Home / Socio-political / جب استادِ ذوق ؔ کے مزار پر 14بیت الخلاء تعمیر کردئے گئے!

جب استادِ ذوق ؔ کے مزار پر 14بیت الخلاء تعمیر کردئے گئے!

جب استادِ ذوق ؔ کے مزار پر 14بیت الخلاء تعمیر کردئے گئے!

حالتِ زارمزار ذوقؔ —————————————— فیروز بخت احمد

پچھلے دنوںمزار ذوقؔکے تعلق سے ’’ترقی انجمن اردو،دہلی‘ ‘کے سکریٹری ڈاکٹر خلیق انجم اور ’’غالب انسٹی ٹیوٹ ‘‘کے روح رواں جناب شاہد ماہلی کا بیان کہ مزار ذوقؔ پر سرکاری ایجنسی یعنی محکمۂ آثار قدیمہ ، انہیں ذوقؔ کا عرس کرنے کی اجازت کے لئے پچاس ہزار روپئے کی رقم طلب کرتی ہے ، ایک افسوسناک پہلو ہے۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے اکابرین، عمائدین وشعراء کے مزارات و مکانا ت کو یادگاروں میں تبدیل کرنے کی بات تو چھوڑیئے، یہاں تو فاتحہ پڑھنے کے لئے رقومات ادا کرنی پڑتی ہے۔

چاہے وہ مزارِ غالب ہو ، مزار ذوقؔ ہو یا مولانا آزاد کا مزار ہو، ان سبھی کو مقفل کردیا گیا تھا، جن میں مزارآزاد تو راقم کے مقدمہ برائے فلاح عامہ کی وجہ سے 2005میں کھل گیاتھا مگر ذوقؔ کا مزار تو 1997سے مقفل ہی ہے۔مزار غالب بھی عموماً مقفل رہتا تھا مگر ’’غالب اکیڈمی‘‘ نے غالباً وہاں سے تالا ہٹا لیا ہے۔اُدھر لکھنؤ میں میر تقی میر ؔکے مزار پر ریلوے کا پھاٹک بنا دیا گیا ہے۔

جب ہم برطانیہ جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کس طرح سے اس قوم میں اپنے شعراء ، ڈرامہ نگار، ناول نگار وغیرہ کی یادگاروں کو محفوظ رکھا ہوا ہے۔ چاہے وہ شیکسپیئر ہوں، ولیم ورڈز ورتھ ہوں،ولیم بلیک ہوں، جان کیٹس ہوں،چارلس ڈکنس ہوں ، شیلی ہوںیا ایڈیسن اور اسٹیل ہوں، سبھی کی یادگاروں کو بڑی باقاعدگی کے ساتھ محفوظ کیا گیا ہے اور ان کا خرچہ بھی اس پیسے سے نکالا جاتا ہے کہ جو سیاح ٹکٹ لے کر ادا کرتے ہیں۔

اسی طرح سے اگر آپ امریکہ جائیں گے تو آپ کو ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ، رالف والڈو ایمرسن، رابرٹ فراسٹ، جارج واشنگٹن،بینجامن فرینکلن وغیرہ کے مکانات ومزارات اس طرح سے محفوظ کئے نظر آئیں گے کہ وہ سیاحوں کی تفریح کے لئے بہترین پکنک اسپاٹ کا لطف دیں گے ۔ وہاں پر آپ کو چائے ، کھاناوغیرہ کے علاوہ اورسستانے کے لئے اعلیٰ درجے کے کینٹین بھی ملیں گے اور ان شعراء کی زندگی سے متعلق تصاویر ، کتابیں ، چابی کے چھلے ، ٹی شرٹس و دیگر متفرقات بھی ملیں گے۔

آئیے اب ہم اپنے شعراء و ادباء کی یادگاروں کا بھی جائزہ لیں۔چاہے وہ مرزا غالب ہوں ، مومن ہوں، ذوقؔہوں، میر ہوں، استاد داغ ہوں،اسمٰعیل میرٹھی ہوں،جگر مرادآبادی ہوں، اکبر الہٰ آبادی ہوں، فراق ہوں،مہندر سنگھ بیدی ہوں، نظیر اکبرآبادی ہوں، ولی دکنی ہوں، علی سردار جعفری ہوں، کیفی اعظمی ہوں،یا اور کوئی شاعر ہو، کیا ہم نے ان کی یادگاروں کو ان کے شایانِ شان محفوظ کیا ہے؟شایانِ شان توچھوڑیئے، ایک سوائے غالب کے شاید کسی کا بھی میموریل موجود نہیں ہے ۔کیاہمیں اور آپ کو پتہ ہے کہ غالب دوست و شاعر نواب مصطفی خان شیفتہ ، میر درد، بسمل سعیدی، راسخ دہلوی، سائل دہلوی، فقیر محمد گویا وغیرہ کے مکانات و مزارات کہاں ہیں۔ چاہے وہ غالب کا میموریل ہو، یا ذوقؔکا مزار ہو، یہ دونوں تو راقم کے مقدمات برائے فلاح ِ عامہ کی وجہ سے بچ گئے مگر حالات ان کے بھی کچھ ٹھیک نہیں ہیں۔

مزار ذوقؔ کی تعمیر نو کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب راقم نے روزنامہ ’’ہندوستان ٹائمز‘‘(  6اگست 1996)میںایک مضمون تحریر کیا جس میں انہوں نے شعرا ء کے مزارات کی بدحالی و حالتِ زار کا ذکر کیا تو اس کا نوٹ دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس کلدیپ سنگھ اور وکیل ایم۔ سی۔ مہتا نے لیا اور پھر کم از کم غالب اورذوق کے مزارات پر کام شروع ہوا۔راقم کو سپریم کورٹ نے اس کمیٹی کاممبر بھی متعین کیا جس کو ذوقؔ کے مزار کی جگہ طے کرنی تھے ۔ ذوقؔ کا مزار تو کچھ ماہ میں بن گیا، قریب میں علاقہ کے لوگوں کے لئے دو منزلہ بیت الخلاء وحمام بھی تعمیر ہو گئے مگر حویلیِ غالب کی طرح یہ مزار بھی ویران و برباد ہے اور1997سے ہی مقفل ہے۔ راقم نے حکومت کو کئی خط لکھے کہ اس کانظام کسی بھی اردو ادارے جیسے ’’ترقی انجمن اردو‘‘، ’’اردو اکیڈمی‘‘، ’’قومی کونس برائے فروغ اردوزبان‘‘، ’’غالب اکیڈمی‘‘ کے حوالے کیا جا نا چاہئے مگر نتیجہ ٹائیں ٹائیں فِش۔

راقم آپ کو مزار ذوقؔکی داستان بیان کرنا چاہے گا۔در اصل کچھ عرصہ قبل کسی کو پتہ ہی نہیں تھا کہ ذوقؔکس چڑیا کا نام ہے اور ان کا مزار یا مکان کہاں ہے۔ راقم کے مضمون سے پتہ چلا کہ مزار ذوقؔپر دہلی میونسپل کارپوریشن نے14 بیت الخلاء یعنی 7خواتین اور7حضرات کے لئے، 1961بنوا دیئے ہیں۔ استادِحضرت شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ’’طوطیِ ہند‘‘ ،شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے استاد تھے۔ذوقؔکی ولادت 15نومبر 1788یعنی ہجری 1203میں دہلی کے کابلی دروازہ محلہ میں ہوئی تھی۔ یہ کابلی دروازہ دہلی کے کے 14 درواز وں میں سے ایک تھا۔ وقت کے تھپیڑوں میں یہ مسمار ہو چکا ہے اوراس کا آج کو ئی نام و نشان باقی نہیں۔ہاں ذوق کی مزار پر جو کتبہ تھا ، اس کا مضمون کچھ اس طرح سے تھا: ’’اللہ اکبر : طوطی ہند حضرت استادِ ذوق نے ؍لی گلشن جہاں سے جو باغِ جہاں کی راہ؍ سالِ وفات کوئی پوچھے تو اے ظفر؍کہہ ذوق جنتی زسر بخشش الہ‘‘(17اکتوبر 1884)۔

استادِ ذوقؔکے والدشیخ محمد رمضان ایک سپاہی تھے۔ شیخ رمضان کو مولوی نواب لطف علی خاں نے ایک معتبر اور بالیاقت شخص سمجھ کر اپنی حرم سرا کا کاروبار سپرد کیا تھا۔ ذوقؔنے ابتدائی تعلیم حافظ غلام رسول شوقؔ سے پائی جو وہیں محلہ میں بچوں کو سپارہ پڑھایا کرتے تھے۔ شوق ؔصاحب کو چونکہ شاعری سے رغبت تھی، ذوقؔصاحب کو ان کی شاگردی میں بھلا کیوں نہ ہوتی!بعد میں ذوقؔ شاہ نصیر کے شاگر د ہو رہے۔ پھر ایک ذی علم شخص ، میاں عبد الرزاق کے حلقۂ درس میں شریک ہو گئے۔ یہ ان کے محلہ میں ہی رہا کرتے تھے اور مختلف رسائل و اخبارات میں مضامین اورغزلیںتحریر کیا کرتے تھے۔ یہیں سے ذوقؔکا مشاعروں میں شمولیت کاسلسہ شروع ہوا۔ آہستہ آہستہ شاعری کا معیار اتنا بلند ہوا کہ بغیر اصلاح کے پڑھنے کی جرت کرنے لگے۔چہار دانگِ عالم میں ذوقؔکا شہرہ ہو گیا۔

ان دنوں دہلی کے تخت پر اکبر شاہ کا راج تھا، جنہیں شاعری کا مذاق نہ تھا۔ مرزا ابو ظفر ولی عہدِ بادشاہ ہوکر بہادر شاہ ہوئے۔ وہ شاعری کے شیدا تھے اور’’ظفرؔ‘‘ تخلص کرتے تھے۔ شعراء وقت کا وہاں مجمع رہتا تھا اور خوب طبع آزمائیاں ہوا کرتی تھیں۔ 19سال کی ہی جواں سال عمر میں نہ صرف بہادر شاہ ظفرؔ کے استاد منتخب ہوئے بلکہ ان کو ’’خاقانی ہند‘‘ کا خطاب بھی عطا کیا گیا۔

کیا کوئی ذہن و گمان میں بھی سوچ سکتا ہے کہ استاد ذوقؔکے مزار و کلو بخشوکا تکیہ قبرستان میں ان قبروں کی اس حد تک بے حرمتی ہو گی کہ ان پر بیت الخلاء بنا دئے جائیں گے! ذوقؔؔ نے محمد حسین آزادؔ سے پہلے کہہ رکھا تھا کہ انہیں قدم شریف میں دفن کیا جائے۔ آج کل پہاڑ گنج،نبی کریم کا وہ قبرستان کہ جہاں ذوقؔ دفن ہیں، مکانات و دوکانوںسے گھرا ہوا ہے۔ اسے چنیوٹ بستی بھی کہتے ہیں کیونکہ تقسیم ہند کے بعد یہاں پر جو رفیوجی لاہور سے آئے ، وہ وہاں کی چنیوٹ بستی سے ہی یہاںآکر بسے تھے۔

ایسا قیاس کیا جاتا ہے کہ 1950تک ذوق کا مزار یہاں موجود تھا کیونکہ 16دسمبر1950کا مولانا حفظ الرحمن ، متولی وقف بورڈ(دہلی) کا ایک خط ریکارڈ میں موجود ہے کہ جب انہوں نے مزارِ ذوقؔ کاانسپکشن کیا تو پایا کہ اس کا احاطہ بڑی خراب حالات میں ہے۔

 رپورٹ میں لکھا ہوا ہے : ’’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مزار ذوق کے احاطہ کو رفیوجیوں نے مستقل بیت الخلاء کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ احاطہ کی مرمت ہونی چاہئے اور صفائی کر اکر دروازے چڑھا دینے چاہئے۔ مزید حفاظت کے لئے لوہے کی باڑ لگوانا بھی از حد ضروری ہے۔‘‘جب سرکار نے کوئی اقدام نہ اٹھایا تو مولانا حفظ الرحمن نے حافظ زین العابدین نے جوتے والوں کی مدد سے مزار ذوق کو ازسرِ نو بنوانا چاہا مگر اس کی سخت مخالفت کی گئی۔ اسی طرح سے جناب حکیم عبد الحمید صاحب کہ جنہوں نے 1950اور 1960میں مزارِ ذوق کے کئی دورے کئے تھے کہ جب اس کی تعمیرِ نو کے لئے کمر کسی تو مفاد پرست طبقہ نے سینکڑوں اڑچنیں ڈال دیں اور مزارِ ذوق بنتے بنتے رہ گیا۔ایک اور خط جو ریکارڈ سے ملا ہے ، جناب محمد جعفری ،ناظرِ اوقاف (دہلی) کا 23جولائی 1952کا تحریر کردہ ہے کہ جس میں انہوں نے پہاڑ گنج پولیس تھانہ میں شکایت کی تھی کہ مزار ذوقؔ کی حالتِ زار قابل رحم ہے اور یہ کہ اس کتبہ اور آدھی قبر تو غائب ہی ہو گئے ہیں۔

بقول صفدر علی مرحوم، نگراںمزار ذوق ، 1947کے دنگوں میں کلو بخشو کا تکیہ قبرستان کو نقصان پہنچا تھا ۔پارٹیشن کے بعد یہ بات صاف نظر آرہی تھی کہ یہ قبرستان خود آہستگی کے ساتھ مگر یقینا موت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ہاں، یہ پتہ نہیں تھا کہ یہ صفۂ ہستی سے ایسے مٹا دیا جائے گا کہ اس کا نشان بھی باقی نہ رہے گا۔شاید اما م الہند حضرت مولانا ابو الکلام آزادؔ نے تقسیم کے موقع پر اپنی تاریخی جامع مسجد کی سیڑھیوں سے دی گئی تقریر(جو کہ ’’یوٹیوب‘‘میں موجود ہے)میں بجا کہا تھا کہ مت جاؤ اپنی خانقاہوں ، مدارس ، مساجد اور قبرستانوں کو چھوڑ کر۔ان کو دیکھنے والا کوئی نہ رہے گا۔ مولانا آزادؔ کی کافی باتیں، باتیں نہ ہو کر ،پیشن گوئیاں ہوا کرتی تھیں۔ دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ریونیو ریکارڈو سے پتہ چلتا ہے کہ ذوق کی قبر قدم شریف کے خسرا نمبر 52میں تھی۔ میونسپل کارپوریشن کے کمشنر نے اپنے خط نمبر 157/C and Cمیں مورخہ 6جنوری 1979کو تحریر کیا ہے کہ سرکاری پاخانو کی تعمیر ایم۔سی۔ ڈی۔ نے 1961میں کرائی تھی ۔ اس کے لئے انہوں نے قبرستان کی زمین کی تھی۔

حکومت کی بے حسی کا ثبوت تو اس بات سے مل جاتا ہے کہ 2ستمبر 1985کو میونسپل کارپویشن کے کمشنر جناب پی۔پی۔ شریواستو نے مزار ذوق کے تعلق سے اپنے خط میں نہایت ہی بے رخی سے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی کہ مزار ذوق کو مسمار کرنا ہی سود مند تھا کیونکہ علاقہ کے لوگوں کو بیت الخلاء کی زیادہ ضرور ت تھی۔ ویسے دہلی حلقہ کے سابق ڈائریکٹر و ماہرِ آثارقدیمہ جناب وقار الحسن صدیقی مرحوم نے اس سے پہلے 5اگست1983کو انہیںاپنی رپورٹ پیش کی اور باقائدہ فوٹو لے کر یہ بتایا کہ جس جگہ مزار ذوق تھا، وہاں آج بیت الخلاء ہے، مگر سرکار پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔مولانا امداد صابری جگموہن صاحب کو 1977 میں مزار ذوق کی نشاندہی کے لئے انہیں وہاںلی گئے مگر کچھ نہ ملا۔اگر ہمارے اکابرین ، عمائدین، شعراء وغیرہ کے مزارات کی یہی حالت رہی تو شاید ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ مسلمانانِ ہند خود کو بھی تاریخ ہند کی صفۂ ہستی سے ندارد پائیںگے!بقول ذوقؔ: ’’لائی حیات، آئے، قضا لے چلی چلے؍اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے‘‘۔

فیروز بخت احمد

 اے۔202،ادیبہ مارکیٹ واپارٹمنٹس نزدرحمانی مسجد، مین روڈ ، ذاکر نگر ، نئی دہلی 110 025–

فون:  26984238, 26984517

موبائل نمبر : 98109 33050

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *