عابد انور
پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا میں بحث و تمحیص کے بعد بالآخر لوک پال بل پاس ہوگیا ،لیکن راجیہ سبھا میں اس بل کا جو حشر ہوا وہ جتنا افسوسناک تھا اتنا حیرتناک بھی۔ لوک پال بل ہندوستان میں قانون کی شکل لیتا ہے یا نہیں لیکن ہندوستانی سیاست کا مکروہ ترین چہرہ ضرور اجاگر کردیا ۔سیاست دانوں اور پارٹیوں کی عیاری و مکاری لومڑی خصلت والا کردار بھی سامنے آیا۔ پارٹی کا عوامی خوبصورت چہرہ اور ڈرائنگ روم کا سیاہ چہر ہ بھی دیکھنے کو ملا۔ اسی کے ساتھ ٹیم انا کو بھی اپنی غلط فہمی دور کرنے کا موقع ملا کہ دعوی کرتے تھے کہ ایک ارب ۳۰ کروڑ ہندوستانی ان کے ساتھ ہیں اور کاندھا سے کاندھ ملاکر چل رہے ہیں۔ان کے اشارے میں حکومت کا تختہ پلٹ کرکے سارے لیڈروں کو جیل میں ڈال دیں گے۔ ٹیم انا کو شروع سے ہی اپنے بارے میں زبردست غلط فہمی تھی۔یہی غلط فہمی نے اسے ضدی، ہٹ دھرم اور اپنے آپ کو سب سے سپریم ہونے کے مفروضہ میں مبتلا کردیا۔ ہندوستان میں کوئی بھی تحریک کو شروع کرنے سے پہلے یہاں کے عوامی مزاج کوجاننا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ یہاں کے عوام پیدائشی سیاست داں ہوتے ہیں خواہ وہ پڑھا لکھا ہو یا یا ان پڑھ،۔ بھیڑ کا مطلب یہ قطعی نہیں ہوتا کہ وہ سارے لوگ حمایت میں آئے ہیں۔ ہندوستان میں بے روزگاری بہت زیادہ ہے ، کہیں بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے تو ایک بھیڑ اجمع ہوجاتی ہے وہاں تو لوگ ٹوٹ پڑتے ہیں جہاں مفت کھانا، سونا اور آرام کرنے کو مل جائے۔ یہی بات بابارام دیو کے رام لیلا میدان میں موجود مجمع پر صادق آتی ہے۔ لیکن اسے عوامی حمایت سمجھ لیا گیا۔ راہل گاندھی اور سونیا گاندھی کے عوامی جلسے میں لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوتا ہے لیکن وہ سب لوگ ووٹ نہیں دیتے۔ یہ باتیں ٹیم انا کو اچھی طرح سمجھنا چاہئے۔ اس کے علاوہ ٹیم انا کانگریس کے خلاف عوامی مہم بھی کوئی رنگ نہیں دکھاسکی کیوں کہ اگر ٹیم انا کا کوئی اثر ہوتا ہے حصار میں کانگریس کو ووٹ نہیں ملناچاہئے تھا لیکن اس کا امیدوار حسب سابق اچھا خاصا ووٹ لے کر آیا۔ ٹیم انا کو ممبئی میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جس بھیڑ کی توقع کر رہے تھے وہ نہیں آئی جس کی وجہ سے نہ صرف وقت سے پہلے انہیں اپنا انشن (بھوک ہڑتال) توڑنا پڑا بلکہ اگلے مرحلہ کا پروگرام جیل بھرو تحریک بھی واپس لینی پڑی لیکن کانگریس کے خلاف مہم چلانے کا عندیہ ضرور دیا جس سے صرف بی جے پی کو فائدہ پہونچے گا وہ یہ کہ ٹیم انا کے ارکان پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے خلاف مہم چلائیں گے۔ جب بھی کوئی تحریک سیاست زدہ ہوجاتی ہے عوامی حمایت کھو دیتی ہے۔ ٹیم انا اپنی عوامی حمایت کا ایک بڑا حصہ اسی وقت کھو دیا تھا جب انہوں نے کانگریس کے خلاف مہم چلائی تھی۔ اگر ٹیم انا کی نیت صاف ہوتی تو وہ کسی پارٹی کے خلاف تحریک چلانے کے بجائے یہ تحریک چلاتی کہ صاف ستھرے، ایماندار، دیانتدار، مجرمانہ ذہنیت سے پاک و صاف اور صاف شبیہ رکھنے والے امیدوار کو ووٹ دیں اس سے عوام میں مثبت پیغام جاتا۔ ٹیم انا کی نیت ، مقصد اور سوچ صرف کانگریس کی مخالفت اور حکومت سے بے دخلی ہے مضبوط لوک پال نہیں ۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ عوام ووٹ دینے کے لئے امیدواروں سے کیا کیا وصولتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انتخاب جیتنے کے بعد امیدوارعوام کی امیدوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے خسارے کی بھرپائی میں لگ جاتا ہیں۔
لوک سبھا میں لوک پال بل پر بحث کے دوران جو چہرے سامنے آئے وہ بہت بھیانک ہیں ۔ سب سے بھیانک چہرہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا سامنے آیا ہے جو ٹیم انا کے اسٹیج پر نمودار ہوکر مضبوط لوک کی حمایت کرتی ہے لیکن جب ڈرائنگ میں میٹنگ ہوتی ہے اس کا موقف اس کے برعکس ہوتا ہے۔اس کا ثبوت اس نے لوک پال کو آئینی حیثیت دینے والا بل کو گراکر دیا۔ لوک پال بل پاس ہونے کے بعد لوک پال کو آئینی درجہ دینے کے لئے ایوان میں آئینی ترمیم کے بل پر ووٹنگ کرائی گئی۔ پہلی ووٹنگ میں یہ بل منظور ہو گیا ، لیکن اس کے بعد حزب اختلاف کی لیڈر سشما سوراج نے آئینی ترمیم کا بل پر اکثریت کا سوال اٹھاتے ہوئے ضروری ووٹوں کی تعداد کے کم ہونے کی بات کہی اور آخر کار آئینی ترمیم بل لوک سبھا میں منظور نہیں ہو سکا۔ایوان میں بحث کے دوران حزب اختلاف کی جماعتوں سمیت بائیں بازو کی جماعتوں کی جانب سے سرکاری لوک پال بل کے مسودے میں کئی ترامیم تجویز کی گئی تھی۔لوک سبھا نے ترامیم کے بعد لوک پال بل کو صوتی ووٹ سے منظوری دیدی تھی لیکن لوک پال کو آئینی ادارہ بنانے کی تجویز ناکام ہوگئی کیونکہ ووٹنگ کے وقت حکمراں اتحاد کے کچھ اراکین پارلیمان ایوان میں موجود نہیں تھے۔ اس کے علاوہ لوک پال کو آئینی ادارہ بنانے کے لیے ایوان میں دو تہائی اکثریت درکار تھی لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی نے جہاں اس کی مخالفت کی وہیں اس کی بعض حلیف جماعتیں ووٹنگ میں حصہ لینے کے بجائے واک آوٴٹ کر گئیں اور اس طرح یہ تجویز مسترد ہوگئی۔ راجیہ سبھا میں حکمراں اتحاد کو اکثریت حاصل نہیں ہے، لہذٰا یہ بل یہاں منظور نہیں ہوسکا۔ راجیہ سبھا میں کانگریس کے ۷۱ سمیت یو پی اے کے ۹۹ ارکان ہیں۔اب بجٹ اجلاس میں لوک پال بل پاس کرایا جاسکتا ہے۔ لوک آیکت بل سے متعلق اپوزیشن پارٹیوں کے دماغ اچانک یہ خیال کوندا ہے کہ یہ وفاقی ڈھانچہ کے خلاف ہوگا۔ ریاست کے بارے میں قانون بنانا ریاست کا اختیار ہے۔ اس کی وجہ سے بی جے پی سمیت کئی سیاسی پارٹیاں اس کے خلاف میدان میں اتر آئیں۔ مطلب یہ ہے بدعنوانی کامعاملہ صرف مرکز تک محدود رہے اور اس کی حکومت والی ریاست یا دوسری غیر کانگریس پارٹی کی حکومت کو بدعنوانی کو فروغ دینے میں مکمل چھوٹ ملنی چاہئے۔ لوک آیکت ہو بھی تو ایسا کہ صرف ایک کلرک کی طرح کام کرے۔
اگر ریاست کو اس سے مستثنی رکھا جاتا ہے اور آزادی دی جاتی ہے تو ان ترامیم کی رو سے ریاستوں کے پاس اب لوک پال اور لوک آیکت بل 2011 کے نفاذ سے متعلق آزادی ہوگی۔پارلیمنٹ میں لوک پال پربحث میں کے دوران وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اراکین پارلیمنٹ سے درخواست کی تھی کہ وہ سیاسی وابستگی سے اوپر اٹھ کر لوک پال بل کو پاس کریں اور لوک پال پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہو ۔ اسی کے ساتھ وزیر اعظم نے ٹیم انا کے اس مفروضے کو مسترد کرتو ہوئے کہا ہے کہ تمام لیڈروں پر عدم اعتماد ظاہر کرنا جمہوریت کی بنیاد کے لئے خطرہ ہے اور بدعنوانی مٹانے کے نام پر ایسی تنظیم یا ادارہ کو نہیں کھڑا کرنا چاہئے جو جمہوری نظام کو تباہ کر دے۔ منموہن سنگھ نے ریاستوں میں بدعنوانی سے نمٹنے کے لئے لوک آیکت بنانے کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی اور ریاستی سطح پر بدعنوانی کے درمیان میں کوئی فرق نہیں کیا جانا چاہئے۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اراکین پارلیمنٹ سے کہا کہ وہ سیاست کے دائرے سے اوپر اٹھ کر بدعنوانی کے بارے میں سوچیں اور لوگوں کو دکھائیں کہ وہ بدعنوانی سے نمٹنے کے حوالے سے سنجیدہ ہیں۔لوک پال بل پر بحث میں منموہن سنگھ نے کہا کہ سی بی آئی کو لوک پال سے آزاد ہوکر کام کرنا چاہئے لیکن آزادی کا مطلب بغیر جوابدہی کے کام کرنا نہیں ہے۔ اس لیے سی بی آئی کے سربراہ کی تقرری کے لئے ایک ایسا پینل منتخب کیا گیا ہے جس میں وزیر اعظم ، لیڈر حزب اختلاف اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یا ان کا منتخب رکن ہوگا۔جہاں تک سی بی آئی کو لوک پال کے تحت کرنے کا معاملہ ہے ، میری حکومت کو لگتا ہے کہ ایسا کرنے سے ایسا انتظام تیار ہوگا جو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوگا۔ یہ آئین کے خلاف ہے۔لوک سبھا میں لوک پال بل کے پاس ہونے پر ٹیم انا کے رکن اروند کیجریوال نے کہا کہ وہ بل کو پوری طرح سے خارج کرتے ہیں اور جو بل منظور ہوا ہے ، وہ ملک کے جمہوریت کے لئے خطرہ ہے۔ یہ لوک پال بل کو پارلیمنٹ کا نہیں بلکہ یو پی اے کا بل ہے۔لوک پال میں بدعنوانی کے معاملے کی تحقیقات چھ ماہ میں پوری ہونی تھی لیکن اب اسے ہٹا دیا گیا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے ٹیم کے کسی نے رکن نے اب تک پارلیمنٹ میں بی جے پی کے رویے پر تنقید نہیں کی ہے اور نہ ہی یہ مطالبہ کیا ہے کہ بی جے پی حکومت والی تمام ریاستوں میں لوک آیکت مقرر کرے۔اس سے ٹیم انا کو بارے میں شبہ ہونا لازمی ہے۔ٹیم انا پر شبہ اس لئے بھی کیا جانا چاہئے کہ کیوں کہ اتراکھنڈ میں جو لوک آیکت قانون پاس ہوا ہے جس کا ٹیم انا نے خیرمقدم کیا ہے وہ لوک آیکت بالکل بے اختیار ہے۔ اس کے جو دفعات ہیں ا س کی رو سے لوک آیکت کبھی بھی کسی وزیر اعلی اور ممبران اسمبلی پر مقدمہ نہیں چلا پائے گا کیوں کہ لوک آیکت کے پینل کا اس پر مکمل متفق ہونا ضروری ہے جو کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے کیوں کہ اس میں حکومت کے بھی نمائندے ہوں گے ۔ اس کے علاوہ لوک آیکت کی کارکردگی کا جائزہ اسمبلی میں لیا جائے گا مطلب یہ ہے کہ جس کی حکومت ہوگی اس کا اختیار ہوگا کہ اپنے خلاف بدعنوانی کا کیس چلنے دیا جائے یا رد کردے۔ ظاہر سی بات ہے کوئی بھی پارٹی اپنے خلاف بدعنوانی کا کیس چلنے نہیں دے گی۔