ماہِ ستمبر، میری ماں کی۳۶ ویں برسی کا مہینہ!اس دفعہ بھی یہ ماہ اور دن لندن میں خاموشی سے گذر گئے ۔پہلے یہ دن اپنے آبائی شہر فیصل آباد میں گزرا کرتے تھے، گھر کے وسیع صحن میں جہاں میری ماں خیرات اور نیاز کی دیگیں اور قربانی کا گوشت بانٹا کرتی تھی ،اب وہی پر ان کی برسی کی دیگیں محلہ میں برتائی جاتی ہیں۔ سامنے برآمدہ میں محلہ کی عورتیں قرآن خوانی اور کھجور کی گٹھلیاں پڑھتی ہیں اور دعا کے بعد کھانے کے دوران میری ماں کی بے شمار نیکیوں کے ذکر کے ساتھ ایک لمبی آہ بھر کر ایک اور سال گذر جانے کا اعلان ہو جاتا ہے ۔میں صبح سویرے قبرستان میں اپنی والدہ محترمہ سے ملاقات کرکے دیگرے دوسرے عزیز و اقارب کی قبروں پر پھولوں کی چادریں چڑھا کر گویا اپنے دل کی تسلی کے لئے ہر سال یہ عمل دہراتا ہوں اور واپس آنے سے پہلے اس خاموش مٹی کی ڈھیری کے پاس کچھ وقت کے لئے بیٹھ کر اپنی تمام دل کی باتیں کرنے بیٹھ جاتا ہوںمیں اسے اب بھی اپنے ارد گرد ڈھونڈتا ہوں چپکے چپکے پکارتا ہوں مگر وہ مجھے کہیں نظر نہیں آتی پیر وارث شاہ نے کیا سچ کہا ہے۔
ہیر آکھیا جوگیا جھوٹھ آکھیں کون رٹھرے یارمناوندائے
ایہا کوئی نہ ملیامیں ڈھونڈ تھکی جیہڑاں گیاں نوں موڑ لیاوندائے
بھلا موئے تے وچھڑے کون میلے اینویں جھوٹرا لوک دلاواندائے
پہلے نہیں مانتا تھا مگر آج ۳۶سال کے بعد میں اس حقیقت کو مان چکا ہوں کہ موئے اور وچھڑے کبھی نہیں ملتے، ان کا انتظار فضول ہے انہیں ڈھونڈنا اور ان کی ہمہ وقت آس رکھنا فضول ہے مگر عجیب بات کہ اس حقیقت کو دل آج بھی نہیں مانتا۔یہی وجہ ہے کہ ہر سال ماہِ ستمبرمجھے میرے تنہا اور بے دعا ہونے کا احساس دلاتا ہے۔مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اب وہ ہستی اور محترم شخصیت میری دنیا سے اٹھ گئی جس کے ہوتے ہوئے دنیا بھی میری تھی اور دنیا کے یقین بھی میرے تھے ،اب میری پشت خالی ہے جس پر مفادات اور لین دین سے بھرے رشتوں کے تازیانے برستے رہتے ہیں میں گھبرا گھبرا کر اسے یاد کرتا ہوں جس کے ہوتے ہوئے میں بھی سلامت تھا اور میری شناخت بھی!
میری ماں جس نے مجھے اپنی محبت کے مکتب میں اسباق زندگی اور رموزِ زندگی کی آگہی اور شعور دیا۔جس نے انسانوں سے محبت میری گھٹی میںڈالی ،خلقِ خدا میری تربیت کا حصہ بنائی، انسانوں کو جانچنے اور پرکھنے کا معیار جاہ و حشم نہیں اعلیٰ انسانی صفات کو ٹھہرایا۔حلال و حرام کے درمیان فرق کی وضاحت سمجھائی، رشتوں کی اہمیت اور تعلقات کو نبھانے کا طریق میری فطرت کا جزو بنایا جو قدم قدم پر میری نگراں و معاون رہی۔ تمام عمر میں اس کی انگلی تھام کر چلتا رہا اور وہ مجھے چلاتی رہی۔وہ جو غریب و پسما ندہ رشتہ داروں ،بوڑھی میلی مائیوں اور حاجت مندوںکو ہتھیلی کا چھالہ بنائے رکھتی تھی وہ جسے عزت کرنے اور کروانے کا سلیقہ آتا تھا، جس کی ہمدرد طبیعت ہمیشہ خدمتِ خلق کے بہانے ڈھونڈتی تھی ،جب وہ دنیا سے رخصت ہوئی تو سرخ گلابوں کے رنگ کالے ہونے لگے۔ دعائیں ناتواں ہونے لگیں ،حر وف سہم سے گئے ،رشتے بے وجود اور شرمندہ دکھائی دینے لگے اور شناختیں نامعتبر ہونے لگیں ۔
وہ درودیوار جہاں قدم قدم پر اپنے ہونے کی گواہیاں ملا کرتی تھیں، اجنبی لگنے لگے اور شہر فیصل آباد جس کی گلیاں سڑکیں اور فضائیں زندگی کا ناگزیر حصہ تھیں غیر ہونے لگیں۔مجھے لگا کسی نے مجھے اچانک زور دار دھکا دیکر کسی سمندر میں اچھال دیا ہو!کسی ایسے منطقے پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جہاں ہر طرف دھوپ ہی دھوپ ہو کہیں سایہ نظر نہ آتا ہو وہ میرا گھر جہاں میں اپنی ماں کی محبت کی اخلاص بھری دعاؤں کے نادر کھلونوں کے ساتھ اس کی بے لوث ممتا کی نرم چادریں اوڑھ کر بے فکری کی نیند سویا کرتا تھا ،اس گھر کو یکایک آگ لگ گئی ہو،اس میں میرا بچپن میرے خواب گھروندے، میرا کھیل کا سارا سامان، مامتا بھری لوریاں سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا اور میں اس گھر کے آنگن میں کھڑا تنہا سوچتا رہا اب کیا ہوگا؟اس کی تصویر اپنی مہربان شبنمی مسکراہٹ سے مجھے دیکھتی رہی!!
بے لوث محبت اورممتاکی خوبصورت اورمسکراتی خوشبوسے سجا وہ گھر جومجھ سے۱۹۷۶ء میں چھن گیا تھا اس کی راکھ اب بھی میرے دل کے پلو سے بندھی ہے جس سے اس کی مامتا کی بھینی بھینی مہک اڑتی ہے ،جو میرا یقین تھی، خدا اور اس کی کائناتوںمیں چھپے محبت کے بھیدوں کو جاننے کا واحد ذریعہ تھی ۔ خدا،ماں اور محبت کی تکون میں گم رہنے والا اپنی ماں کا یہ اداس بیٹا آج بھی اس تکون سے اس گمشدہ کڑی کو ڈھونڈنے کے لئے جان کو بیمار کئے رکھتا ہے جو ۳۶سال قبل بد نصیبی کے ایک بھاری پل نے اس سے چھین لیا تھا ،اس کی کائناتوں کا جغرافیہ درہم برہم کردیا تھا ،وہ جغرافیہ آج بھی درہم برہم ہے، کائنات نامکمل اور ادھوری ہے حالانکہ محبت اور خدا کی موجودگی پر اس کا ایمان بھی کامل ہے مگر ماں کا نہ ہونا ایک ایسی مسلسل کمی ہے جو جان کوآزار کی طرح لگی ہوئی ہے۔ مائیں اپنی اولاد کے لئے بہت اہم ہوتی ہیں چاہے وہ جیسی بھی ہوں مگر مائیں اولاد کے لئے کتنی ضروری ہوتی ہیں اس کا اندازہ ان کے جانے کے بعد ہوتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ ماں تو آکسیجن کا نام ہے جس کے بغیر انسان حبس اور گھٹن کے مارے اندر سے مرنے لگتا ہے اور پھر مرتا ہی چلا جاتا ہے۔
میری سادہ دل خوبصورت نیک اور مہربان ماں،وہ سفید کے ٹی کی شلوار اور سفید ٹوپی والے برقعے والی محترم عورت جس کی شخصیت کا حسن اور پاکیزگی اس کے گرد نور کے ہالے کی طرح رہتی تھی، جو تمام عمر بناوٹ تضع اور دنیاوی آلائشوں سے دور رہی جس نے خدا اور خلقِ خدا کو عجز انکساری ،رحم ،محبت اور خدمت کے ذریعے پہچانا۔ جو تکبر ظلم اور زیادتی اور ’’میں‘‘سے یکسر انجان تھی اور ہمیں بھی ان فضولیات سے دور رہنے کا درس دیا کرتی تھی۔ جس نے اعلیٰ انسانی اقدار اور نیکی محبت اور خدمت کا سبق ہمیں اٹھتے بیٹھتے دیا جس نے برائی سے نفرت اور اچھائی سے محبت کا شعور ہماری فطرت کا حصہ کیا۔وہ عورت جب اس دنیا سے رخصت ہوئی تو اپنے پیچھے ایک ایسا بے انتہا خلاء چھوڑ گئی جو بعد میں کبھی بھی پُرنہیں ہوا اور اس امر کا علم بھی تجربہ سے ہوا کہ ماؤں اور محبتوں کا خلاء کبھی بھرا نہیں کرتا یہ ہماری غلط فہمیاں ہیں جو اس معاملے میں ہمیں دھوکے پر دھوکہ دیتے چلی جاتیں ہیں اورمیرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ان گزرے سالوں میں ماں تو کیا کہیں ماں کی شبیہ کا بھی گمان نہ گذرا جہاں میں اپنی اداسی ڈھیر کرتااور اس جدائی کا افسانہ رقم کرتا جس نے میرے اندر حشر اٹھارکھا تھا!
اے میری پیاری ماں! مجھے بتائیںکیا کروں؟آپ یاد آتی ہیں تو حسن، نیکی اور محبت یاد آتی ہے اور وہ مسلسل کمی جس نے روح کو بے سکون کر رکھا ہے ہر سال ماہِ ستمبر میری آنکھوں میںپانی اوردل میں نمی چھوڑتا ہے۔ ہر دن مجھے آپ کی یاد کی دہلیزوں پر ننگے پاؤں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ ۔ ۔ میں سوچتا ہوں آخر اس خوبصورت اور مہربان عورت کو میں بھول کیوں نہیں جاتا؟جو آج سے۳۶ سال قبل زندگی کے رنگین چوکھٹے سے نکل کر مٹی کی ایک سونی ڈھیری میں سماگئی تھی اور حقیقت سے واہمہ ہوگئی تھی اس کی نرم روئی میرے دل کی روئی کی طرح کیوں دھنکتی رہتی ہے؟اداسی مجھے ہمہ وقت اپنے دل میں بیٹھی کیوں نظر آتی ہے؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک عجیب سوال ہے جو مجھ سے اب تک حل نہیں ہوا اور ۱۹۷۶ء سے ۲۰۱۲ء آگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنی جنتی ماں سے کہنا چاہتا ہوں۔ ۔ ۔ ماں!اب میںآپ کو اس قدریاد نہیں کرسکتا اس قدر اداس نہیں ہوسکتا کیونکہ مجھے زندگی میں اور بھی بہت سے کام کرنا ہیں۔
کچھ لکھنا پڑھنا ہے دنیاداری کرنی ہے اور سب سے بڑی بات کہ مجھے جینا ہے زندہ و نظر آنے والے دوسرے کامیاب لوگوں کی طرح……..پچھلے ساڑھے پانچ ماہ سے زندگی بھرکاوفاشعارساتھی ہسپتال میںموت وزیست کی کشمکش میںمبتلاہے اوراس حال میںتو آپ کی یادوںنے مجھے بری طرح مسحورکررکھاہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ تمام حالات مجھے ہنسنے کھیلنے نہیں دیتے ۔فضا کی حقیقت اور جدائی کی کہانی سنا کر ہر ایسے کام سے روکتے ہیں جو دنیاداری اور کامیابی کے لئے از حد ضروری ہے، لہٰذا میری ماں،میری اچھی ماں مجھے دعا دو میں تمہیں بھول جاؤں!!!
خورے کدوں پیمبر لمحے بولن گے
ایس جہانے صدیاں دا سناٹا اے