Home / Socio-political / حوا کی بیٹیاں

حوا کی بیٹیاں

                         

حوا کی بیٹیاں
                 عباس ملک

سنبل ایک معصوم سی بیٹی جو ابھی شاید دودھ کے دانت بھی پورے نہیں گرا پائی کہ اسے اس شرمناک طریقے سے دکھ والم کی اتھاہ وادی میں پھینک دیا گیا۔جہاں وہ ساری زندگی سسک سسک کر گذار دے ۔ حوا کی بیٹیاں اتنی بے بس بے کس اور ارزاں کیوں ہو گئی ہیں۔ قانون آئین اخلاقیات انسانیت کیا سب مفقود ہو چکا۔ معاشرہ ذلت کی عمیق گہرائیوں میں اتنا گر چکا کہ اب معصوم پانچ سال کی بچی بھی اس کی ہوس کا شکار بننے سے محفوظ نہ رہ سکی ۔معاشرے میں اخلاقیات کے اس قدر گر جانے کے باوجود بھی ابھی تک سوائے کمیٹی تشکیل دینے اور رپورٹ کرنے کے کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آ سکی۔

معاشرے میں بیٹی کی اگر عزت نہیں رہے گی تو یاد رہے کہ بیٹی ہی معاشرے کی اساس ہے۔یہی بیٹی بیٹوں کو جنم دیتی ہے اور اس سے نسلوں کا تسلسل برقرار ہے۔ یہ نہ ہو تو نسلیں مفقود ہو جائیں ۔ اس کی تکریم میں کمی آنا معاشرے میں عزت کی عمارت کی بنیادیں کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ بیٹیوں کو محفوظ بنانا اور ان کی عزت کرنا معاشرے میں عزت وقار اور اخلاقیات کے قلعے کو مضبوط بنانا ہے۔ بیٹی کو عزت سے تشبیہ دی جاتی ہے تو اگر اس کی طرف کوئی میلی آنکھ اٹھے تو عزت کی طرف آنکھ اٹھنے کے مترادف قرار دے کر اسے پھوڑ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عزت تو عزت ہے خواہ وہ غریب کی ہو یا امیر کی وہ عزت ہی کہلاتی ہے۔ غریب کی عزت کو عزت قرار نہ دینے سے امیر کی عزت بھی سلامت نہیں رہتی کیونکہ بلواسطہ طورپر عزت تو سانجھی ہوتی ہے۔

معاشرے میں انصاف کی عدم فراہمی اورانصاف کے مہنگے اور غیر مساوی رویے ایسے واقعات کے تسلسل کا سبب ہیں ۔ جزا وسزا کے عمل میں مدعی کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس سبب معاشرے میں جرم کو تقویت مل رہی ہے۔ جرائم پیشہ افراد کو مناسب سہولیات میسر ہونے اور مظلوم کے رستے میں حائل رکاوٹیں ظلم جبر استحصال استبداد میں اضافے کا سبب ہیں۔

حال ہی میں شاہ زیب قتل کیس میں جس طرح مدعی قاتلوں سے صلح پر مجبورکیے گئے اس پر قاتلوں کو شہ ملی ہے۔ قاتل کے رویے پر ریاستی اداروں کا قاتل کو معاف کرانے میں کردار بھی انصاف کے تقاضوں کے خلاف اور اعانت جرم کے مترادف ہے۔صوبائی حکومت کا قاتلوں کی سرپرستی کرنا اور ان کیلئے معافی کیلئے صدر کو سمری ارسال کرنا قاتلوں کیلئے کیا پیغام ہے۔ قاتل ملک میں دنداناتے پھر رہے ہیں سزا ہونے پروکٹری سائن بنا رہے ہیںہنس رہے ہیں بن ڈھن کر لینڈکروز میںگھوم رہے ہیں تو ظلم کو ہو ا دینے والا ماحول بنا دیا گیا۔ مقتول گھروں میں محصور چھپ کر پیشی پر حاضری گواہ گھرسے دور چھپ کر رہنے پر مجبور ہوں تو انصاف کیا ہے۔ قاتل فی سبیل اللہ معافی مل جانے پر اپنے گھر آباد اور معاف کرنے والے ملک سے ہجرت کرنے پر مجبور یا کون سا اللہ واسطے کا کام ہے۔ مقتول کا قصور بھی بہن پر آوازے کسنے اور اسے چھیڑنے پر مزاحمت ہی تھا۔ بیٹی اور بہن کی عزت کی حفاظت کرنے پر اتنی بڑی سزا کسی متمدن معاشرے کے دامن پر کیا بدنما داغ نہیں ۔ بیٹی کو دریا برد کر دیا۔ کیوں کیا؟ کیا وجہ تھی جو جگر کا ٹکڑا جدا کرتے ہوئے دل کانپا نہیں ۔ وجہ تھی اس کو زمانے کی دست برد سے بچانے کا خوف ۔اس کو بیاہنے اور اس کو بسانے میں حائل معاشرتی عوامل کا خوف اس عمل کا سبب بنا۔

بیٹی کے لیے ہمارے رویے کس قدر اندوہناک ہیں۔ کاروکاری قرآن سے شادی وٹہ سٹہ یا پھر ونی کر دینا یہی تو ہم نے بیٹیوں کامقدر کر رکھا ہے ۔ کیا ہمارے رویے بیٹوں کے بارے میں ایسے ہی ہیں۔ بیٹی باہر جھانکے تو آنکھیں باہر آجاتی ہیں لیکن بیٹا جھک مارتا نظر آئے تو جوان ہے ککڑ جوانی میں منڈیر پر آذان دیتا ہے۔ یہ مستی کی عمر ہے۔ جوانی میں جوش ہوتا ہے گرم خون ہے ۔ یہ سب تاویلیں پیش کی جاتی ہیں۔ بیٹی کو عزت جان کر گھر میں محصور کر نا ضروری خیال کیا جاتا ہے لیکن اپنے بیٹے کو دوسرے کی عزت پر ڈاکہ ڈالنے سے منع کرنا شعار نہیں۔ ہم زندہ دفن تو نہیں کرتے لیکن اپنے رویوں سے زندہ درگور ضرور کر دیتے ہیں ۔

میڈیا چینلوں پر یہی حوا کی بیٹی ہم ہر آن نچا کر اس کی عزت وتوقیر کا جو درس دیتے ہیں وہ کس بات کی طرف اشارہ ہے۔ ہر اشتہار میں اشتہا کیلئے بیٹی کو ہی ننگا کیا جاتا ہے۔ عورت کو عورت نہیں اب ایک بکائو جنس بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جو لکھا جاتا ہے اور جو لکھایا جاتا ہے وہ کیا عورت کی عزت کا درس ہے۔ ادیب محبت کا درس تو شاعر محبت کے بغیر زندگی کے نامکمل ہونے کا نصاب تیار کر رہاہے ۔ الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا عورت کی تذلیل کے مناظراور خبروں کو اس طر ح پیش کرتا ہے جیسے کوئی اعزاز ی خبر ہو ۔

بیٹیوں کو اللہ پاک کی رحمت کی بجائے زحمت اور بوجھ بنانے میں کس کا ہاتھ ہے۔ شادی کی بیجا رسوم اور اخراجات نے بیٹیوں کو بار سمجھنے اور بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔ سونے میں تول کر بیٹی کو ہر باپ رخصت نہیں کر سکتا نہ ہی نوٹوں میں تول کر اسے وداع کر سکتا ہے۔ جہیز کے نام پر بیٹی کو بوجھ بنانے والے کردار کو اسلام مخالف ہونے کے باوجود ثقافتی ورثہ قرار دے کر سینے سے لگانے والا معاشرہ بیٹی کیلئے جہنم سماں نہ ہوگا تو کیا ہوگا۔جہیز کو لعنت قرار دیا جاتا ہے لیکن اس طوق کو گلے میں ڈالنے کیلئے کیا کیا جتن بھی کیے جاتے ہیں ۔

بیٹوں کے سکول اور کالج کے سامنے جو طوفان بدتمیزی مچایا جاتا ہے کیا معاشرہ میں بیٹیوں کو سکھ سے جینے کا کوئی لمحہ میسر کیا جاتا ہے۔ گھر سے باہر قدم قدم پر انہیں شیطانی نگاہوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیا ہم نے کبھی کوشش کی کہ بیٹوں کی کردار سازی اس طرح کریں کہ وہ حوا کی اس بیٹی کا بھی احترام کریں۔ اسے صرف اس نگاہ سے نہ دیکھیں ۔

ادیب شاعر لکھاری میڈیا ہوس پرستی کے جذبات کو ترویج دینے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔الیکڑانک میڈیا میں عورت کو جنس بنا کر پیش کیا جاتا ہے اس کاعورت کا مقام گرانے میں اہم کردارہے۔ ادارے منہ دیکھ رہے ہیں۔سنسر بورڈ سب کچھ پاس کر رہا ہے۔ ڈرامے فلمیں اشتہار سب اشتہا کے مناظر پیش کر رہے ہیں کہ صاحب کردار کا بھی ایمان ڈول جاتا ہے ۔ کچے دماغ کے بچوں پر اس کے ذہنی اثرات کیا ہونگے ۔ ہمیں خود اپنے آپ کو سنوارنا ہے۔ اس کیلئے ماحول کو ساز گاراور قانون کو بہتر بنانا ہے۔ عمل کرنے اورکرانے میں پورے اخلاص کا مظاہرہ کرنا ہے۔ضروری ہے کہ میڈیا خواتین بچیوں بیٹوں بہنوں مائوں بہوئوں کے احترام کی تعلیم کرے ۔خواتین کے احترام سے متعلق قانون سازی کی جائے اور اسے معاشرے میں مشتہر کیا جائے۔ خواتین کے احترام کو شروع سکول کی سطح سے ہی بچوں کے نصاب میں شامل کر کے دماغ میں خواتین کا احترام راسخ کیا جائے۔ قانون سازی میں خواتین کی حدود کو بھی متعین کیا جائے اور انہیں اپنی نمائش کرنے والے لباس اور طریقہ سے روکا جائے ۔ایک فورس قائم کی جائے جو خواتین کو تنگ کرنے والے عناصر کی اصلاح کیلئے کام کرے اور یہی فورس ایسی خواتین کی بھی اصلاح کرے جو اپنی حد سے باہر آ چکی ہوں۔ یہ فورس میڈیا اور ادب سب پر اپنی نظررکھے کہ وہاں پر خواتین کے

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *