ذکرِحضرت علی
انعام الحق ،پاکستان
حضرت علی مرتضیٰ نے ایامِ طفولیت ہی سے سرورِ کائنات ﷺ کے دامن عاطفت میں تربیت پائی تھی اس لئے وہ قدرتاً محاسن اخلاق اور حسن تربیت کے نمونہ تھے۔آپ کی زبان کبھی کلمہ شرک وکفر سے آلودہ نہ ہوئی اور نہ آپ کی پیشانی غیر کی پیشانی غیرخدا کے آگے جھکی۔جاہلیت کے ہر قسم کے گناہ سے مبرا اور پاک رہے۔شراب کے ذائقہ سے جو عرب کی گھٹی میں تھی اسلام سے پہلے بھی آپ کی زبان آشنانہ ہوئی اور اسلام کے بعد تو اس کا کوئی خیال ہی نہیں کیا جاسکتا۔حضرت علی ؓ گو دنیاوی دولت سے تہی دامن تھے لیکن دل غنی تھا۔کبھی کوئی سائل آپ کے د ر سے ناکام واپس نہیں ہوا۔حتی کہ قوت لایموت تک دے دیتے۔اےک دفعہ رات بھر باغ سینچ کر تھوڑے سے جَو مزدوری میں حاصل کئے صبح کے وقت گھر تشریف لائے تو اےک ثلث پسوا کر حریدہ پکوانے کا انتظام کیا۔ابھی پک کر تیار ہی ہوا تھا کہ اےک مسکین نے صدا دی حضرت علیؓ نے سب اٹھا کر اس کو دے دیا(بخاری)۔
مسلمانوں کومنافق مختلف بحانوں سے تنگ کر تے رہتے تھے۔منافقوں نے جب ےہ دیکھا کہ حضرت علی ؓ ان کی شرارتوں سے واقف ہوگئے ہیں اور انہوں نے مسلمان باغیوں سے بھی جو ان کی چال میں آگئے تھے صلح کر لی ہے تو وہ اس بات سے ڈر گئے کہ اب سارے مسلمان ہماری چال سمجھ جائیں گے۔بحث و مباحثہ کے بعد بالاتفاق ےہ رائے قرار پائی کہ جب تک تین آدمی علیؓ،معاویہؓ اور عمروؓ بن العاص صفحہءہستی پر موجود ہیں ہمیں کامیابی نہیں ہو سکتی چنانچہ تین آدمی ان تینوں کے قتل کرنے کےلئے تیار ہوگئے۔عبد الرحمن بن ملجم نے کہا میں علیؓ کا ذمہ لیتا ہوں۔اسی طرح نزول نے معاویہؓ اور عبداللہ نے عمروؓ بن العاص کے قتل کا بیڑہ اُٹھایا اور تینوں اپنی اپنی مہم پر روانہ ہوگئے۔کوفہ پہنچ کر ابن ملجم کے ارادہ کو قطام نامی اےک خارجی عورت نے اور مستحکم کردیا اور اس مہم کے کامیاب ہونے کے بعد اس سے شادی کا وعدہ کیا اور حضرت علیؓ کا خون اس کا مہر قرار دیا۔رمضان40ہجری میں تینوں نے اےک ہی روز صبح کے وقت تینوں بزرگوں پر حملہ کیا۔حضرت معاویہؓ اور عمر وؓ بن العاص اتفاقی طور پر بچ گئے۔حضرت ماویہؓ بن العاص اس دن امامت کے لئے نہیں آئے تھے اےک اور شخص ان کا قائم مقام ہوا تھا،وہ عمروؓ بن العاص کے دھوکہ میں مارا گیا۔حضرت علیؓ مسجد میں تشریف لائے اور ابن ملجم کو جو مسجد میں آکر سورہا تھا جگایا۔جب آپ نے نماز شروع کی،سجدہ میں گئے تو اسی حالت میں بد بخت ابن ملجم نے تلوار کا نہایت کاری وار کیا،سر پر زخم آیا اور ابن ملجم کو لوگوں نے گرفتار کر لیا۔(طبری صفحہ2457,2458)حضرت علی ؓ اتنے سخت زخمی ہوئے تھے کہ زندگی کی کوئی اُمید نہ تھی اس لئے حضرت امام حسن ؓ اور امام حسینؓ کو بلا کر نصائح کیں اور محمد بن حنیفہ کے ساتھ لطف و مدارت کی تاکید کی۔کسی نے عرض کی امیر المومنین!آپ کے بعد ہم لوگ امام حسن کے ہاتھ پر بیعت کریں۔فرمایا:اس کے متعلق میں کُچھ نہیں کہنا چاہتا۔تم لوگ خود اس کے طے کرو۔اس کے بعد مختلف وصیتیں کیں۔قاتل کے متعلق فرمایا کہ معمولی طور پرقصاص لینا۔(طبری صفحہ2461)تلوار زہر میں بجھی ہوئی تھی اس لئے نہایت تیزی کے ساتھ اس کا اثر تمام جسم میں سرایت کر گیا اور اس روز یعنی20رمضان 40ہجری کی رات کو ےہ فضل و کمال اور رشدوہدایت اور خلافت راشدہ کا ستارہ غروب ہوگیا۔حضرت امام حسنؓ نے خو د اپنے ہاتھ سے تجہیزو تکفین کی۔نمازجناہ میں چار تکبیروں کی بجائے پانچ تکبیریں کہیں اور کوفہ کے قریب اےک قبرستان میں سپرد خاک کیا۔حضرت علی ؓ کی شہادت کے بعد مسلمانوں پر جو گزری تاریخ اُس کی گواہ ہے۔