Home / Socio-political / جوابدہی کااحساس

جوابدہی کااحساس

سمیع اللہ ملک


دنیاکے کئی ممالک میں جمہوری نظام جاری وساری ہے لیکن کئی ممالک میں اس جمہوری نظام اوران کوچلانے والوں میں زمین آسمان کافرق نظرآتاہے ۔پاکستان کی سیاست بھی ایک عجیب گورکھ دھندہ ہے،پتہ ہی نہیں چلتاکب گلے ملنے والے گلہ کاٹنے پرتل جاتے ہیں۔حیرت تواس وقت ہوتی ہے کہ جن زبانوں سے پھول جھڑرہے ہوتے ہیں وہی شعلے برساناشروع کردیتی ہیں لیکن اب شائدتعجب اس لئے بھی نہیں ہوتا کہ سب جانتے ہیں کہ گڑھی خدابخش میں صدرزرداری جبب بھی کسی برسی یاسالگرہ پرخطاب کرتے ہیں توان کی زبان شعلے ہی اگلتی ہے اورایسی گوہرافشانی کرتے ہوئے ان کی آنکھیں جس تکبراورغرورکامظہرہوتی ہیں ان سے تویہ محسوس ہوتاہے کہ پاکستان کی دھرتی اب ان فراعین کیلئے کسی موسیٰ کی منتظرہے۔اپنے سیاسی دشمن نوازشریف کی سوچ کوملاعمرکی سوچ سے مماثلت دیتے ہوئے اپنی اہلیہ بے نظیربھٹوکے قتل کامحرک بھی اسی سوچ کو ٹھہرایالیکن زرداری صاحب جوش، خطابت میں بھول گئے کہ یہ مولوی نصیراللہ بابرہی تو تھے جنہوں نے زرداری کی قائدبے نظیربھٹوکے حکم پرملاعمرکاہاتھ پکڑکران کوکابل کے تخت پربٹھایاتھااوراس وقت طالبان کواپنے بچے کہہ کران کے سرپربے نظیرنے نہ صرف ممتابھراشفقت کاہاتھ رکھا تھابلکہ طالبان کی حکومت کوسب سے پہلے باقاعدہ تسلیم بھی کیاتھا اور بعد ازاں افغانستان میں اپنی اس کامیاب پالیسی پرہرمحفل میں دادوصول کرتی رہی تھیں۔

یادِ ماضی عذاب ہے یارب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

اسلام آبادمیں گزشتہ ہفتے موسم شدیدگرم رہامگرامریکیوں نے دس سال کے بعدپہلی مرتبہ اس سرزمین پراپنے پیرجلتے ہوئے محسوس کئے۔جس ملک کوپچھلی ایک دہائی سے ایک غلام کی طرح ڈانٹ ڈپٹ کرکے ”ڈومور“کاحکم دیتے رہے اس کی طرف سے اچانک انگڑائی نے ان کے اوسان خطاکردیئے ہیں حالانکہ دونوں ممالک کے خفیہ اداروں میں تعلقات کی کشیدگی گزشتہ برس کے پہلے نصف کے خاتمے پرہی شروع ہوچکی تھی جب آئی ایس آئی کے سخت ضابطوں سے بچنے کی خاطرامریکیوں کووزیراعظم کے فیصلے اورحسین حقانی کے اختیارات میں پناہ لیناپڑی ۔سیلاب کی صورتحال نے فریقین میں جاری کشیدگی میں ایک وقفہ ضرورپیداکیامگرامدادکے نام پرشورمچانے کے سبب اس وقفے میں بھی کشیدگی کم نہیں ہوسکی بلکہ اس سال کے آغازمیں ہی ریمینڈڈیوس کیس نے تعاون کے قصرریت کومنہدم کرکے رکھ دیااورکشیدگی نمایاں ہوکرسامنے آگئی تھی۔اس کے بعد سے ہرگزرتاہوادن ان تعلقات میں کمزوری اورپاکستان کے جسدغلامانہ میں قوت آزادی کاایک پیغام لیکرآیاجس کی انتہا۲مئی کواسامہ کے خلاف یکطرفہ آپریشن جیسے امریکی تکبرپرہوگئی۔

قصرسفیدکاسب سے موٴثراوربڑاہتھیاران کی ”امداد“ہے جس کاشورزیادہ اورحجم کچھ بھی نہیں گویا”اونٹ کے منہ میں زیرہ“بھی نہیں۔گزشتہ کورکمانڈرکے غیرمعمولی اعلامیے میں واضح اوردوٹوک فیصلہ” نہ ہی اب امریکی امدادکی ضرورت ہے اورنہ ہی امریکی تربیت کی،اوریہ فیصلہ پارلیمنٹ کی حالیہ قراردادکوملحوظ خاطررکھتے ہوئے کیاہے“ اس اعلان نے جہاں یہ ثابت کردیاکہ پاک فوج نے ”یوٹرن“ لینے کافیصلہ کرلیاہے وہیں امریکی صفوں میں ایسی کھلبلی مچائی ہے کہ امریکاکے اندراورپاکستان میں آئی ایس آئی کے مخالفین تڑپ کررہ گئے ہیں اورمخالفت کاایک سونامی آگیاہے جس میں میڈیا کے ایک خاص حلقے سے لیکرکچھ سیاسی حلقوں نے اپنے آقاوٴں کے اشاروں پرایک مخصوص پروپیگنڈہ مہم شروع کردی ہے۔کورکمانڈرزکے حالیہ اعلان کے بعدہی امریکی متکبروزیردفاع لیون پنیٹاایک غیراعلانیہ دورے پر جب پاکستان پہنچے توایک طویل عرصے کے بعدپہلی مرتبہ ان کے دورے کے دوران ان کوان کی حیثیت کاپروٹوکو ل فراہم کیاگیااورجی ایچ کیومیں جنرل کیانی اورجنرل پاشاکے سواکسی اعلیٰ شخصیت سے ان کی ملاقات نہ ہوسکی ۔

یقیناامریکاکیلئے پاکستان کی عسکری قیادت کابدلتاہوانیاچہرہ حیران کن توضرورہوگاکیونکہ فاسق کمانڈومشرف کی خودسپردگی کے عادی امریکیوں کیلئے جنرل پاشااورجنرل کیانی کی خودداری اورآزادپالیسی اب ایک ڈراوٴناخوب بن گئی ہے۔لیون پنیٹاکے سخت لب ولہجہ اورامدادروکنے پرفوجی قیادت نے دوٹوک کہاکہ کورکمانڈرزکانفرنس امریکی امدادسے دستبرداری کافیصلہ کرچکی ہے اوراگرافغانستان سے امریکی انخلاء کے حوالے سے امریکاکواس وقت پاکستان کی ضرورت ہے توپاکستان انہیں پہلے کی طرح سستے داموں دستیاب نہیں اورپاک امریکاتعلقات صرف ایک ہی صورت میں قائم رہ سکتے ہیں کہ امریکابرابری کی سطح پرآکربات کرے۔عسکری قیادت نے امریکاکوآئینہ دکھایاہے ،پاکستان میں ہونے والے کئی خفیہ امریکی آپریشن اورسی آئی اے کے نیٹ ورک کی تفصیلات ان کے حوالے کرتے ہوئے کہاگیا اگرامریکاکوآئی ایس آئی پراعتبارنہیں توپاکستان کوبھی ان پر اعتبار نہیں ہے۔

ذرائع کاکہناہے کہ پنیٹانے آئی ایس آئی پرالزام عائدکیاکہ امریکانے شمالی وزیرستان کے دوعلاقوں میں حقانی گروپ کی ان”آئی ای ڈی“تیارکرنے کی فیکٹریوں کی اطلاع دی تھی جہاں خطرناک قسم کااسلحہ تیارکرکے افغانستان میں امریکی اورنیٹوافواج کے خلاف استعمال کیاجاتاہے مگرپاکستانی اداروں نے نہ صرف یہ رازافشاء کردیابلکہ حقانی گروپ نے دونوں مقامات سے یہ فیکٹریاں کہیں اورمنتقل کردیں اوراس سلسلے میں امریکیوں نے کوئی ویڈیو ثبوت بھی فراہم کئے لیکن پاکستانی اداروں کاموٴقف ہے کہ پاکستانی فوج نے ان دونوں مقامات پرکاروائی کی لیکن وہاں سے کچھ برآمدنہ ہوااوریہ سب اطلاعات فرضی تھیں اس لئے امریکاآئندہ ایسی غلط اطلاعات پرپاکستان کوبدنام نہ کرے۔ اس لئے اب امریکاکوپاکستان کے اندراپنے تمام خفیہ آپریشن فوری بندکرنے ہونگے اورآئندہ ”پاک سرزمین“پرکوئی امریکی فوجی اورسی آئی اے سمیت کسی بھی ایجنسی کو آپریشن کی اجازت نہیں دی جائے گی اورنہ ہی برداشت کیاجائے گا۔اب امریکاسے تعاون کافیصلہ مبہم اورخفیہ نہیں بلکہ تحریری طورپرشفاف معاہدے سے ہی بگڑے تعلقات استوار کئے جاسکتے ہیں ۔

ان دونوں جرنیلوں کے جوابات سے بدمزہ ہوکرلیون پنیٹافوراًواپس چلے گئے اوراب امریکی اداروں میں ایک بھونچال کی سی کیفیت ہے جبکہ پاکستان کے اداروں کومختلف اطراف سے دباوٴمیں لینے کی کوششیں جاری ہیں۔اندرون ملک ایک طوفانی تنقیدکے ساتھ پاکستان کے اندر”ٹی ٹی پی“ کی طرف سے دہشتگردی کی بڑھتی ہوئی وارداتیں بھی اس دباوٴ کوبڑھانے کے ہتھکنڈے کاایک حصہ ہیں مگرعسکری قیادت پیچھے ہٹنے کواب تیارنہیں۔جنرل پاشاکے حوالے سے یہ بھی بتایاجاتاہے کہ ریمنڈڈیوس کے ایشوکے بعدان کے دورہٴ امریکاکے موقع پرلیون پنیٹاکے متکبرانہ رویہ کے سبب جنرل پاشانے یہاں تک کہہ دیاتھاکہ میراباس میرااللہ ہے ، امریکانہیں اورملاقات ادھوری چھوڑکراگلی دستیاب پروازسے پاکستان چلے آئے تھے،اس کے بعد سے پنیٹانے ایڑی چوٹی کازورلگایاکہ وہ کسی طرح جنرل پاشاکوعہدے سے ہٹا سکیں مگرناکام رہے۔اسامہ کے خلاف مبینہ امریکی آپریشن کے بعد لیون پنیٹاکایہ پہلادورہٴ پاکستان تھاجہاں جھگڑے کے بعدوہ پہلی مرتبہ جنرل پاشاکوفیس کررہے تھے۔

دوسری طرف امریکاحامدکرزئی کے حالیہ پاکستانی دورے کوایک خاص تناظرمیں دیکھتے ہوئے پاکستان پرشک کررہے ہیں کہ پاکستان اب افغانستان کوچین کے ساتھ منسلک کرنے کامشورہ دے رہاہے اورمستقبل میں طالبان کے ساتھ ان کی مفاہمت کروانے کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کرزئی کے دورے کے فوری بعد پاکستان میں امریکی سفیرکیمرون منٹرنے پاکستانی سیکرٹری خارجہ سلمان بشیرسے ملاقات کی اوراب تک کئی چھوٹے بڑے اہلکاراس سلسلے میں میڈیاکی قوت استعمال کرکے فوری دباوٴ بڑھانے کیلئے بھاگتے دوڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔امریکی میڈیامیں ان دنوں ۵۰ملین ڈالرکابہت چرچاجاری ہے اب دیکھنایہ ہے کہ اس بجٹ سے کون کون استفادہ کرتاہے؟امریکی صدرکے مشیرخاص مسٹربروس ایڈل نے پاکستان کی عسکری قیادت کی شکائت کرتے ہوئے کہاہے کہ ”پاکستان کی سول حکومت امریکاسے اچھے تعلقات چاہتی ہے مگرفوجی قیادت اس سے مختلف سوچ پرعمل پیراہے“۔

