سمیع اللہ ملک ، لندن
چندروزقبل۲مئی کے بعدپہلی مرتبہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پنیٹانے پاکستان کا غیراعلانیہ اہم ہنگامی دورہ کیا اور صرف ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کے بعدواپس چلے گئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لیون پنیٹانے اپنے اس دورے سے کچھ دن قبل امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسزکمیٹی کوبریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات ،اتحاداورشراکت انتہائی مشکل، انتہائی اہم اور(Frustrated) مایوس کن ہیں۔لیون پنیٹا کیاپیغام لائے اورجاتی دفعہ کیاکوئی نئی دہمکی دیکرگئے ہیں ،فی الحال ہماری حکومت کی خاموشی کی وجہ سے یہ ابھی سر بستہ راز ہے لیکن اخباری اطلاعات کے مطابق ملاقات کاماحول کافی کشیدہ اورایک تناؤ کی کیفیت تھی ۔عالمی اخبارات بالخصوص نیویارک ٹائمزکے مطابق اس ملاقات کے بعدکسی خاص تبدیلی کی نویدنظرنہیں آئی۔دونوں ممالک کے انٹیلی جنس کے سربراہوں کی طرف سے اپنے اپنے مطالبات پرسخت مؤقف میں کسی تبدیلی کاکوئی اشارہ نہیں ملا۔اس ملاقات میں پہلی مرتبہ پاکستانی اعلیٰ عسکری قیادت کی طرف سے شدیدتحفظات کااظہارکرتے ہوئے بہت سے امریکی مطالبات کومستردکردیاگیا البتہ اس ملاقات کاایک ہی مثبت پہلویہ ضرور ہے کہ انٹیلی جنس شراکت پرمشروط تعاون کاعندیہ ضروردیاگیاہے جوممکن ہے کہ مستقبل میں کسی نئے تعاون کاپیش خیمہ بن سکے۔
قارئین اگرآپ کویادہوتومیں نے اپنے پچھلے کالم’’خفیہ معاہدہ یانئے احکام‘‘ میں اس خدشے کااظہارکیاتھاکہ آئندہ دنوں میں پاک امریکاکے تعلقات میں کسی بہتری کی بجائے کشیدگی کے آثارزیادہ نظر آتے ہیں اوریوں محسوس ہورہاہے کہ اب پاک امریکاتعلقات اب ایک نئی ڈگرپرچل نکلے ہیںجہاں ان تعقات میں بہتری کی تمام تدبیریں معدوم ہوتی نظرآرہی ہیں۔دراصل جان کیری،ہلیری کلنٹن اورمائیک مولن کے ساتھ پاکستانی حکام کی ملاقاتوں کے دوران جن چندباتوںپرجواتفاق رائے ہواتھااب اس کی راہ میں کچھ مشکلات حائل ہوگئیں ہیں اور شائدان امریکی مطالبات کی تعمیل میں پاکستان کے معروضی حالات اورزمینی حقائق سدراہ بن گئے ہیں۔ جن مشترکہ آپریشن کے معاملات طے ہوئے تھے،امریکانے جن دہشتگردوں کے بارے کے مکمل کوائف اورانٹیلی جنس معلومات فراہم کی تھیں،شمالی وزیرستان جہاں خطرناک ہتھیارتیارکرنے کی غیرقانونی فیکٹریوں کی بندش اور خود کش بمباروں کی تربیت ہورہی ہے اس کونشانہ بنانے کامطالبہ تھا، امریکا اب ان پرعملدرآمدکے مطالبے پردباؤ بڑھارہاہے۔
نیویارک ٹائمزکی اطلاع کے مطابق مئی کے آخرمیںپاکستان کی خواہش اورمطالبے پر مشترکہ آپریشن پر اتفاق ہواتھاجس کی بناء پرشمالی وزیرستان میں ان مقامات کی نشاندہی کی گئی تھی جہاں پردہشتگردنہ صرف مقیم ہیں بلکہ پاکستان اورامریکاکی سیکورٹی فورسزپرحملے میں استعمال ہونے والے بارودی بم بھی تیارکئے جارہے ہیں ۔ لیون پنیٹانے پاکستانی انٹیلی جنس کے بعض افرادپرالقاعدہ یاطالبان سے تعلقات کی شکائت بھی کی ہے کہ جن مطلوبہ افرادکی ہم نے نشاندہی کی تھی وہ یہاں سے فرارکروادیئے گئے ہیںاوراپنے اس الزام کی تائیدمیں بڑے مستندسیٹلائٹ ثبوت فراہم کرتے ہوئے کہاکہ پاکستانی فورسزنے دوہفتے تاخیرسے وہاں پرکاروائی کی جبکہ۔پینٹاگون کی ایک اطلاع کے مطابق آئی ایس آئی کی اعلیٰ قیادت نے اس بات کااعتراف کیاہے کہ نچلی سطح کے کچھ افرادکی نگرانی جاری ہے جن کی ہمدردیاں جہادی گروپوں اورطالبان یاالقاعدہ کے ساتھ ہوسکتی ہیں۔ لیون پنیٹانے اپنی شکائت میں اپنے پرانے بیان کادفاع کرتے ہوئے کہاکہ اسی خدشے کی بناء پر ہم نے اسامہ کے خلاف یکطرفہ آپریشن میں پاکستان کی انٹیلی جنس کوبے خبررکھاتھا۔
پاک امریکاتعلقات جوبدستورتیزی کے ساتھ خراب ہوتے جارہے ہیں اورآئندہ دنوں میں ان کی بہتری کی کوئی امیدبھی نظرنہیں آتی۔گمان یہ ہے کہ لیون پنیٹااپنی ملاقات کی ناکامی پر امریکاکی طرف سے سخت اقدامات کی دہمکی دیتے ہوئے رخصت ہوئے ہیں اوریہ بھی عین ممکن ہے کہ انہوں نے اپنے آئندہ کسی اوریکطرفہ حملے کے سابقہ بیان کودہرایاہو جس کی بناء پرفوری طورپر ایوان صدرمیں صدرپاکستان آصف زرداری اوریوسف رضاگیلانی کے ساتھ ملٹری فورسزاورآرمڈفورسزکی قیادت کے ساتھ ایک اہم ملاقات ہوئی ہے جس کے بعدکسی تفصیلی بیان سے گریز کرتے ہوئے وزیراعظم کاایک لائن کابیان جاری ہوا ہے کہ امریکاکے ساتھ اسٹرٹیجک مذاکرات دوبارہ شروع کئے جائیں۔لگتایہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی اورعسکری قیادت نے یقینا آئندہ آنے والے دنوں کے گھمبیرحالات کا ادراک کرتے ہوئے کسی ٹھوس پالیسی پراتفاق کرتے ہوئے کوئی ایسا لائحہ عمل ضرورتیارکیاہوگالیکن کیاہی بہترہوتاکہ جمہوریت کی دعویدار حکومت اپنے اخلاص کامظاہرہ کرتے ہوئے پارلیمانی قراردادکے مطابق کمیشن کے نہ صرف قیام بلکہ اس کوفوری تحقیق کاحکم دیتے ہوئے قوم کااعتمادحاصل کرتے تاکہ اس مشکل گھڑی میں قوم سیاسی اورعسکری قیادت کی پشت پرکھڑی نظرآتی ۔
لیون پنیٹاکے د ورے کے بعد حامدکرزئی کاطیارہ ابھی ہوامیں رخصت ہی ہورہاتھاکہ ایک اورامریکی اعلیٰ عہدیددارتھامس آرنائیڈزکے استقبال کیلئے سرخ قالین بچھادیاگیا۔ آرنائیڈزکے استقبالیہ میں ہمارے وزیراعظم کے فدویانہ الفاط اورہمارے صدرزرداری کی یہ درخواست کہ’’باہمی احترام اورباہمی اعتماد،دونوں ممالک کیلئے باہمی طورپرفائدہ مند رہیں گے اورایڈکی جگہ ٹریڈکے ذریعے حاصل ہونے والامعیشی استحکام پاکستان کیلئے زیادہ دیرپااستحکام ثابت ہوسکتاہے‘‘ جس کے جواب میں امریکی مہمان نے بڑے ذومعنی اندازمیں جواب دیاکہ’’ بیشک علاقائی امن اوراستحکام کی خاطرپاکستان اورافغانستان کاسیاسی اورمعیشی استحکام یقینی بنانابہت ضروری ہے مگرتزویراتی تعلقات کے فائدے اور ثمرات مل جل کربھی اٹھائے اورکھائے جاسکتے ہیں‘‘۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ پاکستان نے فوری طورپردوبارہ چار اہم نکات پراسٹرٹیجک مذاکرات کی خواہش کااظہارکیاہے ۔
