انعام بٹ
سلطان فارس(ایران)اور شہنشاہ سائرس اعظم کی فوج میں ہزاروں سپاہی تھے لیکن انہیں اپنی فوج کے ایک ایک سپاہی کا نام معلوم تھا اور جب کبھی وہ فوج کا معائنہ کرتے تو ہر سپاہی کو اس کے نام سے مخاطب کرتے تھے۔اسی طرح پہلے وقتوں میں بہت سے لوگ ایسے تھے جو بہت تیز دماغ اور حیران کردینے والی یاداشت رکھتے ہیں۔جیسے لاطینی زبان کے ادیب”نیکادی ایلڈر“کو200لمبی لمبی نظمیں یاد تھیں اور وہ انہیں فر فر سناتے تھے اور حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ ہر نظم کو نیچے سے اوپر تک بھی سُناسکتے تھے۔یہ تو پرانے وقتوں کے لوگ تھے آج کل کی نئی نسل میں ایسی یاداشتیں اور تیز دماغ کیوں نہیں پائے جاتے؟کیا وجہ ہے کہ نئی نسل پڑھائی اور یادہانی والے کام میں پیچھے اور کمپیوٹر،موبائل اور انٹر نیٹ میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں؟کیا وجہ ہے کہ پرانے زمانے کے لوگ جدید ٹیکنالوجی نہ ہونے کے باوجود خوش تھے اور آج ہم جدید ٹیکنالوجی ہونے کے باوجود پریشان اور خوفزدہ ہیں؟پرانے وقتوں کا آج کے جدید دور سے مقابلہ کریں تو نئی نسل کے علاوہ شاید سب یہی کہیں کہ وہ وقت ٹھیک تھا۔آج کے دور میں کشا کش ، حَسَد،تکبر،لالچ نے دنیا کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔والدین کی عزت کرنا تو دور اُنہیں بڑھاپے میں اکیلا چھوڑنا نئی نسل میں ٹرینڈ بن گیا ہے۔کیا وجہ ہے کہ جو والدین روتے اور بِلبلاتے ہوئے بچے کو خود بھوکا رہتے ہوئے بھی پالتے ہیں،تاکہ وہ جوان ہوکراُنکا سہارا بنے، وہی بچہ بڑا ہوکر اپنے والدین کو چھوڑ دیتا ہے۔کمیونیکیشن نے شرم وحیاء کا پردہ اُکھاڑ پھینکا ہے، عزت اور ذلت میں فرق ختم کر دیا ہے۔نئی نسل قدم اُٹھانے سے پہلے بھول جاتی ہے کہ ماں ،باپ،بہن بھائیوں کی عزت اور وقار کا کیا حال ہوگا۔ہماری نئی نسل اتنی بھلکڑ کیوں ہے؟شاید غیر معیاری ادویات جو روز بروز پکڑی جاتی ہیں اور پکڑے جانے سے پہلے ہم وہی ادویات کھا رہے ہوتے ہیں جو ہمارے جسم میں موجود خون کوبے حِس کر دیتی ہیں۔ایسی ادویات کو عوام کے استعمال میں لانے سے پہلے کیوں نہیں پکڑا جاتا؟وہی لالچ سے بھرے لوگ چند رپوں کی خاطر ذہریلی اور ناقص ادویات مارکیٹ میں فروخت کے لئے بھیج دیتے ہیں اور آگے ہمارے وہ حکمران جو اُن ادویات کو پاس کرتے ہیں اور اُس کے آگے ہمارے میڈیکل اسٹورز کے مالکان جو اُنہیں بڑے فخر سے فروخت کرتے ہیں۔جب عوام میں سے کسی سمجھدار کی نظر پڑے یا کسی بھی ذریعے بات باہر نکلے اور شورمچے تو پھر وہی حکمران جو ادویات پاس کرکے مارکیٹوں تک پہنچاتے ہیں وہ چھاپے مار کر ڈبل مال وصول کرتے ہیں۔یورپین ممالک میں بچے اٹھارہ سال کے بعد کیوں آزاد کر دئیے جاتے ہیں اس کی بڑی وجہ حرام گوشت اور حرام مشروب ہیں جن کے استعمال سے انسان بالکل بے حِس،بے شرم اور بے حیاء ہو جاتا ہے۔اگریورپین ممالک میں بچوں کو اٹھارہ سال کے بعد آزاد نہ کیا جائے تو وہ شاید اپنے والدین کے ساتھ وہ سلوک کریں جسے سُن کر دل پھٹ جائیں۔ یورپ میں ہونے والے واقعات اور خبروں کا مطالعہ کیا جائے تو درندگی کے جو واقعات وہاں رونما ہوتے ہیں اس کے مقابلے ایشیائی ممالک کُچھ نہیں۔ایشیائی ممالک میں ذہریلی اور نشہ آور ادویات بھیجی جاتی ہیں جن کے استعمال اُلٹ کام دیکھاتا ہے۔اگر دواکھانے سے ایک بیماری سے جان چھوٹ بھی جاتی ہے تو انسان دوسری سنگین بیماری میں مبتلاء ہوجاتا ہے۔ خیر بات کرتے ہیں پرانے وقت کی،ہمارے بزرگوں سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ پرانے وقتوں میں تعلیمی معیار کس قدر اعلیٰ اور بہتر تھا کہ آج کے دور کی کالج میں حاصل کی جانے والی تعلیم پرانے وقتوں کی میٹرک پاس تعلیم کے برابر سمجھی جاتی ہے۔ابھی ہم اسلامی معاشرے کی وجہ سے اپنے بچوں پر قابو پاسکتے ہیں کیونکہ ہمارے بچے ابھی بات سُن لیتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں اس سے پہلے کہ یہ وقت بھی ہاتھ سے نکل جائے ہمیں توجہ دینی ہوگی۔نئی نسل کی یاداشت کم ہونے ،شرم وحیاء کے قائم رہنے،عزت اور ذلت میں فرق کو سمجھنے میں معاشرہ اور خالص خوارک کابھی اہم ترین قردار ہے ۔اگر ہم اپنی بچوں کی خواراک پر توجہ دیں اور دیکھیں کہ وہ کیا کھا رہے ہیں ، کیا پی رہے ہیں اور دیکھیں کہ وہ کس طرح کے لوگوں سے ملتے جُلتے ہیں تو اس جدید قسم کی پریشانی سے ضرورت نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔عروج کو زوال ضرور ہوتا ہے۔دنیا اس وقت عروج پر ہے اور دنیا میں رونما ہونے والے واقعات اور قدرتی آفات سے واضح ہے کہ دنیا اپنے زوال کی جانب گامزن ہے۔اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اپنے اعمال کو بہتر بنانے میں ہی ہماری بہتری اور آخرت میں بخشش ہوسکتی ہے۔