سپریم کورٹ کے فیصلے سے عوام کو کم از کم قانونی اور آئینی طور پر تو کچھ سائبان میسر ہوا کہ اب کوئی امپورٹڈ درآمدشدہ براہ راست صدراتی و وزارتی محل میں پیراشوٹ کے زریعے نہیں اتر سکے گا ۔اس سے غیر ملکی آقاؤں کو یقینا تکلیف ہوئی ہے اور اس ہی وجہ سے ان کے کارندے اور اہل کار اور تنخواہ دار چیں بہ چیں ہو رہے ہیں ۔ تحفظِ ناموس رسالت کے متعلق وزیراعظم صاحب کے بیان اوران کی کابینہ کے کچھ ممبران کے بیانات میں تضاد کی وجہ سے بھی یکجہتی کا عنصر کمزور ہو ا ۔ یہ وہی عناصر ہیں جن کی ڈوریں اور دوڑیں اپنے آقاؤں کے احکامات کی پیروی کیلئے ہم تن گوش و سعی گذار ہیں ۔ ان کیلئے ناموس رسالت اذان بج رہا ہے اور اسلامی شرعی قوانین وحشیانہ ہیں جیسے خیالات و افکار کے بعد ناموس رسالت کا مسلہ ان کیلئے ضمنی حیثیت کے حامل ہے۔ سپریم کورٹ کے دوہری شہریت کے حاملین کو نااہل قرار دینے سے کوئی نیا کام تو نہیں ہوا کیونکہ آئین کے تحت اسمبلی کا ممبر وہی وہ سکتا ہے جو پاکستان کی شہریت کا حامل ہو ۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ دوہری شہریت کے حاملین کی ہمدردی تقسیم ہو جاتی ہے ۔ اس سے ان کے مفادات بھی تقسیم ہو جاتے ہیں ۔ اس سے ان کی شخصیت بھی تقسیم ہو جاتی ہے ۔ اس تقسیم در تقسیم کے عمل میںجو چیز سب سے اہم ہوتی ہے وہ ان کے مفادات ہیں ۔ انسان اپنے مفاد ہی کیلئے بکتا بھی ہے اور جھکتا بھی ہے ۔ بہت کم ایسے افراد ہوتے ہیں جو مشنری جذبے کے حامل ہوتے ہیں ۔ ان کو ان کے مشن سے کوئی مفاد اور کوئی دھونس یا دھمکی دور نہیں کر سکتی ۔ وہ مشن کیلئے جیتے اور اس ہی کیلئے مرتے بھی ہیں ۔ دوہری شہریت کے حاملین کیلئے سب سے اہم چیز ترقی یافتہ معاشرے سے وابستہ مفادات اور ان کی پر آسائش سہولیات ہوتی ہیں ۔ انہیں جو مفادات اور ان کی جن خواہشات کی تکمیل ان معاشروں سے وابستہ ہوتی ہے وہ ایک ترقی پذیر معاشرے سے ہرگز نہیں ہو سکتی ۔ البتہ ان کی ایک اہم ترین خواہش جو ترقی پذیر معاشرے سے وابستہ ہے وہ ان کی اجارہ داری ہے ۔ ترقی یافتہ معاشروں میں ان کی اس اجارہ داری کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا ۔ جبکہ ترقی پذیر معاشروں میں ان کی یہ اجارہ داری ناقابل چیلنج ہوتی ہے ۔جو کوئی ان کی اجارہ داری کو چیلنج کرتا ہے وہ ان کی اجارہ داری کے گرد تنے ہوئے حفاظتی جال سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتا ہے ۔ ترقی پذیر معاشروں میں سب سے اہم ترین چیز سرمایہ ہے ۔ یہ سرمایہ دولت و جاگیر ، اختیار اور اقتدار کی صورت میں انہی عناصر کی اجارہ داری میں ہے۔اس سے یہ معاشرے کے دیگر عناصر کو کنڑول کرتے اوراسے اپنی خواہشات اور اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔ جہاں بھی ان عناصر کے مفادات کو زک پہنچنے یا ان کی راہ میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یہ اپنی دولت اور اختیار اور اقتدار کے زور پر اس کو دور کرتے ہیں ۔ اس کی زندہ مثالیں جمہوریت کے نام پر حصو ل اقتدار کے بعد ان کے اقتدار کی اصل بنیاد کو نظر انداز کرنے والے عوامل سے کیا جا سکتا ہے ۔ حکمران طبقہ اپنے لیے تو قانون سازی کرتا ہے لیکن عوام کیلئے صرف نعروں کو ہی عوامی مقدر قرار دے دیا جاتا ہے ۔سیاست جو کبھی مشنری جذبے کے ساتھ کی جاتی تھی اور اب اس سے زیادہ اس کی متقاضی ہے کو سرکاری نوکری کے مترادف بنا دیا گیا ہے ۔اب سیاستدان مراعات و اختیارات کی ڈور اپنے ہاتھ لینے کیلئے سیاست میں سرگرم عمل ہیں ۔ انہیں اب سیاسی عمل میں عوامی مفادات سے زیادہ اس کی خواہش ہے کہ وہ دور اقتدار و اختیار میں اپنے اور اپنی نسلو ں کیلئے کچھ ایسا بنا لیں کہ انہیں آنے والے وقت میں کسی چیز کی کمی نہ رہے ۔ یہ چیزبالکل اب سامنے ہے کہ سیاسی خاندان اب سماجی اور معاشی طور پر اتنے مستحکم ہو گئے ہیں کہ ان کو نسل در نسل کسی بھی سہارے کی ضرورت نہیں ۔اگر ان کی یہی سوچ مثبت ہوتی اور وہ اپنے معاشرے کیلئے سرتوڑ یہی جدوجہد کرتے تو یقینا معاشرہ بھی اسی استحکام کا عکاس ہوتا ۔اس سے نہ صرف ان کو فائدہ ہوتا بلکہ معاشرہ بھی اپنے پاؤں پر کھڑ ا ہو چکا ہوتا ہے ۔آئین اور قانون میں اپنے تحفظ کیلئے ضروری ترمیمات کرنے سے سیاسی اکابرین کو فرصت نہیں کہ وہ عوامی تحفظ کیلئے کوئی عملی اقدام کریں ۔ ان کے عوامی مفاد کے منصوبوں کے پیچھے بھی ان کے اپنے یا اپنوں کی کمپنیوں اور کارپوریشنوں یا پھر ان کے پرموٹرز کے مفادات پنہاں ہوتے ہیں ۔ کوئی بھی عوامی مفاد کو منصوبہ عوامی مفادکو مدنظر رکھ کر نہیںبلکہ اس میں اپنے یا اپنوں کے مفادات کو مدنظر رکھ کر اس کی منظوری دی جاتی ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ ابھی تک عوام حقیقی ثمرات سے محروم اور منظوری دینے والے اس کے انعام سے مسرور نظرآتے ہیں ۔ اس سارے کھیل میں جو کہ عوام کے نا م پر کھیلا جاتا ہے میں عوام کو صرف قربانی دینا مقدر کیا گیا ہے ۔اس قربانی کے بعد بھی انہیں وہ مرتبہ یا مقام نہیں مل پاتا جو قربانی مانگنے والے کو حاصل ہوتا ہے ۔لیڈر کو کانٹا چبھ جائے تو وہ بہت بڑی قربانی ہے جبکہ کارکن کا گلابھی کٹ جائے تو یہ اس کا فرض اور قرض ہی شمار ہوتا ہے ۔کارکن زندہ رہ کر بھی مرا ہوا ہے جبکہ لیڈر مر کر بھی زندہ ہیں ۔ لیڈر اپنے مفادات اور خواہشات کی جنگ لڑتے شہید جبکہ کارکن معاشرے اور حقوق کے حصول کی جنگ میں مردہ شمار ہوتے ہیں ۔ان تمام یا ان میں سے بیشتر عوامل کی وجہ ،جڑ ،بنیاد یا پھر رشتہ اسی دوہری شہریت سے جڑا ہے ۔چونکہ ان عوامل کے ساتھ سیاسی اکابرین اور ان سے منسلک اور ان کے احباب واقرباکا رشتہ اس سے کسی نہ کسی طرح جڑا ہوا ہے ۔ یہ براہ راست بھی ہے اور بلواسطہ بھی ہے ۔ یہ شہریت کی صورت میں
بھی ہے اور وفاداری کی صورت میں بھی ہے ۔اس سے کاروباری ،معاشی مفادات بھی وابستہ ہیں اور اس سے عناد بھی وابستہ ہے ۔عناد ملک و ملت سے بھی ہو سکتا ہے اس میں گروہی لسانی اور عصبی نسبی و حسبی عناد کا عمل دخل بھی ہے ۔غیرملکی اداروں سے تعلیم یافتہ لیڈر شپ کو اپنے معاشرے سے گھن آتی ہے ۔ وہ انہیں ڈنگر جان کر صرف ہانکنے پر اکتفا کرتے ہیں وہ انہیں لیڈ کرنے اور ان کی راہنمائی کرنے کی بجائے صرف اپنی مرضی ومفاد کے چلاتے ہیں ۔ انہیں اس طرح ہی تربیت دی جاتی ہے جیسے کسی کالونیل معاشرے میں درآمد شدہ گورنر کو دی جاتی تھی۔ یہ درآمد شدہ گورنر اپنے آقاؤں کے احکامات کی تکمیل کے بعد خاموشی سے یا تو واپس چلے جاتے ہیں یا پھر ہٹا دئیے جاتے ہیں ۔ ان کا زیادہ تر دھن و دولت اور ان کے احباب و اقربا بھی ملک سے باہر ہوتے ہیں ۔ایسے میں ان کو اس معاشرے سے ویسی ہمدردی نہیں ہوتی جو اس معاشرے سے وابستہ مفادات رکھنے والے کو ہو سکتی ہے ۔یقینا راہنما ہی معاشرے کی راہیں متعین کرتے ہیں۔ اگر ان کی اپنی راہ کچھ اور ہے اور وہ معاشرے کو کسی اور نہج پر لے جانے کے متمنی ہیں تو پھر گمراہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکتا ۔ یہ بات خلاصہ کلام بھی کہی جا سکتی ہے کہ جنہیں اپنے ملک کی وفاؤں سے پیار یا محبت ہوتی ہے وہ کوئی دوسرا آشیانہ تلاش نہیں کیا کرتے ۔ جنہیں اپنے زور بازو پر بھروسہ ہو وہ دوسرے کی لاٹھی کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا کرتے ۔ حقیقت میں یہ صرف سیاستدانوں تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے بیوروکریسی اور ملک کے اعلی دیگر اداروں بالخصوص ایسے ادارے جو ملکی دفاع سے متعلق ہیں کے متعلق یہ انتہائی اہم اور ضروری ہے ۔
(اخباری قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اخبار میں شائع ہونے والے اللہ پاک اور سرکارﷺ کے نام نامی کی حرمت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے کوڑے کرکٹ اور فروخت کرنے سے پہلے کانٹ چھانٹ لیا کریں تاکہ ان مقدس ناموں کی بے حرمتی نہ ہو )