اس کے باوجود ٹیم انا بی جے پی اپنا ہم نوا مانتی ہے تو اس کا مطلب صاف واضح ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک بار پھر مسلم دشمنی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے لوک پال میں اقلیتوں کو نمائندگی دینے پر اپنی سخت برہمی کا اظہار کیا اور حکومت کے اس موجودہ بل کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجوزہ قانون سے دستور ہند کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ لوک سبھا میں بحث کے دوران حزب اختلاف کی لیڈر سشما سواراج نے کہا کہ ’یہ بل خامیوں سے بھرا ہوا ہے اور حکو مت کو اسے واپس لے لینا چاہیے۔بی جے پی کا مٍوقف تھا کہ کوئی ایسا ادارہ قائم نہیں کرنا چاہئے جس سے آئین یا پارلیمانی جمہوریت کے کسی پہلو پر آنچ آئے۔بی جے پی کا بنیادی اعتراض بل کی تین شقوں پر ہے جن کے تحت لوک پال بل میں اقلیتوں کے لیے ریزرویشن کی تجویز رکھی گئی ہے، تفتیشی ادارے سی بی آئی کو جزوی طور پر لوک پال کے دائرہ اختیار میں شامل کیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ بی جے پی اس پر بھی چراغ پا ہے کہ ریاستی حکومت کو لوک آیکت ٰقائم کرنے کو لئے اس بل میں کہا گیا ہے۔ مرکزی وزیر کپل سبل نے بی جے پی کے اس مفروضہ کا مثبت جوا ب دیا ہے۔ ان کے مطابق یزرویشن سے متعلق آئین کی جن شقوں کا حزب اختلاف نے ذکر کیا ہے ان کا اطلاق لوک پال کے معاملے میں نہیں ہوتا اور اس بارے میں حتمی فیصلہ عدالتیں ہی کر سکتی ہیں۔ کپل سبل کے مطابق بی جے پی ملک کی ’سولہ کروڑ اقلیتوں کو لوک پال میں نمائندگی سے محروم رکھنا چاہتی ہے اور بل کو منظور نہیں ہونے دینا چاہتی۔
لوک سبھا میں بحث کے دوران ۲۷ دسمبر کو اچانک راہل گاندھی نے لوک پال کو آئینی درجہ دئے جانے کا مطالبہ کر دیا جس کے بعد سے کانگریس نے اس کے لئے کوشش کرنا شروع کیا لیکن اس کے لئے جو تعداد حاصل کرنے کی ضرورت تھی پارٹی نے اس کے لئے سنجیدگی سے کوئی کام نہیں کیا۔ فلور منیجمنٹ کی بے حد کمی محسوس کی گئی۔یو پی اے اگر اسے آئینی درجہ دلانا چاہتا تھا کہ تو پہلے اسے دوتہائی ممبران کا انتظام کرنا چاہئے تھاجو اس نے نہیں کیا اس کے علاوہ کانگریس کے ایک درجن سے زائد ممبران غیر حاضر تھے۔لوک پال کو سیاسی درجہ دئے جانے کا مطالبہ نہ تو ٹیم انا کی تھی ، نہ اپوزیشن پارٹیوں کی اور نہ ہی اس وقت تک کانگریس کی طرف سے ہی ایسی کوئی مطالبہ کیا گیا تھا۔ اگر لوک پال بل کو آینی درجہ حاصل ہوجاتا تو اسے الیکشن کمیشن کے مساوی اختیار مل جاتا جو مضبوط لوک پال کے سمت میں اہم قدم ہوتا لیکن اپوزیشن نے جس رویہ کا اظہار کیا اس سے ان کی نیت کا صاف پتہ چلتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی پارٹی مضبوط لوک پال بل نہیں چاہتی ۔ ہرپارٹی حٍکمراں بننے کا خواب دیکھتی ہے یہ بل حکومت کی بے راہ روی پر قدغن لگاسکتا ہے۔ یہ کانگریس کے لئے ایک طرح سے اچھا ہے کیونکہ کانگریس عوام کے درمیان میں جا کر یہ کہہ سکتی ہے کہ اس کے پاس تعداد نہیں تھی اس لیے وہ لوک پال کو آئینی درجہ نہیں دے پائی اور اس کے پاس جب بھی تعداد ہوگی وہ اسے آئینی درجہ دلائے گی۔ سونیا گاندھی نے بی جے پی کے دوہرے رویے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اہم اپوزیشن جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کوسخت تنقید کا نشانہ بنایا ۔ان کے مطابق مستقل کمیٹی میں بحث کے دوران بی جے پی نے بل کو آئینی درجہ دیئے جانے کی حمایت کی تھی لیکن منگل کو لوک سبھا میں ووٹنگ کے دوران اس نے اپنا اصل چہرہ دکھا دیا۔کچھ لوگ راہل گاندھی کے لئے ایک جھٹکا مانتے ہیں حالانکہ حقیقت میں ایسا قطعی نہیں ہے ہندوستان موقعے کا فائدہ کیسے اٹھایا جاتا ہے خوہ وہ مثبت یا ہو منفی یہاں کی پارٹیاں اور سیاست داں خوب جانتے ہیں۔ جہاں تک بدعنوانی کا معاملہ ہے عام لوگوں کا واسطہ ریاستی حکومتوں سے پڑتا ہے اور ریاستی حکومت کے افسران سے لیکر کلرک تک اور پنچایت میں وارڈ کے ممبر‘ مکھیا‘ سرپنج ‘ امین ‘ پٹواری یہ لوگ رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے۔ درحقیقت بدعنوانی کا سوتہ ریاست سے پھوٹتا ہے اور مرکز تک پہنچتا ہے۔یہ بات بھی نہیں کہ مرکز میں بدعنوانی نہیں ہے مرکز میں بدعنوانی کے بڑے بڑے واقعات ہوئے ہیں لیکن اس سے عام لوگوں کا تعلق نہیں رہا ہے اس میں ایک خاص طبقہ شامل ہوتا ہے لیکن معاملات کا جہاں تک تعلق جے تو عام لوگوں کو ریاستی حکام اور ملازمین سے ہی واسطہ پڑتا ہے۔حقیقی بدعنوانی ریاستی حکومتوں کی خدمات میں ہے‘ پٹواری کام نہیں کرتا۔ کسی کو راشن نہیں ملتا ، اسپتال میں جگہ نہیں ملتی مفت کی دوائیں عام لوگوں کو نہیں ملتیں ، ہر بات پر رشوت لی جاتی ہیں۔
پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ اور سیاسی پارٹیوں کی تقاریر سے یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی مضبوط لوک پال بل نہیں چاہتی۔بی جے پی پارلیمنٹ میں لوک پال کی مخالفت کرکے اور کمزور لوک پال کا رونا روکر دراصل اس بل کو پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ٹالنا چاہتی ہے تاکہ ٹیم انا کانگریس کے خلاف تحریک چلائے اور اس کا بھرپور اسے ملے۔ دوسری طرف کانگریس بھی دونوں صورتوں میں اپنا کوئی نقصان ہونے نہیں دینا چاہتی کیوں کہ اگر دونوں ایوان میں لوک پال بل پاس ہوجاتا تو کہتی ہم نے اپنا وعدہ پوراکیا۔ راجیہ سبھا میں یہ بل پاس نہیں ہوا ہے اس لئے یہ کہے گی لوک سبھا میں اس کی اکثریت تھی اس لئے اس نے بل پاس کرادیا لیکن راجیہ سبھا میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے بل پاس نہیں ہوسکا ۔ بی جے پی سمیت دوسری اپوزیشن پارٹیوں نے بل کی حمایت نہیں کی اس لئے اس راجیہ سبھا میں یہ بل پاس نہ ہوٍسکا۔ہندوستان کی سیاسی پارٹیاں خاص طور پر ایک قومی پارٹی جس پر فرقہ پرستی کا داغ بھی لگتا رہتا ہے ایسے بنیوں کی حمایت کرتی ہے جو بدعنوانی کو بڑھاوا دینے میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بدعنوانی کو روکنا ہے تو ایسے عناصر کے خلاف سخت قانون بنانے کی ضرورت ہے جو عام لوگوں اور کسانوں کا زبردست استحصال کرتے ہیں۔
D-64/10 Abul Fazal Enclave Jamia Nagar, New Delhi- 110025
Mob. 9810372335,
abidanwaruni@gmail.com