کہتے ہیں کہ خواب دیکھنے پر پابندی نہیں، کوئی جتنی مرضی چاہے خواب دیکھ سکتا ہے۔ بیدار آنکھوں کے خواب زیادہ معنی خیز ہوتے ہیں، جبکہ نیند میں تو صرف خواب ہی دیکھے جاتے ہیں البتہ ایسے خواب بعض اوقات حقیقت کا روپ ضرور دھار لیتے ہیں۔ مجھے بذریعہ ای میل کسی نامعلوم مصنف کی ایک تحریر موصول ہوئی جس میں ایک صدی بعد کے پاکستان کا خواب دیکھا گیا ہے۔گو کہ سٹوری کافی پرانی ہے اور دراصل یہ مستقبل کے ہندوستان پر تخلیق کی گئی تھی مگر اسے انتہائی مہارت سے پاکستان کے ساتھ تبدیل کر دیا گیا ہے۔یہ تحریر پڑھنے کے بعد پہلے تو مجھے ایسے لگا کہ یہ کسی دیوانے کا خواب ہے لیکن پھر خیال آیا کہ جب کوئی قوم اس مقام پر پہنچتی ہے تو ہر فرد کا اس میں انفرادی حصہ ہوتا ہے۔ اگر ہر پاکستانی چوبیس گھنٹوں میں چند لمحے بھی اپنے ملک کیلئے قربان کر دے تو اس خواب کو حقیقت میں بدلا جا سکتا ہے۔ بہرحال اس تحریر کا خالق جو بھی ہے وہ ضرور ہی کوئی محب وطن پاکستانی ہے اور جس کسی نے بھی اس تحریر کو ایک دوسرے کو بھیجا ہوگا اُسے پاکستان سے ضرور ہی محبت ہوگی کہ محبت کبھی مایوس نہیں ہوتی اور اسے ہر آن معجزوں کا انتظار رہتا ہے۔ اس تحریر میں سوائے ایک آدھ جگہ پاکستان کا مستقبل منشیات کے کاروبار سے جوڑنے جیسے شرمناک فعل کے باقی گفتگو بہت ہی مزیدار کی گئی ہے۔ تصور کرنے سے ایسا پاکستان کتنا حسین معلوم ہوتا ہے۔ کیا معلوم ہم سے بعد میں آنے والے واقعی اس ملک کو ایسا اچھا بنا ڈالیں لیکن آپ یہ دیکھئے کہ لکھنے والے کے خیالات کی پرواز اپنے ملک کے بارے میں کتنی بلند ہے۔ میں نے اس تحریر کے ساتھ تھوڑا بہت انصاف یہ کیا ہے کہ اس کے ہجے اور اِملا درست کرکے اسے صحافتی زبان میں ڈھالنے کی کوشش کی۔۔۔
امریکا میں آئی بی ایم کے دو ذہین افراد کے درمیان چیٹ پر گفتگو ہو رہی ہے۔
جوزف: ہیلو مارک! کل تم آفس نہیں آئے۔ خیریت تو تھی؟
مارک: ہاں یار! میں ویزہ لینے پاکستانی ایمبیسی گیا ہوا تھا۔
جوزف: اچھا واقعی؟ پھر کیا ہوا۔۔۔ میں نے تو سُنا ہے آج کل اُنہوں نے بہت سختیاں کر دی ہیں۔
مارک: ہاں۔۔۔ لیکن میں نے پھر بھی کسی نہ کسی طرح لے ہی لیا۔
جوزف: بہت اچھے یار۔۔۔ مبارک ہو! یہ بتائو کہ ویزہ پراسیس میں کتنا وقت لگا؟
مارک: بس کچھ مت پوچھو یار۔۔۔ تقریباً مہینہ بھر لگ گیا۔ پہلی بار جب میں پاکستانی ایمبیسی گیا تھا تو صبح ساڑھے چار بجے وہاں پہنچا۔ پھر بھی مجھ سے پہلے دس لوگ قطار بنا کر لائن میں کھڑے تھے اور ہاں مجھ سے کچھ آگے بل گیٹ بھی اپنا پاسپورٹ اور بینک سٹیٹمنٹ ہاتھ میں لئے لائن میں کھڑا تھا۔
جوزف : اچھا۔۔۔ بل گیٹ کو ویزہ مل گیا؟
مارک: نہیں! انہوں نے خطرہ ظاہر کیا ہے کہ بل گیٹ پاکستان جانے کے بعد وہاں غائب ہو جائے گا اور امریکا واپس نہیں آئے گا۔
جوزف: یار! پاکستانی ایمبیسی کو ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ اسلام آباد میں ہماری امریکن ایمبیسی تو پاکستانیوں کو ایک گھنٹے میں ویزہ دے دیتی ہے۔ پھر یہ کیوں ایسا کرتے ہیں؟
مارک: ارے یار۔۔۔ تمہیں تو پتہ ہے کہ پاکستان اس وقت دنیا کی سپر پاور ہے۔ اس کا ویزہ لینا گویا مریخ کا ویزہ لینے کے برابر ہے اور پھر قصور ہمارا امریکیوں کا بھی ہے۔ ہم بھی وہاں وزٹ ویزہ پر جا کر واپس نہیں آتے نا۔
جوزف: اچھا یہ بتائو۔۔۔ تمہیں ویزہ کیسے مل گیا؟
مارک: میں نے وہاں کی مشہور فرم ’’پھالیہ شوگر ملز لمیٹڈ‘‘ سے بزنس وزٹ کا انویٹیشن منگوایا تھا۔ بس اسی بنیاد پر کام بن گیا۔
جوزف: ایک بار پھر مبارک ہو۔۔ ۔ اچھا یہ بتائو اب پاکستان کب جا رہے ہو؟
مارک: جیسے ہی ٹکٹ ملا۔ دراصل میں نے دنیا کی مشہور ترین اور اعلیٰ کلاس کی ایئر لائن میں ٹکٹ کے لئے درخواست دی ہے۔ میرا بچپن سے خواب تھا کہ کسی دن پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن PIAمیں سفر کر سکوں۔ اگر ٹکٹ مل گیا تو میرا دیرینہ خواب پورا ہو جائے گا۔
جوزف: پاکستان میں کتنا عرصہ رہو گے؟
مارک: کتنا عرصہ۔۔۔ کیا مطلب؟ مجھے کسی پاگل کُتے نے کاٹا ہے جو پاکستان چھوڑ کر واپس امریکا آنے کا سوچوں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے انٹرنیٹ پر چیٹ کے ذریعے پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کے مضافات میں ایک صحت افزاء مقام ’’کامونکی‘‘ کی ایک کرسچن لڑکی سے دوستی کرلی ہے۔ میں اس سے شادی کرکے گرین پاسپورٹ کے لئے اپلائی کر دوں گا اور وہیں سیٹ ہو جائوں گا۔
جوزف: یار تم بہت خوش قسمت ہو ۔ لیکن تمہارے ماں باپ کا کیا ہوگا؟
مارک: پاکستانی گرین پاسپورٹ مل جانے کے بعد میں ماں باپ کو بھی وہیں بلا لوں گا۔
جوزف: کس شہر میں رہنا پسند کرو گے؟
مارک: کامونکی والی لڑکی نے مجھے کہا ہے کہ پنجاب سٹیٹ صحت و صفائی کے اعلیٰ معیار کی وجہ سے ویسے تو دنیا میں پہلے نمبر پر ہے لیکن ہم کراچی سیٹل ہوں گے۔ وہاں آپرچیونٹیز بہت ہیں۔ پتہ ہے نا؟ کراچی اس وقت دنیا میں ٹریڈ اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے اول نمبر کا شہر ہے اور وہاں کا چھ سو ساٹھ منزلہ حبیب بنک پلازہ دیکھنا بھی میری زندگی کی بہت بڑی خواہش ہے۔ سنا ہے اس کی اوپر کی دو سو منزلیں بادلوں میں ڈھکی رہتی ہیں۔
جوزف: اچھا یہ بتائو اپنے ساتھ کتنے ڈالرز لے کر جائو گے؟
مارک: ڈالرز؟ وہاں کون پوچھتا ہے۔ تمہیں پتہ ہے ایک پاکستانی روپے کے مقابلے میں آج کل دو سو دس ڈالرز بنتے ہیں۔ یعنی میری اگر وہاں دس ہزار پاکستانی روپے بھی تنخواہ ہوئی تو امریکا میں چند مہینوں میں لکھ پتی بن جائوں گا۔
جوزف: میں نے سُنا ہے پاکستان کا لائف سٹینڈرڈ بہت اعلیٰ ہے۔
مارک: ہاں ! ایسے ہی ہے۔ وہاں پر بی ایم ڈبلیو لگژری کار پچیس ہزار پاکستانی روپے میں جبکہ مرسٹڈیز بتیس ہزار میں مل جاتی ہے۔ لیکن میں تو سوزوکی ، چنگ چی یا رکشہ لوں گا۔ خالصتاً پاکستانی میڈ آٹوز ہے۔ کچھ مہنگی ہیں لیکن بہت اعلیٰ کلاس کی ہیں البتہ کراچی میں فلیٹ بہت مہنگے ہیں اور کوئی بھی بلڈنگ سو فلور سے کم تو ہے ہی نہیں۔ انسان ہر وقت خود کو فضائوں میں اُڑتا محسوس کرتا ہے۔
جوزف: اچھا یہ بتائو کہ وہاں کام کیا کرو گے؟
مارک: میں نے معلومات کی ہیں۔ وہاں پر آئی ٹی میں بہت سکوپ ہے۔ لیکن تم جانتے ہو کہ وہ ہمارے ملک کے تعلیمی معیار کو اپنے برابر نہیں سمجھتے، اس لئے مجھے شروع میں وہاں کسی کسان کے ’’گدھے‘‘ وغیرہ نہلانے پڑیں گے یا پھر ہو سکتا ہے کسی مشہور پارک کے دروازے پر ’’جوتے پالش‘‘ کا کھوکھا ہی کھول لوں۔ کچھ نہ ہوا تو ٹیکسی چلانے کا لائسنس لے لوں گا۔امریکا سے تو پھر بھی کئی گنا بہتر کما لوں گا۔ اور ہاں اگر میں وہاں کا گرین پاسپورٹ ہولڈر بن گیا تو پھر ساری زندگی حکومت مجھے بیروزگاری الائونس اور میڈیکل سہولیات مفت میں فراہم کرے گی اور گرین پاسپورٹ کی بناء پر مجھے دنیا کے 80فیصد ممالک میں بغیر ویزے کے وزٹ کرنے کی سہولت مل جائے گی۔
جوزف: بہت خوب۔۔۔ یہ بتائو تمہیں ان کی زبان کیسے آئے گی؟
مارک: اوہ بھائی! میں پچھلے دس سال سے اردو لینگوئج سیکھ رہا ہوں۔ کالج میں آپشنل سبجیکٹ بھی اردو ہی لیا تھا اور ہاں میں نے TOUFLبھی اے گریڈ میں پاس کیا ہے۔
جوزف: یہ TOUFLکیا ہے؟
مارک: Test of Urdu as a Foreign Language
جوزف: تم بہت خوش قسمت ہو یار۔ کاش میں تمہاری جگہ ہوتا۔سنا ہے وہاں پر ٹرین سسٹم بہت اچھا ہے۔
مارک: ہاں! کراچی سے لاہور اور وہاں سے پشاور اور کوئٹہ کے لئے دنیا کی تیز ترین اور آرام دہ ترین ٹرین ’’تیزگام‘‘ چلتی ہے۔ اس میں سفر کا بھی اپنا ہی مزہ ہے ۔ اور لاہور میں ہی دنیا کا مشہور فلم سٹوڈیو ’’لالی ووڈ ‘‘بھی ہے۔ جہاں پر میں دنیا کے عظیم اداکاروں سلطان راہی، شفقت چیمہ اور ریما کے مجسمے دیکھوں گا۔ سُنا ہے آج کل اُن کے بچے بھی فلم انڈسٹری میں ہیں۔ اسی طرح راولپنڈی میں دنیا کی سب سے بڑی اور گہری جھیل ’’راول ڈیم‘‘ بھی ہے۔ اس میں بوٹنگ کرنا بھی مجھے ہمیشہ سے ہی خواب لگتا ہے لیکن اب یہ خواب بھی حقیقت بن جائے گا۔
جوزف: سُنا ہے ہمارا صدر اگلے مہینہ امداد لینے پاکستان بھی جائے گا؟
مارک: ہاں! ایسا ہی ہے ۔۔۔ اور قرضے بھی ری شیڈول کروانے ہیں۔ پچھلے دنوں پاکستان کے محکمہ نسواریات کا وزیر وہائٹ ہائوس آیا تھا تو دس لاکھ روپے کی امداد تو صرف یہاں چلنے والے ایک منشیات کے ادارے کو دے گیا تھا تاکہ ہماری نوجوان نسل کو زیادہ سے زیادہ منشیات باآسانی مہیا ہو سکے۔
جوزف: اچھا مذاق چھوڑو ۔۔۔ یہ بتائو تمہیں یاد ہے ہمارا پرائمری سکول کا کلاس فیلو ’’پیٹر‘‘۔۔۔ وہ بھی تو پاکستان میں کہیں سیٹ ہے۔
مارک: ہاں وہ کوئٹہ کے قریب ایک وادی ’’پوستان‘‘ میں سیٹ ہے۔ سُنا ہے کھیتوں سے پوست اکٹھی کرنے کا کام کرتا ہے۔ ایک ہی سیزن میں اتنا کما لیتا ہے کہ باقی چھ ماہ بیٹھ کر کھاتا رہتا ہے۔ عیش ہے اس کی تو۔
جوزف: یار میں بھی پاکستانی ویزہ کے لئے اپلائی کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے کچھ انسٹرکشن تو دو؟
مارک: پاکستانی ایمبیسی میں ہمیشہ شلوار قمیض پہن کر جانا۔ وہ لوگ اپنے قومی لباس کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور کوشش کرنا کہ ویزہ کی درخواست انگریزی کی بجائے اردو میں پُر کرنا۔ اس سے بھی اچھا تاثر ملے گا۔اس کے علاوہ ایمبیسی میں داخل ہوتے ہی ’’السلام علیکم۔ جناب کیا حال ہے؟‘‘ کہنا مت بھولنا۔اس سے پتہ چلے گا کہ آپ کتنے مہذب ہو۔
جوزف: تھینک یو یار
مارک: تھینک یو نہیں شکریہ۔ اب میں پاکستانی ویزہ ہولڈر ہوں۔ مجھے شکریہ کہنے میں فخر ہے۔ خدا حافظ