Home / Socio-political / دروغ بر جستہ، دوزخ بدستہ

دروغ بر جستہ، دوزخ بدستہ

     دروغ بر جستہ، دوزخ بدستہ 

  عباس ملک، پاکستان

راہنماﺅں کا دعوی ہے وہ نظریاتی سیاست کے محافظ ہیں ۔آج تک کس نے یہ وضاحت نہیں کی کہ وہ آیا نظریہ اسلام یا نظریہ پاکستان یا ان دونوں کے علاوہ کسی نظریہ یا پھر ان سب نظریات کے بیک وقت محافظ ہیں۔قائد عوام ہو ں یا خادم اعلیٰ عوام کے منہ سے نوالہ چھنتا دیکھ کر بھی سرے محلوں سے جھانکنے اور عوام کو صبر کی تلقین کے سوا کوئی قدم اٹھانے سے قاصر ہیں ۔عوام پوچھتے ہیں کہ ہمارے سربراہ ،ہمارے راہنما ، ہمارے پاسبان آخرکس بات سے اس قدر مجبور ہیں ۔قانون ان کے ہاتھ میں ہے۔اقتدار ان کے قدموں تلے ہے ۔اختیارات کی مالا ان کے گلے کی زینت ہے ۔اسکے باوجود عوام کے نحیف اجسام کو مہنگائی کا اژدھا ،ذخیرہ اندوزبچھو،اور لا قانونیت کے سنپولیے ڈس رہے ہیں ۔ قومی سیاست کے سنگھاسن پر بیٹھے بزجمہر آخر وہ نظریہ تو بتائیں جس کی محافظت کے فرائض انجام دیتے ہوئے وہ عوام کے احوال سے بے خبر ہیں ۔ان محافظین کی فوج ظفر موج کی موجودگی میں عوام کی زندگی آخر اجیرن ہوئی تو یہ محافظ کون سی دنیا کی محافظت کے فرائض سرانجام دے رہے تھے ۔قومی سیاست کی بنیاد اور اس پر تعمیر کردہ عبادت کدہ کے امام خود کو کسی نظریہ کی وابستگی کا دعوی کرنے میں سچے ہیں تو وہ نظریہ خود غرضی ،نظریہ مفاد پرستی ہی وہ سکتاہے ۔جمہوریت کے نام کی مال جاپنے والے خود کو جمہور اورجمہوری اقدار دونوں سے بالا تر اگر قرار نہیں دیتے تو استحقاق بر جمہور کی قرارداد آج تک کسی ایوان کی زینت کوئی نہیں بنی ۔آج تک کسی جمہوریت کے پاسبان اور عوام کے خادم نے عوام کی حالت زار پر احتجاجا اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہونا کو معتبر رستہ کیوں نہیں جانا۔حج اور حاجیوں کی میزبانی کا مرتبہ بنی اکرم کے خاندان بنو ہاشم کی وراثت جان کر ادا ہونا چاہیے تھا لیکن وہ کمیشن مافیا کے ہاتھوں میں دیکر غوث پاک کی وراثت کے جانشین کا کلیجہ نہیں پسیجا اور نہ ہی روحانی و مذہبی حمیت بیدار ہو ئی۔قومی مفاہمت کو اپنے بیانات کی سپر لیڈ اور دلیل کے طور پر بیان کرنے والے یہ کیوں نہیں بیان کرتے کہ مفاہمت ہماری مجبوری ہے ۔مفاہمت نہ کریں تو کس بنیاد پر پر لوٹ سیل کا یہ کاروبار چل سکتا ہے ۔بندر بانٹ میں عوام کی ہڈیوں کا گودا تک خشک ہونے کو ہے لیکن جمہوریت کے پاسدار پھر بھی جیالوں اور متالوں سے بابا اور بی بی کا خراج وصول کرنے پر تلے ہیں ۔ باباءقوم جیب میں کھوٹے سکے ہونے کے باوجود ان کے استعمال سے واقف تھے لیکن اب باباءملت اور خادم ملت کے ہاتھوں میں ہیرے اور سونے کے ذخائر بھی کوئلہ بن کر پاکستان اور پاکستانیوں کا منہ کا لا کر رہے ہیں ۔ڈرورں حملے پاکستان کی سرحدوں کی خلاف ورزی ہی نہیں وفاق پاکستان کی روح کے گھاﺅ بھی ہیں ۔اس سے بھائی بھائیوں کو اپنا قاتل جان کر ان کے خلاف صف آرا ہو رہے ہیں ۔دشمن ہزاروں میل دور بیٹھا خوف زدہ ہے تو جن کے پہلو سے پہلو جڑے ہیں ان کا کیا عالم ہو گا ۔انڈیا پاکستان سے خوف زدہ ہو کر امریکہ اور روس کے پیچھے چھپ کر پاکستا نکی سالمیت اور وفاق کے خلاف مہرے چلتا ہے ۔کشمیروں کے خون کے چھینٹے انڈیا کے چہرے کی مکروہیت کو اگر اجاگر کرنے میں نا کام ،فلسطینوں کا بہتا خون اقوام عالم کی روح کو تڑپانے سے قاصر ،افغان ،چیچنیا اور عراق کے مسلمانوں کے بارود سے اڑتے ہوئے لاشے بھی ان کی مظلومیت کا ثبوت نہیں تو پھر ظلم کی تعریف ،جبر و استبداد کے معنی کیا ہیں ؟جمہوریت کی ترویج کیلئے جمہور کے خون کی ہولی کھیلنا کیا ضروری شرط ہے ۔اقتدار کی وسعت اور معاشی منڈیوں پر ڈاکہ زنی چنگیز اور ہلاکو خان کا مشن اور نظریہ ہے ۔یہ سب کچھ ابن الوقت حکمرانوں کی خودپرستی کے سبب تھا ۔آج بھی صدیوں بعد شاید تاریخ خود کو دھرا رہی ہے ۔مسلمانوں کی نااتفاقی اور حکمرانوں کی ایک دوسرے سے کینہ پروری سے عصر موجودہ چنگیزی قوتیں معصوم مسلمانوں کے مال و عصمت سے کھیل رہی ہیں ۔حجاج بن یوسف تاریخ اسلام میں اپنے جبر واستبداد کی وجہ سے ہلاکو اور چنگیز کی مثل تھالیکن اس نے بھی ملی حمیت کے تقاضوں سے مغلوب ہو کر راجہ دھر کے خلاف محمد بن قاسم کو سرکوبی کیلئے روانہ کرتا ہے ۔اس کے اس اقدام کے بعد ہی برصغیر پاک و ہند میں ترویج اسلام کا باب کھلا ۔حجاج کی فکر سے متاثر تقلید کندگان کو اس کی حمیت اور اس کی ملی وفاداری سے بھی درس حاصل کرنا چاہیے ۔عام بے کس اور بے بس ضرور ہو سکتے ہیں لیکن بے ضرر ہر گز نہیں ہوتے ۔ملت اسلامیہ پر بھی اگرمادیت پرستی کا غلبہ سبب نقاہت و غنودگی کا عنصر غالب ہے تو ٹیکسوں کی بہتات انہیں اس بوجھ سے آزاد ہونے میں ممدد ہوگی ۔جب یہ ان ٹیکسوں کی ادائیگی کے بعد مفلوک الحال ہونگے تو پھر ان کے اندر سے ایمان کی حرارت باہر آئے گی ۔ان کو اپنی درماندگی ،پسماندگی پر خدا یاد آئے گا۔جب یہ خدا کو یاد کریں گے تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کی یاد میں آئیں گے ۔ ان کیلئے رحمت خداوندی جوش میں آئے گی تو یہ بھی جوش میں آئیں گے ۔جب مخلوق خدا جوش میں آئے گی تو پھر مادیت پرستوں کیلئے چھپنے کو جگہ نہیں ہو گی ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو گی کہ وہ ایک محدود تعداد اور محدود حلقہ میں ہونگے ۔احتساب کیلئے لا مھدود ہاتھ ہونگے اور مبحوس محدود چند ہونگے ۔پھر ایک ہی نظریہ اور اس کی پاسبانی ہوگی ۔اس کو نظریہ انقلاب کہتے ہیں ۔انقلاب کی شروعات کب ہوتی ہیں اور اس کی جولانی کا وقت اور کوقع کب آتا ہے اس کیلئے ایسے ہی ٹیکسوں کے نئے مطالبے ہی زینہ بنا کرتے ہیں ۔امت مسلمہ اور اس کے جاگنے کا وقت بھی قریب ہے ۔انقلاب لیڈروں کے منتظر نہیں ہوتے بلکہ لیڈر انقلابات کیلئے تیار مواقع کے منتظر رہتے ہیں ۔اس میں کون فاتح او

ر کون مفتوح ہوتا ہے وہی جو حق پر اور حقوق کی ادائیگی پر قادر ہوتا ہے ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *