عباس ملک
اکابرین سلطنت کا فرمان ہے کہ جمہوریت کے چراغ کو مارشل لا کی آندھی سے خطرہ ہے ۔اس چراغ کے محافظ اگر اپنے فرض سے بیگانہ ہو کر اپنی تجوریوں کے پیٹ بھرنے میں اگر مصروف ہو جائیں تو پھر اس چراغ کو ہر طرف سے خطرہ ہی خطرہ ہو گا۔اس کا سبب اور اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہو گی ۔ مارشل لا کو مئورد الزام ٹھہرا کر اور جمہوریت کی ترویج کے ساتھ پاکستان میں پائی جانے والی ہر برائی کی بنیاد قرار دیکر سیاستدانوں نے عوام کو ہر دور میں فریب دیا ہے ۔سیاستدان جمہوریت کے دور میں جمہوری اقدار کی ترویج کی بجائے ایسے امور پر توجہ دیتے ہیں جو کسی بھی طرح جمہوری اقدار سے میل نہیں کرتے ۔کوئی بھی اکابر سیاستدان کرپشن اور اقربا پروری کے الزام سے خود کو بری الذمہ قرار نہیں دلا سکا۔ جس کو بھی موقع ملا اس نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی بجائے نہانے کو ترجیح دی ۔ حالیہ لیڈر شپ میں شاید ہی کوئی ایسا سیاستدان ہو جس کوحقیقی معنوں میں اسلام اور پاکستان کے ساتھ مکمل وفادار قرار دیا جا سکے ۔ سب سے دکھ کی بات یہ ہے کہ عزت سادات کو نیلا م کر کے رسوائیوں کے سودے کرنے کو ترجیح دی جارہی ہے ۔ جمہوریت کے سرخیل خود اور ان کے تمام اہل خانہ پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات بمعہ ثبوت کے سامنے آچکے ہیں ۔ حکومت میں ہونے کی وجہ سے انصاف کی راہ میں اتنی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں کہ انصاف کا نعرہ بھی اب ایک مذاق لگتا ہے ۔عوام کو بے بس کر اس طرح الجھا دیا گیا ہے کہ اب اسے یہ سمجھ نہیں آتی کہ وہ ان کرپٹ سیاستدانوں کو کس طرح برا کہیں اور کس طرح اچھا نہ کہیں۔ پاکستانی اب پاکستانی کہلانے اور مسلمان کہلانے کی بجائے خود کو جیا لا اور متوالا کہلا کر زیادہ فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان کیلئے اسلام اور پاکستان کی توقیر کی بجائے سیاسی اکابرین کی اہمیت زیادہ ہے ۔ وہ ان سیاستدانوں کے عتاب سے خود کو بچانے کیلئے پاکستان اور اسلام سے عدم محبت کا اعتراف کرنے پر مجبور کر دئیے گئے ہیں۔ جمہوریت کی کچھ قدریں ہوتی ہیں کیا اس دور میں جمہوریت کی کوئی قدر بھی زندہ ہے ۔ سیاستدان جب چاہتے ہیں پارٹی بدل لیتے ہیں اور ان کو اس پر کوئی شرمندگی نہیں ۔ کل تک بھٹو کو باپ کہنے والے آج اس کو گالی دے رہے ہیں اور بی بی کو بہن کہنے والے اس کی قبر کو لات مار کر انصاف کی مالا جاپ رہے ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ کے پرچم کے سائے تلے 30سال گذارنے کے بعد معلوم ہو ا کہ میں تو غلط راہ پر چل رہا تھا اب مجھے اس سے باغی ہو جانا چاہیے ۔ جنہیں خود معلوم نہیں کہ ان کے منزل کی طرف بڑھتے قدم درست سمت ہیں یا وہ گمراہی کا شکار ہیں وہ کسی کو صراط مستقیم کا سبق دیتے ہوئے کیا درست ہونگے ۔ان کے تقلید کا ر اور ان کے مریدین اوران کے پیروکار کیا منزل سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔ سیاستدانوں کی منزل اسلام یا پاکستان اور پاکستانی عوام نہیں بلکہ ان کی منزل صرف اورصرف اقتدار کا حصول ہے اور اس کیلئے وہ ہر دور میں کوئی نہ کوئی بہروپ بھر ہی لیتے ہیں ۔مجھے کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اکابر سیاستدانوں کی نسبت ان کے پیروکار کم از کم کسی نظریے کے مستقل پیروکار تو ہیں لیکن یہ سیاستدان ان کو اس پر بھی مستحکم نہیں رہنے دیتے ۔ عوام کے ساتھ اس سے زیادہ کیا مذاق ہو گا کہ پیپلز پارٹی جو خود کو سب سے بڑی عوامی پارٹی کہلاتی ہے اور جمہوریت کے لیے اپنے بانی لیڈر کو قائد عوام کے خطاب سے پکارتی ہے کے دور میں ہی عوام کے سر ہر وہ سایہ چھین لیا گیا جس سے اسے ذرا بھی سایہ کا احساس تھا۔ وفاق کی علامت پارٹی نے صوبائی عصبیت کے اژدھے کو بے لگام چھوڑ دیا ۔ صرف ووٹ بینک کی خاطر ہر صوبے میں تقسیم کیلئے تحریکوں کی نہ صرف پشت بانی کی بلکہ جنوبی پنجاب میں تو اس کیلئے باقائد ہ وزیر اعظم صاحب خود لنگوٹ کس کر میدان میں آئے ۔ کیا ملک کو تقسیم کر کے ہی اس کی بہتر خدمت ممکن ہے اگر ایسا ہے تو پھر اس سے پہلے کیونکر ترقی ہوتی رہی ۔ معاشرے میں اچھائی کرنے کیلئے کردار کی ضرورت ہے نہ کہ افکار کی گنگا بہانے کی ضرورت ہے ۔ معاشرے کو اکابرین کے کردار سے جو راہنمائی ملتی ہے اس کے ردعمل میں وہ بھی اسی کردار کو زمانے اور وقت کی ضرور ت جان کر اپنانے میں تاخیر کر کے خود کو وقت کی دوڑ میں پیچھے رکھنے کیلئے نہیں چھوڑتے ۔جمہوریت کے چراغ سے انہیں جس طرح اور جس طرف کی راہنمائی حاصل ہو رہی ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اگر سیاسی اکابرین کا یہی طریقہ رہا تو بہت جلد نہ تو کوئی خود کو پاکستانی کہے گا اور نہ ہی اس ملک میں کسی کو اسلا م اور اس کی اقدار کی ضرورت محسوس ہو گی ۔
عوام نے ایک کو مسیحا جان کر دل و جان سے عزت دی تو اس نے بھائی چارے کو عوام کی طرف منتقل کرنے کی بجائے ایوان صدر کے ساتھ بھائی چارے کو ترجیح دے دی ۔ چار سال بعد انہیں محسوس ہو ا کہ ان کا خیال غلط تھا اور وہ غلط آدمی کو بھائی سمجھ بیٹھے ۔ چلو مان لیا کہ اب بھی آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا لیکن آپ کے ان بھائی صاحب کے ہاتھوں لگائے ہوئے ان چرکوں کا تدارک کیسے اورکون کرے گا جو اس ملک اور اس کے عوام کے سینوں پر لگ چکے ہیں ۔میاں صاحب عوام کو آپ نے بہت مایوس کیا اور قائد ثانی کا تصور پاش پاش ہو چکا ہے ۔ ق لیگ کے لوٹے آپ کے مصلے کے ساتھ رکھے ہیں ۔ آپ نے عوام کے دئیے ہوئے پیار کو لوٹوں اور تجوری مارکہ سیاستدانوں کی نظر کر کے آپ نے کیا سودا کیا ہے ۔
محترم عمران خان صاحب بھی اقتدار کے حصول میں اس قدر دیوانے ہوئے کہ عوام کی دی ہوئی محبت کی بجائے مشرف صاحب اور مئوروثی سیاست کے مداریوں کے ہاتھوں میں ہاتھ دے بیٹھے ۔ اقتدار کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے عوام کی بجائے ان سیاستدانوں کی محتاجی کا نظریہ جمہوریت کے چراغ کو کبھی بھی عوام کیلئے روشنی کا سبب نہیں بننے دے گا۔ جب تک عوام کو اقتدار کا سبب اور اس کے اصل مستحق نہیں گردانا جاتا اس وقت تک جمہوریت کے چراغ اور اس کے فوائد صرف ان موروثی سیاستدانوں کو ہی فیض یاب کرتے رہیں گے ۔ وہ اپنے آپ کو جیالے ، متوالے اور کالے کہلا کر ہی بغلیں بجاتے رہیں گے ۔ کوئی بھٹو کے نام پر مرے گا تو کوئی میاں صاحب کیلئے کٹے گا۔ جمہوریت کو جمہور کیلئے ہونا چاہیے تھا لیکن اس کوجمہوریت کے پاسبانوں نے اپنے در کیلئے مخصوص کر دیا ہے ۔عوام کیلئے نعرے اور مستقبل کی نویدوں کے سوا کچھ نہیں ۔ خطرہ ہے تو وہ ہمارے اکابرین اور ان کے لاڈلوں کے ہے ۔ملک میں اسلحہ لائسنس کے اجراء پر پابندی ہے لیکن ان کیلئے خصوصی کوٹہ مقرر ہے تاکہ وہ خود کو جدید اسلحہ سے لیس کر سکیں۔ پاکستان قرضوں میں ڈوبا ہے لیکن اکابرین اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے بلٹ پروف گاڑیوں اور اپنے کارواں محفوظ بنانے کیلئے سکیورٹی کے نام پر خزانے کو خالی کر رہے ہیں۔ جمہور کے نمائیندے رینٹل پاور لا نے کی بات کرتے ہیں لیکن اپنے پاووہاؤس کو چلانے کیلئے انہیں توانائی کے حصول کو ممکن بنانے کیلئے خزانے کو خالی بتاتے ہیں ۔اربوں روپے اس مد میں اپنی تجوریوں میں بھر کر اب بھی عوام کے محافظ اور پاسبان اوران کے راہنما ہیں ۔ یہ جمہوریت کے چراغ ہیں اور ان سے جمہور نے جو روشنی پائی ہے اس سے معاشرے میں کیا روشنی ہوگی یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ ایسی جمہوریت اور ایسے راہنماؤں کو کیا کہا جائے جو کرتے تو ہیں لیکن اس کیلئے مئورد الزام دوسروں کو ٹھہراتے ہیں۔