کورکمانڈرزکے اعلامیے میں امریکی امدادمستردکرنے کے باوجودامریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن وہی پراناراگ الاپ رہی ہیں کہ”امریکااس وقت پاکستان کی فوجی امدادبرقراررکھنے کیلئے آمادہ نہیں جب تک وہ دہشتگردی کے خلاف کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرتا“امریکامیں دفاعی تجزیہ نگاراوراس خطے پرگہری نگاہ رکھنے والے فوجی ماہرین نے رابرٹ گیٹس کے اس حالیہ بیان کو” امریکاافغانستان میں پاکستان کی مددکے بغیرہی کامیاب ہوسکتاہے “ کویکسرمستردکرتے ہوئے عقل کے ناخن لینے کامشورہ دیاہے۔ ادھردوسری طرف سی آئی اے کے سابق اسٹیشن چیف رابرٹ گرنیزنے امریکاکومشورہ دیا ہے کہ ”امریکاکابل میں امن یاپرامن انخلاء کی کوئی بھی خواہش پاکستان کی خوشنودی کے بغیرپایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا لہندا پاکستان کوہرحال میں ساتھ رکھنابہت ضروری ہے۔اس حوالے سے یہ امرتشویشناک ہے کہ حالیہ پاکستانی کورکمانڈرزکے اعلامیے میں پاکستانی فوج نے ہرطرح کے دباوٴ کواس کے آنے سے قبل ہی مستردکردیا ہے لہندااب دباوٴ توبالکل ہی ناکام قرارپاچکاہے“۔

ادھرامریکی صدراوبامہ نے اپنی عسکری قیادت کے دباوٴ کومستردکرتے ہوئے قوم سے کئے گئے وعدے کے مطابق واشنگٹن میں امریکی خارجہ پالیسی کے حوالے سے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے ٹائم ٹیبل کااعلان کردیاہے ۔کانگرس کی آرمڈسروس کمیٹی کے سامنے امریکی افواج کے سربراہ مائیک مولن نے اس بات کااعتراف کیاہے کہ” صدر اوبامہ کاافغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کااعلان پرخطراورانکی اوراعلیٰ امریکی کمانڈروں کی توقعات سے تیزہے اوروہ صدرکے اعلان کی کلی طورپرتائیدکرنے کی حالت میں نہیں ہیں،بہرحال آخری فیصلہ صرف صدرہی کرسکتے ہیں اوران کے خیال میں صدرنے ایساہی کیاہے“۔امریکی اخبارنیویارک ٹائمزنے حکام کے حوالے سے کہاکہ ”ہلیری کلنٹن بھی افغانستان سے تیزترانخلاء کے حق میں نہیں تھیں“امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے امریکی جنرل پیٹریاس نے بھی امریکی صدرکے فیصلے کے سامنے سپرڈالتے ہوئے بیان دیاہے کہ”پاکستان اورافغانستان میں سی آئی اے کی صلاحیت بہتر بناکرمقاصد حاصل کرلیں گے البتہ پاکستان کودہشتگردی کے خلاف مزیداقدامات کرناہونگے“۔بالآخر رابرٹ گیٹس نے بھی شکست تسلیم کرتے ہوئے یہ بیان دیاہے کہ ”میں صدرکے فیصلے کی حمائت اس لئے کرتاہوں کیونکہ ہم اپنے کمانڈروں کوافغان جنگ کوانجام تک پہنچانے کیلئے درکارتمام وسائل اوروقت فراہم کرچکے ہیں“۔

صدراوبامہ کے اس بیان کے بعد فرانس نے بھی افغانستان سے فوجی انخلاء کااعلان کردیاجبکہ جرمنی نے امریکی فیصلے کوسراہاہے۔برطانیہ کے ڈیوڈکیمرون نے ۲۰۱۵ء ،آسٹریلیا نے۲۰۱۴ء جبکہ سلوانیہ نے اپنے ۸۹فوجی اکتوبرتک واپس بلانے کافیصلہ کیاہے۔صدرزرداری نوڈیرومیں اپنی شعلہ اگلتی ہوئی تقریرمیں جمہوریت سکھانے کادرس دیتے ہوئے یہ بھول گئے کہ ان کے آقاوٴں کے ہاں جمہوریت کاچلن اورجمہوری حسن بالکل مختلف ہے کہ وہاں منتخب صدراپنی قوم سے کئے گئے  وعدوں کی تکمیل کواپنافرض سمجھتے ہیں اور اپنےاداروں کی تکریم کے باوجوداپنے عوام کے سامنے جوابدہی کے احساس کوبرترسمجھتے ہیں۔

ا

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *