دل کی آواز عباس ملکایشوز کی سیاست کے سہارے حکومتی اکابرین خود کو نمایاں کرنے کی کوشش ناتمام کر رہے ہیں ۔عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے مختلف بین الاقوامی اور قومی ایشوز کو میڈیا پر لانے کی ترکیب اور پروپیگنڈا کے زور پر خود کو ملی اور قومی راہنما کے طور پر پیش کرنے کی ترکیب ابھی متروک نہیں ہوئی ۔نیٹوفورسز کے حملوں کا مئوثر جواب نہ دیکر پیپلز پارٹی کی حکومت نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ امریکی حکمرانوں کے ہم نوا،اور ہمدم ہیں ۔ حکمران چاہتے ہیں کہ وہ اس طرح کے بیانات دیکر اپنی حب الوطنی اور قومی حمیت کا اظہار کریں اوران سے ان کا عوام میں امیج اور تاثر بنا رہے ۔حقیقت میں ایسا نہیں ہے اور یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی حدود کی پاسبانی کا فریضہ صرف زبانی کلامی ادا کیا جا رہا ہے ۔پاکستان ایک ایٹمی قوت اوردنیا کی چھٹی بڑی عسکری قوت ہے ۔پاکستان کے عوام اگر حکمرانوں کی ظالمانہ پالیسیوں کے سبب ہر طرح کے مصائب برداشت کر سکتے ہیں تو اپنی قومی حمیت اورسلامتی کی خاطر جنگ بھی لڑ سکتے ہیں ۔بھوک سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کی بجائے میدان جنگ میں چھاتی پر گولی کھا کر مرنا اور شہادت کی موت بدرجہا بہتر ہے ۔حکمرانوں کو امریکہ کے خلاف اب مزید کسی ڈپلومیسی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے واضح قومی اور ملی طرز عمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔امریکہ اپنے مفادات کے حصول کیلئے پاکستان کا کندھا استعمال کر رہا ہے تو اسے پاکستان کے منہ پر تھپڑ مارنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔حکمران اگرچہ اپنے بیانات میں سرد و گرم الفاظ استعمال کرتے ہیں لیکن وہ انکی ڈپلومیٹک مجبوری ہوگی لیکن یہ پاکستان کے عوام کے جذبات کی حقیقی نمائیندگی اور عکاسی کرنے میں کامیاب نہیں ۔ اگر ہمیں امریکہ دوست نہیں رکھتا تو ہم امریکہ کے غلام بننے کو بھی تیار نہیں ۔امریکہ کے حکمران اگرچہ اپنے پٹھو ہمارے اوپر مسلط کرنے میں کامیاب رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ابھی پاکستانیوں کے اندر خواہ وہ بلوچ ہوں یا پنجابی اور سندھی ہوں کہ پٹھان میں جذبہ حریت کو کمزورکرنے میں کامیاب نہیں ۔اسلامی عقائد کے مطابق ابھی تک ہم نے امن اور سلامتی و صلح کے درس پر عمل کیا ہے ورنہ امریکہ اور اس کے حواریوں کیلئے اس خطے کیا ان کے اپنے ممالک کو جہنم بنادینا کوئی دشوار ہیں ۔سیاسی عمائدین کی کمزوری کی وجہ سے افواج پاکستا ن کے لیے کوئی کاروائی کرنا عسکری نقطہ نظر سے نظم وضبط کی خلاف ورزی ہے ۔صدر پاکستان جو کہ آئینی طور پر افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں کو اپنے منصب کا بھی احساس کرنا چاہیے۔وہ صرف امریکہ کی خوشنودی اورچار دن کی حکمرانی کیلئے سر جھکانے پر اکتفا کرنے کی بجائے لیٹ جانے تک کو آخر کیوں آمادہ ہیں ۔کیا ان کی امریکہ کے ساتھ بھی مفاہمت کی پالیسی طے ہے۔افواج پاکستان کی توہین کرا کے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔اس طرح کیا وہ افواج پاکستان کو محاذ پر مصروف عمل کر کے سیاسی پوائنٹ سکور کرنا چاہتے ہیں ۔عوام کو پہلے گیس تو مہیا کریں پھراگے کی بات سوچیں ۔امریکی تھینک ٹینکس کے ایسے مشوروں پر عمل کر کے وہ افواج پاکستان کو نہ صرف نقصان پہنچارہے ہیں بلکہ وہ اپنی اور اپنی پارٹی کاز کو بھی تباہ کر رہے ہیں ۔ہماری افواج دشمن کے خلاف لڑنے کیلئے ہیں انہیں تو آپ موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینے پر تلے ہیں ۔یہ شمالی وزیرستان ہو یا بلوچستان ان کا استعمال کچھ اس طرح سے ہو کہ افواج پاکستان کا یکطرفہ یا جھکاؤ کا امیج قائم نہ ہونے پائے ۔نیٹو فورسز کے خلاف اگرمزاحمت کی افواج پاکستان کو اجازت نہیں تو پھر پارلیمنٹ کو اپنے عوام کو بتانا چاہیے کہ ہم نے انہیں روک رکھا ہے اور اس کیلئے ہماری یہ مجبوری یا سوچ ہے ۔حکمران معائدہ کرتے ہیں اور اس کا خمیازہ افواج پاکستان کو بدنامی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے ۔عساکر پاکستان کے اکابرین جرنیلوں کو بھی یہ دیکھنا چاہیے کہ عوام ان کی کتنی عزت کرتے ہیں اوران پر کتنا اعتماد کرتے ہیں ۔ افواج پاکستان کیلئے اپنا پیٹ کاٹ کر ٹیکس ادا کرتے ہیں تو پھر ان کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے اعتماد پر پورا اتریں اور ان کی دی ہوئی عزت کا صلہ تحفظ کی صور ت میں دیں ۔حکومت اگر ملکی دفاع کے خلاف کوئی معائدہ کرتی ہے یا ایسا کوئی معائدہ کرتی ہے جس سے ملکی دفاع اور قومی وقار پر انچ آتی ہو تو افواج پاکستان کو اس کی حمایت نہیں کرنی چاہیے ۔اگر پریسلر ترامیم کے خلاف کور کمانڈر ز نہ بولتے تو یہ منظور ہو جاتیں ۔اسی طرح اگر نیٹو سپلائی اور ڈرون حملوں کے معائدوں کے خلاف کور کمانڈرز کی خاموشی عوام الناس کیلئے باعث تشویش ہے ۔آرمی چیف اور آئیر مارشل دونوں موجودہ صورت حال میں ایسا رستہ نکالیں جس سے پاکستان کے قومی وقار پر لگا یہ دھبہ صاف ہو ۔پاکستان آرمی کو اب کے مارکے دیکھ والی سوچ اپنانے کی بجائے مارنے کی سوچ رکھنے والوں تک رسائی ہونا چاہیے ۔اس تاثرکو دور کرنے کی ضرورت ہے ۔سیاسی سوچ اورعسکری سوچ میں فرق ہونا چاہیے ۔مصحف علی میر نے اگر شہادت پائی تو کیا ان کے بعد شہادت کا در بند ہو گیا ہے یا پاکستان آرمی بانجھ ہوگئی ہے یا بزدل ہوگئی ہے جس کو موت سے ڈر ، زندگی سے پیار اور شہادت کی آرزو نہیں رہی ۔محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو جس بات کی سزا دی گئی وہ یہی تو ہے کہ وہ دفاع پاکستان کیلئے لیزر گائیڈ ٹیکنالوجی کے حوالے سے کسی بھی کمپرومائز کیلئے تیار نہیں ہوئے اور نہ ہی امریکہ کو اس تک رسائی دی۔باخبر ذرائع جانتے ہیں کہ پاکستان دفاعی اعتبار سے اس قابل ہے کہ وہ دنیا کی کسی بھی عسکری طاقت کے خلاف بھرپور مزاحمت کر
سکتاہے ۔ہمیں ڈالر نہیں چاہیں ہمیں عزت چاہیے ۔یہ عام پاکستانی کے دل کی آواز ہے ۔اگر سیاستدان پاکستان کے وقار پر آئی ہو ئی اس انچ کو دور کرنے کے ہمت نہیں رکھتے تو پاکستان کے دفاع پر معمور اور اس کے ذمہ داران اس ذمہ داری کو نبھا کر پاکستان اور پاکستانیوں کا قرض ادا کریں ۔پاکستانی عوام ہر گھڑی اپنے محافظان وطن کی پیٹھ پر سیسہ پلائی دیوار کی طرح موجود ہیں ۔ہم ہر قربانی دینے کیلئے تیار ہیں ۔کوئی تو ہو جو اگے بڑھ کر ہمارے منہ پر تھپڑ مارنے والوں کو جواب دے ۔ کون ہے وہ ۔کون ہے وہ ۔