Home / Articles / حکیم اجمل خان اور جدید علوم کا فروغ

حکیم اجمل خان اور جدید علوم کا فروغ

ڈاکٹر خواجہ اکرام

انیسویں صدی ہندستانی  مسلمانوں کے لیے ایسا ٹرنیگ پوائنٹ ہے جس نے مسلمانوں کی زندگی میں ایک انقلابی تبدیلی سے دو چار کیا۔ ہندستانی مسلمانوں کو  کئی اعتبار سے زندگی کے نئے تقاضے اور نئے مطالبے سمجھنے میں متصادم بھی ہونا پڑا اور اتفاق و ہم آہنگی کی راہ بھی ہموار کرنی پڑی۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ  یہ  صدی میں صدیوں پر محیط مسلم حکومت کے خاتمے کی صدی تھی۔ مسلمانوں نے ہندستان جیسے طو ل وعرض ملک پر حکومت ضرور کی مگر انھوں  نے مسلمانوں کے مستقبل کے لیے کم ہی سوچا یا یہ کہیں کہ انھوں نے مسلمانوں  کے خوشحال مستقبل کے لیے کوئی  عملی قدم نہیں اٹھایا۔ اسی لیے آج تک یہ حتمی طور پر طے نہیں ہوا کہ ہندستان میں مسلم بادشاہوں کے ذریعے قائم کردہ  حکومت مسلمانوں کی حکومت تھی یا مسلم حکومت تھی؟بہر کیف یہ ایک سوال ہے جس کا جواب تاریخ دان اور تاریخ نویس دیں گے ۔ لیکن یہاں ایک بات کی جانب ضرور توجہ مبذول کرانا چاہوں گا  مسلم بادشاہوں کی طویل  دور حکومت میں کہیں کوئی ایسی مثال نظر نہیں آتی کہ مسلم بادشاہوں نے مسلمانوں کے لیے کوئی تعلیمی نظام کے بارے میں سوچا بھی ہو۔ مسلم بادشاہوں نے  ملک کو یونیفائڈ کرنے کی سمت میں اور اقتصادی و  جاگیرداری نظام کے سمت میں کئی اہم کام کیے اس کے علاوہ بھی کئی ایسی خدمات ہیں جن کے سبب ان کو یاد کیا جاتا ہے ۔ ملک  کو مشترکہ تہذیب دینے سے لےکر اس کے فروغ میں کئی اہم کام کیے لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ ان مسلم بادشاہوں نے کبھی کوئی تعلیمی نظام کی فکر نہیں کی ۔لیکن اسی ہندستان میں ایک مثال بھی موجود ہے کہ ہندو بادشاہوں نے بہار میں ڈھائی ہزار سال قبل  ہندستانی   طرز  تعلیم پراعلیٰ تعلیم کے لیے   نالندہ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی تھی ۔ مسلمانوں میں جو کچھ بھی  تعلیم تھی وہ مدارس اور خانقاہوں کی مرہون منت ہیں ۔اگر مسلمانوں میں مدارس کا نظام نہیں ہوتا تو شاید ہندستان میں مسلمان تعلیم سے بے بہرہ ہی ہوتے ۔

انیسویں صدی کا پُر آشوب دور جس نے مجموعی طور پر تمام ہندستانیوں کو اپنے گرادب الم میں مبتلا کیا لیکن بالخصوص مسلمانوں کے لیے اس صدی میں عرصہ ٴ حیات تنگ کردیا۔ا س کی وجہ یہ تھی کہ پہلی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد پورے ملک پر انگریزوں کا تسلط ہوگیا اور اس جنگ آزادی کو  جسے  عام طور پر غدر اور انقلاب کے نام سے جانا جاتا ہے ، اس کی تمام تر ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی گئی ۔ لہٰذا مسلمان انگریزوں کےعبرتناک عتاب کے شکار ہوئے ۔ نفسیاتی طور پر ان کو اتنا دبایا گیا کہ اس قوم کو جاگنے میں اور دوبارہ عزم و استقلال کے ساتھ بیدار ہونے میں صدی لگ جاتی ۔ لیکن مقام شکر ہے کہاس پر آشوب دور میں  مسلم معاشرے  میں کچھ ایسے دانشور موجود تھے  جنھوں نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھا اور قوم کے مرض کی تشخیص کی ۔ بات اصل یہ تھی کہ انگریزوں نے ملک پر مکمل طور تسلط سے پہلے ہی اقتصادی طور پر خود کو مضبوط کر لیا تھا انھوں نے اس کے لیے  ہندستانیوں کی مدد بھی لی ، جن ہندستانیوں نے ان کو شجر ممنوعہ نہیں سمجھا اور ان کے قریب آئے  اور وقت کے ساتھ چلنے کی دانشمندی کی ۔لیکن مسلمانوں میں کئی وجوہات کی بنا پر انگریزوں سے نفرت موجود تھی اسی لیے وہ انگریزی اور جدید تعلیم کو بھی اسلام  کے خلاف سازش سمجھ رہے تھے ۔ اس لیے ان کے اور انگریزوں  کے درمیان خلیج بڑھتی گئی ۔ جنگ آزادی کے بعد تو یہ خلیج اور بھی بڑھ گئی کیونکہ اب مسلمان انگریزوں کے دشمن تھے ۔ان تمام حالات کےنتیجے میں ہوا یہ کہ  ملک چھن جانے کے بعد مسلمان  بدحال ہوتے گئے ۔ اگر ان حالات میں سر سید جیسے لوگ سامنے نہیں آتے تو اس ملک میں مسلمانوں کی حالت  ابتر سے ابتر ہوتی ۔ سر سید کی تحریک جو سب سے زیادہ معطون تھی اسی نے اس قوم کو یہ  خوب غلفت سے بیدار کیا اور وقت کی نبض کو سمجھنے میں مدد کی ۔ اگر ایسا نہیں ہوا ہوتا تو مسلمان ایک صدی اور پیچھے ہوتے ۔

سر سید کے بعد ملک میں مسلم مصلحین  کی ایک پوری کھیپ تیار ہو چکی تھی جو مسلمانوں میں کئی سطحوں پر کام کررہے تھے ۔ تعلیم ، سیاست ، اقتصاداور توہمات کے خلاف کام کرنے والوں میں ہر فیلڈ کے لوگ موجود تھے لیکن ان میں ایک بات مشتر ک یہ تھی کہ انھوں نے  مجموعی طور پر تعلیم اور جدید تعلیم کے حصول پر زور دیا۔

انھیں مصلحین قوم میں ایک بڑا نام حکیم اجمل خان کا ہے جنھیں مسیح المک اور حاذق الملک کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ حکیم اجمل خان کی مہارت تو طب میں تھی  لیکن ان کی شخصیت ہمہ جہت تھی وہ جہاں علم طب میں ماہر تھے وہیں وہ سیاست میں اعلیٰ مقام پر فائز تھے ۔ انھوں نے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری کے لیے کئی اہم کام کیے ان میں سے سب سے اہم یہ ہےکہ  موجودہ جامعہ ملیہ اسلامیہ  کے بنیا د گزاروں میں سے ایک تھے ۔1920 میں وہ جامعہ کے پہلے چانسلر بنے اور تاحیات اس  عہدے پر فائز رہے ۔ حکیم اجمل خان چونکہ مشہور اور حکیم تھے اس لیے وہ اپنے پیشے سے بھی جڑے رہے اور اس فیلڈ میں بھی نمایاں کام کیا ۔ ان کے مطابق تعلیم کے لیے کوئی مخصوص شعبہ نہیں ہے کیونکہ عام طور پر مسلمانوں میں دینی تعلیم کو ہی تعلیم  سمجھا جاتا تھا ۔ لیکن حکیم اجمل خان نے اس تصور کو توڑنے کے لیے عملی قدم اٹھایا اور طب یونانی کو نئی زندگی دے کر اس  علم کونہ صرف آگے بڑھایا بلکہ اسے اس  قبل بنایا کہ لوگ ا س میدان میں مہارت پیدا پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے تک  علکم طب کا مطلب تھا  مسلمانوں کا علم ۔ اس ہندستان میں پہلی دفعہ علم طب کو یاکو ایک فن کے طور پر فروغ دینے  کے لیے حکیم اجمل خان نے 1906ء میں طبی کانفرنس کی بنیاد رکھی اور 1912ء میں طبیہ کالج قائم کیا ۔ایک حکیم کو جب ہم ان کے پیشے کے اعتبار سے ان کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو ہماری سوچ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے  فیلڈ میں بہتر کام کریں گے ۔ لیکن حکیم اجمل خان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ایک فعال سیاسی کارکن بھی تھے ۔ کانگریس  کی مجلس عاملہ نے حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک آپ ہی کی صدارت میں منظور کی تھی۔ 1921میں خلافت کانفرنس کی صدارت بھی انھوں نے ہی کی ، اس طرح وہ انڈین نیشنل کانگریس کے پانچویں صدر تھے ۔ان تمام  مصروفیات کے باوجود ان کی دوربینی اور  وسیع النظری  یہ تھی کہ وہ جہاں ایک طب کو فروغ دے رہے تھے وہیں وہ  دیگر علوم کے فروغ کے لیے بھی اتنے ہی کوشاں تھے ، اسی لیے وہ عملی طور جامعہ  ملیہ کے لیے تا عمر   نئی نئی راہیں ہموار کرتے رہے اور زندگی کی آخری سانسوں تک مختلف علوم فنون کے فروغ سے جڑے رہے ۔

اس سیاق میں جب ہم حکیم اجمل خان کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اور ان کے ساتھی اسی فکر کی اگلی کڑی تھے جس تحریک کو سر سید اورا ن کے دور نے آگے بڑھایا تھا ۔اس اعتبار سے مسلمانوں میں تعلیم کو فروغ دینے والوں میں اس مجاہدآزادی کا بھی بڑا رول رہا ہے ۔ حالانکہ المیہ ہی ہے کہ عام طور پر لوگ انھیں ماہر طب ہی سمجھتے ہیں، طب میں ان کی شہرت کی وجہ سے بھی جدید علوم کے فروغ میں ان کا نام تامل سے لیا جاتا ہے ، جو سراسر حکیم اجمل خان کے ساتھ ناانصافی ہے۔

About admin

Check Also

تفہیم میر کی  چند  جہتیں

نوٹ : ترجیحات میں شائع شدہ اداریہ اور مضمون قارئین کے لیے یہاں پیش کررہا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *