Home / Socio-political / حج بیت اللہ کی اہمیت و مقصد اور حجاج کرام

حج بیت اللہ کی اہمیت و مقصد اور حجاج کرام

حج بیت اللہ کی اہمیت و مقصد اور حجاج کرام
 
عابد انور ہر مسلمان کی دیرینہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ حج بیت اللہ کا شرف حاصل کرے۔ جس کو یہ عظمت خداوندی حاصل ہوجائے یقیناً وہ خدان کے امان میں ہوتاہے۔ اس کے لئے مال دولت ہونا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ مرضی رب کا شامل ہونا بھی ضروری ہے۔ بایں سعادت بزور بازو نیست تانہ بخشد خدائے بخشندہ حج اسلامی ارکان کا پانچویں رکن ہے یہ دونوں عبادت ، عبادت بدنی اور عبادت مالی دونوں کو جمع کرتا ہے۔ حج بیت اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہے جنہوں نے بحکم خداوندی خانہ کعبہ کی تعمیر کرکے لوگوں کو حج بیت اللہ کے لئے پکارا تھا وہ سبھی حضرات کو حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوتی ہے جنہوں نے عالم ارواح سے لبیک کہا تھا۔ حج عبادات میں اس لحاظ سے زیادہ نمایاں ہے کہ یہ کئی عبادات کو جمع کرتی ہے، انفرادی اور اجتماعی زندگی پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ واحد عبادت ہے جو انسان کے روحانی ، مالی اور بدنی تینوں پہلوؤں پر مشتمل ہے۔ وہ خصوصیات نماز، روزہ اور زکوۃ میں یکجا نہیں ملتی ہیں۔ احرام میں ملبوس ہونے اور مقدس زمین کی زیارت سے عازمین حج کو وقار اور سکون کا احساس ہوتا ہے اور جو اس ماحول میں داخل ہوتا ہے وہ تمام آفات و بلیات اور شرور و فتن سے مامون ہوجاتا ہے۔ عازمین حج کو زیارت کعبتہ اﷲ سے وہ سرور اور احساس طمانیت پیدا ہوتا ہے جسے یاد کرکے تاعمر خوشی سے جھوم اٹھتا ہے اور اپنی خوش بختی پر ناز کرتا ہے۔
فریضہ حج مسلمانوں پر فرض ہونے والا آخری عبادت ہے جیسا کہ قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے ‘‘ لوگوں پر اﷲ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔ (آل عمران) حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھا گیا کہ اس کے بعد؟ فرمایا جہاد فی سبیل اللہ ۔ پوچھا گیا اور اس کے بعد فرمایا: حج مبرور یعنی مقبول حج۔حج ماہ رمضان کے بعد ماہ ذی الحجہ میں ادا کیا جاتا ہے، رمضان کے مہینوں میں مسلمانوں کو اللہ تعالی تقوی و پرہیزگاری کی تربیت دیتا ہے سےئات و خرافات سے ، شرک و بدعت اور گناہوں سے بچاتا ہے اور مسلمانوں کو صدقہ فطر اور زکوۃ کی ادائیگی کا حکم ایک طرح سے حج کا پیش خیمہ ہوتا ہے تاکہ مسلمانوں ایک بڑے خرچ کے لئے تیار رہیں۔ کیوں کہ صدقہ فطر اور زکوۃ اجتماعی نظام کا ایک حصہ ہے اسی طرح حج مسلمانوں کے عالمی اجتماعی نظام کا ایک حصہ ہے جہاں مسلمان حج کے دوران دنیا بھر کے مسلمانوں سے ملتا ہے ان کے اخلاقات و عادات ، رہن سہن، دینی مزاج سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔
حج کے اجتماعی نظام سے مسلمانوں کی تربیت ہوتی ہے کہ وہ برائیوں اور گناہوں کو ترک کردیں۔ خصوصاً جب وہ ایک عظیم الشان مجلس اور انسانوں کے جم غفیر کا حصہ بنتا ہے تو اسے وہ قیامت کی یاد دلاتا ہے جب وہ میدان حشر میں اﷲ کے روبرو حساب کے لئے پیش ہو گا۔ حج کے دوران مسلمان اپنے تمام دنیوی معاملات ترک کرکے صرف خدائے واحد کے طریق پر عمل کرتا ہے۔ ایک تارک دنیا کی طرح پراگندہ بالوں، گرد و غبار سے اٹے چہرے کے ساتھ خدا کے دربار میں حاضر ہوتا ہے۔ اس ادا کو دیکھ کر اللہ تعالی خوش ہوتے ہیں جیسا کہ حضور اکرم کا ارشاد گرامی ہے ۔ اللہ تعالی فرشتوں کے سامنے حاجیوں پر فخر کا اظہار کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ 249249 دیکھوں میرے بندوں کو وہ پراگندہ اور غبار آلود صورت میں دنیا کے گوشے گوشے سے میرے پاس آئے ہیں تم گواہ رہو میں نے اسے بخش دیا ہے،۔ اس طرح حاجی گناہوں سے پاک و صاف ہوکر اللہ تعالی کی رضا و خوشنودیً حاصل کرکے اپنے گھر کو لوٹتا ہے۔حج اسلامی ممالک کی سیاسی خبروں کو دوسرے مقامات تک پہنچانے کا وسیلہ بھی ہے۔ حج مسلمانوں پر ظلم و ستم اور استعمار کی زنجیروں کو کاٹنے اور مسلمانوں کو آزادی دلانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ حج مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد کا بہترین سبب اور وسیلہ ہے۔حج نسل پرستی ،علاقائی تعصبات، ذاتی طبقات اور امتیازات کے فرق کو ختم کرنے کے لئے بہترین ذریعہ ہے۔حج اسلامی ممالک میں فوجی ظلم و ستم کے خاتمہ کا وسیلہ ہے اگر صحیح معنوں میں اسے حج کے مقاصد اور مفاہیم کی تفہیم کی جائے تو اور اس پر عمل کیا جائے تو مسلمان اس پرفتن دور سے نکل سکتے ہیں۔
حج دراصل مسلمانوں کو قربانی کی یاد دلاتا ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے راہ خدا میں دی تھی اس سے بڑھ کو ئی بھی بڑی قربانی نہیں ہوسکتی کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو راہ خدا میں قربان کر رہا ہو اور فرمانبرداری کی ایسی کوئی مثال بھی نہیں ملتی کہ رب کا حکم سنتے ہی بیٹا کہتا ہو کہ ابا جان وہ کرگزرئیے جس کا خدا نے آپ کو حکم دیا ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ راہ خدا میں قربان ہونا خدا کے سامنے سب سے محبوب ترین عمل ہے۔ آج امت محمدیہ مختلف طرح سے ابتلاء و آزمائش میں مبتلا ہے وجہ صاف ظاہر ہے کہ مسلانوں کااجتماعی نظام اور مذہب سے قربانی کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے وہ راہ خدا میں کسی بھی شئی کو قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ عید قرباں کے موقع سے بکرے کی نمائش ضرور ہوتی ہے وہ اللہ کے لئے نہیں صرف نام و نمود کے لئے اور فخریہ بیان کرتے ہیں کہ اس کا بکرا اتنے کا ہے ہر مسلمان دوسرے مسلمان سے سوال کرتا ہے کہ اس کا بکرا کتنے کا ہے۔ گویا خلوص ، خشوع و خضوع سے عاری ہوکر صرف دکھاوا تک محدود ہوتا ہے۔ آج مسلمانوں کا خون مسلمانوں کے لئے مباح ہے جب کہ مسلمان کا خون بہانہ ایک دوسرے پر حرام ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمہارا خون اور تمہارا مال اسی طرح حرام ہے جس طرح کے یہ دن اس مہینہ میں اور اس شہر میں حرام ہے۔ یاد رکھو جاہلیت کا ہر کام باطل ہے جاہلیت کے تمام خون (یعنی انتقام خون) باطل کردئے گئے ہیں۔حج کے یہ عظیم الشان مناسک در اصل چار پہلو رکھتے ہیں، ان میں سے ہر ایک دوسرے سے اہم اور مفید تر ہے۔حج کا سب سے اہم ترین فلسفہ یہی اخلاقی انقلاب ہے جو حج کرنے والے میں رونما ہوتا ہے اور دراصل حج کا مطلب بھی یہی ہے اگر کسی حاجی میں یہ چیزیں پیدا نہیں ہوتیں تو اسے غور و فکر کرنا چاہئے کہ کہاں ان سے غفلت ہوئی ہے۔۔ جس وقت انسان ’’احرام‘‘ باندھتا ہے تو ظاہری امتیازات، رنگ برنگ کے لباس اور آرائش و زیبائش جیسے تمام مادیات سے باہر نکل جاتا ہے۔ انسان کو مادیات سے دور کردیتا ہے اور نور و پاکیزگی اور روحانیت کے عالم میں پہنچا دیتا ہے۔ حج خیالی امتیازات اور ظاہری فخرو امتیاز کو ختم کردیتا ہے جس سے انسان کو راحت اور سکون حا صل ہوتاہے۔اس کے بعد حج کے دوسرے اعمال یکے بعد دیگرے انجام پاتے ہیں، جن سے انسان ،خدا سے لمحہ بہ لمحہ نزدیک ہوتا جاتا ہے اور خدا سے رابطہ مستحکم تر ہوتا جاتا ہے۔ حج کے تمام مناسک ادا کرنے سے قدم قدم پر بت شکن ابراہیم، اسماعیل ذبیح اللہ اور ان کی ماں حضرت ہاجرہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جس سے ان کا ایثار اور قربانی انسان کی آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگتا ہے ۔
جس وقت ’’صفا‘‘ اور ’’مروہ‘‘ پر جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ حجاج جوق در جوق ایک چھوٹی پہاڑی سے دوسری چھوٹی پہاڑی پر جاتے ہیں اور پھر وہاں سے اسی پہاڑی پر واپس آتے ہیں اور پھراس عمل کی مکرر کرتے ہیں، کبھی آہستہ چلتے ہیں تو کبھی دوڑتے ہیں، واقعاً تعجب ہوتا ہے کہ یہ کیا ہے؟! اور اس کا مقصد کیا ہے؟!لیکن جب ایک نظر اس با ایمان خاتون حضرت ہاجرہ کے واقعہ پر ڈالتے ہیں جو اپنے شیر خوار فرزند اسماعیل کی پیاس بجھانے کے لئے اس بے آب و گیاہ بیابان میں اس پہاڑی سے اس پہاڑی پر جاتی ہیں حج ہمیں حضرت ہاجرہ کی اس سعی کی یاد بھی دلاتا ہے کہ کس طرح ایک ماں اپنے شیر خوار بچے کے لئے پانی کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگتی ہے۔ صفا اور مروہ پہاڑیوں کے درمیا ن چکر لگاتی ہے اور یہ ادا اللہ تعالی کو اس قدر پسند آئی کہ قیامت تک کے لئے اس یاد تازہ کرنے کا حکم کا عازمین حج کو دیا گیا ہے۔یہ واقعہ ہمیں یہ یاد دلاتاہے کہ جدوجہد کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ اگر اللہ تعالی چاہتے تو بغیر بھاگ دوڑ کے ہی چشمہ جاری کردیتے حالانکہ اس بھاگ دوڑ سے پانی نہیں ملا لیکن اللہ تعالی نے اس سعی اور جدوجہد کو پسند کیااورخداوندعالم نے حضرت ہاجرہ کی کوشش کو منزل مقصود تک پہنچایا اور ان کے شیرخوار بچے کے پیروں کے نیچے چشمہ زمزم جاری کیا۔ اس سے پیغام ملتا ہے کہ سعی و کوشش کے بغیر منزل نہیں مل سکتی۔ افسوس کہ مسلمان آج ان ہی چیزوں سے کوسوں دور ہے۔ حج کے آخری عمل میں رمی جمرات سامنے آتا ہے۔ یہ بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہے جہاں شیطان انہیں بہکانے کی کوشش کرتا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی راہ میں تین بار شیطان آیا تھا تاکہ آپ کو اس عظیم ’’قربانی سے‘‘سے رو ک سکے یا شک و شبہ میں مبتلا کردے لیکن ہر بار توحید کے علمبر دار نے شیطان کو پتھر مار کر دور بھگا دیا،لہٰذا اگر اس واقعہ کو یاد کریں تو پھر ’’رمی جمرات‘‘ کا مقصد سمجھ میں آجاتا ہے۔رمی جمرات کا مقصد یہ ہے کہ ہم سب جہاد اکبر کے موقع پر شیطانی وسوسوں سے روبرو ہوتے ہیں اور جب تک ان کو سنگسار نہ کریں گے اوراسے اپنے سے دور نہ بھگائیں گے تواس پر غالب نہیں ہوسکتے۔آج مسلمانوں کی پریشانی کی بات یہ ہے کہ ظاہر ی طور پر اپنے آپ کو سنوارنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ بھی کوشش کرتا ہے اس کا سب کچھ اچھا رہے اور اس کی گندگی کا بوجھ دوسرا اٹھائے۔ یہ عام طور پر مسلم معاشرے میں نظر آتاہے۔ مسلمان حج کرکے آجاتے ہیں لیکن ان کے اعمال و افعال، سلوک اور رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں آتی بلکہ بعض حاجیوں کو دیکھاگیا ہے کہ وہ اور برے ہوجاتے ہیں اور زیادہ غلط کام کرنا شروع کردیتے ہیں۔ بعض ہندو حضرات جن سابقہ ایسے حاجیوں سے پڑتا ہے کہتے ہیں کہ یہ لوگ حج اسی لئے کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے گناہوں کو چھپا سکیں۔ لوگ حاجی سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں ۔
حج کے ایام میں تکبیر تشریق کا بھی اہتمام کرنا چاہئے۔ ابن عمر اور ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہما کے بارے میں ثابت ہے کہ وہ دونوں حضرات ان دس ایام میں بازاروں میں نکل کر اونچی آواز کے ساتھ تکبیریں کہا کرتے تھے اورلوگ بھی ان کی تکبیروں کی وجہ سے تکبیریں کہا کرتے تھے ، اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کوتکبریں کہنا یاد آجائے اور ہرایک اپنی جگہ پراکیلے ہی تکبریں کہنا شروع کردے ۔ عشرہ ذی الحجہ کے اعمال صالحہ میں قربانی کے ذریعہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا بھی شامل ہے کہ قربانی کی جائے اوراللہ تعالی کے راستے میں مال خرچ کیا جائے۔آسانی کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ’’حج‘‘ کو ان اسرار و رموز کو ہم اپنے دل میں جاگزیں کرلیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام، ان کی زوجہ حضرت ہاجرہ اورفرزندحضرت اسماعیل کی یاد اور ان کی قربانیوں کو تازہ کریں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کے بہت سارے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے اور صحیح معنوں میں حج ہوگا کیوں کہ جب تک ہمارے اندر تاثیر حج اور اس کے مقاصد ہماری زندگی میں در نہیں آتے اس وقت تک حج کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ حج کا پیغام بھی یہی ہے کہ اجتماعی نظام اور اپنی زندگی میں اس کے اثرات کو نافذ کریں تعصبات اور تفرقات سے اپنے معاشرے کو پاک رکھیں ایسے افراد کا بائیکاٹ کریں جو معاشرے اور دین میں انتشار کا موجب بنتے ہیں خواہ وہ اسلام کا اسکالر ہو یا مسجدکا امام یا سیاسی لیڈر یا معاشرہ کا کوئی سرکردہ شخصیت ۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *