سمیع اللہ ملک
ایبٹ آبادمیں یکطرفہ امریکی آپریشن نے پاکستان کوعالمی کٹہرے میں لاکھڑاکیاہے ۔کسی طرف سے یہ آوازآتی ہے کہ پاکستان ایک ناقابل اعتبار ہے اورکوئی اب بھی یہ کہہ رہاہے کہ افغانستان کے مسئلے کی جڑپاکستان میں ہے۔عسکری اورسیاسی قیادت نے مشترکہ پارلیمنٹ کی قراردادکے ذریعے ان آوازوں کاگلہ دبانے کی ناکام کوشش توکی ہے لیکن ایک طرف تو امریکی کانگرس کے ممبران امریکی امدادبرائے پاکستان پرنظر ثانی کے خطوط لکھ رہے ہیں تودوسری طرف ابھی تک قراردادپرمکمل عملدرآمدبھی نہیں ہورہا۔تعجب کی بات یہ ہے کہ ۲مئی کے بعدامریکی حکمرانوں کے متعددپاکستانی دورے ہوئے لیکن ہمارے حکمرانوں نے قوم کواعتمادمیں لینے کی ضرورت قطعاً محسوس نہیں کی۔کہنے والے تویہ بھی کہتے ہیں شائدقوم سے خطاب اب اعلیٰ عسکری قیادت کی مدت ملازمت میں توسیع اوراعلیٰ عدلیہ کی بحالی کے اعلانات کیلئے مخصوص ہوکررہ گئے ہیں۔
سوال تویہ ہے کہ سینیٹرجان کیری کی یاتراکے بعدسیکرٹری خارجہ ہلیری کلنٹن اورامریکی افواج کے سربراہ مائیک مولن کے مشترکہ دورے میں کیاپاکستان کو”کلین چٹ“دیدی گئی ہے؟ پاکستان سے کئے جانے والے نئے مطالبات آخرہیں کیاْاورسوال تویہ بھی ہے کہ کیاکوئی ایسا معاہدہ ہواہے کہ جس میں مستقبل میں ہونے والے آپریشن مشترکہ طورپرکرنے کافیصلہ ہواہو؟اوردیکھناتویہ بھی ہے کہ کیاامریکاکی طرف سے دی جانے والی چاردہشتگردوں کی فہرست کامطلب یہ ہے کہ یہ انتہائی مطلوب افرادبھی پاکستان میں موجودہیں اوروہ لوگ کیاکہیں گے کہ جن کاکہناہے کہ پاکستان میں دہشتگردی خطے میں امریکی موجودگی کاردعمل ہے؟کیونکہ تحریک طالبان پاکستان نے تواعلان کردیاہے کہ امریکاکے اس خطے سے واپسی کے بعدبھی یہ جنگ جاری رہے گی تاکہ اپنی مرضی کانظام پاکستان میں نافذکیاجاسکے۔پاکستانی طالبان کایہ بھی کہناہے کہ وہ پاکستانی ایٹم بم کے خلاف نہیں بلکہ اس کی تو حفاظت کی جائے گی کیونکہ یہ تومسلمانوں کی مانت اورعالم اسلام کااثاثہ ہیں اوران سے مسلمانوں کی حفاظت کاکام لیاجائے گا۔
اس ساری صورتحال نے پاکستانی قوم کے سامنے ایک سوال لاکھڑاکیاہے کہ ہمارااصل دشمن کون ہے؟امریکایادہشتگردوں کایہ ٹولہ؟ اوراب جوہماری اطلاعات شمالی وزیرستان میں حملے کی خبردے رہیں ہیں تودیکھنایہ ہے کہ اس آپریشن میں تحریک طالبان پاکستان کونشانہ بنایاجائے گایاپھرحقانی نیٹ ورک بھی اس حملے کی زدمیں آئے گا؟ہماری حکومت کی مکمل خاموشی سے ان افواہوں کوتقویت مل رہی ہے کہ ضروردال میں کچھ کالاہے۔پہلے دستورتویہ تھاکہ امریکی اعلیٰ عہدیددارسے ملاقاتوں کے بعدمشترکہ پریس کانفرنس ہوتی تھی جہاں دونوں ممالک کے ذمہ داروں سے میڈیاسوالات کرکے تفصیلات شائع کرکے دنیاکوآگاہ کرتاتھالیکن اب امریکی ہمارے عسکری اورسیاسی قیادت سے الگ الگ یامشترکہ ملاقاتیں کرنے کے بعدمیڈیاکے کچھ خصوصی افرادکویاتوامریکی سفارت خانے میں اپنی مرضی کی بریفنگ دیتے ہیں یاپھرجان کیری کی طرح میڈیاکواطلاعات فراہم کرنے سے قبل ہی مزیدسوالات کرنے سے منع کردیاجاتاہے اوراگر ضرورت محسوس کریں توایک ایسی کھلی پریس کانفرنس کاانعقادبھی کیاجاتاہے جہاں پاکستانی حکومت کاکوئی فرد نہیں ہوتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فریقین کی ملاقاتوں میں ایک دوسرے کے سامنے بہت سے تحفظات پربات ہوئی ہوگی اورامریکانے ان بدلتے حالات میں یقینا کچھ نئے مطالبات پاکستان کے سامنے رکھے ہیں اورہماری حکومت نے دہشتگردی کی جنگ میں پاکستانی قوم کی امریکامخالف امنگوں کے باوجودمکمل حمائت کایقین دلاتے ہوئے اپنے ان مسائل کاذکر کرتے ہوئے حسبِ معمول مزیدامدادکاتقاضہ کیاہوگا ۔وارآن ٹیررمیں(Military Collation Support Fund)دہشتگردوں کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں کاذکرکرتے ہوئے ان مذکورہ اخراجات کے ادا نہ ہونے والے بلوں کاتذکرہ کیاہوگا ، ڈرون حملوں پرمشترکہ پارلیمنٹ کی قراردادکاتذکرہ کیاہوگاجس پرحسبِ معمول امریکی عہدیداروں نے کسی ردعمل کااظہارکئے بغیراپنے نئے مطالبات کی فہرست تھمادی ہوگی۔
البتہ اس دفعہ امریکیوں نے ایک کھلا اشارہ دیاہے کہ پاکستان کوان مشکل حالات سے نکالنے کیلئے ہم یہ رعائتی بیان دینے کوتیارہیں کہ پاکستان کی اعلیٰ عسکری اورسیاسی قیادت کواسامہ کی موجودگی کاعلم نہیں تھااوریہ امریکی حکومت کی طرف سے پاکستان کی حمائت میں بہت بڑاقدم سمجھاجائے کیونکہ کل کلاں تحقیقات کے بعدیہ پتہ چل جاتاہے کہ پاکستان ڈبل گیم کھیل رہاتھاتوپھرامریکی حکومت کیلئے بڑی شرمندگی اورآئندہ امریکی الیکشن میں بہت بڑاسوالیہ نشان بن جائے گامگرموجودہ امریکی حکومت ساری دنیاکویہ کہنے کا رسک لینے کوتیارہے تاکہ پاکستان عالمی برادری کے سامنے اس الزام سے بری ہوسکے اوردوسری بات یہ کہ امریکی عدالت میں چلنے والے ممبئی دہماکے کے مقدمے میں جہاں سلطانی گواہ ڈیوڈہیڈلی نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا،حافظ سعیدصاحب اورلشکرطیبہ کے بارے میں جن انکشافات کاذکرکیاہے اس کوبھی اہمیت نہیں دیں گے چاہے امریکی میڈیاکتناہی شورکیوں نہ مچائے اورتیسری بات یہ ہے کہ آپ کو وزیرستان میں فوجی آپریشن کرناپڑے گااوراس کی تفصیلات باہمی مشورے سے طے کی جاسکتی ہیں۔پاکستان کو اس آپریشن میں جن مجبوریوں اورمشکلات کاسامناہے اس کیلئے امریکامددکیلئے تیارہے۔چوتھی بات یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کو چار مطلوب افرادکی فہرست دی ہے کہ ان کو پکڑ کر امریکاکے حوالے کیاجائے یاپھراسامہ کی طرح ان کاخاتمہ کر دیاجائے۔
ان میں سے ایک حرکت الجہاداسلامی کارہنما الیاس کشمیری جوپاکستان میں درجن سے زائددہشتگردحملوں میں ملوث ہے،۲۰۰۶ء میں کراچی میں امریکی قونصل خانے کے علاوہ جی ایچ کیو،نیوی کی بسوں اورمہران نیول بیس پر حملوں کاماسٹرمائنڈہے جوپہلے لشکرطیبہ کاحصہ تھا بعدمیں پاکستانی طالبان سے ہوتا ہواالقاعدہ میں شامل ہو گیا ،فرانسیسی خبررساں ادارے کے مطابق امریکانے اس کے سر کی قیمت پچاس لاکھ ڈالرمقررکررکھی ہے اوراب شنیدیہ ہے کہ ۴جون جمعہ اورہفتہ کی درمیانی شب کوجنوبی وزیرستان کے وانابازارسے تقریباًبیس کلومیٹردورجنوب مشرق کی جانب غواخواہ کے علاقے لمن میں ایک ڈرون حملہ میں اس کونشانہ بنایاگیاجہاں وہ اپنے دیگرنوساتھیوں سمیت ایک سیب کے باغ میں چائے پیتاہواماراگیاہے اوراب دیگرتین افرادمصری نژادایمن الظواہری جواسامہ کے دست راست سمجھے جاتے ہیں اوراب القاعدہ کی قیادت ان کے ہاتھ میں جانے کی توقع ہے، عطیہ عبدالرحمان جولیبیاکاشہری ہے اوراس وقت پاکستان اورافغانستان میں القاعدہ کاسربراہ ہے اورچوتھامطلوب نام جلال الدین حقانی کے بیٹے سراج حقانی ہیں جن کاتعلق افغان طالبان سے ہے)کی فہرست دی ہے کہ ان کو پکڑ کر امریکاکے حوالے کیاجائے یاپھراسامہ کی طرح ان کاخاتمہ کر دیاجائے۔یہ بات بہت اہم ہے کہ ملاعمرکانام اس فہرست میں کیوں نہیں جبکہ سراج حقانی کانام اس میں موجود ہے۔
یاد رہے کہ ملاعمرکافی عرصہ پہلے القاعدہ سے الگ ہوچکے ہیں جبکہ سراج حقانی اپنے گروپ کے ساتھ افغانستان کے ایک خاص علاقے میں امریکیوں کونہ صرف شدیدنقصان پہنچارہاہے بلکہ مستقل سردردبناہواہے۔برطانوی اخبار”دی گارڈین“نے جمعہ کے اپنے شمارے میں سرورق کی خبرمیں دعویٰ کیاہے کہ امریکااوربرطانیہ اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان سے تعلق رکھنے والی اٹھارہ شخصیات پرعائدکی گئی پابندیاں اٹھائے جانے کیلئے دباوٴ ڈال رہے ہیں اوریہ افغان جنگ کاطالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کرنے کیلئے کی جانے والی درپردہ کوششوں کاواضح اشارہ ہے اور امریکا کو اس بات کاعلم ہے کہ ملاعمراورکوئٹہ شوریٰ کیساتھ پاکستان کے مفادات وابستہ ہیں اورافغانستان سے نکلنے کیلئے ان سے پاکستان کے ذریعے بات چیت ہوسکتی ہے اس لئے فی الحال ملاعمرکیلئے پاکستان پردباوٴڈالنے سے گریزکرناچاہئے۔اس لئے ملاعمرکے بارے میں امریکانے پاکستان کوایک رعائت دیتے ہوئے یہ پالیسی اختیارکی ہے اورایک طویل عرصے کے بعد افغان طالبان کے رہنماملاعمر کے بارے امریکاکے رویے میں یہ خاص تبدیلی پاکستان کیلئے وقتی طورپرخوش آئندہے لیکن سراج حقانی کے متعلق امریکانے پاکستان سے رعائت طلب کی ہے کہ اسکی جگہ اس کے والدجلال الدین حقانی کواس نیٹ ورک کی قیادت سونپ دی جائے کیونکہ امریکامستقبل میں افغانستان سے مکمل انخلاء کیلئے جس گول میزکانفرنس بلانے کاخواہشمندہے وہاں اسے جلال الدین حقانی قبول ہونگے ۔
ان مطلوبہ افرادکے خلاف امریکانے پاکستان کومشترکہ آپریشن کی پیشکش بھی کی ہے اورکچھ دہشتگردوں کے جنوبی پنجاب میں ٹھکانوں کے بارے میں آگاہ بھی کیاہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ امریکیوں نے اپناہوم ورک مکمل کررکھاہے۔ پاکستان پہلے دو افرادکے خلاف آپریشن پرتورضامندہے لیکن حقانی گروپ کے بارے میں تذبذب کا شکار ہے ۔ اب پاکستان کوشش کررہاہے کہ حقانی گروپ کے بارے میں اتفاق رائے سے کوئی درمیانی راستہ نکل آئے۔ اب دیکھنایہ ہے کہ کیا اگلے چندہفتوں میں ان دہشتگردوں کے خلاف کوئی مشترکہ آپریشن ہونگے یاپھرامریکی صدراوبامہ کسی اوریکطرفہ آپریشن کاحکم صادرکرتے ہیں۔ قیاس یہ ہے کہ امریکا اب یکطرفہ حملوں سے فی الحال گریزکرے گالیکن پاکستان پرشدیددباوٴ کوجاری رکھے گا۔
یہی وجہ ہے کہ اب میڈیاکے ذریعے پاکستانی عوام کوشمالی وزیرستان میں ایک محدود آپریشن کیلئے ذہنی طور پر تیار کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں ہیں۔ شمالی وزیرستان میں محدودآپریشن کے بارے میں جواطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ وہاں صرف ان علاقوں کوخصوصی طورپرنشانہ بنایاجائے گا جواس وقت دہشتگردوں کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔آپریشن سے پہلے اعلان کیاجائے گاتاکہ مقامی آبادی کووہاں سے نکلنے کا موقع مل جائے ۔اس کے بعدان دہشتگردوں کوہتھیارپھینک کرامن کی طرف لوٹنے کی ضمانت دی جائے گی اورآخری حربے کے طورپر ڈرون حملوں کے ذریعے ان علاقوں سے ان دہشتگردوں کاصفایاکیاجائے گا ۔ اس آپریشن کے فوری بعدشمالی وزیرستان میں نئے سرے سے تعمیروترقی کا کام شروع کرکے آبادکاری کاکام شروع کردیاجائے گا۔شنیدہے کہ امریکانے پاکستان کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے اپنی آمادگی کا اظہار کر دیا ہے ۔ معاہدہ توبرابرکی قوتوں کے درمیان ہوتاہے اس لئے یہ وہ نئے احکام ہیں جن کی امریکا ہرحال میں تکمیل چاہتا ہے۔
اب دیکھنایہ ہے کہ حکومت جو پہلے ہی مشترکہ پارلیمنٹ کی قراردادپرعملدرآمدکروانے میں ناکام ہوچکی ہے اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تحقیقاتی کمیشن کے سلسلے میں قوم کے ساتھ جوکھلواڑکرچکی ہے آئندہ دنوں میں اپوزیشن اوردوسری سیاسی جماعتوں کاسامناکیسے کرے گی ۔اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نوازنے مشترکہ پارلیمنٹ کی قراردادپرحکومتی کمیشن بنانے کی ناکام کوششوں کوآڑے ہاتھوں لیاہے کہ حکومت اس قرارداد کے مطابق اپوزیشن کے لیڈر کے مشورے سے کمیشن بنانے کی پابندہے جبکہ حکومت نے اعلیٰ عدلیہ کے ایک انتہائی سنیئر جج جاویداقبال کوچیف جسٹس افتخار چوہدری کے مشورے کے بغیرکمیشن کاسربراہ مقرر کردیاجبکہ کمیشن کے دوسرے اراکین کواطلاع دیئے بغیران کے نام تجویزکردیئے جس کی وجہ سے ایک رکن جنرل ندیم نے بیماری کی وجہ سے ،فخرالدین جی ابراہیم اور تیسرے رکن نے اس لئے معذرت کرلی کہ اس کمیشن کی تشکیل میں حکومت نے قراردادکے مطابق عملدرآمدنہیں کیا۔اس طرح یہ کمیشن بننے سے قبل ہی اپنے انجام کوپہنچ گیا۔پاکستانی قوم کے ان خدشات کو تقویت مل رہی ہے کہ حکومت ۲ مئی کے سانحے میں ملوث افرادکوقانونی کاروائی سے بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔شائداسی نکتے پراپوزیشن کا متوقع ا ور بھرپور احتجاج حکومت کوبہاکرلیجائے اوراس خطے میں متوقع امریکی خواہشات کوئی اوررخ اختیار کر لیں ۔