دو دہائیوں سے دنیا جس تیزی سے کروٹیں بدل رہی ہے اس کا اندازہ اب ہر کس و ناکس کو ہے۔ بات روس کی تنزلی سےت شروع کریں یا عراق افغانستان جنگ سے ، تمام حالات نے دنیا کو کئی طرح کی کرائسس سے دوچار کیا ہے۔ابھی تک عالم انسانیت نے چین کی سانس بھی نہیں لی ہے اور نہ ہی ان کے اثرات سے باہر نکل سکی ہے لیکن پھر سے ایک ایسے کرب سے دوچار ہے کہ دنیا کی اقتصادی طاقتوں کے ساتھ ساتھ عوام اپنی محدود زندگی میں بھی ان کے اثرات سے پریشان ہیں ۔اسی لیے دنیا کے کئی ممالک نے اپنے اپنے طور پر نئے منصوبے بنائے ہیں ۔ حالانکہ اس اعتبار سے یوروپی ممالک کی تنظیم امریکہ کے بعد سب سے زیادہ اہم رہی ہے لیکن اس کے علاوہ سارک ممالک کی تنظیم ، ناوابستہ تحریک ، ایشیائی تنظیمیں اور برکس ممالک کا اتحاد در اصل تیزی سے بدلتے حالات کا غماز ہے ۔ گذشتہ دو دہائیوں میں دیکھیں کہ دنیا نے کتنی تباہیوں کو دیکھا ہے ۔ عراق جنگ کے نتیجے میں نہ صرف خلیجی ممالک کے اقتصاد کو نقصان پہنچایا بلکہ اس نے پوری دنیا کے اقتصاد کو زبردست اتھل پتھل کا شکار کیا ہے اور حد تو یہ ہے کہ امریکہ نے بھی نہیں سوچا تھا کہ اس جنگ کے نتیجے میں اسے اس بری طرح سے اقتصادی بحران کا شکار ہونا پڑے گا۔لیکن جنگ کی جنونی کیفیت نے اس کے باوجود بھی ان کو اپنی حرکتوں پر نادم ہونے یا دوبارہ غور کرنے کی بجائے افغانستان کو محاذ بھی کھول دیا ۔ نتیجہ یہ ہو اکہ اقتصاد تو اپنی جگہ پر ہے لاکھوں انسانوں کی زندگیإ ں تباہ برباد ہوگئیں ۔ قدرتی وسائل کو بھی بہت نقصانات ہوئے ۔ اور آج بھی اس جنگ کے بعد جو بظاہر یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ تو دنیا میں امن کے لیے جنگ ہے ۔ اس جنگ نہ تو ان ممالک میں امن پید اکیا اور نہ ہے اس کے قرب و جوار میں امن قائم ہو سکا ۔آج بھی آئے دن عراق میں خود کش حملے ہورہے ہیں ۔ کہنے کو وہاں آمریت سے لوگوں کو نجات دی گئی لیکن نئی قائم کی ہوئی جمہوریت بھی تو لوگوں کو امن دینے میں ناکام ہے ۔ کون سا ایسا دن ہے جہاں لوگ مارے نہیں جاتے ۔ہر طرف بد امنی اورخوف و ہراس کا ماحول ہے ۔ عراق افغانستان نے کے بعد لیبیا ، شام ، تیونس ، مصر اور کئی عرب ممالک اندرونی اور بیرونی انتشارات سے دو چار ہیں ۔ ایسے میں ایران کے خلاف جنگ کا ایک اور محاذ کھولنا یقینا ایک نئی عالمی تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔
ان حالات میں ہونا تو یہ بھی چاہیے تھا کہ جنوب ایشیائی یا سارک ممالک کا ایک ایسا محاذ بنتا جو یوروپی یونین کی سطح کا ہوتا تا کہ طاقت کا توازن بر قرار رہتا ۔ حالانکہ اس حوالےسے بھی جو کوششیں ہو رہی ہیں وہ قابل ستائش ہیں لیکن اس کی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ سارک یا جنوبی ایشیائی ممالک میں آپس کے کچھ ایسے اختلافات ہیں جن کو دور کئے بغیر کسی بھی طرح ان تنظیموں کو با اثر نہیں بنایا جا سکتا ۔ خا ص طور پر ہندستان او ر پاکستان کا معاملہ ۔ پاکستان کو بھی اس حوالے سے کچھ تحمل اور دوراندیشی سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسی طرح ہندستان اور چین کے درمیان چھوٹے چھوٹے سرحدی تنازعات کو بھی حل کر لینے کی ضرورت ہے ۔ایک امریکی صحافی نے اس حوالے سے کہا ہے کہ ’’برکس ممالک کی تنظیم کو مغربی دنیا کی قیادت والے بین الاقوامی اقتصادی اور سیاسی نظام کے ممکنہ متبادل کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن مبصرین کہتے ہیں کہ ان کے اندر بنیادی سطح پر (نظریاتی) ہم آہنگی کی کمی ہے جو انہیں ایک مضبوط طاقت بننے سے روک رہی ہے۔”لیکن شکر ہے کہ ان چند اختلافات کے باوجود یہ طاقتیں قریب آرہی ہیں ۔ اگر مضبوطی سے یہ طاقتیں قریب آجاتی ہیں تو یقینا موجودہ دنیا کی طاقتوں کے مابین ایک اہم توازن قائم ہو سکتا ہے ۔ اس توازن سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ دہشت گردی کو بھی خطے سے ختم کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے اور اقتصادی بحران سے بھی نجات مل سکتی ہے۔
اسی حوالے سے نئی دہلی میں دنیا کی پانچ ابھرتی ہوئی طاقتوں کی تنظیم ’برکس‘ کا چھوتھا سرابرہی اجلاس نئی دہلی میں منعقد ہوا یہ در اصل دنیا کی پانچ ابھرتی ہوئی طاقتوں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ دلی میں چوتھے سربراہی اجلاس میں کئی اہم ایشو زپر بات چیت کی گئی اور اس کے اختتام پر اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کہ شام اور ایران میں جاری تنازعات کو صرف مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ ان دونوں تنازعات کا پائیدار حل صرف بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اگر ایران کے جوہری پرگرام پر جاری تعطل لڑائی کی شکل اختیار کرتا ہے تو اس کے ’تباہ کن مضمرات‘ ہوں گے اور یہ کہ شام میں جاری خونریزی کو صرف ’پر امن طریقوں‘ سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔بی بی سی کے مطابق ‘‘برکس ممالک دنیا کی تقریباً چالیس فیصد آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ لیکن مبصرین کے مطابق اگرچہ اس تنظیم میں بڑی اقتصادی طاقتیں شامل ہیں لیکن رکن ممالک کے متضاد سیاسی نظریات کی وجہ سے عالمی سطح پر ان کی بات کو وہ وزن حاصل نہیں ہے جو ہونا چاہیے۔‘‘ رپورٹس کے مطابق نئی دہلی میں منعقدہ کانفرنس میں پانچوں رہنماؤں نے ایک مشترکہ ترقیاتی بینک تشکیل دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا جس کا بظاہر مقصد یہ ہے کہ مغربی ممالک کی قیادت والے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے لیے ایک متوازی نظام قائم کیا جاسکے۔یہ بینک ترقی پذیر ممالک میں بنیادی ڈھانچے کے پراجیکٹوں کے لیے فنڈز فراہم کرے گا لیکن یہ تجویز ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ مسٹر جیکب زوما نے کہا کہ اس بنک کی تشکیل سے افریقہ میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔اجلاس میں برازیل کی صدر ڈیلما روسائیف، روس کے صدر ڈمٹری میدویدیف، جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما اور چین کے صدر ہو جنتاؤ نے شرکت کی۔ہندستانی وزیر اعظم نے ایسے سیاسی تنازعات سے بچنے کی بھی ضرورت پر زور دیا جن سے تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے تعاون میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔دنیاکی عظیم عالمی تنظیمیں اس برکس تنظیم کو کئی اعتبار سے دیکھ رہی ہیں ۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اس سے عالمی طاقتیں کسی بھی طرح خوش نہیں ہوں گی۔لیکن یہ وقت کا بڑا تقاضہ ہے اس طرح کی تنظیمیں ہی در اصل بے لگام عالمی طاقت کو لگام دے سکتی ہیں ۔
برکس کے سربراہی اجلاس کےختم ہوتےہی امریکی صدر براک اوباما نے ایران سے تیل خریدنے والے ممالک کے خلاف تازہ پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے کو منظور کر دیا ہے۔اس خبر سے عالمی سطح پر ایک نئی تشویش میں اضافہ ہوگیا ہے کیونکہ اس سے علامی سطح پر تیل کی قیمتوں میںزبردست اضافے کے امکانات پید ہوگئے ہیں اور دوسری جانب ایران پر پابندیاں کہیں کچھ انچاہے مسائل نہ پیدا کردیں ۔ حالانکہ صدر اوباما نے یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ تیل کی عالمی منڈی میں اتنا تیل موجود ہے کہ امریکہ کے اتحادی ممالک بغیر کسی تشویش کے ایران سے تیل خریدنا بند کر سکتے ہیں۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق صدر اوباما کے اس فیصلے کے تحت ان غیر ملکی بینکوں پر پابندیاں عائد کی جائیں گی جو اب بھی ایران کے ساتھ تیل کی تجارت میں شریک ہیں۔اس قانون کے تحت ممالک کو ایران سے خریدے جانے والے تیل کو کم کرنے کے لیے رواں سال اٹھائیس جون تک کی مہلت دی گئی ہے جس کے بعد ان پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔عائد کی گئی ان تازہ پابندیوں سے ایران سے زیادہ تیل درآمد کرنے والے ممالک جنوبی کوریا، بھارت، چین، ترکی اور جنوبی افریقہ پر دباؤ ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ برکس ممالک اس امریکی پابندی کے مد نظر کیا اقدامات کریں گے اور ایران سے تعلقات کو کس طرح آگے بڑھائیں گے۔ امریکہ کے اس فیصلےسے یقینا دنیا کو ایک اور نئے مسئلےسے دوچار ہونا پڑے گا۔
*****