Home / Book Review / (دہلی میں عصری اردو صحافت (تصویر کا دوسرارخ

(دہلی میں عصری اردو صحافت (تصویر کا دوسرارخ

(نام کتاب :دہلی میں عصری اردو صحافت (تصویر کا دوسرارخ

مصنف : شاہدالاسلام

طباعت :۲۰۱۶ء

قیمت :۳۵۰؍روپے

ضخامت :۳۱۶؍صفحات

ناشر : ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس ، دہلی ۶؎

مبصر : نوشاد منور عالیؔ

ریسرچ اسکالر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی ۱۱۰۰۶۷

        جمہوری طرز حکومت کا ڈھانچہ ان چار ستون یا ادارے یعنی مقننہ ، عاملہ ، عدلیہ اور صحافت کو قرار دیا جاتا ہے ۔ اور ہر ایک کا دائرہ کارمتعین ومختص ہے ، اسی دائرہ کار میں رہ کر وہ اپنے کا م کو بحسن وخوبی انجام دیتے ہیں ،اس کے تئیں جواب دہ بھی ہیں ۔ کسی بھی جمہوری ملک کی سالمیت کا انحصار انہیں چارستونوں یا اداروں پر ہوتا ہے ۔ ان میں قدر مشترک جو بات پائی جاتی ہے وہ ان کا حساس اور غیر جانب دار ہونا ہے ۔ یہی وہ عناصر ہیں جن میں اعتدال وتوازن برقرار رکھنا ازحد ضروری ہے ۔ ان کا غیر متوازن ہونے کا مطلب ہے کہ ملک کی سالمیت اور اس کے اتحاد واتفاق کو خطرہ ہے ۔

        بقیہ ادارہ یا ستون کے بالمقابل صحافتی ادارے کوکچھ زیادہ ہی حساس اور غیر جانب داری کامظاہرہ کرنا ہوتا ہے ،اور ان پر کچھ اضافی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے، وہ اس لیے کہ بقیہ اداروں کی کارکردگی پر اس کی گہری نظر ہوتی ہے ۔ساتھ ہی ان کی کارکردگی کے مثبت ومنفی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ مقننہ ، عاملہ اورعدلیہ جو عملی اقدام کر رہے ہیں وہ ملک کے تحفظ ، اتحاد واتفاق کے لیے کتنے سود مند اور نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں ۔

        اگر اس تناظر میں عصر حاضر کی پرنٹ میڈیا ،یا الیکٹرانک میڈیا کا مطالعہ کرتے ہیں تو صورت حال مایوس کن نظرآتی ہے ۔اس لیے کہ ان اداروں کو اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں رہا بلکہ ان کو اپنی ٹی آرپی میں اضافے کی فکر ہوتی ہے وہ اس کے لیے ملک کیا اپنے ضمیر تک کا سودہ کرنے پر آمادہ ہیں ۔ لیکن عصر حاضر میں زمینی حقائق کی روشنی میں پرنٹ میڈیا خاص کر اردوپرنٹ میڈیا کی بات کی جائے تو حالات اس سے بھی کہیں زیادہ خراب اور مایوس کن ہیں ۔ اس بات کا احساس اس باشعور شخص کو ہوگا جو عصر حاضر کی صحافت بالخصوص اردو صحافت پر گہری نظر رکھتا ہو،اور ساتھ ہی اس میدان کا پکا کھیلاڑی بھی ہو تاکہ وہ اپنے عمیق مطالعے اورتجربات ومشاہدات کی روشنی  پوری دیانت داری ،سچائی اور ذمہ داری کے ساتھ اس میں بے باکی اور سچائی سے اپنی بات کہنے کا عزم وحوصلہ بھی ہو ، مگر اس کام کے لیے بہت ہی جگرکاوی کی ضروت ہوتی ہے اور یہ جوکھم بھرا کام کوئی اٹھانا نہیں چاہتا اس لیے کہ کم وقت میں زیادہ اور اہم کارنامہ انجام دینا چاہتا ہے ۔کیونکہ در پردہ اس کے پیچھے بڑے اور اعلی عہدوں پر اس کی نظر ہوتی ہے وہ اس کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا ۔ یہی وجہ ہے کہ سچائی اور حقائق سے باخبر ہونے کے باوجود اس سے چشم پوشی کرتا ہے ۔ بظاہر دل کش وحسین نظر آنے والی ہر چیز سچ نہیں ہوتیـ۔ زیادہ دن تک اس کا اصلی چہرہ لوگوں سے اوجھل نہیں رہتا اورسچ ایک دن ضرور سامنے آتا ہے۔ اور اس سچ کو سامنے لانے والا ہمیں میں سے کوئی شخص ہوتا ہے جو اس کا م کو انجام دیتا ہے ۔ان ہی میں سے ایک اہم نام شاہدالاسلام کا بھی ہے ۔ جنہوں نے صحافت کو تحریک اور تجارت کے روپ میں دیکھاہی نہیں ہے بلکہ اس کے رموزواوقاف سے پوری طرح سے باخبر بھی ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عصری صحافت بالخصوص دہلی میں عصری اردو صحافت کی حقیقی صورت حال کیا ہے ؟اس سے لوگوں کو روسناش کرایا ہے ۔شاہدالاسلام نے عصری صحافت خاص کر اردو صحافت میں اکیسویں صدی کے اوائل میں قدم رنجہ فرمایا ہے ۔ مگر اپنی قابلیت و ذہانت سے بہت ہی قلیل عرصے میں صحافت کی بلندیوں کو چھولیا ہے ۔

        زیر تبصرہ کتاب ’’ دہلی میں عصری اردو صحافت ؍ تصویر کا دوسرا رخ ‘‘ شاہدالاسلام کی تحقیقی وتنقیدی اور تقابلی مطالعہ کا بہترین نمونہ ہے ۔ مصنف نے بہت عرق ریزی ،دیانت داری اور حقیقی صورت حال کی روشنی میں اپنے اس تحقیقی کام کو بحسن وخوبی پائے تکمیل کو پہنچایا ہے ۔ بظاہر ان کا یہ کام دہلی میں عصری اردو صحافت پر مبنی ہے مگر اس کتاب کے مطالعہ سے باور ہوتا ہے کہ شاہدالاسلام نے کم وبیش شمالی ہند کے عصری اردو صحافت پر بھی اپنی نظر مرکوز رکھی ہے ۔

        شاہدالاسلام کی کتاب کی اہمیت صرف اس لیے نہیں ہے کہ ایک صحافی کے رشحات قلم سے تحریر کی ہوئی ہے یا بطورصحافی ان پر قرض تھا جو اس کتاب کی شکل میں انہوں نے اس قرض کی ادائیگی کردی،جیسا کہ موجودہ عہد میں بعض صحافی حضرات کا طرۂ امتیاز بن گیا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے صریر خامہ کو زحمت دیتے ہیں وہ اس لیے کہ اس کے آگے جہاں اور بھی ہیں کے مترادف انہیں بے جا خوش آمد کرنی پڑتی ہے ۔ لیکن شاہدالاسلام ان سب سے بے نیاز نظر آتے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر قرطاس وقلم کو اپنی زندگی سے رشتہ استوار کیا ہے ۔ بلکہ انہوں نے اپنی زندگی اور پیشے کو ایک مشن کے طور پر وقت کے دھارے پر چھوڑدیاہے کہ دیکھیں یہ طوفان بلاخیزاس حقیر سی جان کو خس وخاشاک کی طرح ساحل کے کس کنارے پٹکتی ہے ۔ یہ سب اشارے ہمیں ان کی کتاب کی ورق گردانی کے بعد ملتے ہیں ۔ ان کی تحریروں میں بلا کی تیزی ، عجیب تیکھاپن اور تلخی وترشی دیکھنے کو ملتی ہے اور وہ ان کے وسعت علمی ، عمیق مطالعہ اور خیال میں گہرائی وگیرائی کی غماز ہیں ۔علاوہ ازیں ان کے جملے ایسے تیکھے ، انوکھے اور طنزسے بھرپور ہونے کے ساتھ ساتھ واقعات وحادثات کی تہہ تک پہنچنے میں ان کے دل ودماغ جتنی تیز رفتاری سے کام کرتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ان کی تحریر بلاغت وفصاحت سے مملو اور تاثیر کلام سے پر ہوتی ہے ا نہیں زبان وبیان پر بے پناہ قدرت حاصل ہے جس کی وجہ سے ان میں بلا کی روانی بھی پائی جاتی ہے ۔ ان سب کے باوجود ان کا قاری ان کی زبان دانی یا ان کی مسحور کن عبارت آرائی میں اپنے آپ کو تادیر مقید نہیں کرپاتا اس لیے کہ مصنف انہیں موقع ہی نہیں دیتا کہ وہ ان کی سحرزدہ زبان میں محصور ہوکر رہ جائے کیونکہ مصنف خود واقعات کی تہہ تک بہت ہی سرعت رفتاری سے پہنچ جاتا ہے اور اپنے قاری کو بھی اس میں شامل کرلیتا ہے ۔ساتھ ہی شواہد سے اس کو ثابت کرتا ہے اور اپنے صحافتی تجربات ومشاہدات کو بروئے کار لاکر ان پر بے لاگ تبصرہ کرنے سے گریزپا نظر نہیں آتا، ایک صحافی کے اندر جو خوبیاںہونی چاہیے وہ سب شاہدالاسلام میں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔

        زیرنظر کتاب چار ابواب اور تیئس (۲۳) ذیلی عناوین پر مشتمل ہے ۔ابواب اور ذیلی عنوانات کچھ اس انداز سے کتاب کے اوراق سادہ پر ٹانک دیے گئے ہیں کہ مصنف کی صلاحیت وقابلیت کا معترف ہونا پڑتا ہے ۔ پہلے باب کا عنوان ’صحافت کا آغاز و ارتقا ‘  اس کے تحت ذیلی عنونات ہیں ’ دہلی میں اردو صحافت کی ابتدا ‘ ’ دہلی میں روزنامہ اردوصحافت کا آغاز ‘ ’ بیسویں صدی کے اوائل میں دہلی کی اردو صحافت ‘ ’ آزادی کے بعد دہلی میں اردو صحافت ‘ مختلف الجہات تبدیلیوں کا دور ‘ ۔ دوسراباب ’ دہلی کی اردو صحافت کو درپیش چیلنجز ‘ سے معنون ہے ۔ اور اس کے ذیلی عناوین ہیں ’ بنیادی مسئلہ ‘ ’وجود کی برقراری ‘’ اخبارات کی سرپرستی کا مسئلہ ‘ ’ قارئین کی تشویشناک حد تک کمی ‘ ’ اردو اخبار کے محدود وسائل ‘ ’صحیفہ نگاری کا انداز وآہنگ ‘ ’ زرد صحافت اور اردو ‘ ’ مقامی خبروں کی کمی ‘ ’ خبر رساں ایجنسیوں کا مسئلہ ‘ کمرشیل اشتہارات کی فراہمی کا مسئلہ ‘ ’ سرکولیشن کا مسئلہ ‘ ’ سرکولیشن کے متعلق حیران کن حقیقت ‘ ۔ تیسرا با ب ’ اردو صحافت اور جدید تکنیکی وسائل ‘ پر مرکوز ہے ۔ اس کے ذیلی عنوان ہیں ’ ابلاغ وترسیل اور اس کی ارتقائی صورت گری ‘ جدید ذرائع ابلاغ اور اردو صحافت ‘ ’ عہد بہ عہد اردو صحافت کی ارتقا کی کہانی ، جدید تکنیک کی زبانی ‘ ۔ چوتھا باب بعنوان ’ ہم عصر صحافت اور اردو صحافت ۔ تقابلی مطالعہ ‘ پر مشتمل ہے ۔ اس کے ذیلی عناوین ’ اردو صحافت کی علاحدہ دنیا ‘ ’ صحافتی تقاضے ‘ ’ صحافت کا اسلوب وآہنگ ‘ ’ اردو صحافت اور احتجاج ‘ ’ صحافت اور اخلاقیات ‘ ہیں ۔ بعدہ خاتمہ اور کتابیات پر کتاب کی تکمیل ہوتی ہے ۔

        علاوہ ازیں اس کتاب کا مقدمہ شاہین نظر نے لکھا ہے اور حقانی القاسمی نے ’ بے چہرہ صحافت کا منظر نامہ ‘ کے عنوان سے کتاب اور شاہدالاسلام بے لاگ تبصرہ کیا ہے جس کو پڑھ لینے کے بعد پھر اسی کتاب پرکچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھا نے سے کم نہیں باوجود اس کے میں نے یہ ہمت اس لیے کی کہ شاہدالاسلام کی کتاب پڑھنے کے بعد مجھ پرجو تاثر قائم ہوا اس کو قلم بند کیے بغیر نہیں رہ سکا  ۔ اور خود مصنف نے بعنوان ’جواز ‘ دہلی میں عصری اردو صحافت پر جو سولات قائم کیے ہیں کتاب کے ابتدائی اوراق کے زینت ہیں جن کو پڑھ کر اس کتاب اور مصنف کی بے باکی حق گوئی اور ان کی علمیت کا معترف ہونا پڑتا ہے۔ اور ساتھ ہی ابواب کی درجہ بندی اور اس کے ذیلی عناوین پر ایک اچٹتی نظر ڈالنے سے مصنف کی بالغ نظری ، تحقیق وتنقید کی بالیدگی ، شعور ی پختگی ، زبان وبیان پر بے پناہ دسترس ، صحافتی رموز واوقاف کی فہم ، اور افکار ونظریات پر گہری نظر ، عصر حاضر فکروآگہی اور  بے باکی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔

        عام طور پر اردو صحافت کے حوالے سے صحافی یا قلم کار افراد اردو صحافت کے روشن مستقبل کی نوید اس لیے سناتے ہیں کہ ان کے پیش نظر روزنامہ اردو اخبارات کے سرکولیشن اور اشاعت کی تعداد میں جو بہت ہی قلیل مددت میں اضافے ہوئے ہیں ان پر ہوتی ہے ۔ جیسا کہ  شاہدالاسلام نے بھی اس کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

’’پہلا سچ۔ اس وقت دہلی سے اردو کے تقریباً۸۵ روزنامہ اخبارات شائع ہورہے ہیں۔

دوسرا سچ۔ اردو روزناموں کا مجموعی سرکولیشن ۱۵ لاکھ سے بھی زائد ہے ۔

تیسرا سچ ۔۸۵ اردو روزنامہ اخبارات کو حکومت اشتہار ات نواز رہی ہے ۔

بظاہر یہ صورت حال اس’’ حقیقت ‘‘کی ترجمان ہے کہ اردو صحافت کے ارتقا کا سفر مسدود نہیں ، مبارک ہے!!!‘‘ ص:۱۹

        اردو صحافت کے متعلق یہ تصویر کا پہلا رخ ہے جو اردو صحافت کے لیے بہت ہی نیک فال اور خوش کن بات ہے اور اس کے لیے وہ تمام افراد و ادارے اور حکومت مبارک باد و تحسین کے مستحق ہیں ۔ لیکن ان سب کے باوجود ہمیں تصویر کے دوسرے رخ پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہیے تا کہ حقیقی صورت حال سے آشنا ہوسکیں ۔شاہدالاسلام صاحب نے کتاب کے آغاز میں ’’ جواز ‘‘ کے عنوان سے اردو صحافت پرتصویر کے پہلے رخ پرجو چند سوالات قائم کیے ہیں ۔ اسی کا جواب ’’دہلی میں عصر ی اردو صحافت؍ تصویر کا دوسرارخ ‘‘ کی صورت میں پیش کیا ہے ۔ تصویر کے دوسرے رخ کو نشان زد کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے :

        ’’ تصویر کا یہ رخ دیکھ کر کوئی بھی احساس طمانیت میں مبتلا ہوسکتا ہے مگر تحقیق کی کسوٹی پر ’’سچائیوں ‘‘کو پرکھنے سے جو حقیقت سامنے آتی ہے ، وہ حکومت کے ذریعہ پیش کردہ ’’ حقیقت کے برعکس ہے ۔ ‘‘  ص:۱۹

        مصنف اسی حقیقت کے برعکس کی تلاش میں مہم جو نظر آتے ہیں ، یہی تصویر کا دوسرا رخ ہے جو اس وقیع اور تحقیقی مقالے میں قلم بند کیا گیا ہے۔

شاہدالاسلام نے اپنی کتاب میں اسی زمینی حقائق سے لوگوں کو روبرو کرایا ہے ۔ وہ تصویر کے پہلے رخ سے بہت مطمئن اور خوش نہیں ہیں اور لوگوں کو بھی کچھ دیر خوش فہمی میں مبتلا نہیں رکھنا چاہتے اس لیے کہ ان کا ضمیر یا اس پیشے کی حساسیت انہیں اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے حقیقی صورت حال کا شواہد وبراہین کی روشنی میں کھلا اعتراف کیا ہے کہ بظاہر یہ آنکڑے خوش کن معلوم ہوتے ہیں مگر زمینی سطح  پراس کی چگلی کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ اردوزبان اور اردو صحافت کے بہی خواہ اس کے ترقی اور روشن مستقبل کی نوید سنانے والے خود اس کی بنیاد کو کھوکھلی کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ دوسروں کی رہزنی سے زیادہ اپنوں کی رہزنی کا خوف ہے کیونکہ ان کے قول وفعل کچھ اور بتاتے ہیں اور حقائق کچھ اور مگر شاہدالاسلام نے ان دونوں کے مابین خط تنسیخ کھینچنے کی حتی المقدور سعی کی ہے ۔ ان کی کتاب کے اوراق میں جا بہ جا اس کے شواہد بکھرے پڑے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مصنف پریاسیت طاری ہے ۔ ان کے پیش نظرماضی میں اردو صحافت کی جوشان دار روایت رہی ہے ، گرچہ کچھ دیر کے لیے اس پر کٹھن اور مشکل ترین مراحل بھی آئے لیکن بہت جلد اس نے اپنے آپ کو وقت کے مطابق ڈھال کرہم عصر صحافت کے شان بہ شان کھڑی رہی ہے۔ اس کی زندہ مثال آزادی کے بعد اردو زبان اور صحافت کن دشوار کن مرحلے میں تھی مگر ’’ قومی آواز ‘‘ نے ہمت واستقلال عطاکیا کہ اردو زبان وصحافت کا کھویا ہوا وقار بحال ہوا ۔ شرط صرف اتنی سی ہے کہ سنبھل کر ہم دوبارہ چلنا سیکھ جائیںاور عصری صحافت سے اخذو استفادہ کرکے اردو صحافت کو بام عروج پہنچایا جاسکتا ہے ۔زبانی جمع خرچ اور کاغذی آکڑوں سے حتی الوسع اپنے کو محفوظ رکھیں ۔ کہیں سے مصنف یاسیت میں مبتلا نظر نہیں آتے بلکہ کتاب کے آخر میں لکھتے ہیں :

        ’’امید پر دنیا قائم ہے چنانچہ جب تک دہلی کی وادی میں اردو صحافت کے پھول کھلتے رہیں گے ، یہ امید باقی رہے گی کہ معیاری اردو صحافت کا فروغ اس خزاںرسیدہ چمن کو ایک نہ ایک دن گلشن بہار میں تبدیل کرے گا ۔ ‘‘ ص:۳۱۰

        خزاںرسیدہ چمن کو گلشن بہار میں تبدیلی کی دیرینہ خواہش نے مصنف کو تلخ وترش پیرائے اظہار پر آمادہ کیاہے ۔ ہر ذی علم باشعور ودانشور اپنے سماجی ، سیاسی ، تہذیبی اور موروثی اقدار ومعیار کے تحفظ کا پاسبان وامین ہوتا ہے ۔ اس کے تئیں فکر مند بھی رہتا ہے اور ان کو بہتر سے بہتر بنانے کی سعی پیہم بھی کرتا ہے ۔ شاہدالاسلام کی یہی ایک پریشانی ہے کہ وہ اردو زبان وصحافت کی خزاں رسیدگی کو کسی خوان یغماں پر رال ٹپکائے گلشن بہار میں بدل دینا چاہتے ہیں ۔

About admin

Check Also

دینی مدارس پر ایک معروضی نظر

                              …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *