پچھلے کئی سالوں سے ایک جنگ ہے جو ہماری کوہساروں‘ہماری وادیوں‘ہمارے شہروں‘ہماری گلیوں اور محلوں میں لڑی جارہی ہے۔یہ ایسی جنگ ہے جس کا ایندھن اول و آخر ہمارا ہی کوئی شہری ٹھہرتا ہے خواہ اس نے قمیض شلوارزیب تن کر رکھی ہو یا اس کا جسم کلف لگی خاکی وردی سے مزین ہو‘وہ کراچی، کوئٹہ،پشاور یا ایف آئی اے کی عمارت اور میریٹ کے گیٹ پر جل مرے یا انگور اڈہ کے کسی کچے مکان کی دہلیز پر‘یا پھر وہ کسی چھاؤنی کے دروازے پر چیتھڑوں میں ڈھل جائے‘یا کسی بازار میں شعلوں کی زد میں آ کر رہ جائے۔اس کا خون آلود جسم اور اس کا زرد تابوت اس ملک کی حدود کے اندر ہی رہتا اور اس مٹی کی ردا اوڑھ کر سو جاتا ہے ۔اس کا نام نذیر‘بشیر‘ماجد‘ساجدہی ہوتا ہے اور اس کے تابوت کی منزل کوئٹہ ،کراچی ،پشاور،مردان،ڈومہ ڈولہ،جہلم یا لاہور ہی ہو تی ہے اور یہ سب لا طینی امریکہ کے نہیں بلکہ پاکستان کے شہر ہیں۔دہماکہ جب اور جہاں بھی ہو تاہے تو مائیں صرف پشتو میں بین کرتی ہیں،پنجابی میں سرائیکی میں یا اردو میںاور یہ سب پاکستانی زبانیں ہیں۔ ایسے کسی بھی شکار کو،وہ کسی بھی ہتھیار سے نشانہ بنا ہو،اسے آسمان سے مو ت بن کر برسنے والے کسی میزائل نے چاٹ کھایا ہو یا زمین سے نمودار ہونے والی کسی بارودی سر نگ نے اجل بن کر کاٹ کھایا ہو،اس کی میت بہت تکریم سے سفید کفن پہنا کر لوگوں کے درمیان رکھ دی جاتی ہے اورپھر کلمہ طیبہ کے ورد میں لوگ سر جھکائے قبرستان منوں مٹی میںپہنچا تے ہیں۔ہر مرنے والے ہر شکار ہو نے کے سفر آخرت کا مقام اور الوداع کا طریقہ کار ہر بار ایک جیسا ہوتا ہے اورحکومتی بے حسی اور بیانات میںبھی کوئی فرق نہیں آتا۔
دہماکہ کہیں بھی ہوتاہے تو اس قوم کو فراہم کئے گئے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے فون بج اٹھتے ہیں ،لوگ ایک شہر کے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں،ایک شہر سے دوسرے شہر میں اپنے عزیزوں کی خیریت دریافت کرنے لگتے ہیں اور خیر خیریت کے چکروں میں ملٹی نیشنل کمپنیاں اس غریب قوم کی جیبوں سے کروڑوں روپے سمیٹ لیتی ہیں،غرضیکہ کبھی چھری خربوزے پرگر رہی ہو تی ہے تو کبھی خربوزہ چھری پر قربان ہورہا ہوتا ہے اور ہر دو صورتوں میں بیچارہ خربوزہ زخم زخم ہو تا ہے ،اسی کا وجود گھائل ہو تا ہے۔ٹیلی ویژن پر خود کش حملہ آوروں کے داخلے کی خبر چلتی ہے تو کاروباری مراکز کی رونقیں ماند پڑ جاتی ہیں اور اس شام جن گھروں میں چو لہا جلنے میں مشکل پیش آتی ہے وہ بھی اٹلانٹک کے اس پار نہیں، ہمارے ہی دائیں بائیں ہوتے ہیں ۔حیرت ہے کہ ایک جنگ ہے جو ہمارے وجود کو ایک دیمک بن کر چاٹ رہی ہے جس میں شکار اور شکاری ہمارا معاشرہ ہے جس کا ہر برا اثر ہمارے ہی نامہ اعمال میں درج ہوتا ہے ،جس کے دہماکوں کی لرز سے ہمارے ہی شیشے ٹوٹتے اور ہمارے قبرستان ہی آباد ہوتے ہیں۔جس کے کسی دہماکے سے آج تک وائٹ ہاؤس کا ایک شیشہ نہیں ٹوٹا‘جس کی گونج سے واشنگٹن ڈی سی میںکسی ایک فرد کی نیند میں خلل نہیں پڑا۔
اس جنگ کو ہم اپنی جنگ ماننے کیلئے تیار نہیں ۔پرویز مشرف کمانڈو نامی ایک حکمران نے پتہ نہیں کہاں سے یہ بندوق اس دعوے کے ساتھ اپنی قوم کے کا ندھے پر رکھی کہ اس بندوق کارخ بدلنے اور توازن خراب نہ ہو نے پائے‘اسی میں ہماری بقاء ہے ۔پرویز مشرف نے ہر حکیم،ہر عطائی،ہر عامل اور ہر پنساری کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اپنی قوم کی کج فہمی کا علاج کسی ایسی پھکی ،کسی ایسے ٹانک،کسی ایسے ٹوٹکے میں ڈھونڈاجس کے استعمال کے بعداس کی قوم اس جنگ کو اپنی جنگ اور اس بندوق کو اپنی بقاء کا راز اور تحفظ کا ساز سمجھنے لگے۔ایک نہیں دو نہیں گیارہ برس بیت گئے لیکن اس قوم نے اس جنگ کو اپنی جنگ ماننا تھانہ مانی۔ہر پھکی بے اثر اور ہر ٹوٹکا بے ثمر ہوتا چلا گیایہاں تک کہ ایک دوپہر پرویزمشرف قوم کی کج فہمی کا علاج کئے بغیر لا علاج چھوڑ کر چلے گئے۔اب پچھلے پانچ برس سے خوبصورت جمہوریت کا واویلا مچایاجا رہاہے ،زرداری صاحب اپنے اتحادیوں کے ساتھ منظر پر جلوہ گر ہیں ، حکمران بھی وہ جن کا نعرہ ہی’’عوام ہماری طاقت ہیں ‘‘رہا ہے۔جن کے نام کا اہم حصہ’’پیپلز‘‘یعنی لفظ عوام سے ماخوذ ہے۔
خیال گمان نہیں بلکہ یقین تھا کہ’’ جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کا نعرہ لگانے والے اپنے ان لوگوں کے اس’’ مرض‘‘ کی تشخیص کر لیں گے کہ آخر اپنی گلیوں اور اپنے گھروں میں لڑی جانے والی جنگ کو یہ قوم اپنی جنگ کیوں نہیں سمجھتی ؟لیکن مرض کی تشخیص کئے بغیر عوام کی کج فہمی کا تجزیہ کئے بغیر ہی ان جمہوری حکمرانوں نے کہیں زیادہ شدت سے ایک بار پھر اسی ٹانک کی تلاش جاری رکھی جو جام پلاتے پلاتے پرویز مشرف منظر سے پس منظر میں چلے گئے اوراگلے چند ماہ میں اب یہ بھی جمہوریت کے نام پر قوم سے انتقام لیتے ہوئے سابقہ حکمران کہلانا شروع ہو جائیں گے۔ صدر آصف علی زرداری سے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف تک اور مشیر داخلہ سے وزیر دفاع تک ہر شخص ہر اسٹیج پر سینہ پھلا کر اعلان کرتا ہے کہ کون کہتا ہے یہ ہماری جنگ نہیں ‘یہ تو سو فیصد ہماری جنگ ہے۔اگر کوئی تھوڑا سا لچک دار مؤقف اپناتا ہے تو وہ بھی یہ ہو تا ہے کہ پہلے یہ ہماری جنگ نہیں تھی مگر اب ہماری جنگ ہے۔ کئی کالم نگاروں کی ایک فوج کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ اپنے تمام دلائل اپنی تحر یر کی تمام صلاحیتیں اس قوم کے حلق سے یہ لقمہ اتارنے کیلئے وقف کر دیں کہ’’جو کہساروں ،میدانوں اورشہروںمیں جنگ جاری ہے وہ ساری جنگ ہماری ہے‘‘ بلکہ اب تو ہمارے فوجی سپہ سالار جناب کیانی صاحب نے بھی مہر تصدیق ثبت کردی ہے لیکن صدر زرداری کا ہرٹونا ‘وزیراعظم کا ہرٹوٹکا اور وزیر داخلہ کی ہر پھکی ہر شے بے اثر توہوہی رہی تھی کہ اب ملک کی سرحدوں پر کشیدہ حالات ’’امن کی آشا‘‘ کی کشتی ڈوبتی نظرآرہی ہے ۔مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق اوپر سے خود ساختہ شیخ الاسلام کے دل میں برسوں کے بعداچانک وطن کی محبت ایسی جاگی ہے جس نے ملک کی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا ہے حالانکہ لانگ مارچ میں مکمل ساتھ دینے کاوعدہ کرنے کے باوجود عین وقت پر ایم کیو ایم نے داغِ مفارقت دیکرخودکوالگ کر لیا ہے مگر اس کے باوجودوہ ملکی سیاست میں ایک ہلچل پیداکرنے پر بضد ہیں۔
اس وقت پورے ملک میں جس شدت سے غیر ملکی پروپیگنڈہ اور جھوٹ بولا جا رہا ہے، قوم کوایسی نفسیاتی جنگ اور مایوسی میں مبتلا کیا جارہا ہے کہ اصل حقیقت لوگوں کو نظر نہیں آرہی ہے۔ایک مایوسی پھیل چکی ہے ،جس کو دیکھو وہ پریشانی کے عالم یہ کہہ رہا ہے کہ کیا یہ ملک ٹوٹ جائے گا(خدانخواستہ)۔ہر کوئی پریشان ہے کہ یہ کون سے کھلاڑی ہیں ،کیا وجوہات ہیں کہ یہ دشمن عناصر پاکستان کی سلامتی کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیںاور اس پورے خطے کو اپنی مرضی کے نقشے میں تبدیل کرنے کے نہ صرف خواہاں ہیںبلکہ عملاًاپنے تما م سازشی عناصرا تحادیوں کے ساتھ پورے وسائل اور طاقت کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہیں۔کھلم کھلا ہماری خود مختاری پر دن دیہاڑے حملے کر رہے ہیں اور مورد الزام بھی ہمیں ٹھہرایا جا رہا ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی تمام محب وطن قوتیں اپنے ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کراس معاملے کو قوم کو سامنے کھل کر بیان کریں اور قوم کو ان حقیقی خطرات سے آگاہ کرکے اس کے سدباب کیلئے ایک ایسی واضح قومی پالیسی تشکیل دیں جسکی بنیاد پر ہمارے سر پر منڈلاتے یہ خطرات نہ صرف ٹل جائیں بلکہ آئندہ ہم ان خطرات سے ہمیشہ کیلئے بچ جائیں۔خدارا جلدی کریں کہ تاخیر کی گنجائش توبالکل نہیں۔