پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
جمہوری اقدار اور ادب
ادب کی تخلیق ہم عصر معاشرے کی مرہون منت ہے ۔ جیسامعاشرہ ہوگا اسی طرح کا ادب سامنے آئے گا ۔ اسی لیے دنیا کے ہر خطے کے ادب کو دیکھیں تو ہر خطہٴارض کے ادب میں وہاں کے سماجی ، سیاسی اور معاشرتی اقدار نمایاں طور پر موجود ہوگا۔ ٹھیک اسی طرح ہر عہد ادب میں اس عہد کا بیانیہ بھی موجود ہوتا ہے ۔ اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ عہد میں بھی بعض خطے یا ممالک ایسے بھی ہیں جہاں ادیبوں کو اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے اسی لیے ایسے ملک کے ادب میں تنوع ، جدت اور ادبی صفات کم ہی نظر آتے ہیں ۔ بعض مما لک ایسے بھی ہیں جہاں مخصوص طبقے کو مخصوص موضوعات کے حوالے سے اتنی آزادی میسر ہے کہ وہ منفی بیانیے کی تما م حدوں کو نہ صرف عبور کرتے جارہے ہیں بلکہ تمام اقدار کو مسمار بھی کرتے جارہے ہیں ۔
کہاجاتا ہے اور مانا جاتا ہے کہ جہاں جمہوری نظام قائم ہے وہاں اظہار رائے کی آزادی مکمل طور پر موجود ہے لیکن آج کا دور جسے ہم ترقیٴ معکوس کا دور بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس دور میں تقریباً تمام ممالک میں جمہوریت اس لیے پا بہ زنجیر ہے کہ ہر مملک کا حکمراں عوام کے ذریعے او ر عوام کا حکمراں ہونے کے بجائے مفادات کا حکمراں بنتا جارہا ہے اسی لیے رفتہ رفتہ یہ جمہوریت جس کے لیے پوری دنیا میں ہنگامے بپا ہوئے اور ہر ملک میں جمہوری نظام لانے کی زور و شور سے وکالت کی گئی تھی اب وہی جمہوریت جمہوری اقدار کی پاسداری کرنے سے لاچار ہے۔ اس صورت حال سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ رفتہ رفتہ پوری دنیا ملکوکیت کی جانب رواں دواں ہے ۔ اسی لیے آج کے دور میں ایک ایسی بحث جس میں کسی ملک اور خطے کی قید نہیں سب کو ایک ہی طرح سوچنا چاہیئے تھا مگر ایسا نہیں ہورہا ہے ۔یہ بحث ا نسانی حقوق کی نگہبانی سے متعلق ہے ۔ انسان جہاں کا بھی ہو جس رنگ اور نسل کا ہو اس کو مساوی حقوق ملنے چاہیے، مگر دیکھیں کہ مغربی جمہوریت کس طرح انسانی حقوق کی پامالی سے نظریں چرا رہی ہے ۔ جمہوری نظام کے تحت ہی بنائے گئے عالمی ادارے کس طرح ناکارہ ہوتے جارہے ہیں ۔ فلسطین کی مثال سامنے کی ہے ایسی حیوانیت اور انسانیت سوز مظالم دنیا نے کبھی نہیں دیکھا مگر تمام جمہوری ممالک خاموش تماشائی ہیں ۔ میانمار کی مثال بھی موجود ہے ، روس اور یوکرین کی جنگ بھی سامنے ہے ۔ مگر کتنے ممالک کے ادیب و صحافی ہیں جو کھل کراور بے خوف ہوکر سچائی کو اجاگر کررہے ہیں ۔خلیجی او ر بیشتر مسلم ممالک کی بات تو نہ ہی کی جائے تو بہتر کیونکہ ان کی ترجیحات محض حکمرانی ہے ۔ ان ممالک میں صدیوں سے دستور زباں بندی قائم ہے۔ بر صغیر کا حال بھی بہت بہتر نہیں ہے ۔ صحافت نے اپنی روشن تاریخ کو تاریکی میں بدل دیا ، سچائی بکنے لگی ہے لیکن مقام شکر ہے کہ صحافت کے مقابلے ادب نے بہت حد تک خود کو بچایا ہے ۔ دونوں ممالک میں ادبی اظہار ات اور بیانئے کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے ادیب اب بھی زندہ ہے ۔لیکن اس کو زندہ اور تابند رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ جمہوری اقدار کی بحالی ہو ۔ جو جہاں موجود ہے وہ اپنے حصے کا چراغ جلائے بقول فراز:
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
اس عمل سے جمہوری اقدار کے ساتھ ساتھ ادبی اقدار و روایات کو فروغ ملے گا اور ادب صداقت کے ساتھ ہم عصر معاشرے کا بیانیہ بن سکےگا ۔ ادیب ، صحافی اور دا نشور طبقے کے لیے آج کا دور ایک چیلنج بن کر کھڑا ہے ۔امید ہے اس کا مقابلہ سچائی اور صداقت کے ساتھ کیا جائے گا ۔
***