگ‘نمائش‘تعارف‘غرضیکہ زندگی کے تمام ضروری پہلووں پراس مختصروقت(ڈھائی دن)میں اس طرح عملی روشنی پڑی کہ سب ہی اندھیرے چھٹ گئے‘گرددورہوئی توذہنی بوجھ اورجسم کواس طرح ہلکامحسوس کیاکہ داڑھی کی سپیدی بھی کچھ اچھی نظرآنے لگی اوردل میں یہ احساس جاگزیں ہوگیاکہ اس کیفیت میں محبوب سے ملاقات ہوگئی توعاشقِ صادق کاپروانہ مل جائے گاوروصل بھی نصیب ہوجائے گا۔
آیئے!اپنی زندگی کے عشق کاآغازاس اندازسے کریں کہ محبوب منتظرومضطرب ہو‘بے چین ہواوربے ساختہ یہ کہے:
یہ بندہ دوعالم سے خفامیرے لئے ہے
دعاوں کی درخواست کے ساتھ اجازت چاہتاہوں!