سمیع اللہ ملک
چیف آف سٹاف جنرل پرویزکیانی اورچیف جسٹس افتخارچوہدری نے کل وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کی جانب سے قوم کودہلا دینے والی اس خبرکے جواب میں کہ ان کی حکومت کے خلاف سازش ہورہی ہے ،ان کی حکومت کوسمیٹنے کی کوشش جاری ہے ،چوہدری افتخار نے آج یکسربیان دیاکہ وہ دورختم ہوگیاجب فوجی حکومتوں یافوجی انقلابات کوعدالتوں کی حمائت حاصل ہوتی تھی،اب اس قسم کاکوئی امکان نہیں ہے۔دوسری طرف جنرل اشفاق پرویزکیانی نے فوجیوں سے گفتگوکرتے ہوئے ایک غیرمعمولی بیان میں کہاکہ اس قسم کی کوئی بات نہیں اور ملک میں فوجی مداخلت کی اطلاع قطعاً غلط ہے۔فوج جمہوریت کی مکمل حمائت کرتی تھی،کرتی ہے اورکرتی رہے گی۔ جنرل پرویزکیانی نے یہ بھی یاددلایاکہ فوج ہرحال میں ملکی سرحدوں کی سلامتی اورقومی امورکی حفاظت کرتی رہے گی۔اپنے بیان میں جنرل نے زوردیتے ہوئے کہاکہ کسی بھی صورت میں ملکی سلامتی پرکوئی بھی سمجھوتہ نہیں کیاجائے گا ۔
پارلیمنٹ میں وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کی تقریر ،حکومت کی ان سرگوشیوں اور افواہوں کے حوالے سے کہ ان کی حکومت کوسمیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے ،جنرل پرویزکیانی اورچیف جسٹس افتخارچوہدری کے یہ بیانات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔پاکستان کے دواہم ترین اداروں نے وزیراعظم کے اس بیان کوسختی سے مستردکردیا۔پوری قوم اب وزیراعظم کی طرف سے دہلادینے والے بیان کے بعدمطالبہ کررہی ہے کہ حکومت ان بیانات کے بعدپراسرارخاموشی میں کیوں مبتلاہے۔وزیراعظم نے اپنی ایک گھنٹے کی دوتقاریر میں اس بات کاانکشاف کیاتھاکہ ان کی حکومت میں ریاست کے اندرایک اورریاست کام کررہی ہے مگرانہوں نے یہ نہیں بتایاکہ اپنی اس ناکامی کی صورت میں وہ کیاکررہے ہیں یا کیا کرنے والے ہیں۔
وزیراعظم نے اپنی تقریرمیں قوم کے سامنے اپنی پریشانی کاذکرکرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ ان کی حکومت میں دوسرے ادارے ان کی حکومت کے خلاف آزادانہ کام کررہے ہیں۔وزیراعظم نے یہ بھی کہاکہ انہوں نے فوج کی تنخواہوں میں اضافہ بھی کیالیکن اس کے باوجودوہ پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ نہیں ہے۔وزیراعظم کی یہ تقریر جہاں فوج کے خلاف ایک چارج شیٹ تھی وہاں ان کااعترافِ ناکامی بھی تھاکہ وہ ایک ایسی حکومت کے سربراہ ہیں جہاں ریاست کے اندرایک دوسری ریاست کام کررہی ہے،ادارے پارلیمنٹ یاان کے سامنے خودکوجوابدہ نہیں سمجھتے۔گویاوہ قوم کے سامنے اپنے پونے چارسالہ دورِ حکومت کی ناکامی کااعتراف کررہے تھے جوپہلی مرتبہ قوم کے سامنے آیاہے لیکن اس عرصے میں متعددبارایسے مواقع آئے جہاں انہیں اپنی ناکامی کااعتراف کرتے ہوئے شرمندگی کااظہاربھی کرناچاہئے تھاجیساکہ ان کے لیول کے دوسرے افرادبرملااظہارکرنے میں کوئی سبکی محسوس نہیں کرتے کیونکہ جمہوری حکومتیں عوام کے سامنے جوابدہ ہوتی ہیں اوراگران سے کوئی فاش غلطی ہوجائے تووہ قوم سے معافی مانگتے ہوئے مستعفی بھی ہوجاتے ہیں لیکن وزیراعظم کے دورحکومت میں ایسے تئیس(۲۳) مواقع آئے لیکن انہوں نے نہ تواظہارشرمندگی کیااورنہ ہی اپنی ناکامی کااعتراف کیاجیساکہ وہ کل پارلیمنٹ میں اپنی تقریرمیں کررہے تھے بلکہ جمہوریت کے منافی اپنے عہدے سے اب تک چمٹے ہوئے ہیں۔آئیے ان تئیس واقعات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرواتاہوں جہاں ان کواپنی ناکامی کااعتراف کرتے ہوئے شرمندگی کااظہارکرناچاہئے تھاجیساکہ جمہوریت میں ہوناچاہئے تھا۔
۱۔۲۶اکتوبر۲۰۱۱ء کوسول جج اسلام آبادہارون نے ۴۳کروڑروپے کے غبن کے مقدمے میں وزیراعظم کے میڈیاکوارڈینیٹرمیاں خرم رسول کواشتہاری مجرم قراردیدیا۔میاں خرم رسول کووزیراعظم نے اپنے ذاتی تعلقات کی بناء پراپنامیڈیاکوارڈینیٹر مقررکیاتھااوروزیراعظم سیکرٹریٹ میں باقاعدہ ایک دفترکے انچارج تھے۔میاں خرم رسول نے جن افرادکو کھلم کھلا اپنے فراڈکانشانہ بنایا،ان سے وزیراعظم نے خرم رسول کے معیت میں ملاقات کی۔اب یہ شخص مبینہ۶۰کروڑکے فراڈکے بعدمنظرسے غائب ہوچکاہے ۔وزیراعظم اب ان لوگوں کی خبرگیری سے بھی احترازبرت رہے ہیں جن کے ساتھ فراڈ ہواہے۔وزیراعظم نے نہ توابھی تک اس معاملے پرناکامی کااعتراف کیاہے اورنہ ہی کسی شرمندگی کا اظہار کیا ہے ۔
۲۔۱۵مارچ۲۰۱۱ء وفاقی وزیرمذہبی امورحامدسعیدکاظمی کوحج کرپشن اسکینڈل میں ملوث ہونے پرراولپنڈی کی مقامی عدالت کے احاطے سے گرفتارکرلیاگیا۔اس سکینڈل میں وزیراعظم کے بڑے بیٹے کانام بھی سنائی دیاگیالیکن ابھی تک اس مقدمے کوتاخیری حربوں سے ختم کرنے کی سازشیں جاری ہیں۔وزیراعظم نے ابھی تک اس معاملے پربھی کسی شرمندگی کااظہارنہیں کیاکہ ان کی کابینہ کے اہم رکن نے پاکستانیوں حاجیوں کے ساتھ حرمین شریفین میں کیسا شرمناک سلوک کیاہے ۔
۳۔۲۶اکتوبر۲۰۱۱ء کووفاقی وزیرہاؤسنگ مخدوم فیصل حیات رینٹل پاورکیس میں حکومت کے خلاف دلائل دینے کیلئے سپریم کورٹ میں پیش ہوئے ۔اس غیرمعمولی واقعے پروزیراعظم کویہ بتاناچاہئے تھاکہ اس کے پیچھے کون سی سازش کارفرماتھی ؟کیااس وقت بھی کوئی ریاست کے اندرریاست چلارہاتھا؟ کیاکسی حکومتی ادارے نے اس وزیر کو مجبور کیا تھا کہ پاکستان کے سب سے بڑے کرپشن کے مقدمے میں حکومت کے خلاف گواہ بن جائے؟وزیراعظم آج تک اس معاملے پرکیوں خاموش ہیں؟
۴۔۲۳فروری ۲۰۱۰ء کوایسا ہی ایک اورغیرمعمولی واقعہ ہوا۔ان کی کابینہ کے انتہائی اہم رکن شوکت ترین نے اپنے عہدے سے استعفٰی دیدیا۔وزیراعظم کوپتہ ہوناچاہئے تھاکہ ان کے وزیرخزانہ نے حکومت کی سنگین بدعنوانیوں اورکرپشن میں ملوث اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی وجہ سے اپنے عہدے سے استعفٰی دیا۔رینٹل پاورکے سودے کاآڈٹ جب ایشین ڈیویلپمنٹ بینک نے کیاتواس نے بھی اس کوسراسرخسارے کاپراجیکٹ بتایاگویاانہوں نے بھی شوکت ترین کی رائے سے اتفاق کیالیکن وزیراعظم نے اس کوسیاست کی نظرکرتے ہوئے اپنے چندساتھیوں کونوازدیا۔کیا یہ استعفٰی بھی کسی ادارے کے اشارے پردیاگیا ؟اس وقت وزیراعظم نے کیوں خاموشی اختیارکرلی تھی؟
۵۔۲جون ۲۰۱۰ء کو گورنرسٹیٹ بینک سلیم رضانے بھی اس کرپشن کے سامنے ہتھیارڈالتے ہوئے استعفٰی دیدیاجوفوری منظورکرلیاگیا۔کسی بھی جمہوری حکومت کیلئے یہ بہت بڑادھچکا ہے کہ ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حفاظت کرنے والاعہدہ دارچندمہینوں میں بی بسی کااظہارکرتے ہوئے رخصت ہوجائے مگروزیراعظم اتنے بڑے واقعے پربھی خاموش رہے اوراس طرح نہیں گرجے اوبرسے جس طرح پارلیمنٹ میں ریاست کے اندرریاست چلانے کے الزام پرچیخ رہے تھے۔کیایہ استعفٰی بھی کسی کے کہنے پردیاگیا؟
۶۔۱۳جولائی ۲۰۱۱ء کوسلیم رضاکی جگہ آنے والے نئے گورنرسٹیٹ بینک شاہدکاردارنے بھی حکومت کی من مانیوں اور انہی وجوہات کی بناء پراستعفٰی دیدیاجس کی وجہ سے سلیم رضانے اس عہدے کوخیربادکہا تھالیکن وزیراعظم نے نہ توکسی شرمندگی کااظہارکیااورنہ ہی کسی ناکامی کااعتراف کیا۔کیاشاہدکاردارنے بھی کسی کے کہنے پر مستعفی ہوئے تھے؟
۷۔ اگروزیراعظم کوکسی ناکامی یاکسی ندامت کااظہارکرناہوتاتووہ ۱۶ستمبر۲۰۱۰ء کوضرورکرتے جب سپریم کورٹ کی مداخلت پران کو میٹرک پاس عدنان خواجہ کی پاکستان کی سب سے بڑی تیل اورگیس کمپنی کے بطورایم ڈی اوجی ڈی کی تعیناتی کانوٹیفکیشن واپس لیناپڑا۔جمہوری روایات کومدنظررکھتے ہوئے وزیراعظم اس کی ذمہ داری قبول کرتے اورقوم کے سامنے ندامت کااظہارکرتے ہوئے مستعفی ہوجاتے لیکن انہوں نے خاموشی میں عافیت جانی۔
۸۔وزیراعظم ۶ستمبر۲۰۰۹ء کوبھی نہیں گرجے جب اتوارکی تعطیل کے روزڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ کے تبادلے کانوٹیفکیشن جاری کیااورانہیں فوری عہدہ چھوڑنے کاحکم دیا ۔ طارق کھوسہ کاقصوریہ تھاکہ وہ ملک کے سب سے بڑے اثاثے کراچی استیل مل کی تباہی کے ذمہ داروں کوعدالتی کٹہرے میں لانے کی کوشش کررہے تھے جوکہ وزیراعظم کوگوارہ نہ تھا ۔کسی ایماندارافسرکی چھٹی کے دن چھٹی کروانے کی سازش بھی ریاست کے اندرریاست قائم کرنے والوں نے کی تھی؟اس کے جواب کا بھی قوم کوانتظارہے۔
۹۔۴ستمبر۲۰۰۹ء کووزیراعظم گیلانی نے ۵۴/افسران بشمول ۱۲وفاقی سیکریٹریزکوخلاف قانون گریڈبائیس میں ترقی دے دی جس کاسپریم کورٹ نے فوری طورپرنوٹس لیااوردریافت کیا کہ آخرکیوں میرٹ کے خلاف ان افسران کوترقی دی گئی ؟وزیراعظم کواس نوٹیفکیشن کوبھی واپس لیناپڑالیکن انہوں نے اس پربھی کسی شرمندگی کااظہارنہیں کیااورحسبِ معمول اس پربھی خاموشی اختیارکرلی گئی۔کیاوزیراعظم کواس غلط اورخلافِ قانون کام کیلئے بھی کسی ادارے کادباؤ تھاجوریاست کے اندرریاست چلارہے ہیں؟
۱۰۔اگرانہیں کسی بے بسی یاندامت کااظہارکرناتھاتوانہیں ۱۹مئی ۲۰۱۱ء کوکرناچاہئے تھاجب ایف آئی اے نے انکشاف کیاکہ وفاقی وزیرتجارت مخدوم امین فہیم نیشنل انشورنس کرپشن میں براہِ راست ملوث ہیں۔وزیراعظم کے دائیں ہاتھ بیٹھنے والا کابینہ کابڑاہی معتبروفاقی وزیران کی اپنی ہی حکومت میں کرپشن کے الزام جس پرثابت ہوگئے ہیں اورسپریم کورٹ کے حکم پرلوٹی ہوئی ملکی دولت واپس کرنے والاوزیرآج بھی اسی وزارت کے مزے لوٹ رہاہے لیکن وزیرتجارت کے ساتھ ساتھ وزیراعظم نے اس پر بھی کبھی ندامت کااظہارنہیں کیااورنہ ہی انہیں اس وقت ریاست کے اندرکوئی اورریاست نظرآئی۔
۱۱۔ ۲مئی ۲۰۱۱ء کووزیراعظم کوتومستعفی ہوہی جاناچاہئے تھاجب پرویزمشرف کی کابینہ کے اہم ساتھی پرویزالہی،مخدوم فیصل حیات،امیرمقام اورغوث مہرسمیت۷وزرائے مملکت نے حلف اٹھایا۔وزیراعظم توخاموش رہے لیکن انہی کے کابینہ کے ایک اہم وزیربرائے بین الصوبائی رابطے اورپیپلزپارٹی کے انتہائی باضمیر، ممتاز اور سنئیر رکن میاں رضاربانی نے اسی دن احتجاجً اپنے عہدے سے استعفٰی دیدیاکیونکہ ان کی جماعت توان کوقاتل لیگ کے نام سے پکارتی تھی جبکہ پرویزالٰہی اپنی کئی تقاریرمیں زرداری اوربے نظیربھٹو پرملک دشمن جیسے الزام بھی لگاچکے ہیں لیکن اب انہی کے سہارے اپنی حکومت چلانے کیلئے تمام اخلاقی اصولوں کوبالائے طاق رکھ دیاگیا۔کیایہ معرکہ آرائی بھی اسی کاشاخسانہ ہے جوریاست کے اندرریاست چلارہے ہیں۔
۱۲۔وزیراعظم گیلانی تواس وقت بھی خاموش رہے جب ۲۴اکتوبر۲۰۱۱ء کوکنڈیاروسے تعلق رکھنے والے ایک غریب شخص راجہ خان رندنے بے روزگاری سے تنگ آکراسلام آبادمیں وزیراعظم کی رہائش گاہ کے قریب خودسوزی کرکے موت کوگلے لگالیالیکن اس وقت بھی وزیراعظم نے یہ نہیں کہاکہ اتنے دور سے آئے ہوئے غریب شخص نے کسی ادارے کے اشارے پرخودکوموت کے حوالے کردیا۔
۱۳۔۲۶اکتوبر۲۰۱۱ء کواسی قسم کاایک اورواقعہ لاہورمیں رونماہواجب ریلوے پنشنرمحمودخان رات بھرقطارمیں کھڑے ہونے کی وجہ سے ایڑیاں رگڑتے ہوئے دم توڑگیا۔قوم کیلئے یہ ایک اوردل دہلادینے والاواقعہ تھالیکن نہ تووزیراعظم ہاؤس کے اخراجات میں کوئی کمی آئی اورنہ ہی وزیراعظم نے اس کاکوئی نوٹس لیا۔کیاریاست کے اندرریاست چلانے والے اس واقعے کے ذمہ دارہیں یاپھرجمہوری حکومت؟اس کاجواب بھی تاحال نہیں مل سکا۔
۱۴۔ یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ ۱۱فروری ۲۰۱۱ء کووزیراعظم نے راجہ پرویزاشرف کووزیربجلی وپانی کے عہدے سے ہٹادیاکیونکہ انہوں نے قوم سے وعدہ کیاتھاکہ دسمبر۲۰۰۹ء میں ملک سے لوڈ شیڈنگ کاخاتمہ کردیاجائے گااوروہ اس وعدے کوپورانہ کرسکے۔اس ناکامی کی ذمہ داری خودوزیراعظم پربھی عائد ہوتی ہے لیکن انہوں نے اس وعدہ خلافی پرنہ توخودکو قوم کے سامنے جوابدہ سمجھااورنہ ہی ندامت کااظہارکیا۔کیااس ناکامی کوبھی ریاست کے اندرریاست چلانے والوں کے کھاتے ہیں ڈال دیں؟
۱۵۔وزیراعظم گیلانی قوم کویہ بھی بتائیں کہ۲۸نومبر۲۰۰۸ء کوآخرکیوں انہوں نے یکطرفہ فیصلہ کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم من موہن کے مطالبے پرآئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احمدشجاع پاشاکوممبئی حملوں کی تحقیقات کیلئے بھارت بھیجنے کااعلان کیالیکن بعدمیں اپنی غلطی کااحساس کرتے ہوئے اس اعلان کوواپس لیناپڑا۔وزیراعظم کویہ بتاناچاہئے کیایہ ناٹک بھی ریاست کے اندرریاست چلانے والوں نے ترتیب دیاتھا؟
۱۶۔۱۶نومبر۲۰۱۱ء کوسابق وفاقی وزیرمذہبی امورحامدسعیدکاظمی نے انکشاف کیاکہ حج کرپشن کے مرکزی کردارراؤشکیل نے وزیراعظم گیلانی کے صاحبزادے عبدالقادرگیلانی کو ۹۹ لاکھ روپے کی گاڑی بھیجی تھی۔کیاوزیراعظم اس مقدمے کی شفاف تحقیقات کروانے کاحکم دیں گے یاپھراس کوبھی ریاست کے اندرریاست چلانے والوں کی کارستانی سمجھیں۔
۱۷۔وزیراعظم کویہ بتاناہوگاکہ۲۷دسمبر ۲۰۰۷ء کو بے نظیرکاقتل ریاست کے اندرریاست چلانے والوں کی کاروائی تھی یاپھر۱۵/اپریل ۲۰۱۰ء کی اقوام متحدہ کمیشن کی رپورٹ پر یقین کرناہوگاکہ ”بے نظیربھٹوکے قتل کیس کی مئوثرتحقیقات نہ مشرف حکومت نے کی اورنہ ہی پی پی پی کی حکومت نے کوئی سنجیدہ کوشش کی۔اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے یہ بھی کہاکہ پی پی پی کی جانب سے اضافی سیکورٹی انتظامات کاکوئی ذمہ دارنہیں تھا،یہ انتظامات کافی نہیں تھے اوربہت ہی برے اندازمیں کئے گئے تھے۔کمیشن نے بھی اس بات پر حیرانگی کااظہارکیاکہ اس جمہوری حکومت نے ابھی تک اپنی لیڈرجس کے قتل کی بدولت انہیں یہ اقتدارملا،کیوں ابھی تک ان افرادکے خلاف کاروائی نہیں کی جارہی جنہوں نے اس فعل کاارتکاب کیا،اب یہ ذمہ داری پاکستانی حکام پرہے۔پاکستان پرلازم ہے کہ وہ ایک سنجیدہ اورقابل اعتبارتفتیشی عمل شروع کرے“۔اقوام متحدہ کے کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ پر عملدرآمدسے وزیراعظم کوآکرکون روک رہاہے؟
۱۸۔وزیراعظم گیلانی کویہ بھی بتاناہوگاکہ کیایہ بھی ریاست کے اندرریاست چلانے والوں کی کاروائی تھی کہ انہوں نے اپنے پہلے امریکی دورے سے چندگھنٹے قبل ۲۶جولائی ۲۰۰۸ء کو آئی ایس آئی کورحمان ملک کے ماتحت کرنے کانوٹیفکیشن جاری کردیاجس میں انہوں نے حکم دیاکہ آئی ایس آئی کاتمام فنانشل اورآپریشنل کنٹرول وزیرداخلہ رحمان ملک کے حوالے کردیاجائے اورکیاوجہ تھی کہ اپنے اس حکم نامے کودوگھنٹوں میں واپس لینے میں مجبورہوگئے۔کیاانہوں نے قوم کواپنی اس بے بسی کے متعلق آگاہ کیایااپنے اس غلط فیصلے پرکسی ندامت کااظہارکیا؟
۱۹۔وزیراعظم گیلانی کواس بات کی ذمہ داری اٹھانی چاہئے کہ ان کے دورحکومت میں ملک کی شناخت پی آئی اے کاخسارہ(۲۰۰۸ء تا۲۰۱۱ء)۹۷/ارب روپے اوراس کے واجب الاداقرضے۵۳/ارب تک جاپہنچے ہیں اوراس طرح پی آئی اے دیوالیہ ہوچکی ہے۔وزیراعظم گیلانی یہ بھی بتائیں کہ پی آئی اے کواس حال میں پہنچانے میں کیاریاست کے اندرریاست چلانے والوں کاہاتھ ہے یاموجودہ جمہوری حکومت کی غلط پلاننگ جہاں انہوں نے ہزاروں افرادکونہ صرف اپنے سیاسی مفاد کی غرض سے دوبارہ نوکریوں پر بحال کیابلکہ پچھلے نوبرسوں کے واجبات بھی قومی خزانے سے اداکئے۔پاکستان ریلوے کاخسارہ ۶۲/ارب روپے ہے اوراس کاواجب الاداقرضہ ۴۰/ارب روپے ہوگیاہے اورپاکستان اسٹیل مل کاخسارہ ۵۰/ارب روپے اوراس کاواجب الادا قرضہ۱۱۰/ارب روپے تک جاپہنچاہے۔یادرہے کہ ملک کے چاروں کونوں کوآپس میں ملانے کابہترین ذریعہ صرف ریلوے ہی ہے لیکن اب اس کوایک خاص سازش کے تحت اس لئے تباہ وبربادکیاجارہاہے کہ اس کی آڑمیں بھاری کمیشن کی وصولی اوراپنے ٹرانسپورٹ کے کاروبار کو ترقی دینامقصود ہے۔ وزیراعظم گیلانی جس جمہوریت کاراگ الاپ رہے ہیں اس کاکم ازکم تقاضہ یہ ہے کہ اسمبلی میںآ کرپارلیمنٹ کوان اداروں کے خسارے کی وجوہات کے بارے میں ضروربتائیں اورقومی دولت کے ضیاع کوروکنے کیلئے اپنی حکومت کے ان اقدام کے متعلق قوم کوآگاہ کریں لیکن افسوس صد افسوس،وزیراعظم گیلانی نے ابھی تک ایسا نہ توکوئی پروگرام وضع کیاہے اورنہ ہی یہ بتایاالبتہ مزارقائدپرمیڈیاکویہ بتایاہے کہ اب انہوں نے ایک ٹاسک فورس کمیٹی کویہ کام سونپاہے کہ ان تمام اداروں کے ڈوبنے کی وجوہات کاپتہ چلائیں۔ کیایہ کاروائی بھی ریاست کے اندرریاست چلانے والوں کی ہے؟
۲۰۔وزیراعظم گیلانی کی یہ جمہوری ذمہ داری ہے کہ آج سے چنددن قبل ۱۹دسمبر۲۰۱۱ء کوسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی سالانہ معاشی رپورٹ میں کہاہے کہ معاشی ترقی ۵․۴ فیصد ہدف کی بجائے صرف۴․۲فیصدرہی ہے۔پچھلے مالی سال میں سرمایہ کاری کی شرح ۴․۱۳فیصدرہی جو۱۹۷۳ء کے بعدسب سے کم ترین شرح ہے۔ڈالرکے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدرنچلی ترین سطح یعنی۹۰روپے سے اوپر کی سطح پرپہنچ چکاہے۔یادرہے کہ آج سے تین سال پہلے ڈالر کی قدر۶۲روپے تھے اوراس طرح پاکستان پرواجب الاداقرضوں پر غلط پالیسیوں کی بناء پر مزید۲۰۱۰/ارب روپے کابوجھ بڑھ گیاہے۔وزیراعظم گیلانی کویہ بتاناہوگاکہ ملکی معیشت کیوں تباہی کے کنارے سسک رہی ہے اوروہ کون سے عوامل ہیں جنہوں نے ملک کوسنگین تباہی کے کنارے لاکھڑاکیاہے؟حکومت نے پچھلے مالی سال میں ۱․۱کھرب روپے کے قرضے لئے،اندرونی قرضوں کاحجم ۲․۵کھرب روپے پہنچ چکاہے۔پاکستان پرغیرملکی قرضوں کاحجم ۶۷/ارب ڈالرتک پہنچ چکاہے ۔کیایہ بھی ریاست کے اندرریاست چلانے والوں کاکیادھراہے؟ ۔
۲۱۔وزیراعظم کویہ بھی بتاناہوگاکہ ۲۵مارچ ۲۰۰۸ء سے ۳۱اگست۲۰۱۱ء تک یعنی ساڑھے تین سالوں کے دوران پی پی پی حکومت نے عالمی مالیاتی اداروں اوردیگرڈونرزسے ریکارڈ ۱۵/ارب ڈالرکے قرضے حاصل کئے اوریہ بھی انہیں بتاناہوگاکہ کیوں انہوں نے۱۷ستمبر۲۰۱۱ء کوپاکستانی قوم کویہ تاثر دیاکہ وہ جنرل جیمزکے حلف نامے کودرست اوراپنی افواج کے سپہ سلارجنرل کیانی اورآئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشاکے بیانات کوغلط سمجھتے ہیں۔میموکے بارے میں اس شرمناک فیصلے کے پیچھے بھی کیاریاست کے اندرریاست چلانے والوں کاہاتھ ہے؟
۲۲۔وزیراعظم کوچاہئے تھاکہ وہ ۲۲دسمبر۲۰۱۱ء کوریاست کے اندرریاست چلانے کے حوالے سے قوم کویہ بتاتے کہ وہ کسی بھی ایسی کوشش کی اجازت نہیں دیتے۔فوج سمیت تمام ادارے پارلیمان کوجوابدہ ہیں اورکوئی بھی اس سے بالاترنہیں۔اس سلسلے میں انہوں نے کیاکاروائی کی کہ تمام ملکی ادارے آئین کے مطابق ان کے سامنے جوابدہ ہوں۔
۲۳۔قوم کووزیراعظم کا۱۶مارچ ۲۰۰۹ء کی صبح سات بجے کاہنگامی خطاب اچھی طرح یاد ہے جب انہوں نے عدلیہ کے ججوں کوبحال کرنے کاساراکریڈٹ لیتے ہوئے اسلام آبادکی طرف بڑھتے ہوئے لانگ مارچ کوختم کرنے کی اپیل کی حالانکہ قوم اس بات سے آگاہ ہے کہ علی الصبح چیف آف آرمی سٹاف جنرل کیانی کی کوششوں کے بعدعدلیہ کوبحال کیاگیاجس کی تصدیق بعدازاں ان کی اپنی ہی پارٹی کے اہم رکن اور وکلاء تحریک کے ہراول دستے کے رہنمااعتزاز احسن اورنے ۶اکتوبر۲۰۰۹ء کو میڈیاپرآکرانکشاف کیا کہ انہیں جنرل کیانی کاٹیلیفون موصول ہواکہ وزیراعظم تھوڑی دیرکے بعدٹی وی پرججوں کی بحالی کااعلان کردیں گے گویاججوں کی بحالی کاسہراجنرل کیانی کے سرہے جنہوں نے بروقت وزیراعظم کواس فیصلے کی تائیدکیلئے کہا۔آج وہ سینہ ٹھونک کرکس طرح کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے ججوں کوبحال کیاحالانکہ ان کی حکومت نے اب تک عدلیہ کے تمام فیصلوں کااحترام کرنے سے گریزکیابلکہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ پران کاوزیرقانون بابراعوان جس طرح برس رہاہے اس سے توقوم کاسرشرم سے جھک گیاہے۔
۲۵دسمبر۲۰۱۱ء کومزارقائداعظم پروزیراعظم گیلانی کامیڈیاسے خطاب بھی یہ چغلی کھارہاتھاکہ ان کااقوال ان کے افعال کی قطعاً تائیدنہیں کررہے ۔اب ان کیلئے ایک ہی راستہ باقی رہ گیاہے کہ وہ پارلیمنٹ میں آکریاتوشرمندگی کااظہارکرتے ہوئے اپنی ناکامی کااعتراف کریں یاپھرثابت کریں کہ ریاست کے اندرریاست چلانے والے ان سے زیادہ مضبوط ہیں۔
ہے ترش رومیری باتوں سے صاحب منبر
خطیب شہرہے برہم میرے سوالوں سے