Home / Socio-political / داعیان انقلاب اور عوام

داعیان انقلاب اور عوام

عباس ملک، پاکستان

ہر شام سورج جب ڈوب جاتا ہے تو انسان سوچتا ہے کہ اس کی بدنصیبی کا دن ختم ہوگیا۔ ہر صبح سورج طلوع ہوتا ہے اور عوام الناس اک نئی تمنا اور نئی سوچ کے ساتھ زندگی کا سفر شروع کرتے ہیں کہ آج کا دن ان کیلئے خوش نصیبی اور خوشیوں کی نوید کے ساتھ طلوع ہو ا ہے ۔ اسی سوچ کے ساتھ عمر بیت گئی لیکن نہ تو بدنصیبی کا سورج غروب ہوا نہ ہی خوش نصیبی کا آفتاب طلوع ہوا۔جانے والے نے کہا کہ میں نے تم پہ احسان کیا اور تم اسی وجہ سے آج زندہ ہو ۔ آنے والا کہتا ہے کہ میں نہ ہوتا تو تم زندگی کے گردآب میں پھنسے ہی رہ جاتے ۔ آؤ اور میں تمھیں زندگی کی حقیقت سے روشناس کراتا ہوں ۔سب کے اپنا اپنا جہان اور اپنا اپنا فلسفہ ہے ۔سب نے اپنے اپنے گیت بنارکھے ہیں اور سب اپنے جہاں کو آباد رکھنے کیلئے تگ ودو کرتے ہیں ۔فلسفہ زندگی کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے اس سے ان کا دور کا واسطہ بھی نہیں ۔نمائیندگی تو اس کوکہتے ہیں کہ نمائیندہ شخصیت سے اس کے پیروکاروں کی عکاسی اور ان کا طرز تمدن بھی نمایاں ہو۔ ہمارے نمائیندگان کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ وہ ہمارے نمائیندے ہیں ۔

جمہور ہاتھیوں کی جنگ میں گھاس کی طرح پس رہے ہیں۔عوام کو کیا میسر ہے کہ وہ جمہوریت کو اپنے لیے ضروری خیال کریں۔ جمہوریت کے نام پر عوام کے ساتھ جو کچھ کیا گیا اگر یہی جمہوریت کے تسلسل میں ہونا ہے تو عوام اس جمہوریت کو اپنے لیے تریاق جان کر اسے حزر جان مانیں گے ۔ عمران کی شکل میں وہ کچھ بہتری کی امید ہو رہی تھی لیکن عمران نے بھی شترنج کے پرانے کھلاڑیوں پر بھروسہ کر کے اور انہیں پر اعتماد کر کے انہیں اپنا ہمراہی قرار دیکر عوام کی یہ امید بھی ختم کر دی ہے ۔عمران خان کا یہ فرمانا کہ وہ فرشتے کہاں سے لائیں ان کا پاکستانی معاشرے پر بہت بڑا بہتان اور پاکستانیوں پر عدم اعتماد کے مترادف ہے ۔کیا پاکستا ن کی گود ایماندار لوگوں سے خالی ہے ۔یہ پاکستانیوں پر عمران خان کا عدم اعتماد ہے ۔ عمران خان نے یہ کیو ں نہیں سوچا کہ وہ خود بھی تو پاکستانی ہو کر ایک اچھی سوچ کو لے کر چل رہے ہیں ۔انہیں یہ سمجھ کیوں نہیں آرہی کہ سچائی کے مبلغ کیلئے سچا ہونا ضروری ہے ۔ایک کاذب اور خائن اور آزمودہ کو بار بار آزمانا اسلامی سوچ کے برعکس ہے ۔عمران خان جن لوگوں کو انقلاب کے داعی اوراس عمل میں مددگار قرار دے رہے ہیں کیا ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جو انقلابی شخصیات کے میرٹ پر پورا اترتا ہو۔ ان میں کئی ایک تو جنرل مشر ف کے ہم نوا او ر ہم پیالہ رہے ۔انہی کی مشاورت پر امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ پاکستان پر مسلط کی گئی۔ انہی میں وہ بھی شامل ہیں جو اسلام کے نام سے یوں خائف ہوتے ہیں جیسے سیاستدان مارشل لا سے خوف زدہ ہوتے ہیں ۔ ہاشمی صاحب کی ذات سے صرف یہ گلا ہے کہ صرف باغی ہونا کوئی اہم بات نہیں ۔ بات تو تب تھی کہ آپ مسلم لیگ ن میں رہ کر اس میں سرعت آئی آمریت کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرتے ۔آپ صدا بلند کرتے کہ پاکستان کی بانی جماعت کو ہائی جیک کر لیا گیا ہے۔آپ نے تو لوٹا کریسی پارٹی بدلنے اور نظریہ بدلنے کو بھی حقیقت ثابت کر دیا ہے ۔آپ جیسے لوگوں کے بعد اب عام کسی بھی سیاسی کیلئے یہ عام سی بات ہو گی کہ وہ اپنے مفاد کو پورا نہ ہوتے دیکھ کر پارٹی بدل لینے کو حق قرار دے گا۔ ہاشمی صاحب نے بھی تو پارٹی بدل لی نظریہ بدل لیا وہ بھی تو لوٹا کریسی کو حق جانتے ہوئے یہ کارکر گذرے ۔اب یہ کہا جائے کہ قائد اعظم نے بھی تو کانگریس سے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ بالکل درست ہے لیکن یہ بھی تو دیکھا جائے کہ انہیں اس کے لیے کس نے قائل کیا ۔وہ تو متحدہ ہندوستا ن اور ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کے نام سے جانے جاتے ۔انہوں نے باطل نظریہ کو چھوڑ کر حق کو اختیار کیا تھا۔انہوں نے یہ ثابت کیا کہ حق پرستی کی تقلید کے لیے کسی بھی تنقید سے ڈرنا یا اس کیلئے ذات کا حصار اور انا جیسے دائرے توڑ دینے چاہیں۔ ہاشمی صاحب جیسے لیڈر کے اس اقدام سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ کا نظریہ غلط ہے اور اس کے تقلید کار غلط جا رہے ہیں اور ہاشمی صاحب نے بھی 30سال زندگی کا اہم عرصہ ایک غلط نظریہ پر چلتے ہوئے ضائع کر دیا ۔مسلم لیگ کا منشور غلط ہے یا تحریک انصاف کا منشور اس سے زیادہ بہتر ہے ۔ سیاسی کارکن اس لائن پر تو سوچتے ہی نہیں ۔ وہ تو یہ دیکھتے ہیں کہ لیڈر کیا کہتے ہیں اور اس میں ان کیلئے کیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں نظریہ پاکستان اور اسلامی نظریات کی بجائے شخصیتوں کی پوجا کرنے اورکرانے پر زور دیا گیا ہے۔اس طرز فکر کی وجہ سے اصل نظریات دھندلا کر اوجھل ہو گئے ہیں۔سیاسی شخصیات خواہ کتنی ہی مقبول عام کیوں نہ ہوں لیکن وہ ہرگز بھی اسلامی نظریات سے اہم نہیں ہو سکتیں ۔ بھٹو ہو یا نواز شریف ان تما م کو مقبولیت عام حاصل ہوئی لیکن ان کی غلطیوں کی تعداد اگر دیکھی جائے تو ان کے فلاحی کاموں پر غالب ہوگی ۔ضروری نہیں کہ کوئی بھی مقبول عام شخصیت عوامی فلاحی اور ریاستی امور میں مہارت کے اصل معیار پر ہر حال میں پوری اترے ۔ البتہ وہ لیڈر جو اپنی غلطیوں کو تسلیم کرے اور ان کودرست کرنے کی کوشش کرے وہ ایک بہتر لیڈر ہے ۔

عمران خان خود کو بھی فریب دے رہا ہے اور اپنے تقلید کاروں کو فریب خوردہ بنا دے گا۔ اگر وہ آج اپناعمل درست کر لیں اور ان پرانے ہارے ہوئے گھوڑوں پر تکیہ کرنے کی بجائے نئے لوگوں پر اعتماد کریں تو یقینا اس کے نہ صرف ان کی پارٹی پر مثبت اثرات ہونگے بلکہ پاکستانی معاشرے پر اس کے منفعت بخش ہونے کی امید ہے ۔اسی طرح اگر میاں صاحب اگر چوہدری بردران کو قبول نہ کرکے سیاسی خسارے کو برداشت کر سکتے ہیں تو وہ اپنی پارٹی میں شامل لینڈ مافیہ کے سرغناؤں کو بھی نکال باہر کرکے اپنی اورپارٹی کی توقیر میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ سیاستدان اپنے پاؤ گوشت کیلئے بھینس کو ذبح کرنے کی بجائے اگر اپنی خواہشات کو تھوڑا لگام دیں تو یہ ان کیلئے بھی بہتر ہو گا اور پاکستان کیلئے بھی اس کو مفید گردانا جائے گا۔ اس سے پہلے بھی ہر پلیٹ فارم سے میں یہ سوال کر چکا ہوں کہ جنہوں نے خدمت کرنی ہوتی ہے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ صوبہ کون ساہے اور ملک کون سا ہے ۔ وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ میں نے یہ عمل ایک انسانی ضرورت کو پورا کرنے اور انسانیت کی فلاح میں کرنا ہے ۔اس کی زندہ مثالیں اس وقت بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں ۔

انقلاب نعروں سے نہیں عمل سے آیا کرتے ہیں ۔ عملی طور پر جب تک خود کوانقلابی دکھا یا نہیں جائے گا انقلاب کی بات ایک نعرہ ہی قرار دی جائے گی۔ خواہ یہ عمران خان کرے یا میاں نواز شریف صاحب کریں ۔مقابلہ سخت اور وقت محدود ہونے کی وجہ سے دونوں کو دیکھنا چاہیے کہ ایسا نہ ہو کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف مہرے کے طور پر ہی استعمال نہ ہو جائیں ۔ انقلاب کی خواہش اور اس کے درمیان حائل مفاد پرستوں کی خلیج کو عبور کرنا اتنا آسان نہیں ۔صوبے بنائیں یا عوام کو بیوقوف بنائیں یہ عوام اپنے لیڈروں پر اعتماد کرتے ہیں اور ان کا یہ اندھا اعتماد ہی ان کو ان کے جمہوری حقوق کے حصول میں مانع ہے ۔یہ محبت میں سب کچھ بھلا کر اندھی محبتوں اور عقیدتوں کے مسافراندھیروں میں خواہشات کے دیپ جلانے کے خواہش مند ہیں۔شعور اور آگہی کا سفر ابھی ان سے دور اور یہ اس کے متضاد سفر میں ہیں ۔جب یہ جاگیں اس محبت کی آغوش سے تو پھرہی انقلاب کی شروعات ہونگی ۔

****

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *