عابد انور
ہندوستان میں حملہ کرنے یالشکر کشی کرنے والوں کے خلاف کبھی بھی عوامی مزاحمت کی تاریخ نہیں ملتی ۔ یہی وجہ ہے کہ قلیل تعداد میں لشکرلیکر آئے اور حکومت پر قبضہ کرلیا اورعوامی مخالفت نہیں ہوئی خواہ وہ حملہ سکندر اعظم کا ہو یا محمودغزنوی کا یادیگر بادشاہوں کا ہر موقع پرعوام سے خاموشی اختیار کی ۔ عوامی بغاوت ہندوستانی عوام کے مزاج میں نہیں ہے۔ آج مہنگائی، ضروری اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ، بدعنوانی کاعروج اور عوامی جذبات کااستحصال وسیع پیمانے پر ہورہاہے لیکن کبھی بھی عوام نے اس کے خلاف سڑکوں پراترنا ضروری نہیں سمجھا بلکہ اپنا سارا غصہ حکومت بھلابرا کہنے تک ہی محدود رکھا اوراگلے پانچ برسوں کا انتظار کرتے رہے۔یہ زندہ قوم کی علامت نہیں ہے ۔ زندہ قومیں انتظارنہیں کرتیں بلکہ اقدامات پریقین رکھتی ہیں۔ہندوستان میں سیاست دانوں اور یہاں کی پارٹیوں نے ہندوستانی عوام کو صرف لالی پاپ دینے کے علاوہ کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ حالات میں تبدیلیاں آئی ہیں اور اس تبدیلی کا آغاز اترپردیش سے ہوا ہے جہاں عوام نے نہ صرف بڑی پارٹیوں کو آئینہ دکھایا ہے بلکہ اس بات کا بھی واضح اشارہ دے دیا ہے کہ اب انہیں بہت دنوں تک بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ وہ ہندوستانی سیاست دانوں کی طرح ”گھاگ“کے سیاست داں ہیں۔اترپردیش کے عوام کے اس رویے سے نہ صرف کانگریس بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی بھی صدمے میں ہے۔اب ان دونوں پارٹیوں کو اگلے لوک سبھا کے عام انتخابات میں ہونے والی شکست صاف نظرآرہی ہے۔سردست ان دو نوں پارٹیوں کے پاس اس کاکوئی توڑبھی نہیں ہے۔ بھارتیہ جنتاپارٹی جو آج ٹیکس ، مہنگائی اوردیگر چیزوں پر گھڑیالی آنسوبہا رہی ہے سب سے زیادہ قیمتیں ان کے ہی دورمیں بڑھی ہیں۔ پیٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ۔ سروس ٹیکس کا دائرہ بہت وسیع کیاگیا اور سروس ٹیکس جو تین چار فیصد ہوا کرتی تھی اسے بڑھاتے بڑھاتے اپنے چھ سال کے دوران ۱۲فیصد تک لے آئی۔ ریلوے کا کرایہ ہر سال بڑھاتے رہے،پوسٹل لفافے کی قیمت جو ایک روپے تھی پانچ سال کے دوران اس میں اضافہ کرکے پانچ روپے تک کردیا۔ بنیادی چیزوں میں بھی بے تحاشہ اضافہ کیا اور جاتے جاتے ۲۰۰۴ میں جو ذخیرہ اندوزی قا نون میں ترمیم کرکے بنیوں کو گودام میں اناج بھرنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ اس یہ نتیجہ نکلا ہے یہ بنیے جب چاہتے ہیں ذخیرہ بازار میں مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں اورضروری اشیاء کی قیمتیں آسمان چھونے لگتی ہیں۔
ترقی پسند اتحاد حکومت کے لئے پہلا ٹرم جتنا اچھا ، خوشگوار اور عوامی امنگوں کے مطابق تھا دوسرا ٹرم اس کے برعکس رہا۔ یو پی اے سیکنڈ، گھپلوں، بدعنوانی ، عوامی مفادات اور امنگوں کا قتل ، کارپوریٹ سیکٹرکی آبیاری اور ہر طرح سے تاجروں کے مفادات کو عام ہندوستانی کے مفادات پر جس طرح ترجیح دی گئی اس سے عام آدمی کی آنکھ کھل گئی ہے۔ اس دوران ہونے والے ریاستی اور ضمنی انتخابات میں شکست نے کانگریس کے چودہ طبق روشن کردئے ہیں ۔ کانگریسی وزرائے اور خصوصاً وزیر خزانہ پرنب مکھرجی کیلئے کچھ لاکھ لوگوں کی مفادات ہندوستان کے ۱۲۱ کروڑ لوگوں کے مفادات سے زیادہ عزیزہیں جس کا خمیازہ کانگریس کو بھگتنا پڑا ہے پڑے گا۔ کانگریس نے مہنگائی کو روکنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ پورے ہندوستان میں غریبوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہورہاہے ۔تمام ضروری اشیا کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں مقوی غذا عام آدمی تو اچھاخاصاکمانے والے کی دسترس سے باہر ہے۔ دودھ، دال، چاول، خوردنی تیل وغیرہ جیسے اشیاء کی قیمتوں میں ہر مہینے اضافہ ہورہا ہے حکومت اعداد و شمار اورغربت و امارت کے پیمانے وضع کرکے غریبوں کی تعدادکم کرنے پرتلی ہوئی ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے ہندوستان میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے جس کی مرضی میں آتاہے وہ لوٹتا ہے ۔ مرکز کی حکومت نے اس سلسلے میں بالکل آنکھ بند کررکھی ہے البتہ اقدامات کرنے کے بجائے یہ ضرور کہتی ہے کہ حکومت پاس کوئی جادوکی چھڑی نہیں ہے کہ گھمایا اورقیمتیں کم ہوگئیں۔ بڑھتی مہنگائی کو ہندوستان کی ترقی سے وابستہ کرتے ہوئے لنگڑی لولی دلیلیں دی گئیں ۔ اگرعام آدمی کی ترقی ہوتی تویہ بات سمجھ میں آجاتی کہ ہندوستان ترقی کر رہا ہے لیکن یہاں ترقی توصرف کچھ لاکھ لوگ ہی کر رہے ہیں۔ یہ ایسی بات ہے کہ ہندوستانی عوام ہر حال اگلے لوک سبھا انتخابات میں اس حکومت سے چھٹکاراپانے کی کوشش کرے گی۔ جس کا اشارہ یوپی کے عوام نے ابھی حالیہ اسمبلی انتخابات میں واضح طور پر دے دیا ہے۔
ہندوستان میں علاقائی پارٹیوں کا رواج آزادی کے بعدسے رہا ہے۔ ہندوستانی سیاست کاسب سے افسوسناک پہلویہ بھی ہے کہ یہاں کی پارٹیاں عوامی اور قومی مفادات کے بجائے ذاتی اورعلاقائی مفادات زیادہ ترجیح دیتی ہیں۔ آزادی ہندوستان سے پہلے اور بعد میں راجے راجواڑوں کی پارٹی ،کسانوں کی پارٹی اور دیگر طبقوں کی پارٹیاں پیدا ہوگئی تھیں جس کے مفادات محص ذاتی نوعیت اورعلاقائی تھے اس کا قومی مفاد سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پارٹیاں حالات کے دھارے میں بہہ گئیں تو کچھ نے کچھ حد تک اپنے نظریات میں تبدیلی کرتے ہوئے اپنے وجود کو باقی رکھا۔ ۱۹۸۹ تک مرکز میں کانگریس کی اکلوتی حکومت رہی ہے سوائے ۱۹۷۷ میں جنتا پارٹی کے ۔ اس سے پہلے تک تیسرے محاذ کاکوئی تصور نہیں تھا۔ جنتی پارٹیاں تھیں وہ کانگریس مخالف تھیں۔ سب سے پہلا تجربہ ۱۹۸۹ میں ہی کیاگیا جس میں تیسرامورچہ کوکامیابی ملی اور جنتا دل ایک بڑی پارٹی کے طورپرابھری اوراس کی حکومت بھی بنی اور وی پی سنگھ اس کے پہلے وزیر اعظم بنے لیکن مندر مسئلے پربی جے پی کی حمایت واپس لینے کے بعد وی پی سنگھ کی حکومت گرگئی ۔ چندرشیکھر نے اپنے ۴۰ ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ کانگریس کی حمایت سے حکومت بنائی جو چار ماہ تک چلی۔ تیسرے مورچہ کا شیرازہ ایک دیڑھ سال میں بکھرگیا اور نوبت وسط مدتی انتخابات تک پہنچی۔ اس کے بعد ۱۹۹۶ میں پھر اس کے بعدتجربہ کیا گیاتھا بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت بنی تھی جو ۱۳ دن چلی کسی پارٹی کی حمایت نہ کرنے کی وجہ سے گرگئی تھی۔ اس کے بعد کانگریس کی حمایت سے دیوگوڑا کی حکومت بنی۔ اس میں لالو یادو کا بہت بڑارول تھا۔کانگریس کے کہنے پردیوگوڑاکوہٹاکر اندر گجرال کو وزیراعظم بنایا گیا لیکن کانگریس کی حمایت واپس لینے پر وسط مدتی انتخابات میں بی جے پی اپنے حلیف پارٹیوں کے ساتھ برسراقتدار آئی۔ یہ حکومت صرف ۱۳ ماہ تک چلی اورسیف الدین سوز کی ایک ووٹ سے اس کا خاتمہ ہوا تھا۔ اس کے بعد پھروسط مدتی انتخابات میں بی جے پی اس کی حلیف جماعتوں کا ملغوبہ قومی جمہوری محاذکو کرگل جنگ کی طفیل میں کامیابی ملی اوراین ڈی واضح اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوئی اور یہ حکومت ۲۰۰۴ تک چلی۔ ان پانچ برسوں کے دوران بی جے پی کو درخشاں ہندوستان نظرآنے لگا جس کا خمیازہ وہ اب تک بھگت رہی ہے۔ دراصل بی جے پی مافیا، فرقہ پرست اور مادہ پرست پارٹی ہے اس میں کمزورطبقوں اوراقلیتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
تیسرا محاذ کا تجربہ کبھی بھی کامیاب نہیں رہا اورکوئی بھی حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرسکی ہے لیکن اس کے باوجود اس وقت ہندوستان اس کا امکان کئی گنا بڑھ گیا ہے کیوں کہ اب دونوں پارٹیوں (کانگریس اور بی جے پی) سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے ۔ اس کا ثبوت جہاں حالیہ اسمبلی انتخابات نے دیا ہے وہیں دیگر ریاستوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات نے دئے ہیں۔ ۲۰۱۱ کے ضمنی انتخابات، ۲۰۱۲ کے ضمنی اور اسمبلی انتخابات میں جس طرح کانگریس کو ناکامی ہاتھ لگی ہے اس سے کانگریس بھی اب یہ سمجھنے لگی ہے کہ ۲۰۱۴ ا اب اس کا نہیں ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق کانگریس اپنا ذہن بناچکی ہے کہ ۲۰۱۴ کے جنرل الیکشن میں اس کے فتح کا امکان بہت کم ہے۔اس لئے وہ چاہتی ہے کہ بی جے پی کے بجائے تیسرا مورچہ اس کی حمایت سے برسراقتدار آئے اور دو تین سال کے بعد وہ ایسے حالات پیدا کردے کہ تیسرا مورچہ کی حکومت گرجائے اور نوبت وسط مدتی انتخابات تک آجائے اس طرح کانگریس کے تئیں لوگوں کی ناراضگی بھی دور ہوجائے گی اور کانگریس کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ مستحکم حکومت صرف وہی دے سکتی ہے۔ کانگریس کی اس سوچ وجہ جہاں کئی ان کی بہت ساری ناکامیاں ہیں، کانگریس مخالف جذبات اور حکومت مخالف لہر ہے وہیں ان کی پے درپے شکست بھی ہے۔ آندھرا پردیش کے ضمنی الیکشن میں وہ تمام سات سیٹوں پر ہار گئیں ابھی اور ۱۸ نشستوں پر الیکشن ہونا ہے اگر اس میں بھی ناکامی ہاتھ لگی تو آندھرا پردیش حکومت ختم ہونے کے دہانے پہنچ جائے گی۔ اتراکھنڈ میں کانگریس کو بیساکھیوں کے سہارے حکومت بنانی پڑی ہے اور پنجاب جہاں حکومت میں آنے کے مکمل امید تھی وہ پرانی حالت میں لوٹ گئی ہے۔ پنجاب ریاست کی تشکیل کے بعد یہ پہلا موقع تھا کسی پارٹی کو مسلسل دوبار حکومت کرنے کا موقع ملا ہے۔ جہاں تک بی جے پی بات ہے تو عوام نے اسے بھی مسترد کردیا ہے۔ یوپی جو بی جے پی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا وہاں اب وہ اقتدار سے نہ صرف کوسوں دور ہے بلکہ وہ اپنی سابقہ پوزیشن بھی بچانے میں ناکام رہی ہے۔ کرناٹک میں پارٹی کو جس طرح ذلت کا سامنا کرنا پڑا ہے اس سے نہ صرف اس کی انفرادیت ختم ہوئی ہے بلکہ بی جے پی کا حقیقی چہرہ بھی سامنے آگیا ہے یہ ثابت کردیا ہے کہ اگر اسے بھی موقع ملے تو بدعنوانی کے معاملے میں وہ کسی پارٹی سے پیچھے نہیں رہے گی۔ اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش، گجرات اور جہاں بھی اس کی حکمرانی ہے وہاں کے عوام جینا دوبھر ہوگیا ہے وہ صرف میڈیا کے سہارے اچھی حکمرانی فراہم کر رہی ہے۔حالیہ ضمنی انتخابات کرناٹک اوربی جے پی کو جس طرح ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے اس سے صاف اشارہ ملتا ہے کہ بی جے پی اب ہندوستانی عوام کی پسند نہیں ہے۔
حالیہ اسمبلی انتخابات نے تیسرے محاذ کا امکان روشن کردیا ہے ۔پانچ ریاستوں کے تقریبا 14 کروڑ ووٹروں نے 690 اسمبلی سیٹوں پر اپنے ووٹ کا حق استعمال کرکے جو فیصلہ سنایا ہے، اس سے تو یہی واضح طورپر نکل رہا ہے کہ ووٹروں کا دونوں پارٹیوں سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ کانگریس اور بی جے پی دونوں سے ہی ان کا دل ٹوٹ گیا ہے۔ہندوستانی سیاست کی یہ حقیقت ہے کہ ملک میں علاقائی جماعتوں کا تسلط بڑھ رہا ہے۔ اس سے پہلے بہار میں نتیش کمار، بنگال میں ممتا اور تمل ناڈو میں جے للتا کا دو تہائی اکثریت سے اقتدار میں آنا بھی ظاہر کرتا ہے کہ علاقائی جماعتیں مضبوط بن کر ابھری ہیں۔غیر بی جے پی اور غیر کانگریس پارٹیاں اپنے دم پر اقتدار میں نہیں آ سکتیں اور ووٹر کھچڑی حکومت کے بجائے کسی ایک اتحاد کے ساتھ ہی جانا مزید پسند کریں گے۔ چاہے وہ کانگریس کا یو پی اے ہو یا بی جے پی کا این ڈی اے، ریاستوں کے انتخابات میں بھی ووٹر ووٹوں کو تقسیم کرنے کے بجائے کسی ایک جماعت کو ہی اکثریت دے رہے ہیں۔ تیسرے محاذ کی پریشانی یہ ہے کہ اس کا وزیر اعظم کون ہوگا یہ طے نہیں ہے۔ اگر حکومت بنانے کی نوبت آئی تو کیا ممتا وزیر اعظم کا تاج ملائم کے لئے چھوڑ دیں گی اور نتیش کمار تاکتے رہ جائیں گے؟ کیا دیویگوڑا اپنے پرانے تجربے کی دہائی دیتے ہوئے اپنی دعویداری پیش نہیں کریں گے؟ تیسرے محاذ کی تاریخ ٹھیک نہیں رہی ہے۔تیسرا محاذ پہلے بھی بنتا اور بگڑتا رہا ہے۔ چرن سنگھ، وی پی سنگھ، چندر شیکھر، دیویگوڑا اور اندرکمار گجرال اپنے اپنے دور میں بنے تیسرے محاذ یا اقوام محاذ کے وزیر اعظم بنے تھے، لیکن ملک کو کوئی ٹھوس اختیارات نہیں دے سکے۔کہنے کو کہا جا سکتا ہے کہ اس دوران ہندوستانی سیاست اور ووٹر دونوں ہی پختہ ہوئے ہیں۔
تیسرا محاذ کا نعرہ غیر کانگریسی غیر بی جے پی حکومت حکومت فراہم کرنے کے نعرے کے ساتھ میدان میں اترے گی۔دراصل تیسرا محاذ بنانے کا بائیں محاذ کا اصل مقصد اقتدار میں آنا نہیں ہے۔ بنیادی مقصد کانگریس اور بی جے پی کو اقتدار سے باہر رکھنے کا ہے۔اس مقصد میں وہ کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں آگے نتائج اور اس کے بعد پیدا صورتحال پر منحصر کرے گا ۔ تیسرا محاذ اپنی حکومت بنا بھی لے تو ایسی حکومت دو ڈھائی سال مزید نہیں چلے گی۔ اس میں ممکنہ طور پر چندر ابابو نائیڈو، دیوگوڑا، نوین پٹنائک، ممتا بنرجی،ملائم سنگھ یادو، بایاں بازو اور کئی دیگر پارٹیاں شامل ہوسکتی ہیں لیکن تیسرا محاذ کا قیام اتنا آسان نہیں ہے جتنا سمجھا جارہا ہے۔ اگر اس میں ممتا شامل ہوں گی تو بایاں بازو اس سے گریز کرے گا۔ ملائم سنگھ یادو شامل ہوں گے تو مایاوتی اس کے پاس بھی نہیں پھٹکیں گی، نتیش کمار شامل ہوں گے تو لالو یادو اس سے گریز کریں گے۔ ڈی ایم کے شامل ہوگی تو اناڈی ایم کے اس سے دور بھاگے گی۔ مجموعی طورپر اس میں مشکلات زیادہ ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تیسرے محاذ کی تشکیل کے سلسلے حرکت شروع ہوچکی ہے۔ ۲۰۱۴ کا الیکشن جتنا قریب آئے گا اس کی شبیہہ اسی طرح نکھرتی چلی جائے گی۔ یہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے پہلے جب جب تیسرا یا اقوام مورچہ قائم ہوا اس میں بایاں بازو کی پارٹیوں کا اہم کردار رہا ہے۔ پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس کے پہلے دن پارلیمنٹ کے احاطے میں اکھلیش یادو نے نامہ نگاروں سے کہا کہ انہیں تیسرے محاذ کے قیام کی امید ہے،ن کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر گرداس داس گپتا بھی موجود تھے۔ابھی لوک سبھا کے انتخابات میں دو سال کا وقت ہے۔ ہندوستان میں سیاست پل پل کروٹ لیتی ہے۔ یو پی اے اور این ڈی اے سے نکلنے والی پارٹیاں ہی تیسرا محاذ کا حصہ ہوں گی لیکن تیسرا محاذ کی اصل شکل انتخابات کے بعد سامنے آئے گا اگر تیسرے محاذ کو ۲۵۰ بھی سیٹیں مل گئیں تو چھوٹی چھوٹی علاقائی پارٹیاں خود بخود اس میں شامل ہوجائیں گی جو تیسرا مورچہ کو مضبوطی عطا کریں گی۔تیسرے مورچے کی کامیابی میں مسلمانوں کااہم رول ہوگا ۔ مسلمان جس پارٹی کو بھی مشترکہ طورپرووٹ دیں گے کامیابی اسی کے ہاتھ لگے گی۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com