سیکورٹی مسائل تویقیناان اسٹرٹیجک مذاکرات کامحورہونگے لیکن یہ فیصلہ کیاگیاہے کہ پاکستان کے معاشی مسائل کوبھی ان مذاکرات کاایک اہم حصہ بنایاجائے، سب سے پہلے تربیلہ ڈیم ،پاکستان کے انرجی بحران کاخاتمہ،دوسرااندرون ملک سیکورٹی کی بہتری کیلئے اہم اقدامات،تیسرانکتہ امریکی ایڈاب جس کے بارے میں ملک کی سیاسی جماعتیں لینے سے انکارکامطالبہ کررہی ہیں ،پاکستانی افواج کے حالیہ کورکمانڈرزکے اعلامیہ میں امریکی امدادکی تفصیلات بھی سامنے آچکی ہیںکہ جتنابتایاگیاہے اس سے کہیں کم امدادپاکستانی فوج کوملی ہے اوراس کے مقابلے میں پاکستانی افواج کانقصان کہیں زیادہ ہواہے اورسیاسی حکومت بھی اپنے بیانات میں کہہ چکی ہے کہ امریکانے جس قدر امدادکے وعدے کئے تھے ان کوپورانہیں کیاگیا، نائن الیون کے بعدسے لیکراب تک پاکستان کومختلف مدوں میں صرف پندرہ ارب ڈالرکی رقم اداکی گئی ہے جبکہ ملک کااب تک ۶۸بلین ڈالر کانقصان ہوچکاہے ۔
پاکستان کوکیری لوگر بل کے تحت صرف ڈیڑھ ارب ڈالرسالانہ امداد جبکہ افغانستان کوسوارب ڈالرکی امدادفراہم کی جارہی ہے اس لئے اسٹرٹیجک مذاکرات میںتیسرے اوراہم مسئلہ میںامریکاسے ایڈکی بجائے ٹریڈ کی بات کی جائے گی۔اس لئے یہ طے کیاگیاہے کہ ٹریڈبڑھانے کیلئے امریکاسے ’’ٹریڈٹیرف‘‘کی رعائت ،امریکی مارکیٹ میں رسائی کی سہولت مانگی جائے تاکہ امدالینے کی رسوائی سے بھی بچ جائیں اورملک کی صنعتی ترقی کاپہیہ بھی دوبارہ چل سکے جوموجودہ سیاسی حکومت کی نااہل پالیسیوں،بڑھتی ہوئی کرپشن اور دہشتگردی کی بناء پرآخری سانس لے رہی ہے۔اقوام عالم میں ایڈ کی بجائے ٹریڈسے کھوئی ہوئی ملکی عزت کابھرم بھی رہ سکے اورمزیدامریکی مطالبات اوردباؤ میں کمی آسکے کیونکہ اگرایک دفعہ ٹریڈ ٹیرف اورامریکی مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات کی رسائی کے بارے میںامریکی قوانین بدل جاتے ہیں تو ملکی تجارت اورمعیشت کے استحکام کیلئے ایک طویل المدتی پالیسی سے امریکی تعلقات میں بہتری آسکتی ہے اوراسی طرح ملکی انرجی کے بڑے پراجیکٹس کی تکمیل میں امریکی امدادبھی پاکستانی عوام کوجب نظرآئے گی توپاکستانی عوام کے دلوں میں امریکی موجودہ پالیسیوں کے بارے میں جس نفرت نے جنم لے لیاہے اس میں بھی واضح کمی آجائے گی۔یادرہے کہ حالیہ کورکمانڈرزکے اعلامیہ میں بھی فوجی امدادکی بجائے ملکی معیشت کوبہتربنانے کامشورہ بھی اسی لئے دیاگیاہے۔وزیراعظم گیلانی کے جلدازجلدامریکاکے ساتھ اسٹرٹیجک مذاکرات شروع کرنے کاعندیہ اسی طرف اشارہ کرتاہے۔
پاکستان سراج حقانی گروپ،افغان طالبان کے رہنماملاعمر،کوئٹہ شوریٰ،ملانذیر اورگلبدین حکمت یار کومستقبل کیلئے اپنااثاثہ سمجھتاہے اورمستقبل میں افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلاء کے بعدافغانستان میں بڑھتے ہوئے بھارتی اثرورسوخ کوختم کرنے کیلئے ان کیلئے اہم کردارکاخواہاں ہے اورپاکستانی کی سلامتی کیلئے یہ اشدضروری بھی ہے۔زمینی حقائق تویہ ہیں کہ ملاعمرکاسارانیٹ ورک توتقریباًسارے افغانستان میں غیرملکی افواج کے ساتھ برسرپیکارہے،گلبدین حکمت یارگروپ مشرقی افغانستان میں غیرملکی جارحیت کامقابلہ کررہاہے اورسراج حقانی افغانستان کے جنوب مشرق میں غیرملکی افواج کامقابلہ کررہے ہیں لیکن امریکاان کوافغانستان میںاپنے لئے سب سے بڑاخطرہ اوردہشتگردسمجھتاہے اورپاکستان سے ان کے خلاف کاروائی کی توقع رکھتاہے ۔
امریکی افواج کے کمانڈرجنرل ڈیوڈپیٹریاس جواس سے پہلے عراق میں اپنے فوجی حکمت عملی کی کامیابیوں کی وجہ سے پینٹاگون کے منظورنظرہیںاور۲۰۰۷ء میں ان کوجنرل کے عہدے پرترقی دیکران کی خدمات کوبھی سراہاگیاہے ،اب ان کی تقرری افغانستان میں ایک چیلنج بن چکی ہے۔جنرل پیٹریاس جواس وقت ابتدائی پراسٹیٹ کینسرمیں بھی مبتلاہیں ان کی خواہش ہے کہ وہ پینٹاگون کی خواہشات پرپورااترتے ہوئے افغانستان میں امریکاکوشکست و ہزیمت سے بچاکرامریکی فوجی تاریخ میں اپنانام سنہری حروف سے لکھو اسکیں ، وہ بہت جلد واشنگٹن میںسی آئی اے کے نئے سربراہ کے طور اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے والے ہیں،ان کی ہمیشہ سے یہ پالیسی رہی کہ وہ طالبان پر جنگ کے ذریعے سخت دباؤ بھی جاری رکھیں اور انہیں ہرحال میں شکست دی جائے تاکہ طالبان کواپنی شرائظ پرمذاکرات کیلئے آمادہ کیاجاسکے۔
لیکن پاکستان اورطالبان نے اب تک امریکی دباؤ کامقابلہ کرتے ہوئے بالآخر جنرل پیٹریاس کوپالیسی تبدیل کرنے پرشائدمجبورکردیاہے اورامریکی صدراوبامہ جنہوں نے اپنی قوم سے جولائی میںافغانستان سے فوجی انخلاء کاوعدہ کیاہواتھا اب سخت مضطرب نظر آتے ہیںاس لئے قصرسفید اورپینٹاگون سخت دباؤمیں ہیں۔ایک طرف پینٹاگون اورجنرل پیٹریاس ہیں جوافغانستان کاحل اب بھی جنگ وجدل میں تلاش کرنے کامشورہ دے رہے ہیں اوردوسری طرف قصرسفید،امریکی انتظامیہ،ڈیموکریٹ پارٹی،کانگرس اورامریکی عوامی رائے عامہ افغانستان سے امریکی افواج کاجلدازجلدانخلاء چاہتے ہیںکیونکہ صدراوبامہ نے اپنے انتخابات میں یہ وعدہ کیاتھاکہ ۲۰۱۴ء تک امریکامکمل طورپرافغانستان سے نکل جائے گا۔قصرسفیداپنی قوم سے کئے گئے وعدے کی تکمیل کیلئے جلدازجلداس خطے میں اپنی مرضی کے نتائج دیکھنے کاخواہشمندہے اورآنے والے دنوں میںپاکستان پراپنے دباؤ کو مزیدبڑھاسکتاہے جبکہ افغان طالبان اب بھی امریکی دباؤ کابڑی پامردی کے ساتھ مقابلہ کررہے ہیں اورپاکستان کی عسکری قیادت بھی ایک سخت امتحان سے گزررہی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تین ماہ پہلے واشنگٹن میںافغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بارے میں ایک سروے ہواتھاجس میںنے افغانستان میں جنگ کی حمائت کی تھی لیکن اکثریت نے اس جنگ کی بھرپورمخالفت کرتے ہوئے افواج کے انخلاء کے حق میں ووٹ دیاتھالیکن اب اسامہ کے خلاف ایبٹ آبادمیں۲مئی کے کامیاب امریکی آپریشن کے بعدابھی حال ہی میں اے بی سی اورواشنگٹن پوسٹ کے ایک سروے کے مطابقرائے عامہ افغانستان میں جنگ جاری رکھنے کے حق میں ہے جس سے وقتی طورپرتواوبامہ کواپنے وعدے کی تکمیل میں کچھ عوامی رعائت حاصل ہوگئی ہے لیکن کیا امریکامزید جنگی اخراجات کامتحمل ہوسکتاہے؟ کیاخطرے کی گھنٹی بج گئی ہے ؟لیکن اب اس خطے میںفتح سے ہمکناروہی ہوگاجوآئندہ اس اعصابی جنگ میں ثابت قدم رہے گا۔